چل بیٹا سیلفی لے لے رے
مودی جی نے کریم الحق سے یہ جوابی فرمائش نہیں کی کہ مجھے بھی اپنی طرح موٹرسائیکل ایمولینس چلانا سکھا دو۔
KARACHI:
دیکھتے ہی دیکھتے اصطلاحات اور ناموں کے معنی کیسے بدل جاتے ہیں۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب سول سوسائٹی رائے عامہ ، این جی او فلاحی تنظیم ، میڈیا صحافت ، لا اینڈ آرڈر امن و امان کا مسئلہ ، ون ٹو ون میٹنگ دو طرفہ ملاقات کہلایا کرتی تھی اور گڈ گورننس کے لیے حسنِ انتظام یا عوام دوست نظام کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ مگر ہوا بس یوں کہ اصلاحات انگریزیا گئیں مسائل وہیں دیسی کے دیسی رہے۔اب تو لگتا ہے کہ معنی و مطلب سے خالی شخشے ہی ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کا متبادل ہیں۔چند دن کی بات ہے پھر یہ دھوکے بھی کہاں۔
دو روز قبل یہ خبر پڑھ کے بہت خوشی ہوئی کہ مغربی بنگال کے ضلع جلپائی گڑی میں ایمبولینس دادا کے نام سے مشہور کریم الحق جب اپنی رضاکارانہ خدمات کے سرکاری اعتراف میں پدم شری وصول کرنے دلی آئے تو وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سیلف لیس کریم الحق کو سیلفی لینا سکھا دی۔مگر مودی جی نے کریم الحق سے یہ جوابی فرمائش نہیں کی کہ مجھے بھی اپنی طرح موٹرسائیکل ایمولینس چلانا سکھا دو تاکہ میں بھی آپ کی طرح کسی بھی تعصب و کدورت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وقت پڑنے پر ہر بیمار اور زخمی کی جان بچانے کے لیے اسے اسپتال پہنچا سکوں۔
سیلفی (خودنمائی ) سے نا آشنا کریم الحق نے یہ ایمبولینس سروس انیس سو پچانوے میں اس حادثے کے بعد شروع کی جب وہ اپنی بیمار والدہ کو خراب راستوں اور ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے سبب بروقت پینتالیس کیلومیٹر پرے ڈسٹرکٹ اسپتال نہ پہنچا سکے۔اس کے بعد سے اب تک کریم الحق آس پاس کے بیس دیہاتوں کے لگ بھگ پچیس ہزار مریضوں کو اپنی موٹر سائیکل ایمبولینس پر اسپتال پہنچا چکے ہیں۔ خود ایک مقامی چائے کمپنی میں ملازم ہیں اور تنخواہ پانچ ہزار روپے کے لگ بھگ ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب حکمران سیلفی کو ہی سیلف لیس نیس سمجھنے لگیں تو پھر اس دنیا کے کریم الحقوں کو اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں لینا پڑتی ہے اور انفرادی سطح پر اجتماعی ریاستی فرائص پورے کرنے پڑتے ہیں۔ہم جیسے ملکوں میں سیاست کے کیمرے سے راج نیتا اور حکمران طبقات عوام کی تفریح اور اپنی سیلفی لینے اور اپنے سے بالا لوگوں کے ساتھ کھڑے اندر سے خالی سینہ باہر سے پھلا کر سیلف سو سیلفی ہونے کے سوا اور کر بھی کیا رہے ہیں۔بلکہ میں فیض صاحب کی روح کے روبرو ہاتھ جوڑ کر کہوں گا کہ '' میری سیلفی کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے ''۔
اگر بھارت میں اپنی ذات میں ڈوبے اور ''آؤ سب مل کر میری باتیں کریں'' کے مرض میں مبتلا مودی جی سیلفی والے مشہور ہیں تو ہمارے ہاں عمران خان کے بارے میں کچھ حاسد کہتے ہیں کہ خانصاحب کا بس ایک ہی مشیر ہے اور وہ ہے ان کے بیڈ روم کا آئینہ کہ جس کے آگے وہ ورزش کرنے کے بعد کچھ دیر کھڑے رہتے ہیں اور آئینے میں کھڑے شخص کی سنتے بھی ہیں۔
اسی طرح پنجاب کے انتھک اور انگشتِ شہادت کے زور پر صوبہ چلانے والے خادمِ اعلی میاں شہباز شریف بالکل نچلے نہیں بیٹھتے نہ کسی کو بیٹھنے دیتے ہیں۔مگر ان کی کارکردگی سے جلنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں صاحب تو بذاتِ خود چلتی پھرتی سیلفی ہیں۔
اگر کسی پولیس مقابلے میں دو گناہ گار یا بے گناہ بھی مرجائیں تو اس کی مبارک باد بھی افسر لوگ سب سے پہلے میاں صاحب کو دیتے ہیں۔واہ واہ سر کیا پولیس مقابلہ ہوا ہے آپ کے دور میں۔بیوہ کو سلائی مشین بھی دیں تو بس نہیں چلتا کہ مشین پر اپنی تصویر جڑدیں۔بلکہ ہو سکے تو یہ سلائی مشین بھی اپنے ہاتھوں خود کو دے کر بیوہ کو سیلفی تھما دیں۔
طاہر القادری نری سیلفی ہیں۔زرداریوں کا یہ حال ہے کہ سمندر کے کنارے رہنے کا اہتمام کیا تاکہ سیلفی کے پس منظر میں سندھ کی '' گڈ گورننس ''کے نتائج نہ جھلک جائیں۔اور سب سے بڑی ( لارجر دین لائف ) سیلفی بنانے والا موبائل آئی ایس پی آر کے پاس ہے۔ کچھ غیرمحبِ وطن عناصر تو ( میرے منہ میں خاک ) یہ بے پر کی اڑانے سے بھی باز نہیں آتے کہ اگر آپ کسی کمرے میں باہر سے تالا لگا کر اور روشندان اور کھڑکیوں کو سیل کر کے گھپ اندھیرے میں بھی سیلفی لیں تو آپ کے پیچھے آصف غفور کا زیرِ لب مسکراتا چہرہ دمک رہا ہوگا۔
یہ جو ٹی وی اسکرین پر چلتی پٹیاں ہیں ، یہ جو کمرہِ عدالت میں جاری سماعت کی لمحہ بہ لمحہ رئیل ٹائم روداد اور یور آنر کی آبزرویشنز فقرہ در فقرہ بریکنگ نیوز میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ انصاف کی سیلفی نہیں تو اور کیا ہے ؟
یہ جو بڑے بڑے منصوبے کہ جن کا عوام کی مصیبتیں کم کرنے سے کوئی خاص لینا دینا نہیں۔یہ بھی سرکاروں کی توجہ بٹاؤ سلیفیاں ہی تو ہیں۔جیسے بھارت میں بلٹ ٹرین اور سردار پٹیل کا ساڑھے تین سو فٹ کا مجسمہ بنانے کا منصوبہ ، یا ہمارے ہاں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کروڑوں میں سے چند لاکھ عورتوں کو دو ہزار روپے مہینہ دینے ، اسکول سے باہر رھ جانے والے ساڑھے تین کروڑ سے زائد بچوں کی موجودگی میں لگ بھگ چالیس دانش اسکول یا سو ماڈل اسکول بنا دینے کا منصوبہ ، مکتب اسکول کو کاغذ کی سیلفی پر چڑھا کر ساڑھے تین سو بچوں کو ایک استاد کے حوالے کر دینے کی خواندہ حکمتِ عملی، اسپتالوں کے کاریڈورزمیں پڑے مریضوں کے لیے بستروں اور ادویات پر خرچ کرنے کے بجائے دو تین ٹراما سینٹرز اور تین چار برن وارڈز بنا کر سیلفی کھڑی کرنے کا فیشن۔
اب تو مجھے جمہوریت بھی وہ موبائل فون لگنے لگا ہے کہ جس سے لیڈر لوگ پیچھے ہجوم کھڑا کر کے سیلفی لیتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ ہمیں کتنا عوامی اعتماد میسر ہے اور اس اعتماد کی بنیاد پر اگلے پانچ برس میں کتنی اور سیلفیاں بنانے کا حق مل گیا ہے۔
بابا مجھے نوکری چاہیے۔چل آ سیلفی لیتے ہیں ، بابا مجھے انصاف چاہیے ، جب تک نہیں ملتا تب تک سیلفی لے لے نا ، بابا مجھے تعلیم چاہیے ،بس تعلیم ؟ سیلفی نہیں چاہیے ؟ بابا مجھے جان کی امان چاہیے،امان تو عدالت دے گی۔ چل بیٹا سیلفی لے لے رے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
دیکھتے ہی دیکھتے اصطلاحات اور ناموں کے معنی کیسے بدل جاتے ہیں۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب سول سوسائٹی رائے عامہ ، این جی او فلاحی تنظیم ، میڈیا صحافت ، لا اینڈ آرڈر امن و امان کا مسئلہ ، ون ٹو ون میٹنگ دو طرفہ ملاقات کہلایا کرتی تھی اور گڈ گورننس کے لیے حسنِ انتظام یا عوام دوست نظام کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ مگر ہوا بس یوں کہ اصلاحات انگریزیا گئیں مسائل وہیں دیسی کے دیسی رہے۔اب تو لگتا ہے کہ معنی و مطلب سے خالی شخشے ہی ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کا متبادل ہیں۔چند دن کی بات ہے پھر یہ دھوکے بھی کہاں۔
دو روز قبل یہ خبر پڑھ کے بہت خوشی ہوئی کہ مغربی بنگال کے ضلع جلپائی گڑی میں ایمبولینس دادا کے نام سے مشہور کریم الحق جب اپنی رضاکارانہ خدمات کے سرکاری اعتراف میں پدم شری وصول کرنے دلی آئے تو وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سیلف لیس کریم الحق کو سیلفی لینا سکھا دی۔مگر مودی جی نے کریم الحق سے یہ جوابی فرمائش نہیں کی کہ مجھے بھی اپنی طرح موٹرسائیکل ایمولینس چلانا سکھا دو تاکہ میں بھی آپ کی طرح کسی بھی تعصب و کدورت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وقت پڑنے پر ہر بیمار اور زخمی کی جان بچانے کے لیے اسے اسپتال پہنچا سکوں۔
سیلفی (خودنمائی ) سے نا آشنا کریم الحق نے یہ ایمبولینس سروس انیس سو پچانوے میں اس حادثے کے بعد شروع کی جب وہ اپنی بیمار والدہ کو خراب راستوں اور ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے سبب بروقت پینتالیس کیلومیٹر پرے ڈسٹرکٹ اسپتال نہ پہنچا سکے۔اس کے بعد سے اب تک کریم الحق آس پاس کے بیس دیہاتوں کے لگ بھگ پچیس ہزار مریضوں کو اپنی موٹر سائیکل ایمبولینس پر اسپتال پہنچا چکے ہیں۔ خود ایک مقامی چائے کمپنی میں ملازم ہیں اور تنخواہ پانچ ہزار روپے کے لگ بھگ ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب حکمران سیلفی کو ہی سیلف لیس نیس سمجھنے لگیں تو پھر اس دنیا کے کریم الحقوں کو اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں لینا پڑتی ہے اور انفرادی سطح پر اجتماعی ریاستی فرائص پورے کرنے پڑتے ہیں۔ہم جیسے ملکوں میں سیاست کے کیمرے سے راج نیتا اور حکمران طبقات عوام کی تفریح اور اپنی سیلفی لینے اور اپنے سے بالا لوگوں کے ساتھ کھڑے اندر سے خالی سینہ باہر سے پھلا کر سیلف سو سیلفی ہونے کے سوا اور کر بھی کیا رہے ہیں۔بلکہ میں فیض صاحب کی روح کے روبرو ہاتھ جوڑ کر کہوں گا کہ '' میری سیلفی کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے ''۔
اگر بھارت میں اپنی ذات میں ڈوبے اور ''آؤ سب مل کر میری باتیں کریں'' کے مرض میں مبتلا مودی جی سیلفی والے مشہور ہیں تو ہمارے ہاں عمران خان کے بارے میں کچھ حاسد کہتے ہیں کہ خانصاحب کا بس ایک ہی مشیر ہے اور وہ ہے ان کے بیڈ روم کا آئینہ کہ جس کے آگے وہ ورزش کرنے کے بعد کچھ دیر کھڑے رہتے ہیں اور آئینے میں کھڑے شخص کی سنتے بھی ہیں۔
اسی طرح پنجاب کے انتھک اور انگشتِ شہادت کے زور پر صوبہ چلانے والے خادمِ اعلی میاں شہباز شریف بالکل نچلے نہیں بیٹھتے نہ کسی کو بیٹھنے دیتے ہیں۔مگر ان کی کارکردگی سے جلنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں صاحب تو بذاتِ خود چلتی پھرتی سیلفی ہیں۔
اگر کسی پولیس مقابلے میں دو گناہ گار یا بے گناہ بھی مرجائیں تو اس کی مبارک باد بھی افسر لوگ سب سے پہلے میاں صاحب کو دیتے ہیں۔واہ واہ سر کیا پولیس مقابلہ ہوا ہے آپ کے دور میں۔بیوہ کو سلائی مشین بھی دیں تو بس نہیں چلتا کہ مشین پر اپنی تصویر جڑدیں۔بلکہ ہو سکے تو یہ سلائی مشین بھی اپنے ہاتھوں خود کو دے کر بیوہ کو سیلفی تھما دیں۔
طاہر القادری نری سیلفی ہیں۔زرداریوں کا یہ حال ہے کہ سمندر کے کنارے رہنے کا اہتمام کیا تاکہ سیلفی کے پس منظر میں سندھ کی '' گڈ گورننس ''کے نتائج نہ جھلک جائیں۔اور سب سے بڑی ( لارجر دین لائف ) سیلفی بنانے والا موبائل آئی ایس پی آر کے پاس ہے۔ کچھ غیرمحبِ وطن عناصر تو ( میرے منہ میں خاک ) یہ بے پر کی اڑانے سے بھی باز نہیں آتے کہ اگر آپ کسی کمرے میں باہر سے تالا لگا کر اور روشندان اور کھڑکیوں کو سیل کر کے گھپ اندھیرے میں بھی سیلفی لیں تو آپ کے پیچھے آصف غفور کا زیرِ لب مسکراتا چہرہ دمک رہا ہوگا۔
یہ جو ٹی وی اسکرین پر چلتی پٹیاں ہیں ، یہ جو کمرہِ عدالت میں جاری سماعت کی لمحہ بہ لمحہ رئیل ٹائم روداد اور یور آنر کی آبزرویشنز فقرہ در فقرہ بریکنگ نیوز میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ انصاف کی سیلفی نہیں تو اور کیا ہے ؟
یہ جو بڑے بڑے منصوبے کہ جن کا عوام کی مصیبتیں کم کرنے سے کوئی خاص لینا دینا نہیں۔یہ بھی سرکاروں کی توجہ بٹاؤ سلیفیاں ہی تو ہیں۔جیسے بھارت میں بلٹ ٹرین اور سردار پٹیل کا ساڑھے تین سو فٹ کا مجسمہ بنانے کا منصوبہ ، یا ہمارے ہاں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کروڑوں میں سے چند لاکھ عورتوں کو دو ہزار روپے مہینہ دینے ، اسکول سے باہر رھ جانے والے ساڑھے تین کروڑ سے زائد بچوں کی موجودگی میں لگ بھگ چالیس دانش اسکول یا سو ماڈل اسکول بنا دینے کا منصوبہ ، مکتب اسکول کو کاغذ کی سیلفی پر چڑھا کر ساڑھے تین سو بچوں کو ایک استاد کے حوالے کر دینے کی خواندہ حکمتِ عملی، اسپتالوں کے کاریڈورزمیں پڑے مریضوں کے لیے بستروں اور ادویات پر خرچ کرنے کے بجائے دو تین ٹراما سینٹرز اور تین چار برن وارڈز بنا کر سیلفی کھڑی کرنے کا فیشن۔
اب تو مجھے جمہوریت بھی وہ موبائل فون لگنے لگا ہے کہ جس سے لیڈر لوگ پیچھے ہجوم کھڑا کر کے سیلفی لیتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ ہمیں کتنا عوامی اعتماد میسر ہے اور اس اعتماد کی بنیاد پر اگلے پانچ برس میں کتنی اور سیلفیاں بنانے کا حق مل گیا ہے۔
بابا مجھے نوکری چاہیے۔چل آ سیلفی لیتے ہیں ، بابا مجھے انصاف چاہیے ، جب تک نہیں ملتا تب تک سیلفی لے لے نا ، بابا مجھے تعلیم چاہیے ،بس تعلیم ؟ سیلفی نہیں چاہیے ؟ بابا مجھے جان کی امان چاہیے،امان تو عدالت دے گی۔ چل بیٹا سیلفی لے لے رے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)