پہلا قدم

حمداللہ صاحب نے جرأت کرکے امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ پاکستان ان کی شرائط پر زندہ رہنے کے لیے تیار نہیں۔

جمعیت علمائے الاسلام (ف) کے سینیٹر حمداللہ اپنی شکل، صورت، طرز حیات اور انداز گفتگو سے ایک ٹھیٹ قبائلی نظر آتے ہیں اور دیکھنے میں وہ روایتی قبائلی دکھائی دیتے ہیں جو نہ صرف خود تعلیم یافتہ نہ ہوں بلکہ تعلیم کے دشمن بھی ہوں۔ مگر ان میں وہ تمام خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں جو ایک قبائلی میں ہوتی ہیں۔ سخت کوشی، دوربینی، صداقت اور جرأت اور اسی کے ساتھ ساتھ باریک بینی اور زندگی کے تجربات اور اس کی سختیوں کو انگیز کرنے کا حوصلہ۔

تعلیم والی بات تو ہم نے اس لیے کہہ دی کہ عام طور پر قبائلی عمائدین کے بارے میں ایسے تصورات عام ہیں، ورنہ یہ عمائدین زندگی کے وسیع تجربات کے حامل اور بڑے دوربیں ہوتے ہیں۔ سینیٹر حمداللہ ہمارے قانون سازوں میں ایک خاص اہمیت کے مالک ہیں۔ پچھلے دنوں ختم رسالت کے سلسلے میں جو ہنگامہ برپا ہوا وہ بظاہر سرکاری مشنری کی کسی سطح پر غلطی کے باعث تھا، مگر اس غلطی کی نشاندہی نہ تو سرکاری ممبران نے کی نہ ان کی جان کے دشمن اپوزیشن کے کسی لیڈر نے۔

ہمارے لیڈران سیاسی اختلافات کو مستقل ''کُٹی'' کا رنگ دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ مگر اپوزیشن کے کسی ممبر نے بھی اس بل میں ترمیم کے مسئلے کی نشاندہی نہیں کی، ورنہ وہ تو ایک دوسرے کی بے توقیری کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ اس غلطی کی نشاندہی ایک مولوی نما، قبائلی الاصل ممبر سینیٹ نے کی۔ اور پھر اس پر طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ غلطی کی تصحیح کے بعد بھی زلزلے کے آفٹر شاکس اب بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔

اب چند دن قبل امریکی سفارت خانے کے پولیٹیکل آفیسر گراہم فروسٹ نے سینیٹر حمداللہ سے ملنے کی درخواست کی۔ سارے سفارت خانے جس ملک میں کام کرتے ہیں، ان کے سیاستدانوں، اداروں، دانشوروں اور بااثر شخصیات سے باقاعدہ آگاہی رکھتے ہیں اور ان کے اثر و رسوخ سے واقف ہوتے ہیں، ہمیں مسٹر گراہم فروسٹ کی حمداللہ جیسے سینیٹر سے ملنے کی خواہش کی وجہ تو نہیں معلوم، البتہ سفارتی انداز کار کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ایک عالمی طاقت کا سفارت کار پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں پر گہری نظر رکھتا ہوگا اور اسے اندازہ ہوگا کہ حمداللہ کتنی باریک بینی کے حامل اور سیاسی تجربہ رکھنے والے قانون ساز ہیں اور ان سے ملنا کیوں ضروری ہے۔

ہوا یوں تھا کہ چند روز قبل خود حافظ حمداللہ اور چند دیگر ممبران سینیٹ نے امریکا جانا چاہا اور اس کے لیے ویزا کی درخواست کی۔ عام طور پر سینیٹ یا پارلیمنٹ کے ارکان کو کسی ملک کے سفر سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے، وہ ممبر متعلقہ ملک کا مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے ملک کے مفادات کے مطابق ملک کے مقتدر ادارے کا ممبر اور اس لیے دنیا کے دیگر ممالک کے لیے قابل احترام ہوتا ہے اور اسے آزادی سے نہ صرف ویزا ملتا ہے بلکہ ملک میں آزادانہ نقل و حرکت اور وہاں کے اداروں اور رائے عامہ کے کارساز اداروں میں اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے۔

مگر ہوا یہ کہ امریکی حکومت اور ٹرمپ انتظامیہ نے سینیٹ کے معزز ممبران کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔ یہ پاکستانی عوام، پارلیمنٹ اور حکومت کے لیے انتہائی توہین آمیز اور غیر پارلیمانی رویہ تھا۔ شاید اسی کی وضاحت کے لیے مسٹر گراہم فروسٹ نے حافظ حمداللہ سے ملنے کی درخواست کی۔

حافظ حمداللہ نے سفارت خانے کے پولیٹیکل افسر کی اس درخواست کا تحریری جواب دیا اور انھیں لکھا کہ پاکستانی سینیٹرز کو ویزا نہ دینا پاکستانی قوم کے لیے بے عزتی کا باعث بنا تھا اور اس وقت امریکی رویہ انتہائی تضحیک آمیز تھا، اس لیے جب تک امریکا اپنے اس رویے پر معافی مانگ کر اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا وہ کسی امریکی وفد یا سفارتی و انتظامیہ افسر سے ملاقات نہیں کریں گے۔


ادھر سینیٹ کے چیئرمین جو بڑے صاف ذہن کے مالک اور اپنی صاف گوئی کے لیے مشہور ہیں اور سیاسی امور میں دانشورانہ رویے کا اظہار کرتے ہیں، پہلے کہہ چکے ہیں کہ جب تک امریکی رویے پر ندامت کا اظہار نہیں کیا جاتا کسی امریکی وفد کو سینیٹ میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔

سینیٹر حمداللہ نے سینیٹ کے چیئرمین کی رولنگ کا حوالہ دینے کے علاوہ صدر ٹرمپ کے پاکستان مخالف رویے اور ان کی انتظامیہ کی اس کے مطابق کارکردگی پر سخت تنقید کی اور امریکا سے اپنے رویے پر نظرثانی کامطالبہ کیا۔

امریکا عالمی طاقت ہے بلکہ عالمی طاقتوں پر پہلے نمبر پر فائز ہے۔ وہ حیرت انگیز ایجادات کا حامل اور وسیع جنگی وسائل سے مالا مال ہے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ عالمی غنڈہ گردی یا دوسرے لفظوں میں بین الاقوامی دہشتگردی کا مظاہرہ کرتا رہے اور اس کے کاسہ لیس دبکے بیٹھے رہیں۔ حمداللہ صاحب نے جرأت کرکے امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ پاکستان ان کی شرائط پر زندہ رہنے کے لیے تیار نہیں۔

وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

اب عالمی طاقتوں کی غراہٹ دوسروں کے لیے اتنی دہشت کا باعث نہیں رہی ہے اور مسلمانوں کا تو عقیدہ ہی یہی ہے کہ عالمی طاقت کوئی بھی ہو عالمی ہی نہیں کائناتی حکمرانی خدا کو زیب دیتی ہے اور اسی کی حکمرانی حق ہے، باقی جو ہے جادوگری۔

اب تک ہمارے سیاستدان امریکا کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے تھے مگر اب خدا خدا کرکے انھیں یقین ہو چلا ہے کہ دنیا کا کاروبار امریکا نہیں خدا چلا رہا ہے۔

مقصود یہ ہے کہ کسی ملک کو، چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو، یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہماری تضحیک کرے یا ہم کو کم تر سمجھ کر وہ سلوک کرے جو نصف صدی قبل غلام ممالک کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ اب ہم اس نوعیت کی غلامی میں مبتلا نہیں اور اپنا راستہ خود بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا پر بار بار اعتماد کرکے اور بار بار دھوکا کھا کر بھی ہم نے بہت کچھ سبق سیکھ لیا ہے۔

اب امریکا کو قدم اٹھانے سے قبل یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اسے قدم قدم پر حافظ حمداللہ جیسوں سے واسطہ پڑتا رہے گا۔ پہلا قدم اٹھا لیا گیا، اب سفر جاری رہے گا۔
Load Next Story