نئی حلقہ بندیاں متحدہ کے بعد پیپلزپارٹی بھی عدالت پہنچ گئی

پرویز مشرف کی آمد پر متحدہ کا محتاط ردعمل، انتخابی ہم آہنگی کے لیے 10 جماعتی اتحاد۔

پرویز مشرف کی آمد پر متحدہ کا محتاط ردعمل، انتخابی ہم آہنگی کے لیے 10 جماعتی اتحاد۔ فوٹو: فائل

شہر قائد میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 3 قومی اور 8 صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ردوبدل کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کا شدید ردعمل سامنے آیا۔

الطاف حسین نے اس فیصلے کے فوری بعد الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، جب کہ پیر کے روز متحدہ کی جانب سے عدالت عالیہ میں درخواست بھی دائر کی گئی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ بغیر مردم شماری کے یہ ردوبدل غیر قانونی ہے، عدالت نے اس درخواست پر الیکشن کمیشن کو 27 مارچ کا نوٹس جاری کر دیا۔

قبل ازیں صوبائی الیکشن کمشنر انور محبوب نے اپنی رپورٹ میں قرار دیا تھا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیاں ممکن نہیں۔ تاہم معمولی ردوبدل کے ساتھ جن حلقوں میں ضروری ہے وہاں حد بندیاں کی جا رہی ہیں، ان سے حلقہ بندیوں پر فرق نہیں پڑے گا۔

قومی اسمبلی کے جن تین حلقوں میں ردوبدل کیا گیا وہاں گذشتہ انتخابات میں239 سے پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل، جب کہ 250 اور 254 سے متحدہ کے امیدوار خوش بخت شجاعت اور ایوب شیخ کام یاب ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کے تبدیل شدہ حلقے89 میں پیپلزپارٹی کے اختر جدون، جب کہ باقی سات حلقوں سے متحدہ کے امیدوار جیتے، جن میں مقیم عالم(112)، عسکری تقوی(113)، رئوف صدیقی(114)، رضا ہارون (115)، سردار احمد(116)، فیصل سبزواری (118) اورعلیم الرحمن (124)شامل ہیں۔

اس طرح متحدہ کی جانب سے حلقوں میں ردوبدل کو اپنے خلاف سازش سمجھا گیا، جب کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک ایک حلقے پر پیپلز پارٹی متاثر ہوئی، لہٰذا پیپلزپارٹی نے بھی اسے عدالت میں چیلنج کردیا۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر عبدالقادر پٹیل نے درخواست میںکہا ہے کہ وہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف نہیں، لیکن ان کے حلقے (239) میں ردوبدل کرتے ہوئے انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، نئی حد بندی ریونیو، انتظامی امور اور آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیک ہولڈرز کی تجویز کے مطابق ہونی چاہیے۔

متحدہ اور پیپلزپارٹی ہی نہیں جماعت اسلامی نے بھی شہر کے گیارہ حلقوں میں ردوبدل کو نمائشی اقدام قرار دے دیا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی کا اس حوالے سے کہنا رہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پہلے یہ کہا جاتا رہا کہ مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں اور اب انتخابات سے چند دن قبل گیارہ حلقوں میں دکھاوے کو ردوبدل کیا گیا۔


کراچی میں حلقہ بندیوں پر عام تاثر یہ تھا کہ اسے متحدہ کے علاوہ تقریباً تمام ہی جماعتوں کی اعلانیہ یہ غیر اعلانیہ حمایت حاصل ہے، لیکن اب تین بڑی جماعتوں کی جانب سے اس پر تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی تو ان ہی حلقہ بندیوں کے تحت 2002ء میں کراچی میں قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں 239، 241، 250، 252 اور 253 سے کام یابی حاصل کر چکی ہے۔

متحدہ مجلس عمل کے ایک انتخابی نشان کے تحت لڑے گئے انتخابات میںجیتنے والے پانچ امیدواروں میں سے چار براہ راست جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔ دوسری طرف کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ کے راہ نما وسیم آفتاب نے کہا کہ بار بار ایک ہی شہر سے زیادتی کی جاتی ہے۔ 1993ء میں ہمارے انتخابی بائیکاٹ پر دنیا نے دیکھ لیا تھا کہ جیتنے والے پانچ، پانچ سو ووٹ لے کر جیتے تھے، ہم عدالتوں سے انصاف چاہتے ہیں۔ کسی کو اپنا حق چھیننے نہیں دیں گے۔

حلقہ بندیوں کے علاوہ سب سے اہم معاملہ سابق صدر پرویز مشرف کی آمد کا رہا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ان کی نا بالغ سیاسی جماعت کے سہارے کے لیے متحدہ ان کا استقبال کرے گی، لیکن ایسا نہ ہو سکا، خود ساختہ جلاوطنی سے واپسی پر بہت کم تعداد میں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ بچی کھچی ق لیگ اور ہم خیال گروپ کے درجنوں قد آور راہ نمائوں کے بعد اب قریبی حلیف متحدہ نے بھی ان کی حمایت کے معاملے میں محتاط انداز اختیار کر لیا ہے، اس سے قبل جب قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے پرویز مشرف کی حمایت کی خبریں گرم تھیں تو رابطہ کمیٹی نے بھی ایسی کسی انتخابی ہم آہنگی کی تردید کی تھی۔

دیکھنا یہ ہے کہ اب جب کہ پرویز مشرف کے دور کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم لاہور میں ان کے حریف نواز شریف سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، ان کے انتخاب لڑنے کا معاملہ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اقتدار کا سورج ڈوبنے کے بعد ارباب رحیم کے ساتھ چوہدری شجاعت کو بھی پرویز مشرف سے کسی رابطے کی تردید کرنی پڑی، کراچی میں پیپلزپارٹی کی راہ نما شازیہ مری کی والدہ پروین عطا مری کی ق لیگ میں شمولیت کے موقع پر انہوں نے کہا کہ ق لیگ آیندہ انتخابات میں سب کو حیران کردے گی۔

انتخابی بگل بجنے کے بعد کراچی میں بھی سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں دس جماعتی اتحاد نے انتخابی ہم آہنگی کے لیے ڈویژنل سطح پر امیدواروں کے انتخاب کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، جن میں کراچی ڈویژن کے لیے نواز لیگ کے سلیم ضیا، عرفان مروت، فنکشنل لیگ کے جام مددعلی، یاسر سائیں، نیشنل پیپلز پارٹی کے ضیا عباس، جماعت اسلامی کے محمد حسین محنتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قاری عثمان، جے یو پی کے حلیم غوری، سنی تحریک کے مطلوب اعوان، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سید غلام شاہ، قومی عوامی تحریک کے مظہر راہو اور ایس ٹی پی کے ماما رحیم بلوچ کو لیا گیاہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس اتحاد کے ذریعے جہاں اندرون سندھ پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیا جائے گا، وہیں کراچی میں متحدہ کے خلاف صف بندی کا امکان ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل نے بھی گزشتہ دنوں جلاوطنی ختم کی اور کراچی پہنچے۔ اس موقع پر انہوںنے بلوچستان کے لیے کشمیرکی طرح حق خود ارادیت کا مطالبہ کیا، دیگر بلوچ راہ نمائوں کی طرح ان کا بھی یہی خیال ہے کہ وہاں اب خودمختاری دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
Load Next Story