جاتے جاتے گل کھلا گئے
سابق وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ زرعی شعبوں میں ریکارڈ کامیابی حاصل کی ہے۔
گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے اپنی الوداعی تقریر میں کہا کہ ملک میں خوشحالی آئی، ترقی ہوئی، مہنگائی میں کمی کی گئی، 2/3 سال میں بجلی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور عوام نے پہلی بار پر سکون طور پر 5 سالہ جمہوری دور حکومت گزارا۔ جب کہ حقیقت میں عوام افلاس، غربت، مہنگائی، خودکشی، ٹارگٹ کلنگ، لاعلاجی، جہالت، ذلت، غلاظت اور کرب کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور ہیں۔
پاکستان میں ہر روز بھوک سے 1132 بچے اور 900 بالغ عوام مر رہے ہیں تو دوسری جانب ارکان پارلیمنٹ کے پاس دولت میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیر ترین رکن پارلیمنٹ نور عالم 32 ارب روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ پیپلز پارٹی کے طارق خٹک کے اثاثے 2011 میں 8 ارب روپے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کے اثاثوں میں 2008ء سے 2011 تک 1 ارب 50 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ پی پی پی کے ارباب عالمگیر ایک ارب 50 کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہو گئے۔
پی پی پی کے معظم علی خان جتوئی کے اثاثے 3 کروڑ 45 لاکھ سے بڑھ کر 5 کروڑ روپے ہو گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 4 برس میں 64 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ آزاد امیدوار نورالحق قادری کے اثاثے 42 کروڑ 50 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔ اے این پی کے استقبال خان نے 2008 میں اپنے اثاثے الیکشن کمیشن کو نہیں بتائے تھے تاہم 2011 میں ان کے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی مالیت 39 کروڑ 58 لاکھ روپے ہے۔ فنکشنل مسلم لیگ کے صدر الدین کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب 4 کروڑ 79 لاکھ جب کہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے والے امیر مقام کے 2008 میں اثاثے 64 لاکھ روپے تھے جب کہ 2011میں انھوں نے اپنے اثاثے 33 کروڑ 44 لاکھ روپے کر لیے۔ 5 سال میں فی رکن پارلیمنٹ پر 13 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
سابق وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ زرعی شعبوں میں ریکارڈ کامیابی حاصل کی ہے۔ گندم، چینی اور چاول برآمد کر رہے ہیں۔ مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے8 فیصد کی سطح پر آ گئی ہے۔ گندم مافیا، چاول مافیا، شوگر مل مافیا اور کینو مافیا نے کسانوں سے اونے پونے میں اجناس خریدیں جب کہ کھاد، بیج، بجلی اور جراثیم کش ادویات کی قیمتوں میں 200 گنا اضافہ کر دیا گیا جس سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ میں مزید اضافہ ہو گیا اور عوام آٹا 45 روپے کلو، چینی 50 روپے کلو اور چاول 100 روپے کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ سرکار کہتی ہے کہ چینی ہم نے سستی کی اور برآمد بھی کر رہے ہیں جب کہ کسانوں سے گنا انتہائی کم قیمت 170 روپے پر شوگر مل مافیا خرید رہی ہے۔ اس لیے کہ بیشتر شوگر مل کے مالکان پارلیمنٹ کے رکن اور وزیر تھے۔
دہشت گرد امریکی سامراج کی نیٹو افواج کو اسلحے سے لدے کنٹینرز پاکستان کی سرزمین سے گزرنے کی اجازت دی گئی۔ گوادر کو چینی سامراج کے حوالے کر کے ملک کی اہم ترین بندرگاہ کا منافع خود حاصل کرنے کے بجائے چین کے حوالے کیا گیا۔ ہمارے ملک میں توانائی اتنی ہے کہ ہم ضرورت پوری کر کے برآمد کر سکتے ہیں۔ ایران کے ساتھ یہ معاہدہ صرف سرمایہ داروں کے منافع اور حکومت کے کمیشن کے لیے کیا گیا، جیسا کہ اس سے قبل رینٹل پاور پلانٹ کے ساتھ کیا گیا۔ خارجہ پالیسی کو غیر جانبدار اور سب سے بہتر تعلقات کی بات کی ہے جب کہ ہمارے تعلقات چینی اور امریکی سامراج سے سب سے زیادہ ہیں۔
پاکستان دنیا کا اسلحہ خریدنے والا تیسرا ملک ہے جو دنیا کے کل خریدے جانے والے اسلحے کا 5 فیصد خریدتا ہے۔ اس میں 42 فیصد چین سے، 36 فیصد امریکا سے اور 5 فیصد سوئیڈن سے۔ اس سے غیر جانبداری واضح ہو جاتی ہے۔ ہمارے وینزویلا، کیوبا، بولیویا، بیلاروس، شمالی کوریا، ایکواڈور، بھارت، بنگلہ دیش، روس اور وسطی ایشیائی ممالک سے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا ہم نے بلوچستان کے عوام سے معافی مانگ لی جب کہ پانچ برسوں میں ہزاروں بلوچ عوام خاص کر نوجوان مارے گئے اور لاپتہ ہوئے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 135 فیصد اضافہ کیا گیا۔ مگر سرکاری ملازمین کل محنت کشوں میں صرف 6.5 فیصد ہیں۔ جب کہ تنخواہوں میں زیادہ اضافہ اعلیٰ سرکاری ملازمین کے لیے کیا گیا نہ کہ نچلے درجے کے ملازمین کی تنخواہوں میں۔
پرائیویٹ ملازمین کو 4 سے 7 ہزار روپے تنخواہیں ملتی ہیں۔ ہر چند کہ حکومت نے 8 گھنٹے ڈیوٹی کے ساتھ کم از کم تنخواہ 9000 روپے کا اعلان کیا تھا اور اب کہتے ہیں کہ آیندہ آ گئے تو 18000 روپے کر دیں گے۔ جہاں تک ڈیلی ویجز کے کچھ مزدوروں کی مستقلی کی بات ہے تو پاکستان میں 60 فیصد مزدور غیر مستقل ہیں اور وہ تمام تر مزدور قوانین کے تحت متوقع حاصل ہونے والی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 75 ارب روپے غریب ناداروں کو ماہانہ ایک ہزار روپے دیے جا رہے ہیں۔ اگر ان 75 ارب کے 75 کارخانے لگائے جاتے تو 75 لاکھ لوگوں کو روزگار مل سکتا تھا۔ بقول ایما گولڈمان کہ ''اگر انتخابات سے عوام کے مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگا چکے ہوتے''۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے گا۔ عوام کی خواہشات تو یہ ہیں کہ روزگار ملے، رہائش ملے، مہنگائی ختم ہو، علاج ہو اور دال دلیہ سستا ملے، پہلی بار ایم کیو ایم نے اپنے آپ کو 5 سالہ حکومت کا حصہ قرار دیتے ہوئے سندھ حکومت کا دفاع کیا کہ انھوں نے عوام کی بہتری کے لیے کام کیا۔ اب بھلا سوچیں، کیا افلاس، غربت، بے روزگاری، اقربا پروری، کمیشن خوری، بھتہ خوری، قتل و غارت گری اگر عوام کی بھلائی ہے تو ایسی بھلائی سے عوام دور ہی رہنا پسند کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جاتے جاتے ایف بی آر میں600 ارب روپے کا فراڈ چھوڑ گئی ہے۔ سابق وزیر خزانہ سلیم ایچ مانڈوی والا نے بتایا کہ 190 ارب روپے کا سیلز ٹیکس جمع کیا۔ جب کہ 600 ارب روپے کا بااثر افراد کو ری فنڈ دیا گیا جو کہ بہت بڑا فراڈ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ایف بی آر کی اس چالاکی کو اپنے 24 گھنٹے کی وزارت خزانہ میں سامنے لایا گیا۔ انھوں نے کہا 30 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بااثر افراد کو بجلی کا بل ادا نہ کرنے کے باوجود سپلائی جاری رہتی ہے۔ نیب نادہندگان سے 100 ارب روپے وصول کرے گا۔ ابتدائی طور پر نیب اس معاملے کو اپنے ذمے لینے کو تیار نہیں تھا پھر اسے 10 فیصد کمیشن کی پیش کش کی گئی جس کے بعد چیئرمین نیب نے دو ہفتوں میں نتائج دینے کا وعدہ کیا۔ اپنی مختصر وزارت خزانہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ان پر مختلف کاموں کے لیے سیاست دانوں، فوجی حکام اور نوکر شاہی (وردی بے وردی) کی طرف سے انتہائی دباؤ ڈالا گیا۔
پاکستان میں کوئی بھی شخص اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید نہیں ہے۔ یہاں کے کل بجٹ کا 76 فیصد کالا دھن یعنی ہیروئن اور اسلحے کا بیوپار ہے۔ دنیا میں پیدا ہونے والے کل ہیروئن کا 80 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے، اس کا بیشتر حصہ پاکستان سے گزرتا ہے۔ اس طبقاتی خلیج کے خاتمے کا واحد حل نجی ملکیت، ریاست اور دفاعی بجٹ کا خاتمہ ہے۔ لیکن اس نظام میں رہتے ہوئے اگر کوئی ذرہ برابر بہتری کرنا چاہتا ہے تو سامراجی سرمایہ یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سرمایہ بحق سرکار ضبط کرنا ہو گا۔ دفاعی بجٹ کا خاتمہ کر کے 18 کروڑ انسانوں کو فوجی تربیت دینی ہو گی۔ سرمایہ داری ختم کر کے امداد باہمی اور نچلی سطح پر محلہ کمیٹیوں کے ذریعے مسائل کا حل کرنا ہو گا جو کہ پاکستان کی کسی بھی جماعت کے منشور میں نہیں ہے۔
خواہ وہ جمہوری ہوں، سیکولر ہوں، مذہبی ہوں، قوم پرست ہوں یا عملیت پسند۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے عوام کی بھلائی کرنے کا عہد کرتے رہتے ہیں جو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ جب سرمایہ داری کے دیو امریکا، یورپ، جاپان، چین اور ہندوستان کی حالت غیر ہے تو پاکستان کس کھیت کی مولی ہے۔ امریکا کی 30 کروڑ کی آبادی میں 6 کروڑ، جرمنی میں 50 لاکھ، جاپان میں 65 لاکھ، چین میں 22 کروڑ اور بھارت میں 34 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ساڑھے چار کروڑ لوگ بے روزگار ہیں اور 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں صرف مزدور طبقے کی قیادت میں عام شہریوں کے انقلاب کی ضرورت ہے جو از خود اپنے مسائل حل کر سکیں گے۔
پاکستان میں ہر روز بھوک سے 1132 بچے اور 900 بالغ عوام مر رہے ہیں تو دوسری جانب ارکان پارلیمنٹ کے پاس دولت میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیر ترین رکن پارلیمنٹ نور عالم 32 ارب روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ پیپلز پارٹی کے طارق خٹک کے اثاثے 2011 میں 8 ارب روپے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کے اثاثوں میں 2008ء سے 2011 تک 1 ارب 50 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ پی پی پی کے ارباب عالمگیر ایک ارب 50 کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہو گئے۔
پی پی پی کے معظم علی خان جتوئی کے اثاثے 3 کروڑ 45 لاکھ سے بڑھ کر 5 کروڑ روپے ہو گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 4 برس میں 64 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ آزاد امیدوار نورالحق قادری کے اثاثے 42 کروڑ 50 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔ اے این پی کے استقبال خان نے 2008 میں اپنے اثاثے الیکشن کمیشن کو نہیں بتائے تھے تاہم 2011 میں ان کے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی مالیت 39 کروڑ 58 لاکھ روپے ہے۔ فنکشنل مسلم لیگ کے صدر الدین کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب 4 کروڑ 79 لاکھ جب کہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے والے امیر مقام کے 2008 میں اثاثے 64 لاکھ روپے تھے جب کہ 2011میں انھوں نے اپنے اثاثے 33 کروڑ 44 لاکھ روپے کر لیے۔ 5 سال میں فی رکن پارلیمنٹ پر 13 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
سابق وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ زرعی شعبوں میں ریکارڈ کامیابی حاصل کی ہے۔ گندم، چینی اور چاول برآمد کر رہے ہیں۔ مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے8 فیصد کی سطح پر آ گئی ہے۔ گندم مافیا، چاول مافیا، شوگر مل مافیا اور کینو مافیا نے کسانوں سے اونے پونے میں اجناس خریدیں جب کہ کھاد، بیج، بجلی اور جراثیم کش ادویات کی قیمتوں میں 200 گنا اضافہ کر دیا گیا جس سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ میں مزید اضافہ ہو گیا اور عوام آٹا 45 روپے کلو، چینی 50 روپے کلو اور چاول 100 روپے کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ سرکار کہتی ہے کہ چینی ہم نے سستی کی اور برآمد بھی کر رہے ہیں جب کہ کسانوں سے گنا انتہائی کم قیمت 170 روپے پر شوگر مل مافیا خرید رہی ہے۔ اس لیے کہ بیشتر شوگر مل کے مالکان پارلیمنٹ کے رکن اور وزیر تھے۔
دہشت گرد امریکی سامراج کی نیٹو افواج کو اسلحے سے لدے کنٹینرز پاکستان کی سرزمین سے گزرنے کی اجازت دی گئی۔ گوادر کو چینی سامراج کے حوالے کر کے ملک کی اہم ترین بندرگاہ کا منافع خود حاصل کرنے کے بجائے چین کے حوالے کیا گیا۔ ہمارے ملک میں توانائی اتنی ہے کہ ہم ضرورت پوری کر کے برآمد کر سکتے ہیں۔ ایران کے ساتھ یہ معاہدہ صرف سرمایہ داروں کے منافع اور حکومت کے کمیشن کے لیے کیا گیا، جیسا کہ اس سے قبل رینٹل پاور پلانٹ کے ساتھ کیا گیا۔ خارجہ پالیسی کو غیر جانبدار اور سب سے بہتر تعلقات کی بات کی ہے جب کہ ہمارے تعلقات چینی اور امریکی سامراج سے سب سے زیادہ ہیں۔
پاکستان دنیا کا اسلحہ خریدنے والا تیسرا ملک ہے جو دنیا کے کل خریدے جانے والے اسلحے کا 5 فیصد خریدتا ہے۔ اس میں 42 فیصد چین سے، 36 فیصد امریکا سے اور 5 فیصد سوئیڈن سے۔ اس سے غیر جانبداری واضح ہو جاتی ہے۔ ہمارے وینزویلا، کیوبا، بولیویا، بیلاروس، شمالی کوریا، ایکواڈور، بھارت، بنگلہ دیش، روس اور وسطی ایشیائی ممالک سے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا ہم نے بلوچستان کے عوام سے معافی مانگ لی جب کہ پانچ برسوں میں ہزاروں بلوچ عوام خاص کر نوجوان مارے گئے اور لاپتہ ہوئے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 135 فیصد اضافہ کیا گیا۔ مگر سرکاری ملازمین کل محنت کشوں میں صرف 6.5 فیصد ہیں۔ جب کہ تنخواہوں میں زیادہ اضافہ اعلیٰ سرکاری ملازمین کے لیے کیا گیا نہ کہ نچلے درجے کے ملازمین کی تنخواہوں میں۔
پرائیویٹ ملازمین کو 4 سے 7 ہزار روپے تنخواہیں ملتی ہیں۔ ہر چند کہ حکومت نے 8 گھنٹے ڈیوٹی کے ساتھ کم از کم تنخواہ 9000 روپے کا اعلان کیا تھا اور اب کہتے ہیں کہ آیندہ آ گئے تو 18000 روپے کر دیں گے۔ جہاں تک ڈیلی ویجز کے کچھ مزدوروں کی مستقلی کی بات ہے تو پاکستان میں 60 فیصد مزدور غیر مستقل ہیں اور وہ تمام تر مزدور قوانین کے تحت متوقع حاصل ہونے والی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 75 ارب روپے غریب ناداروں کو ماہانہ ایک ہزار روپے دیے جا رہے ہیں۔ اگر ان 75 ارب کے 75 کارخانے لگائے جاتے تو 75 لاکھ لوگوں کو روزگار مل سکتا تھا۔ بقول ایما گولڈمان کہ ''اگر انتخابات سے عوام کے مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگا چکے ہوتے''۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے گا۔ عوام کی خواہشات تو یہ ہیں کہ روزگار ملے، رہائش ملے، مہنگائی ختم ہو، علاج ہو اور دال دلیہ سستا ملے، پہلی بار ایم کیو ایم نے اپنے آپ کو 5 سالہ حکومت کا حصہ قرار دیتے ہوئے سندھ حکومت کا دفاع کیا کہ انھوں نے عوام کی بہتری کے لیے کام کیا۔ اب بھلا سوچیں، کیا افلاس، غربت، بے روزگاری، اقربا پروری، کمیشن خوری، بھتہ خوری، قتل و غارت گری اگر عوام کی بھلائی ہے تو ایسی بھلائی سے عوام دور ہی رہنا پسند کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جاتے جاتے ایف بی آر میں600 ارب روپے کا فراڈ چھوڑ گئی ہے۔ سابق وزیر خزانہ سلیم ایچ مانڈوی والا نے بتایا کہ 190 ارب روپے کا سیلز ٹیکس جمع کیا۔ جب کہ 600 ارب روپے کا بااثر افراد کو ری فنڈ دیا گیا جو کہ بہت بڑا فراڈ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ایف بی آر کی اس چالاکی کو اپنے 24 گھنٹے کی وزارت خزانہ میں سامنے لایا گیا۔ انھوں نے کہا 30 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بااثر افراد کو بجلی کا بل ادا نہ کرنے کے باوجود سپلائی جاری رہتی ہے۔ نیب نادہندگان سے 100 ارب روپے وصول کرے گا۔ ابتدائی طور پر نیب اس معاملے کو اپنے ذمے لینے کو تیار نہیں تھا پھر اسے 10 فیصد کمیشن کی پیش کش کی گئی جس کے بعد چیئرمین نیب نے دو ہفتوں میں نتائج دینے کا وعدہ کیا۔ اپنی مختصر وزارت خزانہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ان پر مختلف کاموں کے لیے سیاست دانوں، فوجی حکام اور نوکر شاہی (وردی بے وردی) کی طرف سے انتہائی دباؤ ڈالا گیا۔
پاکستان میں کوئی بھی شخص اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید نہیں ہے۔ یہاں کے کل بجٹ کا 76 فیصد کالا دھن یعنی ہیروئن اور اسلحے کا بیوپار ہے۔ دنیا میں پیدا ہونے والے کل ہیروئن کا 80 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے، اس کا بیشتر حصہ پاکستان سے گزرتا ہے۔ اس طبقاتی خلیج کے خاتمے کا واحد حل نجی ملکیت، ریاست اور دفاعی بجٹ کا خاتمہ ہے۔ لیکن اس نظام میں رہتے ہوئے اگر کوئی ذرہ برابر بہتری کرنا چاہتا ہے تو سامراجی سرمایہ یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سرمایہ بحق سرکار ضبط کرنا ہو گا۔ دفاعی بجٹ کا خاتمہ کر کے 18 کروڑ انسانوں کو فوجی تربیت دینی ہو گی۔ سرمایہ داری ختم کر کے امداد باہمی اور نچلی سطح پر محلہ کمیٹیوں کے ذریعے مسائل کا حل کرنا ہو گا جو کہ پاکستان کی کسی بھی جماعت کے منشور میں نہیں ہے۔
خواہ وہ جمہوری ہوں، سیکولر ہوں، مذہبی ہوں، قوم پرست ہوں یا عملیت پسند۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے عوام کی بھلائی کرنے کا عہد کرتے رہتے ہیں جو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ جب سرمایہ داری کے دیو امریکا، یورپ، جاپان، چین اور ہندوستان کی حالت غیر ہے تو پاکستان کس کھیت کی مولی ہے۔ امریکا کی 30 کروڑ کی آبادی میں 6 کروڑ، جرمنی میں 50 لاکھ، جاپان میں 65 لاکھ، چین میں 22 کروڑ اور بھارت میں 34 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ساڑھے چار کروڑ لوگ بے روزگار ہیں اور 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں صرف مزدور طبقے کی قیادت میں عام شہریوں کے انقلاب کی ضرورت ہے جو از خود اپنے مسائل حل کر سکیں گے۔