نکاح میں اولاد کی رضا مندی

اکثر لڑکی کے والدین یہ سوچ کر یا یہ کہہ کر شادی کے سلسلے میں لڑکی کی رضامندی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔

shabbirarman@yahoo.com

ہمارے معاشرے میں جب اولاد جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو والدین کو ان کی شادی کرانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے جو ایک فطری عمل ہے ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جب لڑکے کے والدین شادی کی بات چیت کرتے ہیں تو لڑکے کی پسند و نا پسند کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کہیں لڑکا ناراض ہوکر شادی کی رات گھر چھوڑ کر چلا نہ جائے ۔ اس طرح خاندان کی بدنامی ہوگی۔

اکثر لڑکی کے والدین یہ سوچ کر یا یہ کہہ کر شادی کے سلسلے میں لڑکی کی رضامندی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے کہ شرم و حیا کا تقاضا اور مشرقی تہذیب کا یہی اصول ہے لڑکی کے والدین اس کا رشتہ اس سے پوچھے بغیر کردیں جو کہ سراسر اولاد کی حق تلفی ہے ۔ جب زبردستی کی شادی کروائی جاتی ہے تو وہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

میاں بیوی میں وہ فطری پیار و محبت نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے اور پھر یہی وہ ناچاقی ہے جس سے گھر دوزخ کا نمونہ پیش کرنے لگتے ہیں ۔لڑکی کی رضامندی کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے اس اہم مسئلے کی وضاحت ہوجاتی ہے ۔حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا بیوہ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے اور اسی طرح کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جبتک کہ اس سے دریافت نہ کرلیا جائے۔

صحابہ نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ کنواری سے کیسے اجازت لی جائے ؟آپ ﷺ نے فرمایا اس کی اجازت یہ ہے کہ خاموش رہے یعنی طلب اذن کے بعد خاموش رہے ۔(بخاری مسلم ) حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ کنواری عورت کے نکاح کے معاملے میں اجازت حاصل کی جائے وہ خاموش رہے تو اسی کو اجازت سمجھی جائے اور اگر انکار کرے تو اس پر جبر نہ کیا جائے ۔ ( ترمذی ابوداود ، نسائی ) کہتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی نے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کردیا ہے اور وہ اس نکاح سے ناخوش ہے۔

آپ ﷺ نے لڑکی کو اختیار دے دیا یعنی نکاح رکھے یا توڑ دے ۔ حضرت ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ولی کی اجازت کے بغیر کسی عورت کا نکاح نہیں ہوسکتا ۔ (ابو داود ) شرعی طور پر ولی اور خود لڑکی دونوں کی رضا مندی ضروری قرار دے دی گئی ہے ۔ تحفظ عزت کی خاطر یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ لڑکیاں خصوصی طور پر از خود اٹھ اٹھ کر نکاح نہ کرتی پھریں کیونکہ ان کے لیے ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اچھی طرح مرد کے لواحقین کو پرکھ یا دیکھ سکیں ۔ اس میں والدین اور خاندان کی عزت کا سوال ہوتا ہے ۔

لڑکیوں کے بارے میں سورۃ النساء کی 25ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ترجمہ : ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرلو ۔


جب ہم اپنے معاشرے پر نظر کرتے ہیں تو شادی بیاہ کے حوالے سے یہ عوامل بھی ملتے ہیں کہ عورتوں کو یہاں تک بے خبر رکھا جاتا ہے کہ ان کی شادی ایک ایسے شخص کے ساتھ کی جارہی ہے جو مرگ کے قریب ہے یا انتہائی بوڑھا ہے ۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص زمیندار ، مال دار ہے اور وٹہ سٹہ کے تحت بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور اگر کسی نہ کسی طرح سے لڑکی کو علم ہوجاتا ہے تب بھی اسے اس ظلم و بربریت پر چیخنے چلانے اور احتجاج کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا ہے اور وہ لڑکی اپنے سنگدل لالچی والدین کے مفاد کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور وقت سے پہلے پہلے مرجھا جاتی ہے اور اس قتل عمد پر کسی کے خلاف ایف آئی آرکٹوائی بھی نہیں جاسکتی،کیونکہ یہ قتل ایک مظلوم ، بے بس جوان لڑکی کی امنگوں، تمناؤں، ارمانوں کا ہوتا ہے اور ایسے قتل پرکسی بھی تھانے،کسی بھی عدالت میں قانون موجود نہیں ہے جہاں جاکر لڑکی اپنی مظلومیت پر مقدمہ دائر کرسکے۔ ایسے بھی واقعات عام ہیں کہ بعض والدین اپنی بچیوں کی جھولی میں قرآن ڈال کر ان سے شادی کا حق بخشوا لیتے ہیں ، تاکہ لڑکی کے نام کی جائیداد گھر میں ہی رہے اور داماد کے نام منتقل نہ ہوسکے ۔ یہ عمل غیر شرعی ہے جو ہمارے معاشرے کا ایک جز بنتا جارہا ہے ۔

کچھ عرصہ قبل لاہور ہائی کورٹ نے لو میرج پر پاپندی عائد کرنے کے لیے دائر ایک درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مرضی کی شادیوں کو تحفظ دینے سے معاشرے میں نہ صرف بے حیائی کو فروغ ملتا ہے بلکہ ماں باپ کی بھی سخت رسوائی ہوتی ہے لہٰذا ایسی شادیوں پر پابندی لگائی جائے ۔ خیال رہے کہ مذکورہ درخواست ایم ڈی طاہر ایڈووکیٹ نے دائرکی تھی ۔ بہرحال شریعت اور عائلی قوانین کی موجودگی کے باوجود لڑکیوں کی شادی بیاہ میں مرضی ایک معاشرتی مسئلہ ہے ۔

جس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کے جائز حقوق کا پاس کریں اور اولاد اپنے والدین کا احترام کرے اور ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے جوکہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو اور نہ ہی والدین ایسا کوئی سلوک کریں جس سے اولاد کے حقوق کی حق تلفی کا اہتمام ہو ۔

الغرض کہ شرعی اور عائلی قوانین کے دائرے میں رہ کر اس معاشرتی مسئلے کا اصولی اور قانونی حل نکالا جاسکتا ہے جوکہ موجود ہے صرف ان پر عمل درآمد کرنے کے لیے والدین اور اولاد کو اپنے اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی ۔ جس کے لیے اسلام اور روشن خیالی کے اصول اور تقاضوں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ دین اسلام پوری کائنات کے لیے ایک ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے ۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اسلام ایک تنگ نظر مذہب ہے ۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں یہ ان کی اسلام سے ناواقفیت ہے اور ان کا مطالعہ ان لٹریچرز پر مبنی معلوم ہوتا ہے جو خاص طور پر اسلام کو بدنام کرنے اور ان کے جوابات میں خود ساختہ اسلامی نظریہ کا پرچار ہے جو ان دنوں ہر دوصورتوں میں مسلمانوں کے لیے بدنامی اور پریشانیوں کا باعث بنے ہوئے ہیں ، اگرگہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو دونوں صورتوں کا پیدا کردہ ماسٹر مائنڈ ایک ہی مشینری نظر آتی ہے۔

یہیں سے روشن خیالی کا نظریہ پھوٹتا ہے جب کہ دین اسلام خود ایک روشن مذہب ہے جو نہ صرف ذہن کو روشن کرتا ہے بلکہ انسان کی پوری زندگی کو اندھیرے سے نکال کر ایک روشن منزل کی راہ پر گامزن کردینے والا ہے ۔ لہٰذا اسلام اور روشن خیالی ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ۔ البتہ مغرب کی روشن خیالی اسلام کی ضد ہے اور یہی مغربی نظریہ ہماری معاشرتی زندگی میں مسئلے مسائل کا موجب بنا ہوا ہے۔

اسلام میں ایسا کوئی ابہام نہیں ہے ہرموضوع پرکھل کر بات کی گئی ہے ، مثالیں دی گئی ہیں ، وضاحتیں موجود ہیں ۔ بھٹکنے اورگمراہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن مجید ہر مسلم کے گھر موجود ہے ۔ مستند احادیث شریف بھی دسترس میں ہیں تلاوت کیجیے ، مطالعہ کریں، سمجھیں، غوروفکرکریں اور عمل کریں کہ یہی سیدھا راستہ ہے جو روشنی فراہم کرتا ہے۔ باقی راہیں اندھی کھائی کی طرف جانے والی ہیں ۔
Load Next Story