بچے اور بلوغت کی تعلیم
معاشرہ خواہ کوئی بھی ہو، فرد کی تربیت کے یہ تینوں ادوار اور ادارے اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔
(گذشتہ سے پیوستہ)
واقعہ یہ ہے کہ ترقی اور کام یابی کے دوسرے تصورات کی طرح ہم اپنے بچوں کی جنسی یا بلوغت کی تعلیم کا خیال بھی امریکا اور یورپ کی ترقی یافتہ اقوام سے لینے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایسا کرتے ہوئے ہم نے اس بار بھی یہ دیکھنے اور سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ جو طرزِحیات یا جو خیال ہم دوسروں سے لینے کے خواہش مند ہیں، وہ ہمارے سماجی اور تہذیبی مزاج سے کوئی مطابقت بھی رکھتا ہے کہ نہیں۔ اب کہنے کو تو اس خواہش اور کوشش پر ردِعمل کے طور پر فوراً کہا جاسکتا ہے کہ صاحب دیکھ لیجیے۔
اس مابعد نوآبادتی عہد میں بھی ہمارے ذہنی رویے نوآبادتی عہد کے اثرات کے تحت ہی ظاہر ہو رہے ہیں اور ہم آزاد ملک و قوم ہوتے ہوئے بھی اپنے آزاد ذہن سے نہیں سوچتے، بلکہ اپنے پرانے آقاؤں سے ہماری مرعوبیت اب بھی اس حد تک قائم ہے کہ اپنی سماجی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی زندگی کے حوالے سے ہر چیز، ہر مسئلے اور ہر بات کے لیے ہم انھی کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔
یہ سب کچھ کہہ کر اپنے قومی مزاج کی سو خرابیاں گنوائی جاسکتی ہیں، اس کے بعد فی الحال ہماری جو اجتماعی صورتِ حال ہے اُس کا تجزیہ اور آخر میں اپنی قومی تحلیلِ نفسی کا شوق پورا کرتے ہوئے اچھا خاصا فتویٰ بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔ ویسے ہمارے یہاں آئے دن بہانے بہانے سے بہت سے نام نہاد دانش ور اخبارات کے کالم اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں یہی کام کرتے ہوئے دیکھے بھی جاسکتے ہیں۔
خیر، اس دانش وری کے شوق کو ایک طرف رکھ کر اتنی بات ہم بہت سادہ لفظوں اور سیدھے انداز سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی بھی زمین میں وہی فصل کاشت ہوسکتی ہے جو اُس کے ماحول اور موسم سے مطابقت رکھتی ہو۔ مثال کے طور پر سائبیریا میں آم یا تربوز کا بیج بارور نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ان پھلوں کی کاشت جو تقاضا کرتی ہے، یہ زمین اُسے پورا کرنے سے قاصر ہے۔
کسی تہذیب کے مزاج یا قوم کی سائیکی کا معاملہ بھی کچھ اسی جیسا ہوتا ہے، یعنی اُس میں ایک تصور یا خیال ضروری نہیں ہے کہ وہی نتائج حاصل کرے جو وہ کسی دوسرے معاشرے یا تہذیبی تناظر میں بہ آسانی کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ ایسے تمام نتائج کا دار و مدار اصل میں ایک تہذیب کے تصورِ حقیقت پر ہوتا ہے۔ اسی کے تحت اس کا تصورِحیات تشکیل پاتا ہے، فرد اور سماج کے باہمی رشتے کی نوعیت، زندگی کی معنویت طے ہوتی اور سماجی اقدار قائم ہوتی ہیں۔ یہ تو ہوئی ایک بنیادی اور اصولی بات۔
تاہم اس ضمن میں ایک اور پہلو بھی بہت اہم اور غورطلب ہے۔ وہ یہ کہ قومی اور تہذیبی سطح پر کوئی تصور یا طرزِاحساس مستعار لیتے ہوئے پہلی اور سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہونی چاہیے کہ پہلے ہر زاویے سے دیکھ لیا جائے کہ اس تصور نے خود اپنی تہذیب یا سماج میں کیا کردار ادا کیا اور اس کے افراد کے لیے کس طرح کے نتائج کا حامل رہا۔ اب مثال کے طور پر بچوں کی جنسی یا قبل از وقت بلوغت کی تعلیم کا مسئلہ سامنے رکھ لیجیے اور یہ دیکھیے کہ یورپ اور امریکا کہ جہاں سے تعلیم یا آگاہی کا یہ تصور ہم اپنے لیے حاصل کررہے ہیں، خود وہاں کی سماجی زندگی میں یہ تجربہ کس حد تک کام یاب رہا ہے۔
شماریات کے عالمی ادارے یہ بتاتے ہیں کہ امریکا میں اور یورپ کے بعض مہذب اور ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ممالک میں ہر چار اور پانچ میں سے ایک بچہ جنسی تشدد کا شکار ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اِن ملکوں میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کی شرح لگ بھگ بیس اور پچیس فی صد ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ وہ ممالک ہیں جہاں ایک عرصے سے بچوں کے لیے اسکول کے زمانے سے ہی باقاعدہ جنسی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ انھیں جنسی تشدد کی کارروائی کو فوراً سمجھنے اور اس استحصال کے تجربے سے بچنے کا طریقہ سکھایا جاسکے۔ اس کے باوجود آپ دیکھ لیجیے کہ ان معاشروں میں اس تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کی شرح بیس پچّیس فی صد بنتی ہے۔
جب کہ ہمارے یہاں اس مسئلے کے حوالے سے جو اعداد و شمار ملتے ہیں اُن میں ایک کے مطابق بیس اور دوسرے کے لحاظ سے پچّیس میں سے ایک بچہ جنسی تشدد کا شکار ہوتا ہے۔ گویا یہاں پر یہ شرح چار یا پانچ فی صد ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہاں اس بات کی وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ ہمارے یہاں شرح کی کمی کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے سارے واقعات کی رپورٹ نہ درج کرائی جاتی ہو۔
اس کے باوجود بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ تناسب پھر بھی وہ نہیں ہوگا جو امریکا میں نظر آتا ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ حکومت، سیاسی یا انتظامی ادارے اس شرح کی کمی کا کوئی کریڈٹ اس لیے نہیں لے سکتے کہ اس ضمن میں اُن کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ سماج کی اپنی صورتِ حال کا نتیجہ ہے۔ چناںچہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں اس مسئلے پر قابو پانا امریکا اور یورپ کے مقابلے میں ذرا آسان ہے۔
دوسری بات، اور یہ زیادہ غور کرنے اور سمجھنے کا نکتہ ہے۔ امریکا میں جنسی تشدد کے مجرموں میں بالغ عمر کے جو لوگ شامل ہیں وہ تو اپنی جگہ، لیکن اُن کے علاوہ ایسے افراد بھی اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں شامل ہیں جن کی اپنی عمریں سولہ سال یا اُس سے بھی کم ہیں۔ اس کے ساتھ پھر یہ بھی غور طلب بات ہے کہ ایسے کم عمر مجرم اِکا دُکا نہیں ہوتے، بلکہ وہ کل مجرموں کے تیس فی صد سے زیادہ شمار کیے گئے ہیں۔ گویا یہ تناسب بھی معمولی یا غیر اہم نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کہ ان ممالک میں اب یہ محسوس کیا جارہا ہے اور صاف لفظوں میں نہ سہی، لیکن اس کا اظہار بھی بہرحال ہونے لگا ہے کہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اس جرم پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہا ہے، اس لیے کہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ انتظامی، سماجی اور حکومتی سطح پر ساری کوششوں کے باوجود اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے اور مجرموں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بڑھتی ہوئی شرح تشویش ناک ہے۔
جائزوں اور رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوجوان مجرموں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کم عمری میں پہلے خود جنسی تشدد کے تجربے سے دوچار ہوئے اور ایک عرصہ سراسیمگی اور ڈپریشن میں گزار کر خود اسی جرم کی طرف مائل ہوگئے۔ گویا امریکا اور بعض یورپی ممالک میں جنسی تشدد اب چھوت چھات یا وائرس کی بیماری کا درجہ اختیار کرچکا ہے کہ جو ایک فرد سے دوسرے تک پہنچ رہی ہے۔ سماجی انجینئرز اور نفسیاتی معالجین اس مسئلے پر اپنی تشویش اور الجھن کا اظہار تو بے شک کرتے ہیں، لیکن ابھی تک اس کی کسی بھی طرح روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور بات بھی قابلِ غور ہے۔ امریکا میں بلوغت کی طے شدہ سرکاری عمر سے پہلے ہی متعدد ریاستوں میں لڑکیوں کو حمل ساقط کرانے کا قانونی حق حاصل ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی میں نمایاں پیش رفت گزشتہ صدی میں ستر اور اسی کی دہائی میں ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بارہ اور تیرہ برس کی عمر کی بچیوں نے اپنے لیے یہ حق اپنی ریاست سے قانونی طور پر طلب کیا تھا اور اس کے لیے بڑے بڑے جلوس نکالے گئے تھے۔
اُس دور کے سماجی ماہرین اور سماجی حقائق کے اعداد و شمار جمع کرنے والے اداروں کی رپورٹس نے بھی اس حوالے سے عدالتوں کو قائل کرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ کام تو قانونی اجازت کے بغیر بھی چھپ چھپا کر ہمارے سماج میں بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔
حقائق یہ بتاتے ہیں کہ قانونی تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں معالج یا پھر اسپتال کی بے پروائی کے باعث اس عمل کے دوران میں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں یا پھر عمر بھر کے لیے ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہیں اور کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہوکر ساری زندگی عذاب جھیلتی ہیں۔
ڈاکٹرز، کلینکس اور اسپتال ایسے کیسز کا نہ صرف یہ کہ بری طرح معاشی استحصال کرتے ہیں، بلکہ وہ کسی حادثے کی صورت میں اوّل تو جواب دہ نہیں ہوتے اور اگر کہیں جواب دینا بھی پڑے تو اپنے بچاؤ کی تدبیر آسانی سے کرلیتے ہیں اور سارا ملبہ مریض یا مرنے والے پر ڈال دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب حقائق نئی قانون سازی کی حمایت کرتے تھے۔
اب یہاں ایک لمحے کے لیے رُک کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ان معاملات اور صورتِ احوال سے ترقی یافتہ قوموں کا جو نقشہ سامنے آرہا ہے، کیا وہ کسی بھی طرح پسندیدہ کہلا سکتا ہے یا قابلِ تقلید؟ اچھا، پسندیدگی اور تقلید کو بھی چھوڑیے، کیا اس میں انسانی تحفظ اور فلاح کی کوئی گنجائش نظر آتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی ممالک ہیں جہاں بلوغت کی عمر سے بہت پہلے بچوں کے لیے جنسی تعلیم اور کم عمری ہی میں جسمانی شعور کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اب ذرا تحمل سے سوچیے تو آپ خود ہی یہ تسلیم کرلیں گے کہ اِن ممالک کی مشکل بھی عجیب ہے۔ ایک طرف تو ان کی یہ کوششیں اور تعلیم کا یہ نظام ان کے سماج میں بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے میں ناکام رہا ہے اور دوسری طرف ناپختہ شعور کی جنسی آگاہی خود ان بچوں کو بھی اس آگ کی جانب لپکنے کی بھرپور ترغیب دے رہی ہے۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں بچوں کے جنسی تشدد کا معاملہ بہت گمبھیر اور پریشان کن ہے۔ اس لیے کہ وہاں اس مسئلے کی اصلاح کے لیے کیے جانے والے اقدامات الٹا اس میں اور زیادہ اضافے کا سبب بنے ہیں۔
معاملہ اصل میں یہ ہے کہ فرد اور معاشرے کی فلاح کے لیے تعلیم اسی وقت مؤثر ثابت ہوتی ہے جب اس کے ساتھ کردار کی تربیت کا ایک جامع نظام بھی موجود ہو اور اس کے لیے مددگار ماحول بھی فراہم کیا جائے۔ اگر تربیت نہ ہو تو پھر تعلیم کی مثال اسلحے کی سی ہوتی ہے، یعنی یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کا استعمال ایک مثبت مقصد کے لیے کرتا ہے یا کسی منفی کام کے لیے۔ اب رہ گیا مسئلہ تربیت کا تو بات یہ ہے کہ تربیت کا عمل پہلے ماں کی گود میں، پھر گھر اور اس کے بعد سماج کی سطح پر ہوتا ہے۔
معاشرہ خواہ کوئی بھی ہو، فرد کی تربیت کے یہ تینوں ادوار اور ادارے اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان میں سے کسی ایک سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ جنسی تعلیم کا معاملہ تو ویسے ہی ذرا مشکل ہے، اس لیے کہ کسی بھی عمر اور عقل کی سطح کے بچوں کو جنسی اعضا کی نشان دہی اور جنسی ترغیب کے بارے میں سرسری سی باتیں بتانا سمجھانا بہت کارآمد نہیں ہو سکتا، اگر اُن کے ساتھ بچوں کے لیے ذہنی رویے بنانے والی اخلاقی اقدار کی تعلیم و تربیت نہ ہو، اور کردار سازی کا عمل بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں یہ جو اسکول کے مرحلے میں بچوں کی جنسی تعلیم کا سوال اٹھایا گیا ہے، اس پر ہمیں آنکھیں بند کرکے آمنا و صدقنا ہرگز نہیں کہنا چاہیے۔ یوں بھی ذہنی دباؤ، غصے یا صدمے کی حالت میں بہتر عقلی فیصلے کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اس وقت ہم سب اجتماعی طور پر یکے بعد دیگرے سامنے آنے والے ایسے سانحات کے ملال اور دباؤ کی کیفیت میں ہیں۔
بے بسی کے احساس اور سخت غصے کا اثر بھی ہم سب کے دل و دماغ پر ہے۔ اس وقت تو خود کو نارمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم یہ کر پائیں تو پھر ہمیں اس مسئلے پر سب سے پہلے اپنی سماجی اور تہذیبی صورتِ حال کے حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ ٹھنڈے دل سے اور حالات و واقعات کے ہر ممکن پہلو کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اچھی طرح دیکھنا چاہیے، آیا جس اقدام کے بارے میں ہم سوچ رہے ہیں، وہ ہمارے یہاں قابلِ عمل بھی ہے کہ نہیں۔
اگر جواب اثبات میں ہو تو پھر دیکھنا چاہیے کہ بچوں کی جنسی تعلیم کا معیار اور طریقِ کار کیا ہوگا۔ اس کا نصاب اور طرزِتدریس کیا ہونا چاہیے۔ اس کے اہداف کیا ہوں گے۔ ان اہداف کا جائزہ کب اور کس طرح لیا جائے گا تاکہ دیکھا جائے، ہمیں اس کام سے مطلوبہ نتائج حاصل ہورہے ہیں کہ نہیں۔ اگر نہیں، تو پھر ہمیں تعلیم کے اس نظام میں کس طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہوسکتی ہے جو بچوں کے اندر اخلاقی اقدار کا احساس پیدا کرتے ہوئے انھیں حالات کے اس تقاضے کو سمجھانے اور اس کے مطابق انھیں تیار کرنے کا ذریعہ بن سکے۔
یہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اُن کی کردارسازی کے لیے بھی ایک جامع اور مؤثر حکمتِ عملی بنانا لازمی ہے۔ اس سارے اہتمام کی بہ یک وقت ضرورت ہوگی۔ اس کے بغیر یہ طریقہ نہ صرف ناکام ہوسکتا، بلکہ امریکا اور دوسرے ممالک کی طرح ہمارے یہاں مزید خلفشار اور نئے سماجی مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اپنے بچوں کو اس طرح کے مسائل کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے محض جنسی تعلیم پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ گھر اور معاشرے میں بھی اس ماحول کی فراہمی کا اہتمام ناگزیر ہے جو بہتر نتائج کے حصول کے لیے درکار ہوگا۔ اس ضمن میں افراد سے لے کر انتظامیہ اور تمام سرکاری اور غیرسرکاری اداروں تک اور اُن کے ساتھ چھوٹی بڑی سب عدالتوں تک یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ اس حوالے سے جرم و سزا کا بے حد سخت، نہایت مؤثر اور تیز رفتار نظام بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔
اصل میں جرم و سزا کا نظام کسی بھی سماج کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی نظام درحقیقت ایک انسانی آبادی یا کسی سماج کو جنگل بننے سے بچاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتے ہیں، لیکن ظلم و ناانصافی کے ساتھ نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ترقی اور کام یابی کے دوسرے تصورات کی طرح ہم اپنے بچوں کی جنسی یا بلوغت کی تعلیم کا خیال بھی امریکا اور یورپ کی ترقی یافتہ اقوام سے لینے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایسا کرتے ہوئے ہم نے اس بار بھی یہ دیکھنے اور سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ جو طرزِحیات یا جو خیال ہم دوسروں سے لینے کے خواہش مند ہیں، وہ ہمارے سماجی اور تہذیبی مزاج سے کوئی مطابقت بھی رکھتا ہے کہ نہیں۔ اب کہنے کو تو اس خواہش اور کوشش پر ردِعمل کے طور پر فوراً کہا جاسکتا ہے کہ صاحب دیکھ لیجیے۔
اس مابعد نوآبادتی عہد میں بھی ہمارے ذہنی رویے نوآبادتی عہد کے اثرات کے تحت ہی ظاہر ہو رہے ہیں اور ہم آزاد ملک و قوم ہوتے ہوئے بھی اپنے آزاد ذہن سے نہیں سوچتے، بلکہ اپنے پرانے آقاؤں سے ہماری مرعوبیت اب بھی اس حد تک قائم ہے کہ اپنی سماجی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی زندگی کے حوالے سے ہر چیز، ہر مسئلے اور ہر بات کے لیے ہم انھی کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔
یہ سب کچھ کہہ کر اپنے قومی مزاج کی سو خرابیاں گنوائی جاسکتی ہیں، اس کے بعد فی الحال ہماری جو اجتماعی صورتِ حال ہے اُس کا تجزیہ اور آخر میں اپنی قومی تحلیلِ نفسی کا شوق پورا کرتے ہوئے اچھا خاصا فتویٰ بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔ ویسے ہمارے یہاں آئے دن بہانے بہانے سے بہت سے نام نہاد دانش ور اخبارات کے کالم اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں یہی کام کرتے ہوئے دیکھے بھی جاسکتے ہیں۔
خیر، اس دانش وری کے شوق کو ایک طرف رکھ کر اتنی بات ہم بہت سادہ لفظوں اور سیدھے انداز سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی بھی زمین میں وہی فصل کاشت ہوسکتی ہے جو اُس کے ماحول اور موسم سے مطابقت رکھتی ہو۔ مثال کے طور پر سائبیریا میں آم یا تربوز کا بیج بارور نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ان پھلوں کی کاشت جو تقاضا کرتی ہے، یہ زمین اُسے پورا کرنے سے قاصر ہے۔
کسی تہذیب کے مزاج یا قوم کی سائیکی کا معاملہ بھی کچھ اسی جیسا ہوتا ہے، یعنی اُس میں ایک تصور یا خیال ضروری نہیں ہے کہ وہی نتائج حاصل کرے جو وہ کسی دوسرے معاشرے یا تہذیبی تناظر میں بہ آسانی کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ ایسے تمام نتائج کا دار و مدار اصل میں ایک تہذیب کے تصورِ حقیقت پر ہوتا ہے۔ اسی کے تحت اس کا تصورِحیات تشکیل پاتا ہے، فرد اور سماج کے باہمی رشتے کی نوعیت، زندگی کی معنویت طے ہوتی اور سماجی اقدار قائم ہوتی ہیں۔ یہ تو ہوئی ایک بنیادی اور اصولی بات۔
تاہم اس ضمن میں ایک اور پہلو بھی بہت اہم اور غورطلب ہے۔ وہ یہ کہ قومی اور تہذیبی سطح پر کوئی تصور یا طرزِاحساس مستعار لیتے ہوئے پہلی اور سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہونی چاہیے کہ پہلے ہر زاویے سے دیکھ لیا جائے کہ اس تصور نے خود اپنی تہذیب یا سماج میں کیا کردار ادا کیا اور اس کے افراد کے لیے کس طرح کے نتائج کا حامل رہا۔ اب مثال کے طور پر بچوں کی جنسی یا قبل از وقت بلوغت کی تعلیم کا مسئلہ سامنے رکھ لیجیے اور یہ دیکھیے کہ یورپ اور امریکا کہ جہاں سے تعلیم یا آگاہی کا یہ تصور ہم اپنے لیے حاصل کررہے ہیں، خود وہاں کی سماجی زندگی میں یہ تجربہ کس حد تک کام یاب رہا ہے۔
شماریات کے عالمی ادارے یہ بتاتے ہیں کہ امریکا میں اور یورپ کے بعض مہذب اور ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ممالک میں ہر چار اور پانچ میں سے ایک بچہ جنسی تشدد کا شکار ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اِن ملکوں میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کی شرح لگ بھگ بیس اور پچیس فی صد ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ وہ ممالک ہیں جہاں ایک عرصے سے بچوں کے لیے اسکول کے زمانے سے ہی باقاعدہ جنسی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ انھیں جنسی تشدد کی کارروائی کو فوراً سمجھنے اور اس استحصال کے تجربے سے بچنے کا طریقہ سکھایا جاسکے۔ اس کے باوجود آپ دیکھ لیجیے کہ ان معاشروں میں اس تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کی شرح بیس پچّیس فی صد بنتی ہے۔
جب کہ ہمارے یہاں اس مسئلے کے حوالے سے جو اعداد و شمار ملتے ہیں اُن میں ایک کے مطابق بیس اور دوسرے کے لحاظ سے پچّیس میں سے ایک بچہ جنسی تشدد کا شکار ہوتا ہے۔ گویا یہاں پر یہ شرح چار یا پانچ فی صد ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہاں اس بات کی وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ ہمارے یہاں شرح کی کمی کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے سارے واقعات کی رپورٹ نہ درج کرائی جاتی ہو۔
اس کے باوجود بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ تناسب پھر بھی وہ نہیں ہوگا جو امریکا میں نظر آتا ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ حکومت، سیاسی یا انتظامی ادارے اس شرح کی کمی کا کوئی کریڈٹ اس لیے نہیں لے سکتے کہ اس ضمن میں اُن کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ سماج کی اپنی صورتِ حال کا نتیجہ ہے۔ چناںچہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں اس مسئلے پر قابو پانا امریکا اور یورپ کے مقابلے میں ذرا آسان ہے۔
دوسری بات، اور یہ زیادہ غور کرنے اور سمجھنے کا نکتہ ہے۔ امریکا میں جنسی تشدد کے مجرموں میں بالغ عمر کے جو لوگ شامل ہیں وہ تو اپنی جگہ، لیکن اُن کے علاوہ ایسے افراد بھی اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں شامل ہیں جن کی اپنی عمریں سولہ سال یا اُس سے بھی کم ہیں۔ اس کے ساتھ پھر یہ بھی غور طلب بات ہے کہ ایسے کم عمر مجرم اِکا دُکا نہیں ہوتے، بلکہ وہ کل مجرموں کے تیس فی صد سے زیادہ شمار کیے گئے ہیں۔ گویا یہ تناسب بھی معمولی یا غیر اہم نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کہ ان ممالک میں اب یہ محسوس کیا جارہا ہے اور صاف لفظوں میں نہ سہی، لیکن اس کا اظہار بھی بہرحال ہونے لگا ہے کہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اس جرم پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہا ہے، اس لیے کہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ انتظامی، سماجی اور حکومتی سطح پر ساری کوششوں کے باوجود اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے اور مجرموں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بڑھتی ہوئی شرح تشویش ناک ہے۔
جائزوں اور رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوجوان مجرموں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کم عمری میں پہلے خود جنسی تشدد کے تجربے سے دوچار ہوئے اور ایک عرصہ سراسیمگی اور ڈپریشن میں گزار کر خود اسی جرم کی طرف مائل ہوگئے۔ گویا امریکا اور بعض یورپی ممالک میں جنسی تشدد اب چھوت چھات یا وائرس کی بیماری کا درجہ اختیار کرچکا ہے کہ جو ایک فرد سے دوسرے تک پہنچ رہی ہے۔ سماجی انجینئرز اور نفسیاتی معالجین اس مسئلے پر اپنی تشویش اور الجھن کا اظہار تو بے شک کرتے ہیں، لیکن ابھی تک اس کی کسی بھی طرح روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور بات بھی قابلِ غور ہے۔ امریکا میں بلوغت کی طے شدہ سرکاری عمر سے پہلے ہی متعدد ریاستوں میں لڑکیوں کو حمل ساقط کرانے کا قانونی حق حاصل ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی میں نمایاں پیش رفت گزشتہ صدی میں ستر اور اسی کی دہائی میں ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بارہ اور تیرہ برس کی عمر کی بچیوں نے اپنے لیے یہ حق اپنی ریاست سے قانونی طور پر طلب کیا تھا اور اس کے لیے بڑے بڑے جلوس نکالے گئے تھے۔
اُس دور کے سماجی ماہرین اور سماجی حقائق کے اعداد و شمار جمع کرنے والے اداروں کی رپورٹس نے بھی اس حوالے سے عدالتوں کو قائل کرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ کام تو قانونی اجازت کے بغیر بھی چھپ چھپا کر ہمارے سماج میں بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔
حقائق یہ بتاتے ہیں کہ قانونی تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں معالج یا پھر اسپتال کی بے پروائی کے باعث اس عمل کے دوران میں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں یا پھر عمر بھر کے لیے ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہیں اور کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہوکر ساری زندگی عذاب جھیلتی ہیں۔
ڈاکٹرز، کلینکس اور اسپتال ایسے کیسز کا نہ صرف یہ کہ بری طرح معاشی استحصال کرتے ہیں، بلکہ وہ کسی حادثے کی صورت میں اوّل تو جواب دہ نہیں ہوتے اور اگر کہیں جواب دینا بھی پڑے تو اپنے بچاؤ کی تدبیر آسانی سے کرلیتے ہیں اور سارا ملبہ مریض یا مرنے والے پر ڈال دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب حقائق نئی قانون سازی کی حمایت کرتے تھے۔
اب یہاں ایک لمحے کے لیے رُک کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ان معاملات اور صورتِ احوال سے ترقی یافتہ قوموں کا جو نقشہ سامنے آرہا ہے، کیا وہ کسی بھی طرح پسندیدہ کہلا سکتا ہے یا قابلِ تقلید؟ اچھا، پسندیدگی اور تقلید کو بھی چھوڑیے، کیا اس میں انسانی تحفظ اور فلاح کی کوئی گنجائش نظر آتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی ممالک ہیں جہاں بلوغت کی عمر سے بہت پہلے بچوں کے لیے جنسی تعلیم اور کم عمری ہی میں جسمانی شعور کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اب ذرا تحمل سے سوچیے تو آپ خود ہی یہ تسلیم کرلیں گے کہ اِن ممالک کی مشکل بھی عجیب ہے۔ ایک طرف تو ان کی یہ کوششیں اور تعلیم کا یہ نظام ان کے سماج میں بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے میں ناکام رہا ہے اور دوسری طرف ناپختہ شعور کی جنسی آگاہی خود ان بچوں کو بھی اس آگ کی جانب لپکنے کی بھرپور ترغیب دے رہی ہے۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں بچوں کے جنسی تشدد کا معاملہ بہت گمبھیر اور پریشان کن ہے۔ اس لیے کہ وہاں اس مسئلے کی اصلاح کے لیے کیے جانے والے اقدامات الٹا اس میں اور زیادہ اضافے کا سبب بنے ہیں۔
معاملہ اصل میں یہ ہے کہ فرد اور معاشرے کی فلاح کے لیے تعلیم اسی وقت مؤثر ثابت ہوتی ہے جب اس کے ساتھ کردار کی تربیت کا ایک جامع نظام بھی موجود ہو اور اس کے لیے مددگار ماحول بھی فراہم کیا جائے۔ اگر تربیت نہ ہو تو پھر تعلیم کی مثال اسلحے کی سی ہوتی ہے، یعنی یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کا استعمال ایک مثبت مقصد کے لیے کرتا ہے یا کسی منفی کام کے لیے۔ اب رہ گیا مسئلہ تربیت کا تو بات یہ ہے کہ تربیت کا عمل پہلے ماں کی گود میں، پھر گھر اور اس کے بعد سماج کی سطح پر ہوتا ہے۔
معاشرہ خواہ کوئی بھی ہو، فرد کی تربیت کے یہ تینوں ادوار اور ادارے اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان میں سے کسی ایک سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ جنسی تعلیم کا معاملہ تو ویسے ہی ذرا مشکل ہے، اس لیے کہ کسی بھی عمر اور عقل کی سطح کے بچوں کو جنسی اعضا کی نشان دہی اور جنسی ترغیب کے بارے میں سرسری سی باتیں بتانا سمجھانا بہت کارآمد نہیں ہو سکتا، اگر اُن کے ساتھ بچوں کے لیے ذہنی رویے بنانے والی اخلاقی اقدار کی تعلیم و تربیت نہ ہو، اور کردار سازی کا عمل بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں یہ جو اسکول کے مرحلے میں بچوں کی جنسی تعلیم کا سوال اٹھایا گیا ہے، اس پر ہمیں آنکھیں بند کرکے آمنا و صدقنا ہرگز نہیں کہنا چاہیے۔ یوں بھی ذہنی دباؤ، غصے یا صدمے کی حالت میں بہتر عقلی فیصلے کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اس وقت ہم سب اجتماعی طور پر یکے بعد دیگرے سامنے آنے والے ایسے سانحات کے ملال اور دباؤ کی کیفیت میں ہیں۔
بے بسی کے احساس اور سخت غصے کا اثر بھی ہم سب کے دل و دماغ پر ہے۔ اس وقت تو خود کو نارمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم یہ کر پائیں تو پھر ہمیں اس مسئلے پر سب سے پہلے اپنی سماجی اور تہذیبی صورتِ حال کے حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ ٹھنڈے دل سے اور حالات و واقعات کے ہر ممکن پہلو کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اچھی طرح دیکھنا چاہیے، آیا جس اقدام کے بارے میں ہم سوچ رہے ہیں، وہ ہمارے یہاں قابلِ عمل بھی ہے کہ نہیں۔
اگر جواب اثبات میں ہو تو پھر دیکھنا چاہیے کہ بچوں کی جنسی تعلیم کا معیار اور طریقِ کار کیا ہوگا۔ اس کا نصاب اور طرزِتدریس کیا ہونا چاہیے۔ اس کے اہداف کیا ہوں گے۔ ان اہداف کا جائزہ کب اور کس طرح لیا جائے گا تاکہ دیکھا جائے، ہمیں اس کام سے مطلوبہ نتائج حاصل ہورہے ہیں کہ نہیں۔ اگر نہیں، تو پھر ہمیں تعلیم کے اس نظام میں کس طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہوسکتی ہے جو بچوں کے اندر اخلاقی اقدار کا احساس پیدا کرتے ہوئے انھیں حالات کے اس تقاضے کو سمجھانے اور اس کے مطابق انھیں تیار کرنے کا ذریعہ بن سکے۔
یہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اُن کی کردارسازی کے لیے بھی ایک جامع اور مؤثر حکمتِ عملی بنانا لازمی ہے۔ اس سارے اہتمام کی بہ یک وقت ضرورت ہوگی۔ اس کے بغیر یہ طریقہ نہ صرف ناکام ہوسکتا، بلکہ امریکا اور دوسرے ممالک کی طرح ہمارے یہاں مزید خلفشار اور نئے سماجی مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اپنے بچوں کو اس طرح کے مسائل کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے محض جنسی تعلیم پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ گھر اور معاشرے میں بھی اس ماحول کی فراہمی کا اہتمام ناگزیر ہے جو بہتر نتائج کے حصول کے لیے درکار ہوگا۔ اس ضمن میں افراد سے لے کر انتظامیہ اور تمام سرکاری اور غیرسرکاری اداروں تک اور اُن کے ساتھ چھوٹی بڑی سب عدالتوں تک یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ اس حوالے سے جرم و سزا کا بے حد سخت، نہایت مؤثر اور تیز رفتار نظام بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔
اصل میں جرم و سزا کا نظام کسی بھی سماج کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی نظام درحقیقت ایک انسانی آبادی یا کسی سماج کو جنگل بننے سے بچاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتے ہیں، لیکن ظلم و ناانصافی کے ساتھ نہیں۔