پولیس راؤانوارکا اہم ریکارڈحاصل کرنے میں تاحال ناکام

8 سال تعیناتی کے دوران بھتہ اور ہلاک مبینہ دہشت گردوں کاریکارڈ مرتب کرتا رہاتھا

  مقابلوں کی فلمبندی بھی کی جاتی رہی ، چہیتے اہلکار شنکرکے ذریعے ریکارڈ غائب کرایا،ذرائع فوٹو:فائل

ملیرانویسٹی گیشن پولیس سابق ایس ایس پی ملیرراؤ انوار اور ان کی شوٹر ٹیم کی8 سال کی تعیناتی کے دوران ریتی، بجری ، منشیات، لینڈ مافیا سے بھتہ اور مبینہ مقابلوں کے دوران ہلاک کیے جانے والے مبینہ دہشت گردوں کا مرتب کیے جانے والا اہم ریکارڈ حاصل کرنے میں تاحال ناکام رہی۔

تفصیلات کے مطابق نقیب اﷲ قتل کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی عابد قائم خانی اور ایس ایس پی ملیر سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور اس کی شوٹر ٹیم کو گرفتارکرنا تو دور کی بات ہے وہ ابھی تک سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار اور اس کی شوٹر ٹیم کے مبینہ پولیس مقابلوں کے حوالے سے اپنے طور پر مرتب کیے جانے والے اہم ریکارڈ بھی برآمد کرنے میں تاحال ناکام نظر آرہے ہیں اس حوالے سے ملیر انویسٹی گیشن کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے پر بتایاکہ نقیب اﷲ قتل کیس میں مفرور ملزم ایس پی راؤ انوار ملیر ڈسٹرکٹ میں 8سال سے زائد ایس ایس پی ملیر تعینات رہے اور ان کے ساتھ مفرور ملزمان جو محکمہ پولیس کے ملازم رہے وہ بھی راؤ انوار کے ساتھ اتنے ہی عرصے سے ملیر ڈسٹرکٹ کے مختلف تھانوں کے ڈ ی ایس پیز ،ایس ایچ اوز ، ہیڈ محرران ، چوکیوں کے انچارجز، شعبہ انویسٹی گیشن میں اہم پوسٹوں پر تعینات تھے اتنے عرصے میں ان پولیس افسران و اہلکاروں نے ڈسٹرکٹ ملیر کے مختلف علاقوں میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔

اس طرح کراچی کا یہ واحد ڈسٹرکٹ تھا جس میں وزیر اعلیٰ سندھ ، وزیرداخلہ سندھ اور آئی جی سندھ بھی مداخلت کرنے سے قبل سوچتے تھے انہی وجوہ پر محکمہ پولیس میں یہ تاثر پھیلا ہو ا تھا کہ ایک ایس پی رینک کا افسر اتنا طاقتور ہے کہ اعلیٰ افسران بھی اس کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرتے، مفرور ملزم راؤ انوار نے اعلی افسران کے اس خوف کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور اس نے ڈسٹرکٹ ملیر میں 8سالوں کے دوران مبینہ پولیس مقابلوں و دیگر جرائم پیشہ افراد کے سرکاری ریکارڈکے علاوہ اپنی شوٹر ٹیم کے مبینہ مقابلوں کا ریکارڈ بنایا ہوا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اصل ریکارڈ وہی جو ایس ایس پی راؤانوار کے پاس ہوتا ہے ، ذرائع نے بتایا کہ اس ریکارڈ میں ہلاک و گرفتار کیے جانے والے ملزمان کا اصل بائیو ڈیٹا ، انٹروگیشن رپورٹس، نیٹ ورک سے متعلق معلومات، موبائل فونز و دیگر دستاویزات شامل ہوتے تھے۔جو راؤ انوار فرار ہوتے وقت اپنے ہمراہ ہی لے گیا۔


ذرائع نے بتایا کہ نقیب اﷲ قتل کیس کا معاملہ جیسے ہی میڈیا پر آنا شروع ہوا تو راؤ انوار نے فوری طور پر اپنے خاص چہیتے پولیس اہلکار ( شنکر ) کے ذریعے تمام ریکارڈ دفتر سے غائب کرادیا اور اپنی شوٹر ٹیم کو بھی سختی کہا کہ اپنے کالے کرتوتوں کا ریکارڈ تھانوں سے فوری طورپر غائب کردیں، انویسٹی گیشن برانچ کے افسر کے مطابق سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور اس کی شوٹر ٹیم مبینہ پولیس مقابلے سے قبل ہلاک ملزمان کا وڈیو بیان اور مقابلے کی فلمبندی بھی کیا کرتے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مقابلے میں مارے جانے والے اور گرفتار کیے جانے والے ملزمان کا تھانوں کے سرکاری ریکارڈ میں وہ ہی معلومات شامل کی جاتی تھی جو ایس ایس ملیر ڈسٹرکٹ کا حکم ہوتا تھا لیکن اصل ریکارڈ وہی تھا جو لیکر فرار ہوئے ، ذرائع کے مطابق سابق ا یس ایس پی ملیر راؤ انوار کے قریبی اور چہیتے اہلکار شنکر کو حراست میں لیا جائے تو راؤ انوار کے تمام کالے کرتوتوں کی نشاندہی ہوسکتی ہے اور وہ اہم شواہد بھی فراہم کرسکتا ہے، ذرائع نے بتایا کہ سابق ایس ایچ او سہراب گوٹھ و مفرور ملزم شعیب شیخ عرف شوٹر، سابق ایس ایچ او شاہ لطیف مفرور ملزم امان اﷲمروت اور سابق عباس ٹاؤن چوکی انچارج علی اکبر ملاح اپنے اپنے تھانوںاور چوکی سے ریکارڈ اور مبینہ سامان اپنی گاڑیوں میں ڈال کر فرار ہوئے تھے، ذرائع کا کہنا تھا کہ مبینہ سامان میں غیرقانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد بھی شامل تھا جو راؤ انوار کی ٹیم مبینہ مقابلوں کے دوران ہلاک ملزمان کے قبضے برآمد کرنے کا دعوٰی کرتے تھے ۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے ملیر ضلع میں ریتی بجری، منشیات اور لینڈ مافیا سے پولیس کو حاصل ہونے والے بھتے کا حساب کتاب اور اہم مافیا کے کارندوں اور ان سے لین دین میں ملوث پولیس اہلکاروں سے متعلق تفصیلات کا ریکارڈ بھی رکھتا تھا جس میں بھتے دینے ، بھتہ وصول کرنے والے بیٹرز کے نام اور بھتے کی رقم لکھی ہوتی ہے کا ریکارڈ بھی تھانوں اور اپنے دفتر سے غائب کرادیا ہے، اس حوالے سے نمائندہ ایکسپریس نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائم خانی سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم انھوں نے فون ریسیو کرنے کی زحمت نہیں کی جس کی وجہ سے ان کا موقف سامنے نہیں آسکا۔
Load Next Story