عمران خان اور بہترین پولیس کا تصوّر
پولیس چیف ایماندار ،باکردار اور عوام سے ہمدردی رکھنے والا ہوگا وہیں لوگوں کا پولیس پر اعتماد ہوگا
یہ جان کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے قومی راہنما ملک کے اہم ترین اداروں کے سسٹم، طریقۂ کار، ان کی خامیوں اور اصلاح کے لیے ضروری اقدامات سے یا تو بالکل نابلد ہیں یا ان کا علم بالکل سطحی نوعیّت کا ہے۔ کئی سال سب سے بڑے صوبے کے وزیرِاعلی اور تین بار وزیرِاعظم رہنے کے بعد میاں نواز شریف صاحب (جو اسوقت بھی سب سے بڑی پارٹی کے صدر ہیں) نے یہ فرماکر لوگوں کو حیران کردیا کہ ''مجھے نہیں معلوم تھا کہ ملک میں انصاف اتنا مہنگا ہے۔
انصاف ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ریاست کا فرض ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر شہری کو اس کا یہ حق ہر صورت ملے۔ یہاں صورت ِحال یہ ہے کہ ہر کچہری اور ہر عدالت کے باہر افتادگانِ خاک کا ھجوم ہوتا ہے دکھوںکی ماری، ناانصافیوں کے زخموں سے چور اور مایوسیوں اور ناامیدیوں میں شرابوربے سہارا مخلوق ہر روز صبح کچہریوں میں جاکھڑی ہوتی ہے اور شام کو پاؤں گھسیٹتے ہوئے اگلی صبح پھر آنے کے لیے چلی جاتی ہے۔ کیاآپ کا فرض نہیں تھا کہ آپ معلوم کرتے کہ عام آدمی کو بروقت انصاف کیوں نہیں ملتا، اس میں کیا رکاوٹیں ہیں، سسٹم میں کیا خامیاں ہیں اور انھیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے اگر قانون سازی درکار تھی تو وہ بھی کی جاتی۔ مگر حیرت ہے کہ اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔ دوسری جانب دوسری بڑی پارٹی کے راہنما عمران خان صاحب کریڈٹ لینے کے جوش میں اپنے صوبے کی پولیس کی تعریف اس انداز سے کرتے ہیں کہ دوسرے صوبوں کی پولیس کو مخالف سیاسی پارٹی کی طرح برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ نہ جانے کس نے خان صاحب کے کان میں یہ بات ڈال دی ہے کہ پولیس کے نظام میں صرف ایک ہی برائی ہوتی ہے اور وہ ہے سیاسی مداخلت۔ بس سیاسی مداخلت ختم ہوتے ہی پولیس والے فرشتے بن جاتے ہیں۔ تمام قومی لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ پولیسنگ سسٹم کے تمام پہلوؤں کا اچھی طرح مطالعہ کریں اور اسے پوری طرح سمجھیں۔
پولیس میں مداخلت کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر میں اسے سیاسی نہیں حکومتی مداخلت کا نام دیتا ہوںکیونکہ مداخلت تو صرف حکومت ہی کرتی ہے یا کرسکتی ہے ، حزبِ مخالف کے سیاستدان مداخلت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ ہر حکومت (چاہے وہ فوجی ہو یا جمہوری) چاہتی ہے کہ پولیس افسران اس کے تابع فرمان ہوں۔ ضلع، ڈویژن اور صوبے میں افسران اُسکی مرضی سے تعینات ہوں، ق لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کی پالیسی بڑی واضح رہی کہ ضلع کا ایس پی وہی لگے گا جس پر ہمارا ایم پی اے یا ایم این اے ہاتھ رکھ دے گا۔ اگر ضلع کا ایس پی مقامی ایم این اے یا ایم پی اے کا تعینات شدہ ہوتو وہ پولیس کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
اگرچہ اب عوامی شعور میں اضافے، میڈیا کی ہر جگہ موجودگی اور عدالتی نگرانی کے باعث پولیس کے ذریعے مخالفوں کو ہراساں کرنے کا رجحان خاصا کم ہواہے مگر یہ پوری طرح ختم نہیں ہوا ۔ اب بھی اندرونِ سندھ اور پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں یہ رجحان موجود ہے مگر خیبرپختونخواہ میں یہ لعنت کبھی نہیںرہی۔ عمران خان صاحب نے خیبرپختونخواہ میں آئی جی کو مکمّل طور پر بااختیار بنادیا ہے کہ وہ ہر سطح پر اپنی مرضی سے تعیناتیاں کرسکتا ہے۔ یہ یقیناً ایک احسن اقدام ہے، مگر یہ اقدام اس چیز کی گارنٹی ہرگز نہیں ہے کہ آئی جی کا لگایا ہواہر ایس پی اور ایس ایچ او رزقِ حلال بھی کھائیگا اور عوام کا ہمدرد بھی ہوگا۔
عوام کا پولیس کے ساتھ سب سے زیادہ رابطہ تھانے کی سطح پر ہوتا ہے اور تھانے سے انھیں دو شکایات ہیں کہ رشوت کے بغیر ان کی شنوائی نہیں ہوتی اور ایک عام اور بے سہارا شخص کے ساتھ تھانہ اسٹاف کا روّیہ غیر ہمدردانہ ہوتاہے۔ تھانہ اسٹاف میں رچی بسی دو برائیوں یعنی بددیانتی اور بداخلاقی میں سے کسی کا بھی تعلق سیاسی مداخلت سے نہیں ہے، کوئی ایم این اے یا ایم پی اے ایس ایچ او کو رشوت لینے پر مجبور نہیں کرتا اور کوئی وزیرِاعلیٰ پولیس والوں کو یہ ہدایت نہیں کرتا کہ وہ سائلوں کے ساتھ بداخلاقی اور بدتمیزی سے پیش آئیں۔
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ فلاں صوبے کی پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں ہے اس لیے وہ پاکستان کی بہترین پولیس بن گئی ہے یا فلاں صوبے میں کسی اغواکار یا قاتل کی گرفتاری میں تاخیر ہوئی ہے اس لیے اُس صوبے کی پولیس بُری ہے۔ سیاسی مداخلت ختم ہونے سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد ہے کہ اُس صوبے میں پوسٹنگ اور ٹرانسفر کا اختیار وزیرِاعلیٰ کے بجائے آئی جی کو دے دیا گیا ہے۔
کیا یہ ضروری ہے کہ آئی جی کا لگایا ہوا ہر افسر ایماندار اور مظلوموں کا ہمدرد ہوا ور وزیراِعلیٰ کا تعیّنات کردہ ہر افسر بددیانت اور بداخلاق ہو۔ ایسا نہیں ہے، آئی جی کے لگائے ہوئے افسر بددیانت بھی ہوسکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں (راقم کے پی کے میں تین ڈویژنوں میں ڈی آئی جی رہ چکا ہے اور اس لیے کئی افسروں کو جانتا ہے) اور وزیرِاعلیٰ کے لگائے ہوئے افسروں میں سے بھی کئی بہت اچھے ہوتے ہیں۔ پولیس افسروں کے درمیان اس موضوع پر کئی بار بحث ہوچکی ہے کہ کیا آئی جی کے تعینات کردہ افسر ہی بہتر ہوتے ہیں؟ اس پر ہمیشہ دو آراء رہی ہیں، بہت سے افسروں کا یہ کہنا ہے کہ آئی جی کی اپنی پسند اور ناپسند اور ذاتی تعصبات بھی بروئے کار آتے ہیں اس لیے آئی جی کے لگائے ہوئے افسروں میں سے بھی کئی مشکوک کردار نکل آتے ہیں۔
سینئر پولیس افسروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ 1997-99 کے دور میں پنجاب کے وزیرِاعلیٰ میاں شہباز شریف نے بہترین افسروں کی تعیناتیاں کیں اور ضلع کے کسی وزیر، ایم این اے یا ایم پی اے کو ان کے کام میں دخل دینے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ضلع بھر کے تمام ممبرانِ اسمبلی اکٹھے ہوکر کسی ایس پی کے خلاف وزیرِاعلیٰ کے پاس شکایت لے کر گئے ،ا گر افسر دیانتدار ہوتا تو ممبرانِ اسمبلی کو چلتا کیا جاتا اور وزیرِاعلیٰ نیک نام افسر کو سپورٹ کرتے ، اس کے برعکس کئی آئی جی صاحبان کی سفارش سے ایسے افسر تعینات ہوتے رہے ہیں جنکیIntegrity پر سوالیہ نشان ہیں۔
اسی طرح ڈاکٹر مالک کے دور میں بلوچستان میں سیاسی مداخلت نہیں تھی ۔ کے پی کے میں سیاسی مداخلت ختم ہونے کے باوجود پچھلے چار سالوں میں کئی ضلعوںمیں ایسے پولیس افسر تعینات رہے ہیں جو نہ ہی دیانتدار تھے اور نہ ہی عوام سے ہمدردی رکھتے تھے۔ اچھی پولیس صرف وہی ہو سکتی ہے جس پر عوام کا اعتماد ہو، عوامی اعتماد کا لیول ہر ضلع میں اور ہر تھانے میں مختلف ہوگا۔ جس ضلع کا پولیس چیف ایماندار ،باکردار اور عوام سے ہمدردی رکھنے والا ہوگا وہیں لوگوں کا پولیس پر اعتماد ہوگا۔
عمران خان صاحب کو Sweeping statements دینے سے گریز کرنا چاہیے اور دوسرے صوبوں کی پولیس فورسز کو اپنی مخالف سیاسی پارٹی نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی پورے ادارے کے بارے میں Judgment دینی چاہیے۔ راقم کو پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی خدمت کا موقع ملا ہے اور سندھ سے گہرا تعلق ہے۔ اگر غیرجانبدارنہ تجزیہ کیا جائے تو میں کہوںگا کہ جُرّات اور بہادری میں کے پی کے پولیس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ دہشت گردی کے طوفان کا جس بہادری سے کے پی کے جوانوں اور افسروں نے مقابلہ کیا ہے شاید کوئی اور نہ کرسکتا۔
پولیس کو سیاسی مخالفوں کے استعمال کرنے کا رواج بھی کے پی کے میں کبھی نہیں رہا، وہاں سائل سے بدتمیزی کا کلچر بھی نہیں ہے کیونکہ تھانیدار جانتا ہے کہ وہ سائل کو گالی دیگا تو جواباً اُس کے منہ پر تھپڑ پڑیگا۔ پنجاب اور سندھ کے دیہی عوام میں غلامی اور عاجزی (Submissiveness )زیادہ ہے اس لیے ہر محکمے کے افسران فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہیںوہاں سیاسی مخالفوں کوپولیس کے ذریعے دبانے کا رجحان بھی زیادہ رہا ہے۔مگر تمام صوبوں کے افسران مانتے ہیں کہ پنجاب پولیس میں پیشہ ورانہ اہلیّت اور تفتیشی صلاحیّت دوسروں سے زیادہ ہے۔آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مقدمات ٹریس کرنے کی شرح بھی باقی تمام صوبوں سے بلند ہے۔ سندھ میں ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی رینک میں جتنے ایماندار اور باضمیر افسر اس وقت ہیں اتنے کسی اور صوبے میں نظر نہیں آتے۔
عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بے سہارا اور مظلوم شخض کی تھانے میں شنوائی ہو اور اسے رشوت اور سفارش کے بغیر انصاف ملے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تھانوں کا ماحول اور تھانوں میں تعیّنات پولیس اہلکاروں کا ذہن بدلا جائے یعنی تھانہ کلچر کو تبدیل کیا جائے۔ راقم نے پولیس یونیفارم میں آخری آرٹیکل اسی اہم ترین موضوع پر تحریر کیا تھا جو میری نئی کتاب "دوٹوک" میں شامل ہے اور جسے چند روز پہلے اسلام آباد کے نیک نام اور باضمیر صحافی شکیل انجم نے اپنے کالم کا موضوع بنایا ہے۔
ہمارے تھانوں کا موجودہ ماحول Pro-criminalہے، مجرم اور بدمعاش تھانے میں اپنے آپ کو Comfortable محسوس کرتے ہیں اور عام آدمی، Victim، مظلوم اور بے سہارا شخص کے لیے تھانے کا ماحول بڑا غیر ھمدردانہ ہے جہاں وہ اپنے آپ کو Uncomfortable محسوس کرتا ہے۔ صورتِ حال اس کے برعکس ہونی چاہیے مگر اس کے لیے بڑی جدّوجہد، ریاضت ، جگر سوزی اور تپسّیا کی ضرورت ہے۔ تھانوں کا کلچر کسی حکمران کے directiveجاری کرنے یا کسی سیاستدان کے بیان دینے سے یا تبادلوں کے اختیار آئی جی کو تفویض کردینے سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ یہ بڑا مشکل (Painstaking)مشن ہے ، اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور خونِ جگر جلانا پڑتا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں تھانوں کا ماحول اور کلچر تبدیل کرنے کی اگر کہیں سنجیدہ کوشش ہوئی اور اسے مشن سمجھ کر اس کے لیے پورا زور لگایا گیا (جسکے نتیجے میں ماحول تبدیل ہوا) تو وہ 2009-10میں گوجرانوالہ میں ہوا۔
بہترین پولیس بنانے کے لیے تھانوں کا کلچر تبدیل کرنا ہوگا۔ انسانی ذہن کی تبدیلی مشکل ترین کام ہے اس کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سختی بھی، نرمی بھی، سزا بھی، جزا بھی ، دلیل بھی، ڈراوا بھی، کاؤنسلنگ بھی، موٹیویشن بھی اور سب سے بڑھکر کمانڈر کا ذاتی کردار اور ارادے کی پختگی ۔جو لیڈر عوام کو اچھی پولیس کا تحفہ دینا چاہتا ہے اسے تھانوں کے مکینوں کا ذہن بدلناہوگا۔
انصاف ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ریاست کا فرض ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر شہری کو اس کا یہ حق ہر صورت ملے۔ یہاں صورت ِحال یہ ہے کہ ہر کچہری اور ہر عدالت کے باہر افتادگانِ خاک کا ھجوم ہوتا ہے دکھوںکی ماری، ناانصافیوں کے زخموں سے چور اور مایوسیوں اور ناامیدیوں میں شرابوربے سہارا مخلوق ہر روز صبح کچہریوں میں جاکھڑی ہوتی ہے اور شام کو پاؤں گھسیٹتے ہوئے اگلی صبح پھر آنے کے لیے چلی جاتی ہے۔ کیاآپ کا فرض نہیں تھا کہ آپ معلوم کرتے کہ عام آدمی کو بروقت انصاف کیوں نہیں ملتا، اس میں کیا رکاوٹیں ہیں، سسٹم میں کیا خامیاں ہیں اور انھیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے اگر قانون سازی درکار تھی تو وہ بھی کی جاتی۔ مگر حیرت ہے کہ اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔ دوسری جانب دوسری بڑی پارٹی کے راہنما عمران خان صاحب کریڈٹ لینے کے جوش میں اپنے صوبے کی پولیس کی تعریف اس انداز سے کرتے ہیں کہ دوسرے صوبوں کی پولیس کو مخالف سیاسی پارٹی کی طرح برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ نہ جانے کس نے خان صاحب کے کان میں یہ بات ڈال دی ہے کہ پولیس کے نظام میں صرف ایک ہی برائی ہوتی ہے اور وہ ہے سیاسی مداخلت۔ بس سیاسی مداخلت ختم ہوتے ہی پولیس والے فرشتے بن جاتے ہیں۔ تمام قومی لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ پولیسنگ سسٹم کے تمام پہلوؤں کا اچھی طرح مطالعہ کریں اور اسے پوری طرح سمجھیں۔
پولیس میں مداخلت کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر میں اسے سیاسی نہیں حکومتی مداخلت کا نام دیتا ہوںکیونکہ مداخلت تو صرف حکومت ہی کرتی ہے یا کرسکتی ہے ، حزبِ مخالف کے سیاستدان مداخلت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ ہر حکومت (چاہے وہ فوجی ہو یا جمہوری) چاہتی ہے کہ پولیس افسران اس کے تابع فرمان ہوں۔ ضلع، ڈویژن اور صوبے میں افسران اُسکی مرضی سے تعینات ہوں، ق لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کی پالیسی بڑی واضح رہی کہ ضلع کا ایس پی وہی لگے گا جس پر ہمارا ایم پی اے یا ایم این اے ہاتھ رکھ دے گا۔ اگر ضلع کا ایس پی مقامی ایم این اے یا ایم پی اے کا تعینات شدہ ہوتو وہ پولیس کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
اگرچہ اب عوامی شعور میں اضافے، میڈیا کی ہر جگہ موجودگی اور عدالتی نگرانی کے باعث پولیس کے ذریعے مخالفوں کو ہراساں کرنے کا رجحان خاصا کم ہواہے مگر یہ پوری طرح ختم نہیں ہوا ۔ اب بھی اندرونِ سندھ اور پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں یہ رجحان موجود ہے مگر خیبرپختونخواہ میں یہ لعنت کبھی نہیںرہی۔ عمران خان صاحب نے خیبرپختونخواہ میں آئی جی کو مکمّل طور پر بااختیار بنادیا ہے کہ وہ ہر سطح پر اپنی مرضی سے تعیناتیاں کرسکتا ہے۔ یہ یقیناً ایک احسن اقدام ہے، مگر یہ اقدام اس چیز کی گارنٹی ہرگز نہیں ہے کہ آئی جی کا لگایا ہواہر ایس پی اور ایس ایچ او رزقِ حلال بھی کھائیگا اور عوام کا ہمدرد بھی ہوگا۔
عوام کا پولیس کے ساتھ سب سے زیادہ رابطہ تھانے کی سطح پر ہوتا ہے اور تھانے سے انھیں دو شکایات ہیں کہ رشوت کے بغیر ان کی شنوائی نہیں ہوتی اور ایک عام اور بے سہارا شخص کے ساتھ تھانہ اسٹاف کا روّیہ غیر ہمدردانہ ہوتاہے۔ تھانہ اسٹاف میں رچی بسی دو برائیوں یعنی بددیانتی اور بداخلاقی میں سے کسی کا بھی تعلق سیاسی مداخلت سے نہیں ہے، کوئی ایم این اے یا ایم پی اے ایس ایچ او کو رشوت لینے پر مجبور نہیں کرتا اور کوئی وزیرِاعلیٰ پولیس والوں کو یہ ہدایت نہیں کرتا کہ وہ سائلوں کے ساتھ بداخلاقی اور بدتمیزی سے پیش آئیں۔
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ فلاں صوبے کی پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں ہے اس لیے وہ پاکستان کی بہترین پولیس بن گئی ہے یا فلاں صوبے میں کسی اغواکار یا قاتل کی گرفتاری میں تاخیر ہوئی ہے اس لیے اُس صوبے کی پولیس بُری ہے۔ سیاسی مداخلت ختم ہونے سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد ہے کہ اُس صوبے میں پوسٹنگ اور ٹرانسفر کا اختیار وزیرِاعلیٰ کے بجائے آئی جی کو دے دیا گیا ہے۔
کیا یہ ضروری ہے کہ آئی جی کا لگایا ہوا ہر افسر ایماندار اور مظلوموں کا ہمدرد ہوا ور وزیراِعلیٰ کا تعیّنات کردہ ہر افسر بددیانت اور بداخلاق ہو۔ ایسا نہیں ہے، آئی جی کے لگائے ہوئے افسر بددیانت بھی ہوسکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں (راقم کے پی کے میں تین ڈویژنوں میں ڈی آئی جی رہ چکا ہے اور اس لیے کئی افسروں کو جانتا ہے) اور وزیرِاعلیٰ کے لگائے ہوئے افسروں میں سے بھی کئی بہت اچھے ہوتے ہیں۔ پولیس افسروں کے درمیان اس موضوع پر کئی بار بحث ہوچکی ہے کہ کیا آئی جی کے تعینات کردہ افسر ہی بہتر ہوتے ہیں؟ اس پر ہمیشہ دو آراء رہی ہیں، بہت سے افسروں کا یہ کہنا ہے کہ آئی جی کی اپنی پسند اور ناپسند اور ذاتی تعصبات بھی بروئے کار آتے ہیں اس لیے آئی جی کے لگائے ہوئے افسروں میں سے بھی کئی مشکوک کردار نکل آتے ہیں۔
سینئر پولیس افسروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ 1997-99 کے دور میں پنجاب کے وزیرِاعلیٰ میاں شہباز شریف نے بہترین افسروں کی تعیناتیاں کیں اور ضلع کے کسی وزیر، ایم این اے یا ایم پی اے کو ان کے کام میں دخل دینے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ضلع بھر کے تمام ممبرانِ اسمبلی اکٹھے ہوکر کسی ایس پی کے خلاف وزیرِاعلیٰ کے پاس شکایت لے کر گئے ،ا گر افسر دیانتدار ہوتا تو ممبرانِ اسمبلی کو چلتا کیا جاتا اور وزیرِاعلیٰ نیک نام افسر کو سپورٹ کرتے ، اس کے برعکس کئی آئی جی صاحبان کی سفارش سے ایسے افسر تعینات ہوتے رہے ہیں جنکیIntegrity پر سوالیہ نشان ہیں۔
اسی طرح ڈاکٹر مالک کے دور میں بلوچستان میں سیاسی مداخلت نہیں تھی ۔ کے پی کے میں سیاسی مداخلت ختم ہونے کے باوجود پچھلے چار سالوں میں کئی ضلعوںمیں ایسے پولیس افسر تعینات رہے ہیں جو نہ ہی دیانتدار تھے اور نہ ہی عوام سے ہمدردی رکھتے تھے۔ اچھی پولیس صرف وہی ہو سکتی ہے جس پر عوام کا اعتماد ہو، عوامی اعتماد کا لیول ہر ضلع میں اور ہر تھانے میں مختلف ہوگا۔ جس ضلع کا پولیس چیف ایماندار ،باکردار اور عوام سے ہمدردی رکھنے والا ہوگا وہیں لوگوں کا پولیس پر اعتماد ہوگا۔
عمران خان صاحب کو Sweeping statements دینے سے گریز کرنا چاہیے اور دوسرے صوبوں کی پولیس فورسز کو اپنی مخالف سیاسی پارٹی نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی پورے ادارے کے بارے میں Judgment دینی چاہیے۔ راقم کو پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی خدمت کا موقع ملا ہے اور سندھ سے گہرا تعلق ہے۔ اگر غیرجانبدارنہ تجزیہ کیا جائے تو میں کہوںگا کہ جُرّات اور بہادری میں کے پی کے پولیس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ دہشت گردی کے طوفان کا جس بہادری سے کے پی کے جوانوں اور افسروں نے مقابلہ کیا ہے شاید کوئی اور نہ کرسکتا۔
پولیس کو سیاسی مخالفوں کے استعمال کرنے کا رواج بھی کے پی کے میں کبھی نہیں رہا، وہاں سائل سے بدتمیزی کا کلچر بھی نہیں ہے کیونکہ تھانیدار جانتا ہے کہ وہ سائل کو گالی دیگا تو جواباً اُس کے منہ پر تھپڑ پڑیگا۔ پنجاب اور سندھ کے دیہی عوام میں غلامی اور عاجزی (Submissiveness )زیادہ ہے اس لیے ہر محکمے کے افسران فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہیںوہاں سیاسی مخالفوں کوپولیس کے ذریعے دبانے کا رجحان بھی زیادہ رہا ہے۔مگر تمام صوبوں کے افسران مانتے ہیں کہ پنجاب پولیس میں پیشہ ورانہ اہلیّت اور تفتیشی صلاحیّت دوسروں سے زیادہ ہے۔آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مقدمات ٹریس کرنے کی شرح بھی باقی تمام صوبوں سے بلند ہے۔ سندھ میں ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی رینک میں جتنے ایماندار اور باضمیر افسر اس وقت ہیں اتنے کسی اور صوبے میں نظر نہیں آتے۔
عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بے سہارا اور مظلوم شخض کی تھانے میں شنوائی ہو اور اسے رشوت اور سفارش کے بغیر انصاف ملے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تھانوں کا ماحول اور تھانوں میں تعیّنات پولیس اہلکاروں کا ذہن بدلا جائے یعنی تھانہ کلچر کو تبدیل کیا جائے۔ راقم نے پولیس یونیفارم میں آخری آرٹیکل اسی اہم ترین موضوع پر تحریر کیا تھا جو میری نئی کتاب "دوٹوک" میں شامل ہے اور جسے چند روز پہلے اسلام آباد کے نیک نام اور باضمیر صحافی شکیل انجم نے اپنے کالم کا موضوع بنایا ہے۔
ہمارے تھانوں کا موجودہ ماحول Pro-criminalہے، مجرم اور بدمعاش تھانے میں اپنے آپ کو Comfortable محسوس کرتے ہیں اور عام آدمی، Victim، مظلوم اور بے سہارا شخص کے لیے تھانے کا ماحول بڑا غیر ھمدردانہ ہے جہاں وہ اپنے آپ کو Uncomfortable محسوس کرتا ہے۔ صورتِ حال اس کے برعکس ہونی چاہیے مگر اس کے لیے بڑی جدّوجہد، ریاضت ، جگر سوزی اور تپسّیا کی ضرورت ہے۔ تھانوں کا کلچر کسی حکمران کے directiveجاری کرنے یا کسی سیاستدان کے بیان دینے سے یا تبادلوں کے اختیار آئی جی کو تفویض کردینے سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ یہ بڑا مشکل (Painstaking)مشن ہے ، اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور خونِ جگر جلانا پڑتا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں تھانوں کا ماحول اور کلچر تبدیل کرنے کی اگر کہیں سنجیدہ کوشش ہوئی اور اسے مشن سمجھ کر اس کے لیے پورا زور لگایا گیا (جسکے نتیجے میں ماحول تبدیل ہوا) تو وہ 2009-10میں گوجرانوالہ میں ہوا۔
بہترین پولیس بنانے کے لیے تھانوں کا کلچر تبدیل کرنا ہوگا۔ انسانی ذہن کی تبدیلی مشکل ترین کام ہے اس کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سختی بھی، نرمی بھی، سزا بھی، جزا بھی ، دلیل بھی، ڈراوا بھی، کاؤنسلنگ بھی، موٹیویشن بھی اور سب سے بڑھکر کمانڈر کا ذاتی کردار اور ارادے کی پختگی ۔جو لیڈر عوام کو اچھی پولیس کا تحفہ دینا چاہتا ہے اسے تھانوں کے مکینوں کا ذہن بدلناہوگا۔