نااہلی مدت کیس سپریم کورٹ کی جانب سے عوامی نوٹس جاری
عدالتی فیصلے سے متاثر کوئی بھی شخص سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے، سپریم کورٹ
MINGORA:
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 کی شق ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران عوامی نوٹس جاری کردیا ہے۔
سپریم کورٹ میں نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف عدالت میں پیش نہیں ہوئے جب کہ پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین پیش ہوگئے۔
14 ارکان اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کیلئے درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں اور عدالت نے تمام درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے۔ بینچ كے ممبران میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ کسی کو موقف پیش کرنے کا موقع نہ ملے، دو نام ذہن میں آئے ایک نواز شریف دوسرا جہانگیر ترین، ہم نے ان کو بھی نوٹس جاری کئے جو فریق نہیں تھے، جہانگیر ترین عدالت میں موجود ہیں، جو لوگ اس آرٹیکل کے متاثر ہیں وہ عدالت سے رجوع کریں۔
درخواست گزار سمیع بلوچ کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یہ آپشن بھی ہو سکتا ہے کہ عدالت عوامی نوٹس جاری کرے، دوسرا آپشن ہے کہ اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جائے۔ چیف جسٹس نے وکیل منیر ملک سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون بن سکتے ہیں، آپ ان مقدمات میں ملوث تو نہیں؟ وکیل منیر ملک نے جواب دیا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔
عدالت نے منیر ملک اور علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے آرٹیکل 62 کے دیگر متاثرین کو بھی نوٹس جاری کردیا۔ میاں نوازشریف کی طرف سے کوئی بھی پیش نہ ہوا جس پر چیف جسٹس نے میاں نواز شریف کو دوبارہ نوٹس جاری کر دیا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ نااہل ہونے والوں کی دو کیٹیگریز ہیں، ایک کیٹیگری کسی قانون سے نااہل ہونے کی ہے اور دوسری آئین کے تحت نااہل ہونے کی ہے، نااہلی تاحیات نہ ہو تو الیکشن لڑنا اس کا حق ہے، اگر نااہلی تاحیات ہوگی تو سیاسی مستقبل ختم ہوجائے گا۔ عدالت کے سامنے سوال نااہلی کی مدت کا ہے، نواز شریف اور جہانگیر ترین کو نوٹس جاری کیا تاکہ بعد ازاں کوئی شکایت نہ کرے، کوئی آئے نہ آئے ان کی مرضی، ہم لوگوں کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں، نواز شریف یا متاثرین سے کوئی نہ آیا تو یکطرفہ فیصلہ دیں گے، متاثرین آئیں گے توفریق بنالیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عوامی نوٹس جاری کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کا پانچ رکنی لارجر بینچ آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق سماعت کر رہا ہے، عدالتی فیصلے سے متاثر کوئی بھی شخص سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے، متاثرہ شخص کی جانب سے عدالت سے رجوع نہ کرنے پر یکطرفہ فیصلہ دیا جائے گا، چاہتے ہیں متاثرین عدالت میں آکر فریق بنیں۔
خیال رہے كہ آئین كے مذكورہ آرٹیكل كے تحت سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین كو بھی نااہل كیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین نے كہا ہے كہ اگر عدالت نے درخواستوں پر نااہلی كی مدت کا تعین كردیا تو امكان ہے كہ ان دونوں رہنماؤں كو بھی ریلیف مل سكتا ہے۔
یاد رہے کہ 14 ارکان اسمبلی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے، درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 کی شق ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران عوامی نوٹس جاری کردیا ہے۔
سپریم کورٹ میں نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف عدالت میں پیش نہیں ہوئے جب کہ پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین پیش ہوگئے۔
14 ارکان اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کیلئے درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں اور عدالت نے تمام درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے۔ بینچ كے ممبران میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ کسی کو موقف پیش کرنے کا موقع نہ ملے، دو نام ذہن میں آئے ایک نواز شریف دوسرا جہانگیر ترین، ہم نے ان کو بھی نوٹس جاری کئے جو فریق نہیں تھے، جہانگیر ترین عدالت میں موجود ہیں، جو لوگ اس آرٹیکل کے متاثر ہیں وہ عدالت سے رجوع کریں۔
درخواست گزار سمیع بلوچ کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یہ آپشن بھی ہو سکتا ہے کہ عدالت عوامی نوٹس جاری کرے، دوسرا آپشن ہے کہ اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جائے۔ چیف جسٹس نے وکیل منیر ملک سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون بن سکتے ہیں، آپ ان مقدمات میں ملوث تو نہیں؟ وکیل منیر ملک نے جواب دیا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔
عدالت نے منیر ملک اور علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے آرٹیکل 62 کے دیگر متاثرین کو بھی نوٹس جاری کردیا۔ میاں نوازشریف کی طرف سے کوئی بھی پیش نہ ہوا جس پر چیف جسٹس نے میاں نواز شریف کو دوبارہ نوٹس جاری کر دیا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ نااہل ہونے والوں کی دو کیٹیگریز ہیں، ایک کیٹیگری کسی قانون سے نااہل ہونے کی ہے اور دوسری آئین کے تحت نااہل ہونے کی ہے، نااہلی تاحیات نہ ہو تو الیکشن لڑنا اس کا حق ہے، اگر نااہلی تاحیات ہوگی تو سیاسی مستقبل ختم ہوجائے گا۔ عدالت کے سامنے سوال نااہلی کی مدت کا ہے، نواز شریف اور جہانگیر ترین کو نوٹس جاری کیا تاکہ بعد ازاں کوئی شکایت نہ کرے، کوئی آئے نہ آئے ان کی مرضی، ہم لوگوں کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں، نواز شریف یا متاثرین سے کوئی نہ آیا تو یکطرفہ فیصلہ دیں گے، متاثرین آئیں گے توفریق بنالیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عوامی نوٹس جاری کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کا پانچ رکنی لارجر بینچ آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق سماعت کر رہا ہے، عدالتی فیصلے سے متاثر کوئی بھی شخص سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے، متاثرہ شخص کی جانب سے عدالت سے رجوع نہ کرنے پر یکطرفہ فیصلہ دیا جائے گا، چاہتے ہیں متاثرین عدالت میں آکر فریق بنیں۔
خیال رہے كہ آئین كے مذكورہ آرٹیكل كے تحت سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین كو بھی نااہل كیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین نے كہا ہے كہ اگر عدالت نے درخواستوں پر نااہلی كی مدت کا تعین كردیا تو امكان ہے كہ ان دونوں رہنماؤں كو بھی ریلیف مل سكتا ہے۔
یاد رہے کہ 14 ارکان اسمبلی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے، درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔