عوام کا سمندر اور مچھلیاں
بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کے ان مخلص اور اہل لوگوں اور ان کے منشور سے عوام لاعلم ہیں۔
انتخابات چند ماہ کے فاصلے پرکھڑے ہیں اور اس کرپٹ انتخابی نظام میں سرمایہ کاری کرنے والے ایسے گھوڑوں کی تلاش میں ہیں ، جو انتخابات جیت کر سرمایہ کاری کرنے والوں کو اربوں کا فائدہ اٹھانے یا منافع حاصل کرنے کے لیے ان کے ہاتھ مضبوط کریں چونکہ اس کرپٹ نظام میں انتخابات لڑانے کے لیے ٹکٹ کی فروخت بھی بھاری قیمت پرکی جاتی ہے اور انتخابی مہم پر بھی کروڑوں کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے لہٰذا ''منتخب نمایندوں'' کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنا سرمایہ اور اس کا لامحدود منافع حاصل کریں۔
اس شاطرانہ کھیل کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اصل سرمایہ کار اور پیٹی سرمایہ کار یا ٹھیکیدار ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوتے ہیں ٹکٹ خریدنے اور انتخابی مہم پر جوکروڑوں کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے اسے سود سمیت واپس حاصل کرنے کے لیے حکومت کی ہر قیمت پر حمایت یا دلالی ضروری ہوتی ہے اور حکمران خاندانوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ انھیں اربوں کھربوں کی لوٹ مار کے لیے اپنے پیٹی سرمایہ کاروں کی حمایت ضروری ہوتی ہے ورنہ کسی کونے سے مخالف گروہ تحریک عدم اعتماد ہاتھ میں لے کر آگے آجاتا ہے۔
اس حوالے سے دلچسپ صورتحال یہ ہوتی ہے کہ کسی حکومت کو آپس کے جھگڑوں کی وجہ گرانے کے لیے جن محترم ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے انھیں بھی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ قیمت ادا کرنے والے اپنی دی ہوئی قیمت یا حمایت کے بدلے پچاس گنا زیادہ منافع یا معاوضہ حاصل کرتا ہے اور یہ تمام منافع عوام کی محنت کی کمائی سے حاصل کیے جاتے ہیں یہ ایک اوپن سیکریٹ ہے۔
اس سارے شاطرانہ کھیل میں یا تو دولت مند امیدوار حصہ لے سکتا ہے یا ضمیر کا سودا کرنے والا امیدوار ہی حصہ لے سکتا ہے اگر بھولے بھٹکے سے کوئی ایماندار اس میدان میں آجاتا ہے تو اسے دھکوں، ذلت وخواری کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ یہ سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ جمہوریت کا وہ کھیل ہے جو پاکستان میں 70 سال سے اور دنیا میں سیکڑوں سال سے جاری ہے۔
اس گھناؤنے کھیل کا اصل نقصان بے چارے عوام کو اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ مفادات کے اس مچھلی بازار میں غریب کی آواز غریب کے مفادات صدا بہ صحرا بن کر رہ جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی یہ ذلت آمیزکھیل جاری ہے لیکن چونکہ تہذیبی رکاوٹیں یہاں آڑے آتی ہیں، لہٰذا شرم وحیا بہرحال منافع کاروں کو بے لگام نہیں ہونے دیتیں لیکن پسماندہ ملکوں میں چونکہ شرم و حیا ایک ممنوعہ چیز بن کر رہ گئی ہے لہٰذا ان ملکوں میں یہ کھیل اس بے شرمی سے کھیلا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کو گھن آنے لگتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس استحصالی کھیل کو کس طرح روکا جائے؟ اس سوال کا واحد جواب یہ ہے کہ وہ ایماندار اور نظریاتی لوگ جو اس جابرانہ استحصالی نظام کو بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اس نظام میں شرکت سے گریزاں رہتے ہیں اور 1917 اور 1949 کے انتظار میں عمریں بتا دیتے ہیں ان کا یہ موقف تو درست ہوتا ہے کہ اس نظام کے میدان میں اترنے سے کپڑے اور جسم گندے ہوجائیں گے۔ اگرچہ ان کا یہ موقف درست ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گندگی کو دورکرنے کے لیے گندگی میں ہاتھ ڈالنا ہی پڑتا ہے لیکن اگر نظریاتی دیوار مضبوط ہے تو ہاتھ توگندے ہوسکتے ہیں لیکن روح اور ضمیر بہرحال گندے نہیں ہوسکتے۔
اس حوالے سے مشکل یہ آن پڑی ہے کہ 1917-1949 ابھی پسماندہ ملکوں کی مضبوط حکومتوں سے بہت دور ہے، کیا اس کا لامتناہی انتظارکیا جائے یا اس کرپٹ نظام میں گھس کر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ مشکل یہ ہے کہ صاف ستھرے لوگوں میں ایسے دانشور ایسے مفکر ایسے منصوبہ ساز موجود نہیں جو نامساعد سے نامساعد حالات میں بھی اپنے لیے راستے نکال لیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے بجائے نظریاتی کمان ایسے کم ظرفوں اور تنگ نظروں کے ہاتھوں میں ہے جو نہ معاشرتی تضادات کو سمجھتے ہیں نہ سیاسی بدتر حالات میں راستے بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بات صرف کامریڈ اور جوابی کامریڈ کے خوشنما القاب پر اٹک کر رہ گئی ہے۔ ان غیر منطقی رویوں اور فلسفوں سے لٹیرے طبقات کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور وہ He اور She دونوں کا پارٹ ادا کرکے عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
جمہوریت خواہ وہ اپنی اصل میں کچھ ہی کیوں نہ ہو اس کے سرپرست بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ جمہوریت کا مطلب ''اکثریت کی حکومت'' ہی ہوتا ہے لیکن نیابتی جمہوریت کے نام پر اس ملک میں بھی 70 سال سے عوام کو کھلے بندوں بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور عوام بے وقوف بن رہے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا میں اشرافیہ کی بدمعاشیوں کی داستانیں سن سن کر عوام اس قدر باشعور ضرور ہوگئے ہیں کہ اشرافیہ خواہ اس کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، اس کی حقیقت سے واقف ہوگئے ہیں ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں اور کسانوں اور ہاریوں کی تعداد دیہی آبادی کے 60 فیصد سے زیادہ ہے اتنی بڑی اکثریت جو اس کرپٹ نظام سے سخت بیزار ہے ملک کے ایماندار مخلص اور اہل لوگوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔
ستر سال سے نظریاتی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام میں حقیقی اور عوامی جمہوریت متعارف کرانے کے لیے میدان میں آئیں اور انتخابات میں مزدوروں، کسانوں، صحافیوں، دانشوروں، وکیلوں، ڈاکٹروں، ادیبوں، شاعروں، چھوٹے تاجروں کو انتخابی ٹکٹ دے کر اور میڈیا کا تعاون حاصل کرکے ان طبقات کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کی کوشش کریں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کے ان مخلص اور اہل لوگوں اور ان کے منشور سے عوام لاعلم ہیں اس لیے کہ عوام کے سمندر میں مچھلی بن کر رہنے والے نظریاتی سمندر کے کنارے ریت پر کیکڑے بنے رینگ رہے ہیں ۔کیا اس بے ہودہ پوزیشن سے نکل کر عوام دشمن جمہوریت کو عوام دوست جمہوریت میں بدلنے کی کوشش کرنے کو نظریے سے غداری کہا جاسکتا ہے یا نظریے سے دوستی عوام سے قربت اور دوستی کہا جاسکتا ہے؟ وقت جواب طلب کر رہا ہے کیا نظریاتی سورما اصحاب کہف کی نیند سے بیدار ہوں گے؟
اس شاطرانہ کھیل کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اصل سرمایہ کار اور پیٹی سرمایہ کار یا ٹھیکیدار ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوتے ہیں ٹکٹ خریدنے اور انتخابی مہم پر جوکروڑوں کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے اسے سود سمیت واپس حاصل کرنے کے لیے حکومت کی ہر قیمت پر حمایت یا دلالی ضروری ہوتی ہے اور حکمران خاندانوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ انھیں اربوں کھربوں کی لوٹ مار کے لیے اپنے پیٹی سرمایہ کاروں کی حمایت ضروری ہوتی ہے ورنہ کسی کونے سے مخالف گروہ تحریک عدم اعتماد ہاتھ میں لے کر آگے آجاتا ہے۔
اس حوالے سے دلچسپ صورتحال یہ ہوتی ہے کہ کسی حکومت کو آپس کے جھگڑوں کی وجہ گرانے کے لیے جن محترم ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے انھیں بھی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ قیمت ادا کرنے والے اپنی دی ہوئی قیمت یا حمایت کے بدلے پچاس گنا زیادہ منافع یا معاوضہ حاصل کرتا ہے اور یہ تمام منافع عوام کی محنت کی کمائی سے حاصل کیے جاتے ہیں یہ ایک اوپن سیکریٹ ہے۔
اس سارے شاطرانہ کھیل میں یا تو دولت مند امیدوار حصہ لے سکتا ہے یا ضمیر کا سودا کرنے والا امیدوار ہی حصہ لے سکتا ہے اگر بھولے بھٹکے سے کوئی ایماندار اس میدان میں آجاتا ہے تو اسے دھکوں، ذلت وخواری کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ یہ سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ جمہوریت کا وہ کھیل ہے جو پاکستان میں 70 سال سے اور دنیا میں سیکڑوں سال سے جاری ہے۔
اس گھناؤنے کھیل کا اصل نقصان بے چارے عوام کو اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ مفادات کے اس مچھلی بازار میں غریب کی آواز غریب کے مفادات صدا بہ صحرا بن کر رہ جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی یہ ذلت آمیزکھیل جاری ہے لیکن چونکہ تہذیبی رکاوٹیں یہاں آڑے آتی ہیں، لہٰذا شرم وحیا بہرحال منافع کاروں کو بے لگام نہیں ہونے دیتیں لیکن پسماندہ ملکوں میں چونکہ شرم و حیا ایک ممنوعہ چیز بن کر رہ گئی ہے لہٰذا ان ملکوں میں یہ کھیل اس بے شرمی سے کھیلا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کو گھن آنے لگتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس استحصالی کھیل کو کس طرح روکا جائے؟ اس سوال کا واحد جواب یہ ہے کہ وہ ایماندار اور نظریاتی لوگ جو اس جابرانہ استحصالی نظام کو بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اس نظام میں شرکت سے گریزاں رہتے ہیں اور 1917 اور 1949 کے انتظار میں عمریں بتا دیتے ہیں ان کا یہ موقف تو درست ہوتا ہے کہ اس نظام کے میدان میں اترنے سے کپڑے اور جسم گندے ہوجائیں گے۔ اگرچہ ان کا یہ موقف درست ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گندگی کو دورکرنے کے لیے گندگی میں ہاتھ ڈالنا ہی پڑتا ہے لیکن اگر نظریاتی دیوار مضبوط ہے تو ہاتھ توگندے ہوسکتے ہیں لیکن روح اور ضمیر بہرحال گندے نہیں ہوسکتے۔
اس حوالے سے مشکل یہ آن پڑی ہے کہ 1917-1949 ابھی پسماندہ ملکوں کی مضبوط حکومتوں سے بہت دور ہے، کیا اس کا لامتناہی انتظارکیا جائے یا اس کرپٹ نظام میں گھس کر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ مشکل یہ ہے کہ صاف ستھرے لوگوں میں ایسے دانشور ایسے مفکر ایسے منصوبہ ساز موجود نہیں جو نامساعد سے نامساعد حالات میں بھی اپنے لیے راستے نکال لیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے بجائے نظریاتی کمان ایسے کم ظرفوں اور تنگ نظروں کے ہاتھوں میں ہے جو نہ معاشرتی تضادات کو سمجھتے ہیں نہ سیاسی بدتر حالات میں راستے بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بات صرف کامریڈ اور جوابی کامریڈ کے خوشنما القاب پر اٹک کر رہ گئی ہے۔ ان غیر منطقی رویوں اور فلسفوں سے لٹیرے طبقات کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور وہ He اور She دونوں کا پارٹ ادا کرکے عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
جمہوریت خواہ وہ اپنی اصل میں کچھ ہی کیوں نہ ہو اس کے سرپرست بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ جمہوریت کا مطلب ''اکثریت کی حکومت'' ہی ہوتا ہے لیکن نیابتی جمہوریت کے نام پر اس ملک میں بھی 70 سال سے عوام کو کھلے بندوں بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور عوام بے وقوف بن رہے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا میں اشرافیہ کی بدمعاشیوں کی داستانیں سن سن کر عوام اس قدر باشعور ضرور ہوگئے ہیں کہ اشرافیہ خواہ اس کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، اس کی حقیقت سے واقف ہوگئے ہیں ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں اور کسانوں اور ہاریوں کی تعداد دیہی آبادی کے 60 فیصد سے زیادہ ہے اتنی بڑی اکثریت جو اس کرپٹ نظام سے سخت بیزار ہے ملک کے ایماندار مخلص اور اہل لوگوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔
ستر سال سے نظریاتی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام میں حقیقی اور عوامی جمہوریت متعارف کرانے کے لیے میدان میں آئیں اور انتخابات میں مزدوروں، کسانوں، صحافیوں، دانشوروں، وکیلوں، ڈاکٹروں، ادیبوں، شاعروں، چھوٹے تاجروں کو انتخابی ٹکٹ دے کر اور میڈیا کا تعاون حاصل کرکے ان طبقات کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کی کوشش کریں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کے ان مخلص اور اہل لوگوں اور ان کے منشور سے عوام لاعلم ہیں اس لیے کہ عوام کے سمندر میں مچھلی بن کر رہنے والے نظریاتی سمندر کے کنارے ریت پر کیکڑے بنے رینگ رہے ہیں ۔کیا اس بے ہودہ پوزیشن سے نکل کر عوام دشمن جمہوریت کو عوام دوست جمہوریت میں بدلنے کی کوشش کرنے کو نظریے سے غداری کہا جاسکتا ہے یا نظریے سے دوستی عوام سے قربت اور دوستی کہا جاسکتا ہے؟ وقت جواب طلب کر رہا ہے کیا نظریاتی سورما اصحاب کہف کی نیند سے بیدار ہوں گے؟