مقصدِ حیات اور لبرل سوچ

کیا ہم ارتقائی عمل کی پیداوار، ایک کمزور مخلوق ہیں یا ہمیں کسی خالق نے اپنی عظیم الشان حکمت سے تخلیق کیا ہے؟

کیا ہم ارتقائی عمل کی پیداوار، ایک کمزور مخلوق ہیں یا ہمیں کسی خالق نے اپنی عظیم الشان حکمت سے تخلیق کیا ہے؟ تصویر: انٹرنیٹ

ہم اس دنیا میں کیا کررہے ہیں؟ ہمارا مقصدِ حیات کیا ہے؟ کیا ہم کسی عظیم تر منصوبے کے تحت دنیا میں نمودار ہوئے ہیں یا بس کسی طبیعی و کیمیاوی حادثے کا نتیجہ ہیں؟ کیا ہم مختلف اور متنوع فیہ ناقبل رسائی ارتقائی اعمال اور ابھی تک نامعلوم ایسے طبیعی قوانین کی پیداوار، ایک خاص قسم کی کمزور سی مخلوق ہیں جو شاید دیگر مخلوقات کے مقابلے میں کچھ اضافی خصوصیات اور قوت گویائی کی حامل ہے؟ یا پھر ہمیں بہت محبت سے کسی خالق نے اپنی عظیم الشان حکمتوں کے تحت تخلیق کیا ہے؟

یہ چند ایسے بنیادی سوالات ہیں جو مختلف طبقہ ہائے فکر میں زمانوں سے موضوع بحث تھے، ہیں، اور شاید قیامت تک رہیں گے... اگر کوئی قیامت متعین ہے تو! (بقول لبرلز) ہم اس بحث کے ایک بنیادی سوال سے آغاز کرکے مذہبی تعلیمات کو درمیان میں لائے بغیر کچھ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کریں گے۔

تو بات شروع کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی مقصد حیات ایسا بھی ہے جو ہمیں دیگر مخلوقات سے مختلف اور منفرد بناتا ہو؟ آزاد سوچ رکھنے والوں سے، جو عرف عام میں ''لبرلز'' کہلاتے ہیں، یہ سوال کیجئے کہ خدا اور مذہب سے ہٹ کر ذرا کوئی اور مقصد حیات ہو تو بتائیے؟ تو وہ لفاظی سے ہٹ کر یقیناً انسانی زندگی کا مقصد چند عیاشیوں یعنی سوائے کھانے پینے، مزے اڑانے، اور نسل بڑھانے یا جنسی لذت کشید کرنے سے زیادہ کچھ نہیں بتاسکیں گے۔ یہ سارے کام تو جانور بھی آپ سے بہت بہتر طور پر کر لیتے ہیں۔ آپ ایک لبرل کے طرز حیات کو بغور دیکھیے تو اس کی ساری جُہدِ حیات ان ہی چیزوں کو بہتر سے بہتر بنانے میں صرف ہوتی ہے۔

ایک معاصر نے کیا خوب لکھا ہے کہ آپ سے وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میرا مقصدِ حیات تو شعور پھیلانا ہے۔ آپ اس سے پوچھیں گے کہ شعور پھیلنے اور پھیلانے سے کیا ملے گا تو وہ کہے گا کہ ایک بہتر سماج کی تشکیل ہوگی یا پھر لائف اسٹائل بہتر ہوگا۔ آپ پھر پوچھیں گے کہ لائف اسٹائل بہتر ہونے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ تو اس کے پاس مغرب کے عیش کدوں کی جانب اشارہ کرنے اور حیوانی لذات کے حصول میں آسانیوں میں اضافے کی جانب (یعنی وہی غذا، جنسی جبلت وغیرہ کی جانب) اشارہ کرنے کے سوا کوئی دلیل نہ ہوگی۔ یعنی وہی، لوٹ کے بُدھو گھر کو آئے۔


یہ تو ہر جاندار کر رہا ہے اور آپ سے بہتر طریقے سے اور آسانی سے کر رہا ہے۔ پھر آپ میں اور ان میں وجہ امتیاز کیا رہی؟ کچھ نہیں!

اب ذرا غور کیجیے، لبرلز کہتے ہیں کہ دین و مذہب کا مطلب خود پر خوامخواہ کی پابندیاں عائد کرنا ہے، اس لئے مذہب کو انفرادی اور اجتماعی زندگی سے نکال دو۔ اگر یہ مطالبہ تسلیم کرلیا جائے تو انسانی زندگی کا مقصد کھانے پینے اور دیگر حیوانی جبلتیں پورا کرنے کے سوا اور کیا رہ جائے گا؟ اور پھر یہ کہ ان کو پورا کرنے میں بھی کوئی قاعدہ قانون، کوئی ضابطہ نہیں رہے گا۔ جو چاہا کھا لیا، جیسا چاہا پہن لیا، دل چاہا تو بغیر کپڑوں کے رہنے لگے۔ یورپ اور امریکا کے بظاہر مہذب نظر آنے والے معاشرے میں مردوں کی مردوں سے اور عورتوں کی عورتوں سے شادی، ننگوں کے کلب اور فضلہ جات اور غلاظتوں کو کھانے والے گروہ، خاندانی نظام کی تباہی لبرلز کے طرز عمل کے حقیقی نتائج ہیں جن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مغربی معاشرے میں لبرلز نے آزادی کے نام پر خواتین کا جو بدترین استحصال کیا ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔

چنانچہ ثابت ہوا کہ مذہب ہی دراصل وہ شئے ہے جو انسان کو جینے کا اعلی تر مقصد فراہم کرتا ہے، اس میں حرام حلال، جائز ناجائز، اچھے برے اور مکافاتِ عمل کا احساس پیدا کرکے ایک صاف ستھری زندگی گزارنے کا احساس اور جذبہ عمل پیدا کرتا ہے؛ اور اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ مذہب، انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔

یوٹیوب پر ان نومسلم سابق غیر مسلموں کی ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں اور دیکھی جاسکتی ہیں جنہیں کسی تبلیغی جماعت اور تحریک نے متاثر نہیں کیا بلکہ وہ اپنے لبرل طرز زندگی سے بیزار ہوکر خود ہی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے نکلے کہ آخر ان کا مقصد زندگی کیا ہے اور بالآخر اسلام کے دامن میں پناہ لے کر مسلمان ہوگئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story