جامعہ کراچی میں سیپرا قوانین کی خلاف ورزی نیب نے چھان بین شروع کردی

وی سی سے جواب طلب، آن لائن داخلوں کیلیے ٹینڈر کے بغیر کمپنی سے سافٹ ویئرخدمات لی گئیں۔

ایڈیشنل ڈائریکٹرنیب کی جانب سے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان کوایک خط لکھا گیا ہے۔ فوٹو؛ فائل

جامعہ کراچی میں سیپرارولز کی خلاف ورزی کے ایک سے زائد معاملات سامنے آنے پر نیب نے معاملات کی چھان بین کا آغاز کردیا ہے۔

نیب (قومی احتساب بیورو) نے جامعہ کراچی میں ٹینڈر کے بغیرسوفٹ ویئرکی خریداری سمیت بے ضابطگیوں کے دیگرمعاملات کا نوٹس لے لیاہے اورباقاعدہ انکوائری شروع کرنے سے قبل جامعہ کراچی کیا انتظامیہ سے بے ضابطگیوں کے معاملے پرجواب طلب کرلیاہے۔ واضح رہے یہ جواب طلبی نیب کوایک شہری کی جانب سے بھجوائی گئی تحریری شکایت کے ضمن میں کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں ایڈیشنل ڈائریکٹرنیب کی جانب سے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان کوایک خط لکھا گیا ہے جس میں ان سے کہاگیاہے کہ قومی احتساب بیورو کو موصولہ شکایت کے ضمن میں شعبہ جاتی کمنٹس رپورٹ بمعہ متعلقہ دستاویزات بیورو کو بھجوائی جائیں''ایکسپریس'' کو معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے''پاک سول'' نامی ایک غیر رجسٹرڈ کمپنی کوٹینڈر کے بغیرہی ٹھیکہ دیتے ہوئے کمپنی سے سوفٹ ویئرکی خدمات حاصل کرلی یہ خدمات جامعہ کراچی کے آن لائن داخلوں کے لیے حاصل کی گئی تاہم اس کے لیے اخبارات میں اشتہار جاری کیے گئے اورنہ ہی متعلقہ کمپنیزسے اظہاردلچسپی طلب کی گئی اورنہ ہی کسی قسم کاٹینڈرکھولاگیابلکہ ایک نجی کمپنی سے براہ راست سوفٹ ویئرکی خدمات حاصل کرلی گئی۔

قابل ذکربات یہ ہے کہ داخلے شروع کرنے سے قبل ایک نجی بینک سے بھی معاہدہ کیا گیا اور معاہدے کی روسے متعلقہ نجی بینک سے ''سروس چارجز'' بھی طے کیے گئے جو جامعہ کراچی کے ہی اکاؤنٹ سے منہا ہونے ہیں، متعلقہ بینک سے کیے گئے معاہدے کے تحت بینک یونیورسٹی سے سروس چارجز کے علاوہ پوشیدہ سروسز کے طورپربھی رقم منہا کرسکتاہے تاہم اس کے باوجود بینک کی خدمات حاصل کرنے سے قبل بھی کسی بھی بینک سے اظہاردلچسپی تک طلب نہیں کی گئی اورانتہائی عجلت میں سیپرا رولز کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک نجی بینک سے معاہدہ کرلیاگیا.


ذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ اظہار دلچسپی طلب کیے بغیرنجی بینک سے براہ راست معاہدے پرجامعہ کراچی کے قائم مقام ناظم مالیات ایس ایم خالد کی جانب سے زبانی اعتراض بھی کیا گیا اور جب ان کے اعتراض کوصرف نظر کیا گیا تو انھوں نے اس معاہدے پر دستخط ہی نہیں کیے.

بتایا جارہا ہے کہ بینک سے کیے گئے معاہدے پرجامعہ کراچی کے قائم مقام رجسٹرارڈاکٹرمنور رشیدنے دستخط کیے ہیں جب کہ جامعہ کراچی کی جانب سے معاہدے پرگواہ کے طورپرکسی کے دستخط ہی موجودنہیں ہیں.

''ایکسپریس''کوذرائع نے بتایاکہ نیب کوبھجوائی گئی تحریری شکایت میں شکایت کنندہ نے موقف اختیارکیاہے کہ جامعہ کراچی نے داخلہ پالیسی کے اعلان میں سرکاری ادارہ ہونے کے باوجود قواعد وضوابط کو ملحوظ خاطرنہیں رکھا جس میں سب سے اہم این ٹی ایس کے حوالے سے داخلہ ٹیسٹ ہے جس میں کوئی ٹینڈرنہیں کیا گیا اور کروڑوں روپے کا معاہدہ کرلیا گیا اس کے علاوہ غیررجسٹرڈسافٹ ویئرکمپنی کوداخلہ سافٹ ویئر بغیر ٹینڈر پسند کی بنیاد پر لاکھوں روپے کے عوض نواز دیا گیا۔

اس شکایت میں کہا گیا ہے کہ جامعہ کراچی بغیرٹینڈراین ٹی ایس اورپاک سول کمپنی کونوازنے کافوری نوٹس لیاجائے، بتایا جارہا ہے کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ تاحال نیب کی جانب سے موصولہ خط پر کوئی جواب نہیں دے سکی ہے اوراس معاملے کوکچھ عرصے قبل تعینات ڈپٹی ڈائریکٹرفنانس جاوید حمید کے سپرد کیا گیا ہے تاہم وہ بھی تاحال اس معاملے کاکوئی راہ حل ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں.

واضح رہے کہ ''ایکسپریس'' نے اس معاملے پر جامعہ کراچی کاموقف جاننے کے لیے انتظامیہ سے بھی رابطے کی کوشش کی تاہم ترجمان کا کہنا تھا کہ شیخ الجامعہ کی جانب سے اب تک کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
Load Next Story