یہ ہوتے ہیں جیون ساتھی
شوہر پر مشکل پڑی تو بیوی شانے سے شانہ ملاکر کھڑی ہوگئی۔
نیو یارک میں جو حیثیت 'وال اسٹریٹ' کو حاصل ہے، شہر قائد میں کچھ ایسا ہی مرتبہ آئی آئی چندریگر روڈ کا ہے، یہاں ملک کے بڑے بڑے تجارتی اداروں کے مراکز اور نمایاں بینکوں کے صدر دفاتر قائم ہیں، جس کے سبب یہاں روزانہ بہت بڑے پیمانے پر سرمائے کا تبادلہ ہوتا ہے۔
کراچی کی یہ شاہ راہ 'شاہین کمپلیکس' سے ڈگ بھرتی ہے تو سوا دو کلو میٹر بعد تاریخی 'میری ویدر ٹاور' پر جا کر بندر روڈ میں گُم ہوجاتی ہے۔۔۔ اسی سڑک پر کام کرنے والے محمد شکیل نے ہمیں کچھ وقت دینے کی ہامی بھری، تو ہم بھی مقررہ وقت پر اس نگری پہنچے، جہاں فلک بوس عمارتیں 'لکشمی دیوی' کی طرح ایستادہ معلوم ہوتی تھیں، جس کے چرنوں میں شکیل اور ان کی شریک حیات غزالہ ایک کونے پر الاؤ سلگائے مختلف لوازمات کو لذیذ ذائقوں سے آشنا کر رہے تھے۔۔۔ اور یہ دونوں تنہا نہ تھے، یہاں بہت سے دیگر پتھارے دار بھی اپنی روزی روٹی کی خاطر اِن بلند وبالا عمارتوں کے سائے میں یوں موجود تھے، جیسے دولت کے دیوی دیوتا سارا دن بڑے بڑے ہاتھ بڑھا کر بھاری روپیے پیسے کا جو لین دین کریں، اُس میں سے کچھ سکے چھلک کر قدموں میں پڑے ان محنت کشوں کی جھولی میں بھی آ گریں۔۔۔ یہ نچلے طبقے کے چھوٹے چھوٹے پتھارے تو نہ تھے، اِن کی زندگی کی بڑی بڑی آشائیں تھیں۔۔۔ کٹھن جیون کے قابل برداشت ہونے کی آشائیں۔۔۔!
روزانہ جب دفاتر میں کام کرنے والے بابو لوگ شکم پُری کو نیچے اتریں گے، تو پیٹ تو وہ بھریں گے، لیکن آسرا ان محنت کشوں کا بنے گا۔۔۔ تیار ہوتے کھانوں کا سینک جھیلنے والے، چشم تصور سے پہلے گھر کے چولھے کی ٹوٹتی سانسیں بحال ہوتی دیکھیں گے۔۔۔ اگر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی، تو اسی الاؤ سے بنتے دھویں کے مرغولوں میں اپنے بہت سے سپنوں کو آسودہ ہوتے پائیں گے۔۔۔ اور۔۔۔ اور پھر یکے بعد دیگرے خوابوں کے بہت سے پنچھی اونچی اڑان بھرنے لگیں گے۔۔۔ مگر بات یہاں تک ذرا کم ہی پہنچتی ہے!
اس کتھا میں دونوں شریک حیات معاشی جدوجہد کے باب میں بھی مکمل ساجھے دار ہیں۔ گریجویٹ میاں بیوی شکیل اور غزالہ یہاں مختلف ذائقوں سے سجا ایک گوشہ سنوارتے ہیں، اور اپنے بچوں کے واسطے کچھ زیست کا سامان کر پاتے ہیں۔ آئیے ان کی زندگی کے نشیب وفراز کا کچھ احوال جانتے ہیں۔۔۔
محمد شکیل 1985ء میں کراچی سے دبئی گئے، جہاں کپڑے کے تاجر کے ہاں ملازم ہوئے، 1997ء میں انہوں نے شراکت داری سے ایک ریستوران کھولا، جس میں نقصان ہوا اور شراکت ختم ہوگئی۔ اس کے بعد انڈسٹریل گارمنٹس سلائی مشین کے کام میں لگے۔ 2003ء میں اسی شعبے میں اپنا کام شروع کیا، جسے کافی وسعت دی، ریستوراں پر بھی کام کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اے سی مینٹیننس کا کام شروع کیا، جس میں دو درجن کے قریب افراد ان کے پاس ملازم ہوئے۔ یہاں ان کے پاس ایک بڑی مالیت کا آرڈر آیا، جس کی بروقت ادائی نہ ہونے کے سبب مسائل پیدا ہوئے، مسلسل خسارے کے سبب وہ بحران میں آگئے، ان کے پاس تنخواہوں کے بھی پیسے نہ رہے، یوں مسلسل نقصان کاروبار کو نگل گیا۔ بیوی بچوں کو کراچی بھیج کر صورت حال کو بہتر کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔
کچھ برس پہلے شکیل جب والدہ کے انتقال پر کراچی ٹھیرے، تو اس دوران دبئی میں اُن کے دو قریبی دوست (سری لنکی اور ہندوستانی) بھاری رقم لے اُڑے، لیکن اس گھاؤ کے بعد وہ سنبھل گئے تھے، مگر اس بار ایسا نہ ہوسکا۔ مالی حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے اور مارچ 2017ء میں وہ خود بھی کراچی آگئے۔ یہاں آتے آتے بھی وہ ایک لائسنس تیار کرکے آئے اور کچھ لوگوں کو ویزہ نکالنے کا کہا، مگر وہ ٹال مٹول کرتے رہے، جس کے بعد دبئی واپسی کی کوئی راہ نہ رہی!
ملازمت کا مزاج نہ ہونے کے باوجود دوستوں سے نوکری کا کہا، تو وہ کہنے لگے کہ ہم تمہارا اتنا اچھا وقت دیکھ چکے، نوکری پر کیسے رکھیں، اگر چار، پانچ لاکھ روپے چاہییں، تو لے لو اور اپنا کام شروع کرو۔ شکیل کی خودداری نے یہ گوارا نہ کیا، اس لیے انہوں نے شکریے کے ساتھ منع کر دیا۔ اِدھر تنگ دستی کے سبب بچوں کی تعلیم بھی منقطع ہوگئی، اس موقع پر اُن کی اہلیہ غزالہ شکیل نے حوصلہ بڑھایا کہ شرم اور جھجک کو ایک طرف رکھ کر کیوں نا کھانے پینے کے ایک ٹھیلے سے ہی اپنی شروعات کریں۔ شکیل کی طرح غزالہ بھی نہ صرف گریجویٹ ہیں، بلکہ اچھے کھانے پکانا بھی جانتی ہیں، یوں یہ سلسلہ شروع ہوا۔ شکیل اس کام کا سہرا مکمل طور پر اپنی شریک حیات غزالہ کے سر رکھتے ہیں۔
غزالہ شکیل بتاتی ہیں جب انہیں یہ پتا چلا کہ اب وہ واپس نہیں جا سکیں گے، تو دس دن تو اس صدمے سے ہی نہ نکل سکیں، کیوں کہ انہوں نے وہاں ایک بہت اچھی زندگی گزاری تھی۔ ایک دن جب بچوں نے شکایت کی کہ امی، پہلے تو آپ ہمیں ناشتے میں روزانہ دودھ دیا کرتی تھیں، اب نہیں دیتیں؟ تو اس دن شدت سے احساس ہوا کہ یہ مسائل کسی نہ کسی طرح حل کرنے ہی ہوں گے۔
اگست 2017ء میں محمد شکیل کو ایک جاننے والے کے توسط سے آئی آئی چندریگر روڈ پر فٹ پاتھ کی ایک جگہ ملی، جس کے بعد باقاعدہ کام شروع کیا۔ وہ اس جگہ کا ساڑھے تین ہزار روپے 'کرایہ' ادا کرتے، ''دیگر'' مختلف خرچے ملا کر چھے ہزار روپے ماہانہ ادا کرنے پڑتے۔ غزالہ کہتی ہیں کہ کچھ کمائیں یا نہ کمائیں، مگر فٹ پاتھ پر بیٹھنے والوں کو یہ ''مسائل'' تو حل کرنے پڑتے ہیں۔ 'ایکسپریس' سے گفتگو کے کچھ دن بعد محمد شکیل سے اس جگہ کا کرایہ بڑھانے کا تقاضا ہوا، تو انہوں نے کونے کی یہ جگہ چھوڑ دی اور اب وہ اپنا ٹھیلا سڑک سے تھوڑا اندر کی طرف لگانے لگے ہیں۔
گھریلو خاتون کی حیثیت سے زندگی گزارنے والی غزالہ شکیل نے جب کٹھن معاشی جدوجہد کی راہ چُنی تو زمینی حقائق اپنی جگہ لیکن جذبات تو جذبات ہی ٹھیرے۔۔۔ کہتی ہیں کہ یہاں آنے کے بعد 15، 20 دن تک وہ شوہر سے چھپ چھپ کر رویا کرتیں۔۔۔ بہت سے لوگ کہتے کہ آپ اس سطح پر آکر کیوں کام کر رہی ہیں، لیکن اُن کا کہنا ہے کہ یہاں میں ایک ماں کی حیثیت سے کھڑی ہوں اور اپنے شوہر کا ساتھ دے کر میں ایک اچھی بیوی ہونے کا ثبوت دے رہی ہوں۔ غزالہ کا خیال ہے کہ کمانا مرد کا ایک ناگزیر کام ہے۔ میں یہاں اُن کا ساتھ دے رہی ہوں، اکیلی بھی کھڑی ہو سکتی ہوں، لیکن میں کاؤنٹر پر نہیں جاتی، کیوں کہ روپے، پیسے کا لین دین مرد پر ہی جچتا ہے۔
محمد شکیل اور غزالہ روزانہ تازہ کھانے تیار کرتے ہیں، صبح ساڑھے چار بجے اٹھ کر تیاری کرتے ہیں اور پھر بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد نو، ساڑھے نو بجے رکشے میں سامان رکھ کر یہاں لے آتے ہیں۔ رات ساڑھے آٹھ بجے گھر واپسی ہوتی ہے۔ بچے اسکول سے آنے کے بعد ایک بجے مدرسے چلے جاتے ہیں، چار بجے آکر اپنی تائی کے پاس رہتے ہیں اور پانچ بجے ٹیوشن چلے جاتے ہیں، جہاں وہ اُن کے گھر واپسی تک رہتے ہیں۔
غزالہ شکیل کہتی ہیں کہ 'میں قناعت پسند ہوں، ایک وہ وقت بھی تھا کہ جب ہمارے باورچی خانے میں مختلف لوازمات ختم ہی نہ ہوتے تھے، تب بھی ہم پیٹ بھر رہے تھے، اور اب وہ چیزیں نہیں بنا پاتی، تو اب بھی ہم خالی پیٹ نہیں۔ بچوں کو بھی یہی عادت ڈالی، کہ جو دال سبزی پکتی ہے، وہی کھانا ہے۔ دعا اور کوشش ہے کہ کام مزید بہتری کی طرف جائے۔ زندگی کی مشکلات سے ہم دونوں مل کر نبٹ رہے ہیں۔ شوق کی بنا پر چاہوں گی کہ کھانے تیار کرنے کا یہی سلسلہ آگے بڑھے۔ میرے سختی کرنے کے باوجود بیٹی مجھ سے ہی پڑھنا زیادہ پسند کرتی ہے، کہ آپ جو پڑھاتی ہیں وہ اچھا ہوتا ہے اور یاد رہتا ہے۔'
محمد شکیل کو دبئی جانے کے بعد بھی ایسا حلقۂ احباب ملا، جس میں کھانا پکا پکایا مل جاتا تھا، اس لیے وہ کبھی باورچی خانے میں گئے تک نہ تھے، تاہم اب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غزالہ کی شاگردی میں وہ کافی ماہر ہوگئے ہیں، اس لیے ان کی کوشش ہوگی کہ آیندہ کچھ ماہ میں اتنا سیکھ لیں اور پھر غزالہ یہاں آنے کے بہ جائے گھر سے ہی ہاتھ بٹا دیا کریں اور یہاں کی مکمل ذمہ داری میں خود سنبھال لوں، مگر غزالہ خیال ظاہر کرتی ہیں کہ 'میرے حساب سے تو یہ ابھی ایک فی صد بھی نہیں سیکھے۔' ہنستے ہوئے خیال ظاہر کرتی ہیں کہ ''سیکھنے کی امید بھی نہیں ہے!''
غزالہ شکیل نے شہر کی ایک مصروف ترین شاہ راہ پر صبح سے شام کرنے کے تجربات کو کچھ یوں مذکور کیا،'پہلے مجھے لگتا تھا کہ لوگوں میں شعور نہیں، لیکن یہاں وقت بِتا کر پتا چلا کہ بہت سے لوگ شعور اور آگہی کے باوجود پس ماندہ رویوں کا اظہار کرتے ہیں! شکیل بھی کہتے ہیں کہ یہاں کا ماحول عورت کے لیے مناسب نہیں، یہ کوئی دبئی یا ملائیشیا نہیں، لیکن اس ماحول میں بھی یہ میرا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں، جس سے گھر کا چولھا جل رہا ہے۔ یہاں لوگوں کو ہمارے کھانوں کا ذائقہ بہت پسند آرہا ہے۔ کچوری، بن کباب اور مرغی سے لے کر دال، سموسوں، پکوڑوں اور چاٹ تک یہاں دست یاب ہیں۔ اب شکیل اور غزالہ کو مختلف تقاریب کے لیے پکوان تیار کرنے کا کام بھی مل رہا ہے۔ شکیل کہتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی تقاریب کے لیے تمام ولایتی اور دیسی کھانے تیار کر سکتے ہیں۔
محمد شکیل کے الفاظ میں دبئی میں 32 برس گزار کر واپس آ کر یوں لگتا ہے کہ دوبارہ زندگی شروع کی ہے۔ وہاں رہتے ہوئے خوب کام کیا، چین، ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ وغیرہ بھی آنا جانا رہا، لیکن کچھ پس انداز نہ کیا، وہ کہتے ہیں،''ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کجی ہوتی ہے، مجھ میں بھی یہ کمی رہی کہ میں اس قابل نہ ہو سکا کہ اس طرح کے بحرانوں کے لیے کوئی پیش بندی رکھتا۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ میں خود کو سزا دے رہا ہوں۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ میں صحت مند ہوں۔ دبئی میں ناکامی پر باتیں بنانے والوں کو نظرانداز کرتا ہوں، کیوں کہ صورت حال سے میں نمٹ رہا تھا۔ دھوکا دہی کے اتنے طریقے اختیار کیے گئے کہ سوچتا ہوں جب تقدیر میں پیسہ نکلنا ہوتا ہے، تو وہ کس، کس طریقے سے نکل جاتا ہے۔ زندگی ہنس کھیل کر گزارتا تھا، اب بھی ایسے ہی گزار رہا ہوں۔''
شکیل اور غزالہ اتوار کی تعطیل کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہفتے کے روز کام ذرا کم ہوتا ہے، لیکن اس دن بھی ناغہ نہیں کرتے۔ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں اس کام کو کسی ریستوراں کی صورت دیں، لیکن اس کے لیے تو رقم کی ضرورت ہے اور ابھی تو وہ اپنے کنبے کی زندگی کی گاڑی کو ہی مہمیز کرنے کے لیے کوشاں ہیں! غزالہ شکیل کہتی ہیں کہ تعلیم کا مقصد صرف میز کرسی پر بیٹھ جانا نہیں، اسے گھر داری، بچوں کی تربیت اور پوری زندگی میں بروئے کار لانا چاہیے۔ حکومت گلی محلوں کے نجی اسکول اور عام سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہتر کریں، تاکہ ہم جیسے لوگ بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکیں۔
سرٹیفیکٹس کی فائل دیکھی تو حیرت ہوئی۔۔۔
محمد شکیل کی ایک بہن اور پانچ بھائی تھے، چھوٹے بھائی کا انتقال ہو چکا، اس لیے اب وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ سب بڑے بھائی سعید شہنشاہ، نعت خواں ہیں، دیگر بھائی، زیادہ پڑھے لکھے نہیں، جو بڑھئی، سلائی اور دیگر چھوٹے موٹے کاموں سے منسلک ہیں، تاہم وہ سب اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ شکیل کے والد عبدالشکور رنچھوڑ لائن میں کباڑ کا کام کرتے تھے۔ شکیل نے اسلامیہ کالج سے انٹر اور 'اردو کالج' (موجودہ جامعہ اردو) سے 1982ء میں گریجویشن کیا، 2006ء میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
اُن کے تین بچے ہیں، بڑی بیٹی (آٹھ سالہ) اور بیٹا (پانچ سالہ) ان کے ساتھ ہے، جب کہ سات سالہ بیٹی اپنے تایا کے ہاں رہتی ہے۔ شکیل کی اہلیہ غزالہ شکیل نے آغا خان اسکول سے میٹرک، جب کہ گریجویشن پرائیویٹ کیا ہوا ہے، اس کے علاوہ آئی ٹی اور دیگر مختلف کورسز بھی کیے ہیں۔
غزالہ کہتی ہیں کہ میرے پاس بہت سارے سرٹیفکیٹس ہیں، کچھ دن پہلے جب یہ فائل دیکھی، تو مجھے خود پر حیرت ہوئی کہ یہ بھی میں ہی ہوں۔ غزالہ شادی سے پہلے مختلف اسکولوں میں تدریس سے وابستہ رہیں، دبئی میں بھی عربی اور قرآن مجید کی تدریس پر مامور تھیں۔ اس کے علاوہ وہاں مختلف تقاریب کے لیے کھانے وغیرہ بھی تیار کر دیتی تھیں اور بہت سے موقعوں پر خود جا کر بھی کھانے تیار کرتی تھیں۔
کراچی کی یہ شاہ راہ 'شاہین کمپلیکس' سے ڈگ بھرتی ہے تو سوا دو کلو میٹر بعد تاریخی 'میری ویدر ٹاور' پر جا کر بندر روڈ میں گُم ہوجاتی ہے۔۔۔ اسی سڑک پر کام کرنے والے محمد شکیل نے ہمیں کچھ وقت دینے کی ہامی بھری، تو ہم بھی مقررہ وقت پر اس نگری پہنچے، جہاں فلک بوس عمارتیں 'لکشمی دیوی' کی طرح ایستادہ معلوم ہوتی تھیں، جس کے چرنوں میں شکیل اور ان کی شریک حیات غزالہ ایک کونے پر الاؤ سلگائے مختلف لوازمات کو لذیذ ذائقوں سے آشنا کر رہے تھے۔۔۔ اور یہ دونوں تنہا نہ تھے، یہاں بہت سے دیگر پتھارے دار بھی اپنی روزی روٹی کی خاطر اِن بلند وبالا عمارتوں کے سائے میں یوں موجود تھے، جیسے دولت کے دیوی دیوتا سارا دن بڑے بڑے ہاتھ بڑھا کر بھاری روپیے پیسے کا جو لین دین کریں، اُس میں سے کچھ سکے چھلک کر قدموں میں پڑے ان محنت کشوں کی جھولی میں بھی آ گریں۔۔۔ یہ نچلے طبقے کے چھوٹے چھوٹے پتھارے تو نہ تھے، اِن کی زندگی کی بڑی بڑی آشائیں تھیں۔۔۔ کٹھن جیون کے قابل برداشت ہونے کی آشائیں۔۔۔!
روزانہ جب دفاتر میں کام کرنے والے بابو لوگ شکم پُری کو نیچے اتریں گے، تو پیٹ تو وہ بھریں گے، لیکن آسرا ان محنت کشوں کا بنے گا۔۔۔ تیار ہوتے کھانوں کا سینک جھیلنے والے، چشم تصور سے پہلے گھر کے چولھے کی ٹوٹتی سانسیں بحال ہوتی دیکھیں گے۔۔۔ اگر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی، تو اسی الاؤ سے بنتے دھویں کے مرغولوں میں اپنے بہت سے سپنوں کو آسودہ ہوتے پائیں گے۔۔۔ اور۔۔۔ اور پھر یکے بعد دیگرے خوابوں کے بہت سے پنچھی اونچی اڑان بھرنے لگیں گے۔۔۔ مگر بات یہاں تک ذرا کم ہی پہنچتی ہے!
اس کتھا میں دونوں شریک حیات معاشی جدوجہد کے باب میں بھی مکمل ساجھے دار ہیں۔ گریجویٹ میاں بیوی شکیل اور غزالہ یہاں مختلف ذائقوں سے سجا ایک گوشہ سنوارتے ہیں، اور اپنے بچوں کے واسطے کچھ زیست کا سامان کر پاتے ہیں۔ آئیے ان کی زندگی کے نشیب وفراز کا کچھ احوال جانتے ہیں۔۔۔
محمد شکیل 1985ء میں کراچی سے دبئی گئے، جہاں کپڑے کے تاجر کے ہاں ملازم ہوئے، 1997ء میں انہوں نے شراکت داری سے ایک ریستوران کھولا، جس میں نقصان ہوا اور شراکت ختم ہوگئی۔ اس کے بعد انڈسٹریل گارمنٹس سلائی مشین کے کام میں لگے۔ 2003ء میں اسی شعبے میں اپنا کام شروع کیا، جسے کافی وسعت دی، ریستوراں پر بھی کام کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اے سی مینٹیننس کا کام شروع کیا، جس میں دو درجن کے قریب افراد ان کے پاس ملازم ہوئے۔ یہاں ان کے پاس ایک بڑی مالیت کا آرڈر آیا، جس کی بروقت ادائی نہ ہونے کے سبب مسائل پیدا ہوئے، مسلسل خسارے کے سبب وہ بحران میں آگئے، ان کے پاس تنخواہوں کے بھی پیسے نہ رہے، یوں مسلسل نقصان کاروبار کو نگل گیا۔ بیوی بچوں کو کراچی بھیج کر صورت حال کو بہتر کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔
کچھ برس پہلے شکیل جب والدہ کے انتقال پر کراچی ٹھیرے، تو اس دوران دبئی میں اُن کے دو قریبی دوست (سری لنکی اور ہندوستانی) بھاری رقم لے اُڑے، لیکن اس گھاؤ کے بعد وہ سنبھل گئے تھے، مگر اس بار ایسا نہ ہوسکا۔ مالی حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے اور مارچ 2017ء میں وہ خود بھی کراچی آگئے۔ یہاں آتے آتے بھی وہ ایک لائسنس تیار کرکے آئے اور کچھ لوگوں کو ویزہ نکالنے کا کہا، مگر وہ ٹال مٹول کرتے رہے، جس کے بعد دبئی واپسی کی کوئی راہ نہ رہی!
ملازمت کا مزاج نہ ہونے کے باوجود دوستوں سے نوکری کا کہا، تو وہ کہنے لگے کہ ہم تمہارا اتنا اچھا وقت دیکھ چکے، نوکری پر کیسے رکھیں، اگر چار، پانچ لاکھ روپے چاہییں، تو لے لو اور اپنا کام شروع کرو۔ شکیل کی خودداری نے یہ گوارا نہ کیا، اس لیے انہوں نے شکریے کے ساتھ منع کر دیا۔ اِدھر تنگ دستی کے سبب بچوں کی تعلیم بھی منقطع ہوگئی، اس موقع پر اُن کی اہلیہ غزالہ شکیل نے حوصلہ بڑھایا کہ شرم اور جھجک کو ایک طرف رکھ کر کیوں نا کھانے پینے کے ایک ٹھیلے سے ہی اپنی شروعات کریں۔ شکیل کی طرح غزالہ بھی نہ صرف گریجویٹ ہیں، بلکہ اچھے کھانے پکانا بھی جانتی ہیں، یوں یہ سلسلہ شروع ہوا۔ شکیل اس کام کا سہرا مکمل طور پر اپنی شریک حیات غزالہ کے سر رکھتے ہیں۔
غزالہ شکیل بتاتی ہیں جب انہیں یہ پتا چلا کہ اب وہ واپس نہیں جا سکیں گے، تو دس دن تو اس صدمے سے ہی نہ نکل سکیں، کیوں کہ انہوں نے وہاں ایک بہت اچھی زندگی گزاری تھی۔ ایک دن جب بچوں نے شکایت کی کہ امی، پہلے تو آپ ہمیں ناشتے میں روزانہ دودھ دیا کرتی تھیں، اب نہیں دیتیں؟ تو اس دن شدت سے احساس ہوا کہ یہ مسائل کسی نہ کسی طرح حل کرنے ہی ہوں گے۔
اگست 2017ء میں محمد شکیل کو ایک جاننے والے کے توسط سے آئی آئی چندریگر روڈ پر فٹ پاتھ کی ایک جگہ ملی، جس کے بعد باقاعدہ کام شروع کیا۔ وہ اس جگہ کا ساڑھے تین ہزار روپے 'کرایہ' ادا کرتے، ''دیگر'' مختلف خرچے ملا کر چھے ہزار روپے ماہانہ ادا کرنے پڑتے۔ غزالہ کہتی ہیں کہ کچھ کمائیں یا نہ کمائیں، مگر فٹ پاتھ پر بیٹھنے والوں کو یہ ''مسائل'' تو حل کرنے پڑتے ہیں۔ 'ایکسپریس' سے گفتگو کے کچھ دن بعد محمد شکیل سے اس جگہ کا کرایہ بڑھانے کا تقاضا ہوا، تو انہوں نے کونے کی یہ جگہ چھوڑ دی اور اب وہ اپنا ٹھیلا سڑک سے تھوڑا اندر کی طرف لگانے لگے ہیں۔
گھریلو خاتون کی حیثیت سے زندگی گزارنے والی غزالہ شکیل نے جب کٹھن معاشی جدوجہد کی راہ چُنی تو زمینی حقائق اپنی جگہ لیکن جذبات تو جذبات ہی ٹھیرے۔۔۔ کہتی ہیں کہ یہاں آنے کے بعد 15، 20 دن تک وہ شوہر سے چھپ چھپ کر رویا کرتیں۔۔۔ بہت سے لوگ کہتے کہ آپ اس سطح پر آکر کیوں کام کر رہی ہیں، لیکن اُن کا کہنا ہے کہ یہاں میں ایک ماں کی حیثیت سے کھڑی ہوں اور اپنے شوہر کا ساتھ دے کر میں ایک اچھی بیوی ہونے کا ثبوت دے رہی ہوں۔ غزالہ کا خیال ہے کہ کمانا مرد کا ایک ناگزیر کام ہے۔ میں یہاں اُن کا ساتھ دے رہی ہوں، اکیلی بھی کھڑی ہو سکتی ہوں، لیکن میں کاؤنٹر پر نہیں جاتی، کیوں کہ روپے، پیسے کا لین دین مرد پر ہی جچتا ہے۔
محمد شکیل اور غزالہ روزانہ تازہ کھانے تیار کرتے ہیں، صبح ساڑھے چار بجے اٹھ کر تیاری کرتے ہیں اور پھر بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد نو، ساڑھے نو بجے رکشے میں سامان رکھ کر یہاں لے آتے ہیں۔ رات ساڑھے آٹھ بجے گھر واپسی ہوتی ہے۔ بچے اسکول سے آنے کے بعد ایک بجے مدرسے چلے جاتے ہیں، چار بجے آکر اپنی تائی کے پاس رہتے ہیں اور پانچ بجے ٹیوشن چلے جاتے ہیں، جہاں وہ اُن کے گھر واپسی تک رہتے ہیں۔
غزالہ شکیل کہتی ہیں کہ 'میں قناعت پسند ہوں، ایک وہ وقت بھی تھا کہ جب ہمارے باورچی خانے میں مختلف لوازمات ختم ہی نہ ہوتے تھے، تب بھی ہم پیٹ بھر رہے تھے، اور اب وہ چیزیں نہیں بنا پاتی، تو اب بھی ہم خالی پیٹ نہیں۔ بچوں کو بھی یہی عادت ڈالی، کہ جو دال سبزی پکتی ہے، وہی کھانا ہے۔ دعا اور کوشش ہے کہ کام مزید بہتری کی طرف جائے۔ زندگی کی مشکلات سے ہم دونوں مل کر نبٹ رہے ہیں۔ شوق کی بنا پر چاہوں گی کہ کھانے تیار کرنے کا یہی سلسلہ آگے بڑھے۔ میرے سختی کرنے کے باوجود بیٹی مجھ سے ہی پڑھنا زیادہ پسند کرتی ہے، کہ آپ جو پڑھاتی ہیں وہ اچھا ہوتا ہے اور یاد رہتا ہے۔'
محمد شکیل کو دبئی جانے کے بعد بھی ایسا حلقۂ احباب ملا، جس میں کھانا پکا پکایا مل جاتا تھا، اس لیے وہ کبھی باورچی خانے میں گئے تک نہ تھے، تاہم اب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غزالہ کی شاگردی میں وہ کافی ماہر ہوگئے ہیں، اس لیے ان کی کوشش ہوگی کہ آیندہ کچھ ماہ میں اتنا سیکھ لیں اور پھر غزالہ یہاں آنے کے بہ جائے گھر سے ہی ہاتھ بٹا دیا کریں اور یہاں کی مکمل ذمہ داری میں خود سنبھال لوں، مگر غزالہ خیال ظاہر کرتی ہیں کہ 'میرے حساب سے تو یہ ابھی ایک فی صد بھی نہیں سیکھے۔' ہنستے ہوئے خیال ظاہر کرتی ہیں کہ ''سیکھنے کی امید بھی نہیں ہے!''
غزالہ شکیل نے شہر کی ایک مصروف ترین شاہ راہ پر صبح سے شام کرنے کے تجربات کو کچھ یوں مذکور کیا،'پہلے مجھے لگتا تھا کہ لوگوں میں شعور نہیں، لیکن یہاں وقت بِتا کر پتا چلا کہ بہت سے لوگ شعور اور آگہی کے باوجود پس ماندہ رویوں کا اظہار کرتے ہیں! شکیل بھی کہتے ہیں کہ یہاں کا ماحول عورت کے لیے مناسب نہیں، یہ کوئی دبئی یا ملائیشیا نہیں، لیکن اس ماحول میں بھی یہ میرا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں، جس سے گھر کا چولھا جل رہا ہے۔ یہاں لوگوں کو ہمارے کھانوں کا ذائقہ بہت پسند آرہا ہے۔ کچوری، بن کباب اور مرغی سے لے کر دال، سموسوں، پکوڑوں اور چاٹ تک یہاں دست یاب ہیں۔ اب شکیل اور غزالہ کو مختلف تقاریب کے لیے پکوان تیار کرنے کا کام بھی مل رہا ہے۔ شکیل کہتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی تقاریب کے لیے تمام ولایتی اور دیسی کھانے تیار کر سکتے ہیں۔
محمد شکیل کے الفاظ میں دبئی میں 32 برس گزار کر واپس آ کر یوں لگتا ہے کہ دوبارہ زندگی شروع کی ہے۔ وہاں رہتے ہوئے خوب کام کیا، چین، ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ وغیرہ بھی آنا جانا رہا، لیکن کچھ پس انداز نہ کیا، وہ کہتے ہیں،''ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کجی ہوتی ہے، مجھ میں بھی یہ کمی رہی کہ میں اس قابل نہ ہو سکا کہ اس طرح کے بحرانوں کے لیے کوئی پیش بندی رکھتا۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ میں خود کو سزا دے رہا ہوں۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ میں صحت مند ہوں۔ دبئی میں ناکامی پر باتیں بنانے والوں کو نظرانداز کرتا ہوں، کیوں کہ صورت حال سے میں نمٹ رہا تھا۔ دھوکا دہی کے اتنے طریقے اختیار کیے گئے کہ سوچتا ہوں جب تقدیر میں پیسہ نکلنا ہوتا ہے، تو وہ کس، کس طریقے سے نکل جاتا ہے۔ زندگی ہنس کھیل کر گزارتا تھا، اب بھی ایسے ہی گزار رہا ہوں۔''
شکیل اور غزالہ اتوار کی تعطیل کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہفتے کے روز کام ذرا کم ہوتا ہے، لیکن اس دن بھی ناغہ نہیں کرتے۔ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں اس کام کو کسی ریستوراں کی صورت دیں، لیکن اس کے لیے تو رقم کی ضرورت ہے اور ابھی تو وہ اپنے کنبے کی زندگی کی گاڑی کو ہی مہمیز کرنے کے لیے کوشاں ہیں! غزالہ شکیل کہتی ہیں کہ تعلیم کا مقصد صرف میز کرسی پر بیٹھ جانا نہیں، اسے گھر داری، بچوں کی تربیت اور پوری زندگی میں بروئے کار لانا چاہیے۔ حکومت گلی محلوں کے نجی اسکول اور عام سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہتر کریں، تاکہ ہم جیسے لوگ بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکیں۔
سرٹیفیکٹس کی فائل دیکھی تو حیرت ہوئی۔۔۔
محمد شکیل کی ایک بہن اور پانچ بھائی تھے، چھوٹے بھائی کا انتقال ہو چکا، اس لیے اب وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ سب بڑے بھائی سعید شہنشاہ، نعت خواں ہیں، دیگر بھائی، زیادہ پڑھے لکھے نہیں، جو بڑھئی، سلائی اور دیگر چھوٹے موٹے کاموں سے منسلک ہیں، تاہم وہ سب اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ شکیل کے والد عبدالشکور رنچھوڑ لائن میں کباڑ کا کام کرتے تھے۔ شکیل نے اسلامیہ کالج سے انٹر اور 'اردو کالج' (موجودہ جامعہ اردو) سے 1982ء میں گریجویشن کیا، 2006ء میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
اُن کے تین بچے ہیں، بڑی بیٹی (آٹھ سالہ) اور بیٹا (پانچ سالہ) ان کے ساتھ ہے، جب کہ سات سالہ بیٹی اپنے تایا کے ہاں رہتی ہے۔ شکیل کی اہلیہ غزالہ شکیل نے آغا خان اسکول سے میٹرک، جب کہ گریجویشن پرائیویٹ کیا ہوا ہے، اس کے علاوہ آئی ٹی اور دیگر مختلف کورسز بھی کیے ہیں۔
غزالہ کہتی ہیں کہ میرے پاس بہت سارے سرٹیفکیٹس ہیں، کچھ دن پہلے جب یہ فائل دیکھی، تو مجھے خود پر حیرت ہوئی کہ یہ بھی میں ہی ہوں۔ غزالہ شادی سے پہلے مختلف اسکولوں میں تدریس سے وابستہ رہیں، دبئی میں بھی عربی اور قرآن مجید کی تدریس پر مامور تھیں۔ اس کے علاوہ وہاں مختلف تقاریب کے لیے کھانے وغیرہ بھی تیار کر دیتی تھیں اور بہت سے موقعوں پر خود جا کر بھی کھانے تیار کرتی تھیں۔