بلوچستان میں جمہوریت کے پانچ برسوں کا سبق

اگر کوئی پوچھے کہ اس پانچ سالہ جمہوری دور نے بلوچستان کو کیا دیا؟ تو اس کا مختصر جواب ہو گا؛ پستی اور مزید پستی!

khanabadosh81@gmail.com

لیجیے پاکستان سمیت ، لٹے پٹے ، خون آلود اور مسلسل چیختے چلاتے ، درد سے کراہتے بلوچستان میں بھی جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوئے۔ جمہوری رویوں کا مذاق اڑاتی ہوئی جمہوریت، غیر جمہوری اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکتی ہوئی جمہوریت، نااہلیوں کا بازار گرم کرتی ہوئی جمہوریت، لٹے پٹے عوام کو مزید لوٹتی کھسوٹی ہوئی جمہوریت اور سب سے بڑھ کر غیر جمہوری لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی جمہوریت! وہ جمہوریت جس نے بلوچستان میں پانچ برسوں میں 'جمہور' کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا، یا پھر اپنے سدا بہار لطیفوں کی زد میں...اپنا پانچ سالہ شاہی عہد گزار کر گھر روانہ ہوئی۔

اگر کوئی پوچھے کہ اس پانچ سالہ جمہوری دور نے بلوچستان کو کیا دیا؟ تو اس کا مختصر جواب ہو گا؛ پستی اور مزید پستی!۔ لیکن اگر یہ آپ کو محض جذباتی جواب لگے تو وہ اعداد و شمار بھی اٹھا کر دیکھ لیجیے ، جن کا گراف ان پانچ برسوں میں عوام کی گردنوں سے اوپر جا پہنچا۔ اس سے پہلے کے آمرانہ دور میں بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کا جو سلسلہ شروع ہو ا تھا، جمہوری دور میں وہ تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی پہ منتج ہوا۔

تین سو سے زائد سیاسی کارکنوں کی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان بھر سے برآمد ہوئیں (اب یہ تسلسل کراچی تک آ پہنچا ہے) جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تو خیر نہ رک سکا، جاتے جاتے جمہوری ایوانوں سے یہ قانون بھی منظور کرا لیا گیا جس کے تحت خفیہ ادارے کے پاس کسی شہری کو شک کی بنا پر اٹھانے اور غائب کرنے کے بعد عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لیے پہلے جو مہلت چوبیس گھنٹوں پر محیط تھی، اسے اب تین ماہ تک وسعت دے دی گئی۔ حالانکہ ان اداروں کو نہ پہلے کبھی کسی جمہوری سیاسی قانون کی ضرورت تھی اور نہ اب ہو گی۔

سیاسی قوتوں کو اگر یہ خام خیالی ہے کہ اس طرح رفتہ رفتہ وہ ان اداروں کو قانون کے دائرے میں لانے میں کامیاب ہوں گے، تو اس سادہ دلی پہ اس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس خیال سے بس دل کو ہی خوش رکھا جا سکتا ہے، وہ بھی ایسا دل جو خوش گمانیوں کا منبع ہو۔

بلوچستان کے جمہوری دور میں ہی 'اغوا برائے تاوان' کو باضابطہ کاروبار کی شکل دی گئی۔ باخبر ذرایع کہتے ہیں کروڑ پتی ڈاکٹروں کے بینک اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ کی کاپیاں نکلوائی جاتیں اور پھر انھیں اغوا کیا جاتا۔ لواحقین جب گڑ گڑاتے اور قسمیں اٹھاتے کہ تاوان ادا کرنے کے لیے ان کے پاس اتنی بھاری رقم نہیں تو بینک اسٹیٹمنٹ کی نقل انھیں بھیجی جاتی ۔

اس دوران اغوا کیے گئے لگ بھگ ایک درجن افراد میں سے کوئی ایک ایسا نہیں جو بنا تاوان ادا کیے ، سرکار کی مدد سے رہا ہوا ہو۔ سرکار کی بے حسی کا یہ عالم رہا کہ ڈاکٹر مہینوں ہڑتال پر رہے تو' لطیفہ باز سرکار' نے فرمایا، 'کچھ دن اور ہڑتال کرو شاید ایک آدھ اور ڈاکٹر بازیاب ہو جائے'۔ درحقیقت یہ دھمکی تھی کہ 'ایک آدھ اور اغوا ہو جائے' ۔ اور ہر برآمد ہونے والے مغوی کے بعد یہ دھمکی حقیقی صورت اختیار کر لیتی۔

ہزارہ برادری کے خلاف مسلکی بنیادوں پر اختلاف پر ان کے قتلِ عام کا سلسلہ بھی جمہوری دور کا یادگار تحفہ رہے گا۔ اپنے پیاروں کی لاشوں پر اشک بہاتے شہریوں کے پر امن احتجاج پر لطیفہ باز سرکار کے یہ الفاظ سنہری نہیں بلکہ 'سرخ حروف' میں لکھے جائیں گے کہ ، ''میں رونے والوں کے لیے ٹشو پیپر کا ٹرک بھجوا دیتا ہوں۔'' لیکن یہ بھی اسی برادری کا پر امن احتجاج تھا، جس نے ان بے حس حکمرانوں کے جمہوری تماشے کے آخری دنوں میں انھیں رسوا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


رسوائی کا تو خیر انھیں کیا ڈر، لیکن ان کروڑوں روپوں کو وہ اب تک روتے پھر رہے ہیں، جن کا انھیں ان دو ماہ میں نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن کوئٹہ کی سڑکوں پر بے گناہوں کا بہنے والا خون اب بھی اپنے قاتلوں کو پکارتا پھر رہا ہے۔ خاک نشینوں کا خون گو رزقِ خاک ہوا، لیکن کئی مجرموں کا گریباں چاک بھی کر گیا۔

بلوچستان میں جمہوری تماشے کے لیے مقتدرہ نے چن چن کر 'بچے جمورے' جمع کیے۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی ناظم کا الیکشن جیتنے کے خواب نہ دیکھے تھے، بلوچستان میں وزیر مشیر بنا دیے گئے۔ جو اسمگلنگ کے لاکھوں روپوں کو زندگی کا کل سرمایہ سمجھتے تھے، ترقیاتی فنڈز کے نام پر کروڑوں روپے ان کے بینک اکائونٹس میں پہنچے تو ان کے وارے نیارے ہو گئے۔ ان کی باچھیں کھل اٹھیں، یہ اسمبلی میں بغلیں بجاتے دیکھے گئے۔ اپنی نجی قبائلی دشمنیوں کے نام پر بھی جب انھیں کروڑوں سے نوازا جائے تو ان کے منہ سے شگوفے نہ پھوٹیں تو اور کیا ہو۔

کوئٹہ سے اسلام آباد تک ان 'جمہوری جموروں ' نے وہ گل کھلائے کہ بلوچستان کے عوام اب برسوں منہ چھپاتے پھریں گے۔ مقتدرہ نے بھلے ڈھونڈ ڈھانڈ کر بلوچستان کا تعارف مسخ کرنے کے لیے ایسے مسخرے جمع کیے ہوں، لیکن ساٹھ برس کا ایک آدمی صوبہ کے اعلیٰ ترین منصب پر بیٹھ کر بھی بچگانہ حرکتیں کرتا پھرے، تو اس کے سٹھیا جانے میں بھلا کیا کسر رہ جاتی ہے۔

پانچ برس کے جمہوری تماش بینوں نے بلوچوں کے جاہل، گنوار ، احمق اور بے علم ہونے کے پروپیگنڈہ کی آگ کو ایسی ہوا دی ہے کہ اب برسوں اس پر علم، دلیل اور عقل کا پانی ڈالنا ہو گا۔ انگریزوں سے وفاداری کے عوض ملنے والی نوابی اور سرداری کے باوجود عوام میں سردار اور نواب کا جو دبدبہ موجود تھا، وہ اب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ مسلسل اور مستقل بنیادوں پر اختیار کیے گئے غیر جمہوری رویوں کے باوجود اگر چند رجائیت پسند حلقوں میں جمہوریت کا اگر کچھ تھوڑا بہت بھرم قائم بھی تھا تو خاک میں مل چکا۔ ریاستی ادارے تو پہلے ہی اپنا بھرم کھو چکے ، عوامی اداروں کا وقار بھی اب خواب ہوا۔ ایسے میں پر امن بلوچستان کے خواب دیکھنے والے خوش گمانی کی حد تک سادہ لوح کہلائے جا سکتے ہیں۔

ان پانچ برسوں میں بلوچستان جلتا رہا، سسکتا رہا، تڑپتا رہا، آہ و زاری کرتا رہا۔ کسی کان پر جوں تک نہ رینگی۔ جمہوریت اپنے وجود کو لاحق خطرات کی دُہائی دیتی رہی۔ تمام تر سیاسی قوتیں مل کر بھی ایف سی کی بے لگام فورسز کو نکیل نہ ڈال سکیں ، حتیٰ کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو سیکنڈز میں گھر بھجوانے والی آزاد عدلیہ بھی ان کے ہاتھ نہ روک سکی ۔ سو، قانون انصاف کی دُہائی دیتا رہا، طاقت اسے جوتے کی نوک پر رکھتی رہی۔

گو کہ ملکی مقتدرہ کا ماضی تاریخ سے اُس کے سبق نہ سیکھنے کے رویے کی مسلسل گواہی دیتا ہے لیکن اگر کسی میں ذرا برابر بھی عقلِ سلیم موجود ہو اور وہ ملک کی بہتری کا خواہاں ہو تو اس پانچ سالہ جمہوری تجربے کا واضح سبق ہے کہ جب تک جمہوریت کے نام پر اس طرح کے 'غیر جمہوری تماشے' ہوتے رہیں گے۔ عوام کا نہ تو جمہوری اداروں پر اعتماد بحال ہوگا نہ بہتری کی کوئی امید کی جاسکتی ہے۔

اور ملک کا وہ انٹیلی جینشیا جو جمہوری عمل کے تسلسل کے نتیجے میں تبدیلی کا خواہاں ہے، اسے بھی اس حقیقت کا سامنا کرنے کی جرأت پیدا کرنا ہو گی کہ تبدیلی کا محض خواب دیکھنا یا اس سے متعلق مباحث کافی نہیں، بلکہ اس تبدیلی کے لیے عمل کا حصہ بننا ہو گا۔ فیصلہ سازی کی باگ ڈور عوام کے حقیقی نمایندوں تک پہنچائے بنا نہ تو پاکستان اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنے کرنے کے قابل ہو گا، نہ بلوچستان میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔
Load Next Story