فطرت کی متحرک قوتیں…
اگر دیکھا جائے تو کچن گارڈنز کی شروعات وکٹری گارڈنز کے نام سے دوسری جنگ عظیم کے وقت 1943 سے ہوئی۔
زمین کی حدود میں کئی قوتیں متحرک ہیں۔ فضا میں لہروں کا ارتعاش محسوس ہوتا ہے، جو فطرت سے لے کر کائنات کے مختلف عناصر میں پایا جاتا ہے۔ فطرت کے مظاہر میں سے نکلنے والی مثبت و منفی لہریں اہل زمین کے حواس و مزاجوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، دریا، درخت و سبزہ اپنے اندر توانائی کا سرچشمہ ہیں، جن سے نکلنے والی لہریں طبعی دنیا کو متاثر کرتی ہیں۔
یہ لہریں فقط ماحول میں محسوس نہیں ہوتیں بلکہ انسان کی شخصیت کے اردگرد بھی محاصرہ کیے رہتی ہیں، جسے اورا (Aura) کہا جاتا ہے، جو شخصیت کی مناسبت سے منفی و مثبت اثر کا حامل ہے۔ اگر کوئی پرسکون مزاج کا حامل ہے تو اس کے وجود کے گرد موجود توانائی میں ٹھہراؤ محسوس ہو گا اور اگر کسی کا ذہن تخریبی خیالات کا مرکز ہے تو اس کی ذات سے بہت ہی منفی اور بے چین لہروں کا اخراج محسوس ہو گا۔
بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان کی مضطرب سوچوں و منتشر ذہن کو فطرت کے خوبصورت نظاروں سے تقویت ملی ہے اور ماحول میں موجود فطرت کی آوازوں، رنگوں اور سکون نے اس کے ذہن کو ایک لازوال طاقت بخشی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کے اندر کوئی قوت اور ماحول میں موجود اثر میں مطابقت نہیں پائی جاتی۔ اس صورت میں ذہنی و جسمانی مسائل و بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔ دراصل انسانی ذہن و جسم ہو یا اردگرد کا ماحول ہو، ہر جگہ ایک توازن اور ہم آہنگی درکار ہے۔ جس کی عدم مطابقت بے چینی و ناآسودگی کا سبب بنتی ہے۔ یہ توازن اور مطابقت ہمیں فطرت کی دنیا میں ملتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آغاز بہار میں دنیا کی مختلف قومیں نہ صرف جشن بہاراں مناتی ہیں بلکہ کھیتی باڑی و باغبانی جیسے تخلیقی کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ دھوپ جیسے ہی برف کے پیراہن کو پگھلانا شروع کرتی ہے، ہر طرف زندگی کے آثار گہما گہمی کی صورت نظر آنے لگتے ہیں۔ کچن گارڈنز یورپ و امریکا میں مقبول ہونے کے ساتھ ایشیا کے مختلف ملکوں میں گھروں کی اہم ضرورت بنتے جا رہے ہیں۔ جو خود انحصاری اور روحانی مشغلے کا ذریعہ ہے۔
اگر دیکھا جائے تو کچن گارڈنز کی شروعات وکٹری گارڈنز کے نام سے دوسری جنگ عظیم کے وقت 1943 سے ہوئی۔ جنگ کے زمانے میں جب مارکیٹ سے رابطہ منقطع ہو جاتا، تو ان کے باغیچے میں اگنے والی سبزیاں، میوہ و جڑی بوٹیاں ان کے کام آتے اور ان سے بنے ہوئے اچار و مربے جنگ کے پریشان کن دور میں ان کے لیے ذریعہ خوراک بنے۔ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو دنیا کی آبادی دو بلین کے قریب تھی۔ جنگ کے چند برسوں میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد لوگ ذہنی طور پر غیر فعال ہوکر رہ گئے تھے۔
ذہنی بیماریوں سے بچنے کے لیے انھوں نے تعمیری و روحانی مشغلے اپنائے جس میں چرچ جانا، خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لینا، کتابیں پڑھنا اور باغبانی وغیرہ شامل ہیں۔ جنگ کے زمانے میں نفرت، تعصب اور خونی کھیل سے انھوں نے سبق سیکھا اور مہذب رویے اپنا لیے۔ امریکا کے مقابلے میں یورپ میں کچن گارڈنز زیادہ پائے جاتے ہیں۔ فرانسیسی کچن گارڈنز میں جڑی بوٹیوں کو اگاتے ہیں اور یہ روایت یونان اور روم سے چلی آ رہی ہے۔ یونان و روم کے باغات خوبصورت ترین ہیں جنھیں تصاویر، مجسموں، فواروں اور مچھلیوں کے تالاب سے سجایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں ابھی تک کچن گارڈنز کی طرف دھیان نہیں دیا گیا، حالانکہ گھروں میں کافی جگہ ہونے کے باوجود لوگ اس صحت بخش مشغلے کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکے۔ یہاں پر صورت حال یہ ہے کہ پیسٹیسائٹس یعنی جراثیم کش ادویات کے استعمال کے فوراً بعد سبزیاں مارکیٹ میں لائی جاتی ہیں جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یورپ، امریکا، ایشیا اور چین و جاپان میں خاص طور پر گھر کے باغ میں جو سبزیاں اگائی جاتی ہیں وہ پیسٹیسائٹس کے مضر اثرات سے عاری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان کے لوگ باغبانی کو روحانی مشغلہ سمجھتے ہیں، جو انھیں خوش اور چاق و چوبند رکھتا ہے۔ چین و جاپان میں گھر بنانے سے پہلے زمین کا تجزیہ کیا جاتا ہے کہ آیا وہ زرخیز بھی ہے کہ نہیں۔ وہ زرخیز زمین پر گھر بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں زرخیز زمین کے پاس فطری توانائی کا بہاؤ انھیں صحت مند رکھتا ہے۔ وہاں پر میڈیٹیشن (مراقبہ) بھی فطرت کے قریب زیادہ پراثر سمجھا جاتا ہے۔ جس میں وہ اپنی سوچ کو پھول، سبزے، درختوں اور لہروں پر مرکوز کر کے ان سے تحرک حاصل کرتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق پودوں سے نکلنے والی پرسکون قوت انسان کو ذہنی دباؤ سے نجات دلاتی ہے۔ علاوہ ازیں ذہنی دباؤ اور تھکن سے نجات کے لیے Visualization Techniques بتائی جاتی ہیں جن میں فطرت کے خوبصورت مناظر کو تصور میں لاتے ہوئے احساس کو تازگی بخش کر اعتدال پر لایا جاتا ہے۔ اسی طرح سرسبز علاقوں میں پیدل چلنے کی مشقیں صحت افزا سمجھی جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے مسائل کی بھرمار ہے۔ زندگی کی تھکن و یکسانیت چہروں کی بے زاری سے جھلک رہی ہوتی ہے۔ ہماری زندگیاں خوف، ذہنی تناؤ، فکر اور اندیشوں کی نذر ہو کر زندگی کی حقیقی مسرتوں سے عاری ہو چکی ہیں۔ ہم مشینی زندگی کی بناوٹ و یکسانیت سے باہر نکلنے کے بجائے زندگی کے گھسے پٹے موضوعات پر بحث کر کے لمحوں کو مزید بوجھل بنا دیتے ہیں۔ کوئی نیا موضوع و نئی سوچ ہمارے ذہنوں پر ہوا کے خوشگوار جھونکے کی مانند دستک نہیں دے پاتا۔ زندگی کا جمود توڑنے کے لیے زندگی نہیں بدلتی بلکہ خود کو بدلنا پڑتا ہے۔
خود کو بدلنا یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر پوری دنیا میں بحث ہو رہی ہے۔ سمجھدار قومیں خود کو بدلنے اور ذہنی سوچ میں تحرک پیدا کرنے کے لیے خود کو روحانی طور پر بیدار رکھنے کے طریقے اپناتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تخلیقی عمل ذہن کے انتشار کو رفع کرتا ہے، جو انسان میں ارتکاز کی کیفیت کو قائم رکھتا ہے۔ جس کے باعث منتشر ذہن قوت میں بدل جاتا ہے۔ فہم و ادراک کے بند دروازے خودبخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔
ہماری سماجی زندگی میں جمود طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود کو ذات کے خول میں بند کر لیا ہے۔ نفرتیں، تعصب، انا پرستی، بناوٹ، خوشامد اور اقربا پروری نے ہم سے فطری زندگی کی خوبصورتی کو چھین لیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ فطرت سے دوری ہے۔ پہلے لوگ باغ میں چہل قدمی کرنے جایا کرتے تھے مگر اب امن و امان کے مسائل کے پیش نظر گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ جن گھروں میں خوبصورت لان موجود ہیں، مگر مکینوں کے پاس کھلی فضا سے محظوظ ہونے کا وقت نہیں ہے، کئی گھروں میں لان کا اچھا خاصا حصہ ویران دکھائی دیتا ہے جسے کچن گارڈن بنایا جا سکتا ہے۔ جو معاشی بدحالی کے اس دور میں خود انحصاری کی طرف ایک اچھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔
موجودہ دور کے بچے پریشان کن صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ جن کی صلاحیتیں کھلی فضاؤں میں پروان چڑھتی ہیں۔ جدید ریسرچ کے مطابق سر سبز و کھلی فضاؤں میں کھیلنے والے بچے ذہنی طور پر مستعد اور جذباتی طور پر پرسکون ہوتے ہیں۔ آج کل یہ بچے سارا دن موبائل، کمپیوٹرز، ٹی وی یا پلے اسٹیشنز پر مصروف دکھائی دیتے ہیں اور تینوں سے Attention deficit hyperactivity disorder ADHD کا شکار ہو رہے ہیں۔ جس میں یکسوئی میں کمی، کام میں دل کا نہ لگنا اور بے چینی کی علامتیں پائی جاتی ہیں۔ ان بچوں کے لیے گھر کے لان میں ایک چھوٹا سا باغ، انھیں اپنا کھویا ہوا مزاج واپس دلا سکتا ہے۔ جگہ نہ ہونے کی صورت میں گھر یا فلیٹس کی چھتوں پر یہ سبز پلے لینڈ بنائے جا سکتے ہیں، یقین جانیے کہ ہم فطرت کی متحرک قوتوں کا سہارا لے کر منفی سوچ کو بدل سکتے ہیں۔
یہ لہریں فقط ماحول میں محسوس نہیں ہوتیں بلکہ انسان کی شخصیت کے اردگرد بھی محاصرہ کیے رہتی ہیں، جسے اورا (Aura) کہا جاتا ہے، جو شخصیت کی مناسبت سے منفی و مثبت اثر کا حامل ہے۔ اگر کوئی پرسکون مزاج کا حامل ہے تو اس کے وجود کے گرد موجود توانائی میں ٹھہراؤ محسوس ہو گا اور اگر کسی کا ذہن تخریبی خیالات کا مرکز ہے تو اس کی ذات سے بہت ہی منفی اور بے چین لہروں کا اخراج محسوس ہو گا۔
بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان کی مضطرب سوچوں و منتشر ذہن کو فطرت کے خوبصورت نظاروں سے تقویت ملی ہے اور ماحول میں موجود فطرت کی آوازوں، رنگوں اور سکون نے اس کے ذہن کو ایک لازوال طاقت بخشی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کے اندر کوئی قوت اور ماحول میں موجود اثر میں مطابقت نہیں پائی جاتی۔ اس صورت میں ذہنی و جسمانی مسائل و بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔ دراصل انسانی ذہن و جسم ہو یا اردگرد کا ماحول ہو، ہر جگہ ایک توازن اور ہم آہنگی درکار ہے۔ جس کی عدم مطابقت بے چینی و ناآسودگی کا سبب بنتی ہے۔ یہ توازن اور مطابقت ہمیں فطرت کی دنیا میں ملتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آغاز بہار میں دنیا کی مختلف قومیں نہ صرف جشن بہاراں مناتی ہیں بلکہ کھیتی باڑی و باغبانی جیسے تخلیقی کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ دھوپ جیسے ہی برف کے پیراہن کو پگھلانا شروع کرتی ہے، ہر طرف زندگی کے آثار گہما گہمی کی صورت نظر آنے لگتے ہیں۔ کچن گارڈنز یورپ و امریکا میں مقبول ہونے کے ساتھ ایشیا کے مختلف ملکوں میں گھروں کی اہم ضرورت بنتے جا رہے ہیں۔ جو خود انحصاری اور روحانی مشغلے کا ذریعہ ہے۔
اگر دیکھا جائے تو کچن گارڈنز کی شروعات وکٹری گارڈنز کے نام سے دوسری جنگ عظیم کے وقت 1943 سے ہوئی۔ جنگ کے زمانے میں جب مارکیٹ سے رابطہ منقطع ہو جاتا، تو ان کے باغیچے میں اگنے والی سبزیاں، میوہ و جڑی بوٹیاں ان کے کام آتے اور ان سے بنے ہوئے اچار و مربے جنگ کے پریشان کن دور میں ان کے لیے ذریعہ خوراک بنے۔ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو دنیا کی آبادی دو بلین کے قریب تھی۔ جنگ کے چند برسوں میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد لوگ ذہنی طور پر غیر فعال ہوکر رہ گئے تھے۔
ذہنی بیماریوں سے بچنے کے لیے انھوں نے تعمیری و روحانی مشغلے اپنائے جس میں چرچ جانا، خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لینا، کتابیں پڑھنا اور باغبانی وغیرہ شامل ہیں۔ جنگ کے زمانے میں نفرت، تعصب اور خونی کھیل سے انھوں نے سبق سیکھا اور مہذب رویے اپنا لیے۔ امریکا کے مقابلے میں یورپ میں کچن گارڈنز زیادہ پائے جاتے ہیں۔ فرانسیسی کچن گارڈنز میں جڑی بوٹیوں کو اگاتے ہیں اور یہ روایت یونان اور روم سے چلی آ رہی ہے۔ یونان و روم کے باغات خوبصورت ترین ہیں جنھیں تصاویر، مجسموں، فواروں اور مچھلیوں کے تالاب سے سجایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں ابھی تک کچن گارڈنز کی طرف دھیان نہیں دیا گیا، حالانکہ گھروں میں کافی جگہ ہونے کے باوجود لوگ اس صحت بخش مشغلے کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکے۔ یہاں پر صورت حال یہ ہے کہ پیسٹیسائٹس یعنی جراثیم کش ادویات کے استعمال کے فوراً بعد سبزیاں مارکیٹ میں لائی جاتی ہیں جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یورپ، امریکا، ایشیا اور چین و جاپان میں خاص طور پر گھر کے باغ میں جو سبزیاں اگائی جاتی ہیں وہ پیسٹیسائٹس کے مضر اثرات سے عاری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان کے لوگ باغبانی کو روحانی مشغلہ سمجھتے ہیں، جو انھیں خوش اور چاق و چوبند رکھتا ہے۔ چین و جاپان میں گھر بنانے سے پہلے زمین کا تجزیہ کیا جاتا ہے کہ آیا وہ زرخیز بھی ہے کہ نہیں۔ وہ زرخیز زمین پر گھر بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں زرخیز زمین کے پاس فطری توانائی کا بہاؤ انھیں صحت مند رکھتا ہے۔ وہاں پر میڈیٹیشن (مراقبہ) بھی فطرت کے قریب زیادہ پراثر سمجھا جاتا ہے۔ جس میں وہ اپنی سوچ کو پھول، سبزے، درختوں اور لہروں پر مرکوز کر کے ان سے تحرک حاصل کرتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق پودوں سے نکلنے والی پرسکون قوت انسان کو ذہنی دباؤ سے نجات دلاتی ہے۔ علاوہ ازیں ذہنی دباؤ اور تھکن سے نجات کے لیے Visualization Techniques بتائی جاتی ہیں جن میں فطرت کے خوبصورت مناظر کو تصور میں لاتے ہوئے احساس کو تازگی بخش کر اعتدال پر لایا جاتا ہے۔ اسی طرح سرسبز علاقوں میں پیدل چلنے کی مشقیں صحت افزا سمجھی جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے مسائل کی بھرمار ہے۔ زندگی کی تھکن و یکسانیت چہروں کی بے زاری سے جھلک رہی ہوتی ہے۔ ہماری زندگیاں خوف، ذہنی تناؤ، فکر اور اندیشوں کی نذر ہو کر زندگی کی حقیقی مسرتوں سے عاری ہو چکی ہیں۔ ہم مشینی زندگی کی بناوٹ و یکسانیت سے باہر نکلنے کے بجائے زندگی کے گھسے پٹے موضوعات پر بحث کر کے لمحوں کو مزید بوجھل بنا دیتے ہیں۔ کوئی نیا موضوع و نئی سوچ ہمارے ذہنوں پر ہوا کے خوشگوار جھونکے کی مانند دستک نہیں دے پاتا۔ زندگی کا جمود توڑنے کے لیے زندگی نہیں بدلتی بلکہ خود کو بدلنا پڑتا ہے۔
خود کو بدلنا یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر پوری دنیا میں بحث ہو رہی ہے۔ سمجھدار قومیں خود کو بدلنے اور ذہنی سوچ میں تحرک پیدا کرنے کے لیے خود کو روحانی طور پر بیدار رکھنے کے طریقے اپناتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تخلیقی عمل ذہن کے انتشار کو رفع کرتا ہے، جو انسان میں ارتکاز کی کیفیت کو قائم رکھتا ہے۔ جس کے باعث منتشر ذہن قوت میں بدل جاتا ہے۔ فہم و ادراک کے بند دروازے خودبخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔
ہماری سماجی زندگی میں جمود طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود کو ذات کے خول میں بند کر لیا ہے۔ نفرتیں، تعصب، انا پرستی، بناوٹ، خوشامد اور اقربا پروری نے ہم سے فطری زندگی کی خوبصورتی کو چھین لیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ فطرت سے دوری ہے۔ پہلے لوگ باغ میں چہل قدمی کرنے جایا کرتے تھے مگر اب امن و امان کے مسائل کے پیش نظر گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ جن گھروں میں خوبصورت لان موجود ہیں، مگر مکینوں کے پاس کھلی فضا سے محظوظ ہونے کا وقت نہیں ہے، کئی گھروں میں لان کا اچھا خاصا حصہ ویران دکھائی دیتا ہے جسے کچن گارڈن بنایا جا سکتا ہے۔ جو معاشی بدحالی کے اس دور میں خود انحصاری کی طرف ایک اچھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔
موجودہ دور کے بچے پریشان کن صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ جن کی صلاحیتیں کھلی فضاؤں میں پروان چڑھتی ہیں۔ جدید ریسرچ کے مطابق سر سبز و کھلی فضاؤں میں کھیلنے والے بچے ذہنی طور پر مستعد اور جذباتی طور پر پرسکون ہوتے ہیں۔ آج کل یہ بچے سارا دن موبائل، کمپیوٹرز، ٹی وی یا پلے اسٹیشنز پر مصروف دکھائی دیتے ہیں اور تینوں سے Attention deficit hyperactivity disorder ADHD کا شکار ہو رہے ہیں۔ جس میں یکسوئی میں کمی، کام میں دل کا نہ لگنا اور بے چینی کی علامتیں پائی جاتی ہیں۔ ان بچوں کے لیے گھر کے لان میں ایک چھوٹا سا باغ، انھیں اپنا کھویا ہوا مزاج واپس دلا سکتا ہے۔ جگہ نہ ہونے کی صورت میں گھر یا فلیٹس کی چھتوں پر یہ سبز پلے لینڈ بنائے جا سکتے ہیں، یقین جانیے کہ ہم فطرت کی متحرک قوتوں کا سہارا لے کر منفی سوچ کو بدل سکتے ہیں۔