کم خوابی کا تیزی سے پھیلتا ہوا مرض
بے خوابی کا علاج نیند لانے کی گولیاں اور دوائیں نہیں بلکہ زندگی گذارنے کے انداز میں تبدیلی لانا ہے
آج کل جس کا حال پوچھیں وہ شب بیداری کا مارا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو جہاں آسائشوں اورسہولیات کا عادی بنا دیا ہے، وہیں اس دور میں رہنے والوں کی نیندیں بھی اڑا کر رکھ دی ہیں، جنھیں اپنی الیکٹرونک ڈیوائسسز سے اس قدر لگاؤ ہوچکا ہے کہ اب اس کے بغیر ایک پل کاٹنا مشکل لگتا ہے۔
لوگوں کی چہروں کی رونقین اسمارٹ فونز کی نیلی روشنیوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہیں اور آہستہ ہستہ اس مرض میں افاقہ آنے کے بجائے اس کی علامات شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ان دنوں جو روایت عام ہو چلی ہے اس کے مطابق، اب لوگ بالمشافہ ملاقات کے بجائے فاصلے سے ملنا زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔
دنیا کے طول و ارض میں بسنے والوں کے لیے خیالی دنیا میں ملاقات کے لیے دن اور رات کی کوئی قید نہیں ہے۔ نتیجتاً شب بیداری کا مرض دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک ایک وبائی شکل کی صورت میں پھیلتا جارہا ہے۔ وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کی مدت کے دوران نیند کی کمی کا شکار افراد کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے لیے ماہرین الیکٹرانک ڈیوائسسز، آئی پیڈ، اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹ کو مورد الزام ٹہراتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو سونے سے ایک گھنٹہ یا دوگھنٹے پہلے تک موبائل فونز اور لیپ ٹاپ ,آئی پیڈ جیسی ڈیوائسسز کا استعمال انسان کی نیند میں خلل اور بے سکونی پیدا کرتا ہے۔ اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنیاں غنودگی کو کم کرتی ہیں اورسونا دشوار بنا دیتی ہیں۔ ایک بالغ فرد کی اوسط نیند کا دورانیہ ساڑھے سات گھنٹے سے آٹھ گھنٹے طویل ہونا چاہیئے۔ لیکن سات گھنٹے سیکم نیند کو مسائل کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا نیند کی کمی کا شکار ہونا صحت کے مختلف مسائل مثلا ذیابیطس، موٹاپا اور کینسر جیسے موذی مرض کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیجٹس سے خارج ہونے والی ایل ای ڈی روشنیاں یا نیلی روشنیاں ہماری جسم کی قدرتی گھڑی کے توازن کو بگاڑ دیتی ہیں۔ مصنوعی روشنی کی موجودگی میں گہری نیند کے باعث بننے والے ہارمون، 'میلا ٹونین' کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس سے بے خوابی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ سونے سے قبل ایسی ڈیوائسسز کے استعمال سے پر ہیز کیا جائے۔
ان کے مطابق اچھی اور گہری نیند کے متلاشی افراد کو اگلے روز کی مصروفیات کی ایک فہرست بنا لینی چاہیئے اس طرح دماغ پر زیادہ بوجھ نہیں ہوگا یا پھر رات میں اگر کیلا کھا لیا جائے تو اس سے بھی افاقہ حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ کیلے کارپوہائیڈریٹ اور پٹھوں کو آرام پہنچانے والی معدنیات سے مالا مال ہے۔ اگر پھر بھی نیند نہیں آتی ہے تو دماغ کو تھکا کر سلانے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ دیر کے لیے حروف تہجی سے جانوروں کے نام دہرائے جائیں یا پھر جگسا پزل بنانا بھی نیند لانے کے حربے کے طور پر کامیاب خیال کیا جاتا ہے۔
ایک امریکی مفکر کی کہاوت ہے کہ ، رات میں جلدی سونے اور صبح سویرے بیدار ہونے کی عادت ایک شخص کو تندرست ، ذہین اور دولتمند بنا دیتی ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق نیند کے سائیکل یا حیاتیاتی گھڑی میں تبدیلی کا اثر ہمارے جسم کی ہرچیزکو متاثر کرتا ہے۔ رات کی شفٹ میں کام کرنے سے جسم کی اندرونی گھڑی کا توازن بگڑ جاتا ہے بلکہ عمومی طور پر سونے کے اوقات میں جاگنے کی وجہ سے ہماری جینیات کو نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے صحت سے متعلق کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
گزشتہ کئی تحقیقوں میں بھی رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں نیند کی کمی کی وجہ سے ذیابیطس، دل کے دورے اور کینسر کے خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی تاہم ماہرین نے کہا کہ ایک رات جاگ کر کام کرنے کے منفی اثرات ڈی این اے کے فطری اجزائے ترکیبی میں انتہائی تیزی سے بگاڑ کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق نیند کے سائیکل یا حیاتیاتی گھڑی میں تبدیلی کا اثر ہمارے جسم کی ہرچیز کو متاثر کرتا ہے جس سے ہمارے جسم کا درجہ حرارت، ہارمونز، جسمانی صحت، موڈ اور دماغ کے افعال میں بھی تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔
برطانوی محققین نے 22 شرکاء کوایک ایسی جگہ پر رکھا گیا جہاں دن کی روشنی نہیں پہنچتی تھی اور رات کا سا اندھیرا چھایا رہتا تھا مشاہدے کا حصہ بننے والے افراد دن کی شفٹ میں کام کرنے والے ملازمین تھے جن کے سونے کے معمولات کو رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں تبدیل کیا گیا جس کے بعد ان کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔ جب ایک رضا کار نے رات کی شفٹ میں کام کرنا شروع کیا تو اس کی جینیاتی ٹیوننگ تبدیل ہوگئی خون کے نمونوں سے ظاہر ہوا کہ سیکیڈین کلاک رکھنے والی جین کی سرگرمیوں میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جسم میں موجود ہرٹشو دن بھر اسی گھڑی کیساتھ تال میل کو برقرار رکھتا ہے۔ اس امر کی وضاحت یوں کی گئی کہ اسے ایک قسم کی افراتفری کہا جا سکتا ہے یا پھر اس کی مثال ایک ایسے گھر میں رہنے والوں کی ہے جن کے ہر کمرے میں گھڑی موجود ہے لیکن ہر گھڑی غلط وقت بتا رہی ہے جس کے نتیجے میں گھر والوں کے لیے وقت کا تعین کرنا مشکل ہو گیا ہے اور نتیجتاً گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
اسی طرح جسم کی حیاتیاتی گھڑی میں چھیڑ چھاڑ کا انجام بالآخر ہم آہنگ جین کوغیر متوازن کرنے پر تمام ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں تقریبا 6 فیصد ایسی جینز ہیں جن میں یہ قدرتی گھڑی موجود ہے جن کی سرگرمی دن کے بعض اوقات کے لیے مخصوص ہوتی ہے ان میں کچھ سیکیڈین جین رات میں فعال ہوتی ہیں جبکہ کچھ جین دن کے وقت زیادہ فعال رہتی ہیں تاہم نتیجے سے پتا چلا کہ 97 فیصد سے زائد متوازن اور ہم آہنگ جین نیند کی قدرتی ہم آہنگی سے محروم ہو چکی تھی جس سے اس بات کی وضاحت بھی ہوتی ہے کہ بے قاعدہ شفٹ میں کام کرنا یا جیٹ لاگ ہونے کی صورت میں ہمیں کیوں اتنا برا لگتا ہے۔ اس تحقیق میں شامل ایک محقق کے مطابق ''ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نیند کے فطری عمل کو متاثر کرنے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ہمارا نتیجہ اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلی سیڑھی ہے کہ قدرتی نیند کا عمل متاثر ہونے پر حیاتیاتی گھڑی اورسیکیڈین کلاک رکھنے والی جین میں کون سی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔''
ایک آن لائن اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق بہت سے لوگوں کے لیے نہ صرف صبح اٹھنا مشکل ہوتا ہے بلکہ انہیں صبح کے وقت بجنے والے الارم کو بند کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے صبح جلدی اٹھنا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ الارم کی آواز تکلیف دیتی ہے۔ بہت سے لوگ الارم کی پہلی آواز پر نہیں اٹھتے بلکہ الارم بند بھی کر دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے نہ صرف صبح اٹھنا مشکل ہوتا ہے بلکہ انہیں صبح کے وقت بجنے والے الارم کو بند کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔بہت سے لوگ مختصر وقفے کے بعد الارم بجنے والے بٹن کو دباتے رہتے ہیں۔ اس بٹن کے لیے انگریزی میں 'سنوز' کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
'سنوز' بٹن دبانے سے الارم وقفے وقفے کے بعد بجتا ہے۔آن لائن اخبار کہتا ہے کہ سْنوز بٹن دبانے سے انسان کو فائدے کی بجائے زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ صبح کے وقت جب آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور جس وقت بہت سے لوگ عادت سے مجبور ہر کر سْنوز کا بٹن دباتے ہیں، وہ لمحات بہت اہم ہوتے ہیں اور اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ آپ کا پورا دن کیسا گزرے گا۔ الارم کو بار بار بند کرنے اور سْنوز کا بٹن دباتے رہنے کی عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے ماہرین روزمرہ کی زندگی میں چند تبدیلیاں لانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پرسکون اور اچھی نیند کے لیے ان طریقوں سے مدد مل سکتی ہے۔
سونے کے لیے بستر پر جانے سے پہلے دن بھر کی پریشانیوں اور مسائل کو بھول جائیے اور ان کے بارے میں ہرگز ہرگز نہ سوچیئے۔ ایسے وقت میں سونے کی کوشش کریں جب آپ تھکے ہوئے ہوں۔ ہلکا پھلکا لباس پہنیں۔ تکیے کو سرکے نیچے اس انداز میں رکھیں کہ آپ کو آرام محسوس ہو۔ روشنی بجھا دیں۔ کمرے کا درجہ حرارت ایسا ہونا چاہیے جس پر آپ سکون محسوس کریں۔ اگر بستر پر 15 منٹ تک لیٹے رہنے کے بعد بھی نیند آتی محسوس نہ ہوتو آنکھیں بند کر کے لیٹے رہنے کی بجائے کوئی ایسا کام شروع کریں جس سے ذہنی دباؤ میں کمی آئے اور آپ سکون محسوس کریں۔ مثلاً کچھ پڑھیں یا کچھ لکھیں۔ تاہم ٹیلی ویڑن دیکھنے سے احتراز کریں۔ احادیث مبارکہ میں بتائے گئے رات کو سونے سے قبل کے سنت اعمال اس ضمن میں بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں۔ رات کی پرسکون نیند کے لیے دن کے وقت قیلولہ مختصر کریں۔
سوتے وقت سگریٹ یا تمباکو کی مصنوعات سے دور رہیں۔ بھوکے پیٹ یا بہت زیادہ کھانے کے فوراً بعد سونے کی کوشش نہ کریں۔ بہتر نیند کے لیے ضروری ہے کہ رات کا کھانا ہلکا پھلکا اور زودہضم ہو۔ باقاعدگی سے وزرش کی عادت اپنائیں اور رات کو سونے سے کم ازکم تین گھنٹے پہلے تک کوئی سخت ورزش نہ کریں۔ جلدی سونے کی عادت اپنائیے۔ اگر آپ صبح صحیح وقت پر اٹھنا چاہتے ہیں تو آپ کو جلد سونے کی عادت اپنانی چاہیئے۔ اس سے نیند کا دورانیہ درست رہتا ہے اور آپ صبح ہشاش بشاش اٹھتے ہیں۔ صبح کے وقت سست روی کا مظاہرہ کریں۔ صبح الارم کی پہلی آواز کے ساتھ اٹھنا اور تیزی سے تمام امور نمٹانا ممکن نہیں ہے۔ اپنے آپ کو وقت دیجئے، آرام سے اٹھئے اور بے شک سست روی سے اپنے کاموں کا آغاز کیجئے۔ لیکن اس کے لیے بستر سے نکلنا شرط ہے۔ صبح کی روشنی کمرے میں آنے دیجیئے۔ ایک اچھی صبح کے آغاز کے لیے ضروری ہے کہ آپ صبح اٹھ کر اپنے کھڑکی کے پردے سرکائیے اور روشنی کو اندر آنے دیجیے۔
ماہرین نے تحقیق میں یہ بات بھی نوٹ کی کہ نیند کے دوران انسان کے دماغ کے خلیے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے مہلک مادے خارج ہونے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ نیند انسانی جسم کے لیے کتنی ضروری ہے اس پر ہمیشہ ہی زور دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دوران ِ نیند ہمارا دماغ کس طرح سے کام کرتا ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق جب ہم سوتے ہیں تو ہمارا دماغ نہ صرف ہمیں اگلے دن کے لیے تازہ دم کر رہا ہوتا ہے بلکہ ہمیں دماغ کی بیماریوں جیسا کہ الزائمرز سے بھی بچا رہا ہوتا ہے۔ نیند ہمارے دماغ میں سے وہ مہلک مادے نکال دیتی ہے جن کی وجہ سے انسان دماغ کے مختلف مہلک امراض کا شکار ہو سکتا ہے۔
یہ تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ جاگتے ہوئے اور دوران ِ نیند مختلف امور سرانجام دیتا ہے۔ تحقیق دانوں کے مطابق انسانی دماغ منفرد انداز میں مہلک مادے خارج کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ 'گلائیمفیٹک سسٹم' کا استعمال کرتا ہے۔ یہ سسٹم نیند کے دوران پورے عروج پر کام کرتا ہے، انسانی دماغ سے وہ مہلک مادے خارج کرتا ہے جو یادداشت سے متعلق بیماری الزائمرز کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین نے اس تحقیق میں یہ بات بھی نوٹ کی کہ نیند کے دوران انسان کے دماغ کے خلیے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے مہلک مادے خارج ہونے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ تحقیق دانوں کے مطابق نیند کے دوران انسانی دماغ کے خلیے 60 فیصد تک سکڑ جاتے ہیں۔ خلیوں کے سکڑنے سے خلیوں کے درمیان زیادہ جگہ بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے مہلک مادے بآسانی خارج ہو جاتے ہیں۔اس تحقیق سے یادداشت سے متعلق مرض 'الزائمرز' کو ٹھیک کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔'
نیند کی کمی آنکھوں کے نیچے سیاہ دھبوں سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے؟ نیند کی کمی ذہنی دباؤ (Depression) اور پریشانی (Anxiety) کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، ان لوگوں میں منفی سوچ یا برے خیالات آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو8 گھنٹوں سے کم سوتے ہیں۔ یہ بات انسان میں نیند اور دماغی صحت کے آپس کے گہرے تعلق کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ محققین کے مطابق، کم نیند کی وجہ سے انسان کے دماغ میں منفی سوچ پیدا ہوجاتی ہے اور پھر یہ دوسرے لوگوں کی زندگی کو بدمزہ کرنے کا باعث بنتی ہے اور یہ منفی سوچ لوگوں کو پریشانی اور ذہنی دباؤ جیسی نفسیاتی بیماریوں کے لیے غیر محفوظ کر دیتی ہے۔
نیند پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے کے مطابق، بیخوابی کے مریضوں کو اچھی نیند لینے والوں سے 10 گنا زیادہ ذہنی دباؤ جیسی بیماری کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے، اگر کم سونا پریشانی اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے تو نیند کی کمی کو پورا کرنا ان وجوہات کے خاتمے میں مدد دے سکتا ہے۔ آپ خود ہی اپنے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کو کتنی نیند کی ضرورت ہے۔ اگر آپ صبح اٹھنے کے بعد بھی تھکن محسوس کرنے ہیں تو شاید آپ کو مزید نیند کی ضرورت ہے۔ عمر کے لحاظ سے نیند سے متعلق حالیہ سفارشات کے مطابق، سکول جانے والے (6 سے 13 سال) کے بچوں کو 9 سے 11 گھنٹے، نوجوانوں (14 سے17 سال) کو 8 سے 10 گھنٹے، بالغ لوگوں (26 سے 64 سال کو 7 سے 9 گھنٹے اور عمر رسیدہ افراد (65 سال سے زیادہ عمر) کو 7 سے 8 گھنٹے نیند لینی چاہیے۔
چائے، کافی، چاکلیٹ اور سگریٹ جیسی اشیا بھی اچھی نیند میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ ان چیزوں کا استعمال سونے سے 4 گھنٹے پہلے ترک کر دینا چاہیے۔ روز ایک ہی وقت سونے سے بھی نیند لینے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ سونے سے پہلے نہانا، کمرے میں خاموشی اور اندھیرا رکھنا اور سونے کے کمرے میں درجہ حرارت کم رکھنا اچھی نیند کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ہو سکے تو اپنے فون اور اس جیسے دوسرے آلات کو اپنی آنکھوں سے دور رکھ کر سونے کی کوشش کریں۔ یہ طریقہ اچھی اور مسلسل نیند کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
نیند کا علاج نیند لانے کی گولیاں اور دوائیں نہیں بلکہ زندگی گذارنے کے انداز میں تبدیلی لانا ہے۔ تاہم کم خوابی اور بے خوابی کی شدید صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہوتاہے۔ جدید سائنسی دور جہاں انسان کے لیے بیشمارآسائشیں اور سہولتیں لایا ہے وہاں نئی ایجادات نے اکثر لوگوں کو پرسکون نیند کے لطف سے بھی محروم کردیا ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد بہت سے لوگ نیند نہ آنے کی شکایت کرتے نظر آئیں گے۔ اور جو زبان سے یہ شکایت نہیں کرتے ، ان کی جسمانی کیفیت دیکھ کر آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی آنکھیں اچھی نیند سے محروم ہیں۔ ایسے افراد یا تو اونگھتے ہوئے یا پھر تھکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
نیند کی کمی یا بے خوابی کا تعلق بہت سی چیزوں سے ہے۔ بعض دائمی امراض بھی بے خوابی کا سبب بن جاتے ہیں۔ مثلاً ذیابیطس ، ذہنی دباؤ، موٹاپے اور دل کے امراض میں مبتلا افراد اکثر نیند کی کمی کی شکایت کرتے پائے گئے ہیں۔ نیند کی کمی سے انسان نہ صرف دن بھر سست رہتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں بہتر طورپر انجام نہیں دے پاتا بلکہ کم خوابی سڑکوں پر ہونے والے کئی مہلک حادثوں کی وجہ بھی بنتی ہے۔ اسی طرح کئی بار مشینوں پر کام کرنے والے بے خوابی کے مریض سنگین حادثات کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ایک حالیہ جائزے سے ظاہر ہواہے کہ تقریباً دس فی صد افراد شدید بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ نیند عیاشی نہیں ہے بلکہ انسان کی ایک اہم ترین بنیادی ضرورت ہے۔ کم خوابی اور بے خوابی کی شدید صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہوتاہے کیونکہ بعض عوارض بھی نیند میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بے خوابی کی وجہ سوتے میں سانس لینے پیش آنے والی رکاوٹیں ہوں تو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ سوتے میں آنکھ کھلنے کی وجہ پوری مقدار میں آکسیجن کا نہ ملنا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں بعض سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں جن میں آکسیجن کی کمی کے باعث دماغ کی کارکردگی کا متاثر ہونا، نیم بے ہوشی طاری ہونا ، خون کا زیادہ دباؤ اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔
کئی مطالعاتی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ ٹین ایجرز اتنا وقت نہیں سوتے جتنی کہ انہیں ضرورت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی پڑھائی اور صحت دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ روشنی کی مقدار اور اس کے بعض رنگ نیند کو بہتر بنانے میں مفید کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹین ایجرز پر کیے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے میں ان کی سونے کی عادات کیے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی تحقیق کی گئی کہ زرد رنگ کی روشنی ان کے سونے کے اوقات کو اس طرح متاثر کرتی ہے۔کچھ والدین اپنے بچوں کو رات کے وقت سونے میں مدد کے لیے انہیں دوائیں دیتے ہیں لیکن اپنی تحقیق کے ذریعے یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا اس سلسلے میں کوئی زیادہ بہتر قدرتی متبادل موجود ہے۔ تحقیقی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ تقریباً 13 سال کی عمر میں سونے کے انداز میں نمایاں تبدیلی شروع ہو جاتی ہے۔
اس وقت جسم کے اندر موجود وقت کا اندازہ لگانے والا قدرتی نظام یا بایولاجیکل کلاک نئے سرے سے سیٹ ہوتا ہے اور نیند لانے میں مدد دینے والا ہارمون میلاٹونن (melatonin) دن کے بعد کے حصے میں پیدا ہوتا ہے اور روشنی اس مخصوص ہارمون کو متاثر کرتی ہے۔ ان مطالعاتی جائزے کا مقصد ٹین ایجرز کو جلد سونے کی طرف مائل کرنے کے لیے روشنی کے استعمال سے ان کے نیند کے مراحل اور انداز پر روشنی کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرنا تھا۔ اس جائزے سے معلوم ہوا کہ اگر ٹین ایجرز زیادہ وقت صبح کی روشنی میں رہیں، خاص طور پر نیلے رنگ کی شعاعوں میں، تو ان کے سونے کا پرانا سسٹم یا ان کا باڈی کلاک بحال ہو سکتا ہے اور انہیں ایک بار پھر نیند پرانے وقت پر آسکتی ہے۔
نیلے رنگ کی روشنی کی شعاعیں ٹین ایجرز کے اندرونی جسمانی نظام کی رفتار کو دن اور رات کے قدرتی اوقات سے ایک بار پھر ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ صبح کی قدرتی روشنی نہ ملنے کی صورت میں عمومی طور پر طالب علم رات کو دیر سے سوتے ہیں۔ جائزے سے یہ بھی پتا چلا کہ سہ پہر کی دھوپ بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس جائزے سے صرف یہی ظاہر نہیں ہوا کہ صبح کی روشنی ٹین ایجرز کو اپنی نیند کے پرانے وقت پر سونے میں مدد کے لیے اہم ہے بلکہ اس سلسلے میں رات کو کمرے میں جلائی جانے والی روشنی میں کمی بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے سہ پہر کے وقت نیلی شعاعوں کو روکنے کے لیے زرد رنگ کے شیشوں کی عینکوں کا استعمال بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
نوجوان طالب علموں کے لیے صبح کی روشنی کی مقدار میں اضافہ کر کے ان میں سونے کی اچھی عادات پیدا کرنے میں اسکول اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اور وہ اس طرح کہ یا تو کلاس کے کمروں کو زیادہ روشن بنا دیا جائے یا صبح کے وقت انہیں کلاسوں سے باہر کھلی جگہ پر کچھ وقت گزارنے کی سہولت دی جائے۔
لوگوں کی چہروں کی رونقین اسمارٹ فونز کی نیلی روشنیوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہیں اور آہستہ ہستہ اس مرض میں افاقہ آنے کے بجائے اس کی علامات شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ان دنوں جو روایت عام ہو چلی ہے اس کے مطابق، اب لوگ بالمشافہ ملاقات کے بجائے فاصلے سے ملنا زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔
دنیا کے طول و ارض میں بسنے والوں کے لیے خیالی دنیا میں ملاقات کے لیے دن اور رات کی کوئی قید نہیں ہے۔ نتیجتاً شب بیداری کا مرض دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک ایک وبائی شکل کی صورت میں پھیلتا جارہا ہے۔ وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کی مدت کے دوران نیند کی کمی کا شکار افراد کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے لیے ماہرین الیکٹرانک ڈیوائسسز، آئی پیڈ، اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹ کو مورد الزام ٹہراتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو سونے سے ایک گھنٹہ یا دوگھنٹے پہلے تک موبائل فونز اور لیپ ٹاپ ,آئی پیڈ جیسی ڈیوائسسز کا استعمال انسان کی نیند میں خلل اور بے سکونی پیدا کرتا ہے۔ اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنیاں غنودگی کو کم کرتی ہیں اورسونا دشوار بنا دیتی ہیں۔ ایک بالغ فرد کی اوسط نیند کا دورانیہ ساڑھے سات گھنٹے سے آٹھ گھنٹے طویل ہونا چاہیئے۔ لیکن سات گھنٹے سیکم نیند کو مسائل کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا نیند کی کمی کا شکار ہونا صحت کے مختلف مسائل مثلا ذیابیطس، موٹاپا اور کینسر جیسے موذی مرض کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیجٹس سے خارج ہونے والی ایل ای ڈی روشنیاں یا نیلی روشنیاں ہماری جسم کی قدرتی گھڑی کے توازن کو بگاڑ دیتی ہیں۔ مصنوعی روشنی کی موجودگی میں گہری نیند کے باعث بننے والے ہارمون، 'میلا ٹونین' کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس سے بے خوابی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ سونے سے قبل ایسی ڈیوائسسز کے استعمال سے پر ہیز کیا جائے۔
ان کے مطابق اچھی اور گہری نیند کے متلاشی افراد کو اگلے روز کی مصروفیات کی ایک فہرست بنا لینی چاہیئے اس طرح دماغ پر زیادہ بوجھ نہیں ہوگا یا پھر رات میں اگر کیلا کھا لیا جائے تو اس سے بھی افاقہ حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ کیلے کارپوہائیڈریٹ اور پٹھوں کو آرام پہنچانے والی معدنیات سے مالا مال ہے۔ اگر پھر بھی نیند نہیں آتی ہے تو دماغ کو تھکا کر سلانے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ دیر کے لیے حروف تہجی سے جانوروں کے نام دہرائے جائیں یا پھر جگسا پزل بنانا بھی نیند لانے کے حربے کے طور پر کامیاب خیال کیا جاتا ہے۔
ایک امریکی مفکر کی کہاوت ہے کہ ، رات میں جلدی سونے اور صبح سویرے بیدار ہونے کی عادت ایک شخص کو تندرست ، ذہین اور دولتمند بنا دیتی ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق نیند کے سائیکل یا حیاتیاتی گھڑی میں تبدیلی کا اثر ہمارے جسم کی ہرچیزکو متاثر کرتا ہے۔ رات کی شفٹ میں کام کرنے سے جسم کی اندرونی گھڑی کا توازن بگڑ جاتا ہے بلکہ عمومی طور پر سونے کے اوقات میں جاگنے کی وجہ سے ہماری جینیات کو نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے صحت سے متعلق کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
گزشتہ کئی تحقیقوں میں بھی رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں نیند کی کمی کی وجہ سے ذیابیطس، دل کے دورے اور کینسر کے خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی تاہم ماہرین نے کہا کہ ایک رات جاگ کر کام کرنے کے منفی اثرات ڈی این اے کے فطری اجزائے ترکیبی میں انتہائی تیزی سے بگاڑ کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق نیند کے سائیکل یا حیاتیاتی گھڑی میں تبدیلی کا اثر ہمارے جسم کی ہرچیز کو متاثر کرتا ہے جس سے ہمارے جسم کا درجہ حرارت، ہارمونز، جسمانی صحت، موڈ اور دماغ کے افعال میں بھی تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔
برطانوی محققین نے 22 شرکاء کوایک ایسی جگہ پر رکھا گیا جہاں دن کی روشنی نہیں پہنچتی تھی اور رات کا سا اندھیرا چھایا رہتا تھا مشاہدے کا حصہ بننے والے افراد دن کی شفٹ میں کام کرنے والے ملازمین تھے جن کے سونے کے معمولات کو رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں تبدیل کیا گیا جس کے بعد ان کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔ جب ایک رضا کار نے رات کی شفٹ میں کام کرنا شروع کیا تو اس کی جینیاتی ٹیوننگ تبدیل ہوگئی خون کے نمونوں سے ظاہر ہوا کہ سیکیڈین کلاک رکھنے والی جین کی سرگرمیوں میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جسم میں موجود ہرٹشو دن بھر اسی گھڑی کیساتھ تال میل کو برقرار رکھتا ہے۔ اس امر کی وضاحت یوں کی گئی کہ اسے ایک قسم کی افراتفری کہا جا سکتا ہے یا پھر اس کی مثال ایک ایسے گھر میں رہنے والوں کی ہے جن کے ہر کمرے میں گھڑی موجود ہے لیکن ہر گھڑی غلط وقت بتا رہی ہے جس کے نتیجے میں گھر والوں کے لیے وقت کا تعین کرنا مشکل ہو گیا ہے اور نتیجتاً گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
اسی طرح جسم کی حیاتیاتی گھڑی میں چھیڑ چھاڑ کا انجام بالآخر ہم آہنگ جین کوغیر متوازن کرنے پر تمام ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں تقریبا 6 فیصد ایسی جینز ہیں جن میں یہ قدرتی گھڑی موجود ہے جن کی سرگرمی دن کے بعض اوقات کے لیے مخصوص ہوتی ہے ان میں کچھ سیکیڈین جین رات میں فعال ہوتی ہیں جبکہ کچھ جین دن کے وقت زیادہ فعال رہتی ہیں تاہم نتیجے سے پتا چلا کہ 97 فیصد سے زائد متوازن اور ہم آہنگ جین نیند کی قدرتی ہم آہنگی سے محروم ہو چکی تھی جس سے اس بات کی وضاحت بھی ہوتی ہے کہ بے قاعدہ شفٹ میں کام کرنا یا جیٹ لاگ ہونے کی صورت میں ہمیں کیوں اتنا برا لگتا ہے۔ اس تحقیق میں شامل ایک محقق کے مطابق ''ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نیند کے فطری عمل کو متاثر کرنے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ہمارا نتیجہ اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلی سیڑھی ہے کہ قدرتی نیند کا عمل متاثر ہونے پر حیاتیاتی گھڑی اورسیکیڈین کلاک رکھنے والی جین میں کون سی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔''
ایک آن لائن اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق بہت سے لوگوں کے لیے نہ صرف صبح اٹھنا مشکل ہوتا ہے بلکہ انہیں صبح کے وقت بجنے والے الارم کو بند کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے صبح جلدی اٹھنا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ الارم کی آواز تکلیف دیتی ہے۔ بہت سے لوگ الارم کی پہلی آواز پر نہیں اٹھتے بلکہ الارم بند بھی کر دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے نہ صرف صبح اٹھنا مشکل ہوتا ہے بلکہ انہیں صبح کے وقت بجنے والے الارم کو بند کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔بہت سے لوگ مختصر وقفے کے بعد الارم بجنے والے بٹن کو دباتے رہتے ہیں۔ اس بٹن کے لیے انگریزی میں 'سنوز' کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
'سنوز' بٹن دبانے سے الارم وقفے وقفے کے بعد بجتا ہے۔آن لائن اخبار کہتا ہے کہ سْنوز بٹن دبانے سے انسان کو فائدے کی بجائے زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ صبح کے وقت جب آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور جس وقت بہت سے لوگ عادت سے مجبور ہر کر سْنوز کا بٹن دباتے ہیں، وہ لمحات بہت اہم ہوتے ہیں اور اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ آپ کا پورا دن کیسا گزرے گا۔ الارم کو بار بار بند کرنے اور سْنوز کا بٹن دباتے رہنے کی عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے ماہرین روزمرہ کی زندگی میں چند تبدیلیاں لانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پرسکون اور اچھی نیند کے لیے ان طریقوں سے مدد مل سکتی ہے۔
سونے کے لیے بستر پر جانے سے پہلے دن بھر کی پریشانیوں اور مسائل کو بھول جائیے اور ان کے بارے میں ہرگز ہرگز نہ سوچیئے۔ ایسے وقت میں سونے کی کوشش کریں جب آپ تھکے ہوئے ہوں۔ ہلکا پھلکا لباس پہنیں۔ تکیے کو سرکے نیچے اس انداز میں رکھیں کہ آپ کو آرام محسوس ہو۔ روشنی بجھا دیں۔ کمرے کا درجہ حرارت ایسا ہونا چاہیے جس پر آپ سکون محسوس کریں۔ اگر بستر پر 15 منٹ تک لیٹے رہنے کے بعد بھی نیند آتی محسوس نہ ہوتو آنکھیں بند کر کے لیٹے رہنے کی بجائے کوئی ایسا کام شروع کریں جس سے ذہنی دباؤ میں کمی آئے اور آپ سکون محسوس کریں۔ مثلاً کچھ پڑھیں یا کچھ لکھیں۔ تاہم ٹیلی ویڑن دیکھنے سے احتراز کریں۔ احادیث مبارکہ میں بتائے گئے رات کو سونے سے قبل کے سنت اعمال اس ضمن میں بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں۔ رات کی پرسکون نیند کے لیے دن کے وقت قیلولہ مختصر کریں۔
سوتے وقت سگریٹ یا تمباکو کی مصنوعات سے دور رہیں۔ بھوکے پیٹ یا بہت زیادہ کھانے کے فوراً بعد سونے کی کوشش نہ کریں۔ بہتر نیند کے لیے ضروری ہے کہ رات کا کھانا ہلکا پھلکا اور زودہضم ہو۔ باقاعدگی سے وزرش کی عادت اپنائیں اور رات کو سونے سے کم ازکم تین گھنٹے پہلے تک کوئی سخت ورزش نہ کریں۔ جلدی سونے کی عادت اپنائیے۔ اگر آپ صبح صحیح وقت پر اٹھنا چاہتے ہیں تو آپ کو جلد سونے کی عادت اپنانی چاہیئے۔ اس سے نیند کا دورانیہ درست رہتا ہے اور آپ صبح ہشاش بشاش اٹھتے ہیں۔ صبح کے وقت سست روی کا مظاہرہ کریں۔ صبح الارم کی پہلی آواز کے ساتھ اٹھنا اور تیزی سے تمام امور نمٹانا ممکن نہیں ہے۔ اپنے آپ کو وقت دیجئے، آرام سے اٹھئے اور بے شک سست روی سے اپنے کاموں کا آغاز کیجئے۔ لیکن اس کے لیے بستر سے نکلنا شرط ہے۔ صبح کی روشنی کمرے میں آنے دیجیئے۔ ایک اچھی صبح کے آغاز کے لیے ضروری ہے کہ آپ صبح اٹھ کر اپنے کھڑکی کے پردے سرکائیے اور روشنی کو اندر آنے دیجیے۔
ماہرین نے تحقیق میں یہ بات بھی نوٹ کی کہ نیند کے دوران انسان کے دماغ کے خلیے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے مہلک مادے خارج ہونے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ نیند انسانی جسم کے لیے کتنی ضروری ہے اس پر ہمیشہ ہی زور دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دوران ِ نیند ہمارا دماغ کس طرح سے کام کرتا ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق جب ہم سوتے ہیں تو ہمارا دماغ نہ صرف ہمیں اگلے دن کے لیے تازہ دم کر رہا ہوتا ہے بلکہ ہمیں دماغ کی بیماریوں جیسا کہ الزائمرز سے بھی بچا رہا ہوتا ہے۔ نیند ہمارے دماغ میں سے وہ مہلک مادے نکال دیتی ہے جن کی وجہ سے انسان دماغ کے مختلف مہلک امراض کا شکار ہو سکتا ہے۔
یہ تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ جاگتے ہوئے اور دوران ِ نیند مختلف امور سرانجام دیتا ہے۔ تحقیق دانوں کے مطابق انسانی دماغ منفرد انداز میں مہلک مادے خارج کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ 'گلائیمفیٹک سسٹم' کا استعمال کرتا ہے۔ یہ سسٹم نیند کے دوران پورے عروج پر کام کرتا ہے، انسانی دماغ سے وہ مہلک مادے خارج کرتا ہے جو یادداشت سے متعلق بیماری الزائمرز کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین نے اس تحقیق میں یہ بات بھی نوٹ کی کہ نیند کے دوران انسان کے دماغ کے خلیے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے مہلک مادے خارج ہونے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ تحقیق دانوں کے مطابق نیند کے دوران انسانی دماغ کے خلیے 60 فیصد تک سکڑ جاتے ہیں۔ خلیوں کے سکڑنے سے خلیوں کے درمیان زیادہ جگہ بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے مہلک مادے بآسانی خارج ہو جاتے ہیں۔اس تحقیق سے یادداشت سے متعلق مرض 'الزائمرز' کو ٹھیک کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔'
نیند کی کمی آنکھوں کے نیچے سیاہ دھبوں سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے؟ نیند کی کمی ذہنی دباؤ (Depression) اور پریشانی (Anxiety) کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، ان لوگوں میں منفی سوچ یا برے خیالات آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو8 گھنٹوں سے کم سوتے ہیں۔ یہ بات انسان میں نیند اور دماغی صحت کے آپس کے گہرے تعلق کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ محققین کے مطابق، کم نیند کی وجہ سے انسان کے دماغ میں منفی سوچ پیدا ہوجاتی ہے اور پھر یہ دوسرے لوگوں کی زندگی کو بدمزہ کرنے کا باعث بنتی ہے اور یہ منفی سوچ لوگوں کو پریشانی اور ذہنی دباؤ جیسی نفسیاتی بیماریوں کے لیے غیر محفوظ کر دیتی ہے۔
نیند پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے کے مطابق، بیخوابی کے مریضوں کو اچھی نیند لینے والوں سے 10 گنا زیادہ ذہنی دباؤ جیسی بیماری کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے، اگر کم سونا پریشانی اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے تو نیند کی کمی کو پورا کرنا ان وجوہات کے خاتمے میں مدد دے سکتا ہے۔ آپ خود ہی اپنے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کو کتنی نیند کی ضرورت ہے۔ اگر آپ صبح اٹھنے کے بعد بھی تھکن محسوس کرنے ہیں تو شاید آپ کو مزید نیند کی ضرورت ہے۔ عمر کے لحاظ سے نیند سے متعلق حالیہ سفارشات کے مطابق، سکول جانے والے (6 سے 13 سال) کے بچوں کو 9 سے 11 گھنٹے، نوجوانوں (14 سے17 سال) کو 8 سے 10 گھنٹے، بالغ لوگوں (26 سے 64 سال کو 7 سے 9 گھنٹے اور عمر رسیدہ افراد (65 سال سے زیادہ عمر) کو 7 سے 8 گھنٹے نیند لینی چاہیے۔
چائے، کافی، چاکلیٹ اور سگریٹ جیسی اشیا بھی اچھی نیند میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ ان چیزوں کا استعمال سونے سے 4 گھنٹے پہلے ترک کر دینا چاہیے۔ روز ایک ہی وقت سونے سے بھی نیند لینے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ سونے سے پہلے نہانا، کمرے میں خاموشی اور اندھیرا رکھنا اور سونے کے کمرے میں درجہ حرارت کم رکھنا اچھی نیند کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ہو سکے تو اپنے فون اور اس جیسے دوسرے آلات کو اپنی آنکھوں سے دور رکھ کر سونے کی کوشش کریں۔ یہ طریقہ اچھی اور مسلسل نیند کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
نیند کا علاج نیند لانے کی گولیاں اور دوائیں نہیں بلکہ زندگی گذارنے کے انداز میں تبدیلی لانا ہے۔ تاہم کم خوابی اور بے خوابی کی شدید صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہوتاہے۔ جدید سائنسی دور جہاں انسان کے لیے بیشمارآسائشیں اور سہولتیں لایا ہے وہاں نئی ایجادات نے اکثر لوگوں کو پرسکون نیند کے لطف سے بھی محروم کردیا ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد بہت سے لوگ نیند نہ آنے کی شکایت کرتے نظر آئیں گے۔ اور جو زبان سے یہ شکایت نہیں کرتے ، ان کی جسمانی کیفیت دیکھ کر آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی آنکھیں اچھی نیند سے محروم ہیں۔ ایسے افراد یا تو اونگھتے ہوئے یا پھر تھکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
نیند کی کمی یا بے خوابی کا تعلق بہت سی چیزوں سے ہے۔ بعض دائمی امراض بھی بے خوابی کا سبب بن جاتے ہیں۔ مثلاً ذیابیطس ، ذہنی دباؤ، موٹاپے اور دل کے امراض میں مبتلا افراد اکثر نیند کی کمی کی شکایت کرتے پائے گئے ہیں۔ نیند کی کمی سے انسان نہ صرف دن بھر سست رہتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں بہتر طورپر انجام نہیں دے پاتا بلکہ کم خوابی سڑکوں پر ہونے والے کئی مہلک حادثوں کی وجہ بھی بنتی ہے۔ اسی طرح کئی بار مشینوں پر کام کرنے والے بے خوابی کے مریض سنگین حادثات کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ایک حالیہ جائزے سے ظاہر ہواہے کہ تقریباً دس فی صد افراد شدید بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ نیند عیاشی نہیں ہے بلکہ انسان کی ایک اہم ترین بنیادی ضرورت ہے۔ کم خوابی اور بے خوابی کی شدید صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہوتاہے کیونکہ بعض عوارض بھی نیند میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بے خوابی کی وجہ سوتے میں سانس لینے پیش آنے والی رکاوٹیں ہوں تو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ سوتے میں آنکھ کھلنے کی وجہ پوری مقدار میں آکسیجن کا نہ ملنا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں بعض سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں جن میں آکسیجن کی کمی کے باعث دماغ کی کارکردگی کا متاثر ہونا، نیم بے ہوشی طاری ہونا ، خون کا زیادہ دباؤ اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔
کئی مطالعاتی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ ٹین ایجرز اتنا وقت نہیں سوتے جتنی کہ انہیں ضرورت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی پڑھائی اور صحت دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ روشنی کی مقدار اور اس کے بعض رنگ نیند کو بہتر بنانے میں مفید کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹین ایجرز پر کیے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے میں ان کی سونے کی عادات کیے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی تحقیق کی گئی کہ زرد رنگ کی روشنی ان کے سونے کے اوقات کو اس طرح متاثر کرتی ہے۔کچھ والدین اپنے بچوں کو رات کے وقت سونے میں مدد کے لیے انہیں دوائیں دیتے ہیں لیکن اپنی تحقیق کے ذریعے یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا اس سلسلے میں کوئی زیادہ بہتر قدرتی متبادل موجود ہے۔ تحقیقی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ تقریباً 13 سال کی عمر میں سونے کے انداز میں نمایاں تبدیلی شروع ہو جاتی ہے۔
اس وقت جسم کے اندر موجود وقت کا اندازہ لگانے والا قدرتی نظام یا بایولاجیکل کلاک نئے سرے سے سیٹ ہوتا ہے اور نیند لانے میں مدد دینے والا ہارمون میلاٹونن (melatonin) دن کے بعد کے حصے میں پیدا ہوتا ہے اور روشنی اس مخصوص ہارمون کو متاثر کرتی ہے۔ ان مطالعاتی جائزے کا مقصد ٹین ایجرز کو جلد سونے کی طرف مائل کرنے کے لیے روشنی کے استعمال سے ان کے نیند کے مراحل اور انداز پر روشنی کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرنا تھا۔ اس جائزے سے معلوم ہوا کہ اگر ٹین ایجرز زیادہ وقت صبح کی روشنی میں رہیں، خاص طور پر نیلے رنگ کی شعاعوں میں، تو ان کے سونے کا پرانا سسٹم یا ان کا باڈی کلاک بحال ہو سکتا ہے اور انہیں ایک بار پھر نیند پرانے وقت پر آسکتی ہے۔
نیلے رنگ کی روشنی کی شعاعیں ٹین ایجرز کے اندرونی جسمانی نظام کی رفتار کو دن اور رات کے قدرتی اوقات سے ایک بار پھر ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ صبح کی قدرتی روشنی نہ ملنے کی صورت میں عمومی طور پر طالب علم رات کو دیر سے سوتے ہیں۔ جائزے سے یہ بھی پتا چلا کہ سہ پہر کی دھوپ بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس جائزے سے صرف یہی ظاہر نہیں ہوا کہ صبح کی روشنی ٹین ایجرز کو اپنی نیند کے پرانے وقت پر سونے میں مدد کے لیے اہم ہے بلکہ اس سلسلے میں رات کو کمرے میں جلائی جانے والی روشنی میں کمی بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے سہ پہر کے وقت نیلی شعاعوں کو روکنے کے لیے زرد رنگ کے شیشوں کی عینکوں کا استعمال بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
نوجوان طالب علموں کے لیے صبح کی روشنی کی مقدار میں اضافہ کر کے ان میں سونے کی اچھی عادات پیدا کرنے میں اسکول اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اور وہ اس طرح کہ یا تو کلاس کے کمروں کو زیادہ روشن بنا دیا جائے یا صبح کے وقت انہیں کلاسوں سے باہر کھلی جگہ پر کچھ وقت گزارنے کی سہولت دی جائے۔