بھارت میں صدر ٹرمپ کے کاروباری مفادات

کھربوں روپے مالیت کی بھارتی منڈی امریکی حکمران کے لیے نہایت پرکشش بن چکی۔

ڈونالڈ ٹرمپ اس ناکامی سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ بھارتی کمپنی سے معاہدہ ہی منسوخ کردیا۔ فوٹو : فائل

جب سے ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدر بنے ہیں، دنیا کی اکلوتی پاور کا جھکاؤ واضح طور پر بھارت کی سمت ہوچکا۔ ٹرمپ حال ہی میں بذریعہ ایک ٹویٹ پاکستانی حکومت کو دھوکے باز قرار دے چکے جو بہت بڑا الزام ہے۔ پھر امریکا اور پاکستان مختلف معاملات پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں کبھی کبھی گرم جوشی دکھائی دیتی ہے، مگر مجموعی طور پر سرد مہری اور کھچاؤ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

بھارت کو ترجیح دینے کی بعض وجوہ واضح ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ وہاں امریکی کمپنیاں اپنی مصنوعات وسیع پیمانے پر فروخت کرسکتی ہیں۔ اسی لیے امریکی کمپنیاں اپنے حکمرانوں پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ بھارت سے قریبی تعلقات قائم کریں۔دوسری اہم وجہ چین کا معاشی و عسکری طاقت کے طور پر ابھرنا ہے۔ امریکی حکمران طبقہ اب چین کو معاصر قوت سمجھنے لگا ہے۔ چناںچہ وہ ایشیا میں بھارت کو تھپکی دے کر چین کے سامنے لانا چاہتا ہے تاکہ چینی حکومت آزادی سے اپنے اثرور رسوخ میں اضافہ نہ کرسکے۔ گویا چین کی مخالفت میں بھارت اور امریکا اکٹھے ہوگئے۔

تیسری اہم وجہ زیادہ نمایاں نہیں ہوپائی اور وہ یہ کہ بھارت سے تعلقات بڑھانا صدر ٹرمپ کے ذاتی مفاد میں بھی ہے۔ اور اس ذاتی مفاد کا تعلق ان کے کاروباری مفادات سے ہے۔ کم ہی پاکستانی جانتے ہیں کہ شمالی امریکا سے باہر بھارت ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں مسٹر ٹرمپ کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ان کاروباری سرگرمیوں سے انھیں کروڑوں ڈالر(اربوں روپے) کا فائدہ ہو رہا ہے۔ٹرمپ کسی قیمت پہ اتنی منافع بخش منڈی سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔

اسی لیے امریکی صدر کی خواہش ہے کہ ہر معاملے میں بھارت کو پاکستان پر ترجیح دی جائے۔امریکا میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ وہ کسی کاروباری شخص کو صدر بننے کے بعد کاروبار کرنے سے روک سکے۔ گویا قانونی طور پر ہر کاروباری امریکی صدر بننے کے بعد بھی اپنے کاروبار جاری رکھ سکتا ہے۔ تاہم ماضی میں سبھی امریکی صدور کی کوشش رہی ہے کہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ اپنے کاروباری معاملات سے دست بردار ہوجائیں۔ وجہ واضح ہے۔ کوئی بھی امریکی یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ صدر نے اپنی طاقتور حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے فلاں منافع بخش کاروباری معاہدہ کرلیا۔

ڈونالڈ ٹرمپ تو جدی پشتی کاروباری ہیں۔ ان کے جرمن دادا نے انیسویں صدی میں امریکا پہنچ کر کاروبار شروع کیا تھا۔ اسی لیے ٹرمپ نے فیصلہ کررکھا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد بھی اپنے کاروبار کو دیکھتے رہیں گے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ دو بھارتی سرمایہ کاروں کی وجہ سے انہیں اپنا یہ فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ہوا یہ کہ جب ٹرمپ الیکشن جیت گئے تو اٹول چورڈیا اور ساگر چورڈیا ان سے ملنے نیویارک جاپہنچے۔ یہ دونوں بھائی بھارت کی ایک بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی، پنچشیل رئیلٹی کے مالک ہیں۔ یہ کمپنی بھارتی شہر پونہ میں عالی شان ٹرمپ ٹاور تعمیر کررہی ہے۔

جب اٹول اور ساگر چورڈیا مجوزہ امریکی صدر سے ملے، تو امریکا میں میڈیا نے طوفان اٹھا دیا۔ امریکی میڈیا نے یہ نکتہ اجاگر کیا کہ ڈونالڈ ٹرمپ بہ حیثیت صدر اپنی طاقت سے فائدہ اٹھا کر دنیا میں اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔ اس عمل کو امریکی دانش وروں نے ''مفادات کا تصادم'' (conflict of interest) قرار دیا۔ چناں چہ امریکی میڈیا نے مسٹر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے کاروباری ادارے سے الگ ہوجائیں۔امریکی اخبارات نے وہ تصاویر صفحہ اول پر شائع کیں جن میں ٹرمپ دونوں بھارتی سرمایہ کاروں کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے تھے۔ شروع میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وہ بطور صدر کبھی اپنی پوزیشن سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔ مگر رفتہ رفتہ ان کا دفاع کمزور پڑتا گیا۔ لہٰذا صدر بننے کے دو ہفتے بعد انہوں نے اپنا کاروباری ادارہ، ٹرمپ آرگنائزیشن اپنے بیٹوں، ٹرمپ جونیئر اور ایرک ٹرمپ کے سپرد کردیا۔

امریکی صدر کا کاروبار
ٹرمپ آرگنائزیشن کی بنیاد ٹرمپ کی دادی اور والد نے 1923ء میں رکھی تھی۔ شروع میں یہ ادارہ شعبہ رئیل اسٹیٹ میں سرگرم رہا۔ اب یہ دنیا بھر میں مختلف کاروبارکررہا ہے اور بین الاقوامی ادارہ بن چکا۔ اس کی پانچ سو سے زائد کمپنیوں میں تقریباً ''23 ہزار'' مردو زن کام کرتے ہیں۔ 2016ء میں ٹرمپ آرگنائزیشن کو ساڑھے نو ارب ڈالر کی بھاری آمدن ہوئی تھی۔

ٹرمپ آرگنائزیشن بلندو بالا عمارتیں، ہوٹل اور گالف کورس بنانے میں شہرت رکھتی ہے۔ اس کی تعمیر کردہ بلند و بالا عمارتوں میں ''ٹرمپ ٹاور'' سب سے مشہور ہے۔ اس ٹاور میں رہائشی اپارٹمنٹ اور دفاتر واقع ہوتے ہیں۔ ادارے نے ایسا پہلا ٹرمپ ٹاور نیویارک 1983ء میں تعمیر کیا۔ صدر بننے سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ اسی عمارت میں مقیم تھے۔ نیز ٹرمپ آرگنائزیشن کا ہیڈکوارٹر بھی ٹرمپ ٹاور میں واقع ہے۔

ٹرمپ ٹاور کو کامیابی ملی، تو ڈونالڈ ٹرمپ نے دیگر امریکی شہروں میں ایسے ہی ٹاور تعمیر کرائے۔ ان عمارتوں میں لوگوں کو مختلف لگژری سہولتیں دی جاتی ہیں۔ اسی لیے اپارٹمنٹ اور دفاتر کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ صرف امراء اور پر تعیش زندگی کے دلدادہ ہی ٹرمپ ٹاور میں جائیداد خریدتے ہیں۔اکیسویں صدی میں ڈونالڈ ٹرمپ نے بیرون ممالک واقع نامی گرامی رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کو ٹرمپ ٹاور کے نام سے بلند و بالا عمارتیں بنانے کی اجازت دے دی۔ یہ اجازت دینے کے عوض مسٹر ٹرمپ ہر کمپنی سے بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ مزید براں طلائی پلیٹ پر ان کا نام لکھ کر اسے عمارت پر نصب کیا جاتا ہے۔

بیرون ممالک ایسا پہلا ٹرمپ ٹاور 2010ء میں استنبول، ترکی میں تعمیر ہوا۔ یہ دو عمارتوں پر مشتمل ٹرمپ ٹاور ہے۔ ایک میں دفاتر ہیں اور دوسرے میں اپارٹمنٹ۔ جب ڈونالڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں پر تنقید کرنے لگے تو ترکی میں یہ مطالبہ زور پکڑگیا کہ دونوں ٹاورز کا نام تبدیل کردیا جائے۔


بھارت میں داخلہ
2011ء میں ڈونالڈ ٹرمپ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت بھارت پہنچ گئے۔ بھارتی شہروں خصوصاً ممبئی، دہلی، کلکتہ، پونہ وغیرہ میں جائیداد کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔ پھر معیشت کی ترقی نے شہروں میں نئے امرا پیدا کردیئے ۔ لہٰذا وہ لگژری رہائش چاہتے تھے۔ انہی تبدیلیوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو بھارت کی طرف متوجہ کردیا۔لیکن بیشتر ترقی پذیر ممالک کے مانند بھارت میں بھی جائیداد کی خرید و فروخت کا شعبہ کرپشن کی گندگی سے لتھڑا ہوا ہے۔ بلکہ اسی سرزمین میں اس مشہور مقولے نے جنم لیا کہ زر زن زمین سارے فساد کی جڑ ہے۔ممتاز امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے بھارت میں ٹرمپ کے کاروباری مفادات پر ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں لکھا ہے: ''بھارت میں تقریباً سبھی سیاست داں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ وہ زمینیں خریدتے، بیچتے یا تعمیراتی کمپنیاں بناتے ہیں۔ یا پھر انہوں نے رئیل اسٹیٹ کی کمپنیوں میں بھاری سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ وجہ یہ کہ اس شعبے میں منافع بہت زیادہ ہے۔''

لیکن یہ منافع بے انتہا کرپشن سے نتھی ہے۔ تحقیقی رپورٹ مرتب کرنے والوں کو ایک سابق اعلیٰ سرکاری افسر نے بتایا ''بھارت میں پوری ہاؤسنگ انڈسٹری کرپشن پر پلتی بڑھتی ہے۔ اگر کسی کو چھوٹی سی دکان بھی بنانی ہے تو اسے ہر منظوری رشوت دینے پر حاصل کرنا ہوگی۔ اگر وہ کوئی رشوت نہیں دیتا تو اس کا کام بھی نہیں ہوگا۔''

ایک اور مشہور امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز نے بھی بھارت میں ٹرمپ کی کاروباری سرگرمیوں پر رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں درج ہے: ''بھارت میں سیاست داں، صنعت کار اور دیگر امیر لوگ اپنا سیاہ دھن رئیل اسٹیٹ میں لگا کر اسے سفید بناتے ہیں۔ یہ سیاہ دھن ٹیکس بچا کر بنایا جاتا ہے۔ شہروں میں زمین نایاب ہے لہٰذا خالی جگہوں پر قبضے کی خاطر ہر ممکن ناجائز و جائز ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔''

یہ ہے بھارت میں شعبہ رئیل اسٹیٹ کا پس منظر جب ڈونالڈ ٹرمپ نے 2011ء میں بھارت میں ٹرمپ ٹاور بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ممبئی کی ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی، روہان لائف سکیپس سے معاہدہ کرلیا۔ یہ معاہدہ افشا کرتا ہے کہ بظاہر قانون پسند امریکا میں رہتے ہوئے بھی ٹرمپ ناجائز سرگرمیوں اور کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔وجہ یہ کہ لگژری ٹرمپ ٹاور جس ایک ایکڑ رقبے پر تعمیر ہونا تھا اس کے ایک حصے پر پرانی پارٹمنٹ بلڈنگ واقع تھی۔ یہ بلڈنگ 1929ء میں ایک مسلمان تاجر نے تعمیر کرائی تھی۔ 1947ء میں جب وہ پاکستان چلا گیا تو حکومت نے عمارت ایک خیراتی ادارے، ہتھارے پربھو ٹرسٹ کو عطا کردی۔ ٹرسٹ نے عمارت کے فلیٹ کرائے پر چڑھا دیئے تاکہ اسے آمدن ہوسکے۔

ممبئی کے بلڈنگ قوانین کی رو سے ٹرسٹ یہ عمارت کسی تعمیراتی کمپنی کو فروخت نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن 2011ء میں روہان لائف سیکپس نے ٹرسٹ کے کرتا دھرتاؤں کو بھاری رقم دے کر یہ عمارت خرید لی۔ یوں ہوس و لالچ نے قانون کو پامال کر ڈالا۔

جب اس پلاٹ پر ٹرمپ ٹاور کی تعمیر شروع ہوئی تو کمپنی دیگر قوانین کو بھی پاؤں تلے روندنے لگی۔ مثلاً اپارٹمنٹوں کا سائز مجوزہ سائز سے بڑا کردیا۔ ٹاور کا رقبہ بھی زیادہ پھیلا دیا۔ غرض ڈیزائن میں من پسند تبدیلیاں کر ڈالیں۔ یقینا کمپنی کے مالکان سمجھتے تھے کہ پیسے کی طاقت سے وہ ہر قانون توڑ سکتے ہیں۔ پھر انہیں یہ بھی احساس تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ جیسی طاقتور عالمی شخصیت ان کی پشت پناہ ہے۔جب معاملہ حد سے باہر ہوگیا، تو ممبئی کا میڈیا ٹرمپ ٹاور کے خلاف خبریں چھاپنے لگا۔ اس نے واضح کیا کہ ٹاور بنانے والی کمپنی سرعام قانون کا مذاق اڑا رہی ہے۔ میڈیا کی تنقید کے باعث حکومت کی آنکھیں کھلیں اور وہ حرکت میں آگئی۔ اب بے قاعدگیوں کے باعث ٹرمپ ٹاور کی تعمیر روک دی گئی۔

لاس اینجلس ٹائمز اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹوں کے بعد جب ٹاور کی تعمیر روکی گئی تو امریکی صدر کا بیٹا، ڈونالڈ ٹرمپ جونیئر ممبئی پہنچ گیا۔ وہ پھر وزیراعلیٰ مہاراشٹر پرتھوی راج سے ملا۔ پرتھوی راج بتاتا ہے: ''جونیئر ٹرمپ کا خیال تھا کہ اس کے باپ کا نام اتنا بڑا ہے کہ میں مرعوب ہوجاؤں گا۔ مگر میں نے امریکی نوجوان کو صاف بتا دیا کہ قوانین کی خلاف ورزی کے باعث ٹاور کی تعمیر روکی گئی ہے۔ لہٰذا قوانین پر عمل درآمد کے بعد ہی یہ تعمیر دوبارہ شروع ہوسکتی ہے۔''

اسی طرح جونیئر ٹرمپ کا دورہ ناکام رہا۔ ڈونالڈ ٹرمپ اس ناکامی سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ بھارتی کمپنی سے معاہدہ ہی منسوخ کردیا۔ بھارتی کمپنی نے بہرحال دیگر سرمایہ داروں کو ساتھ ملا کر اپنا ٹاور تعمیر کرلیا، مگر وہ ٹرمپ ٹاور نہیں کہلایا۔

2014ء میں جب قوم پرست بھارتی لیڈر، نریندر مودی نے بھارت میں حکومت سنبھالی، تو ڈونالڈ ٹرمپ پھر بھارتی مارکیٹ میں داخل ہوگئے۔ فی الوقت بھارت میں ''پانچ'' ٹرمپ ٹاور زیر تعمیر ہیں۔ ان میں سے ایک پونہ، ایک ممبئی، ایک کلکتہ اور دو دہلی کے قریب واقع علاقے، گڑگاؤں میں واقع ہیں۔ہر بھارتی ٹرمپ ٹاور میں اپارٹمنٹ کی قیمت کروڑوں روپے میں ہے۔

اسے صرف امیر کبیر بھارتی خرید سکتے ہیں۔ دفاتر بھی بہت مہنگے ہیں۔ خیال ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ صرف اپنے برانڈ نام ہی سے کمائی نہیں کررہے، بلکہ جو بھی اپارٹمنٹ یا دفتر فروخت ہو، حاصل شدہ رقم کا ایک حصہ ٹرمپ آرگنائزیشن کو بھی ملتا ہے۔گویا یہ ادارہ بھارت میں سالانہ کروڑوں روپے کما رہا ہے۔بھارت میں ٹرمپ ٹاور تعمیر کرنے والی بیشتر تعمیراتی کمپنیوں کے مالکان حکمران جماعت، بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں منگل پربھابھات لودھا ہے۔ اس کی کمپنی ممبئی میں ٹرمپ ٹاور بنارہی ہے۔ یہ ارب پتی بی جے پی کا نائب صدر اور بڑا متعصب انسان ہے۔کچھ عرصہ قبل منگل پربھا نے یہ مطالبہ کرکے سنسنی پھیلا دی تھی کہ ممبئی میں واقع بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ ڈھا دی جائے ۔وہ اس جگہ ہندو کلچرل سینٹر بنانا چاہتا ہے۔

حرف آخر
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اور نریندر مودی اس لیے بھی دوستی کی پینگیں جھول رہے ہیں کہ امریکی حکمران کے بھارت سے دور رس کاروباری مفادات وابستہ ہیں۔اسی باعث صدر ٹرمپ پاکستان کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ خطے میں بھارت کی بالادستی قبول کر لے۔دوسری صورت میں پاکستان نہ صرف امریکی امداد سے محروم ہو گا بلکہ امریکا وطن عزیز کو خصوصاً معاشی نقصان پہنچانے کی خاطر بھارت کے ساتھ مل کر خفیہ سازشیں کر سکتا ہے۔
Load Next Story