خودنمائی کی مذمت
گناہ پررنج درحقیقت نیکی پر اترانے سے بہترہے،خود پسند نہ بننے اور اپنی بہت بڑی نیکی کو بھی کم جاننے کی تاکید کی گئی ہے۔
جامع اُردو لغت میں رِیاکاری کے بہت سے معنی لکھے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر فریب کاری، مکر، ظاہرداری، دُنیا سازی، دِکھاوا، دورُخی، مکاری، بناوٹ اور منافقت۔ خود نمائی کا مفہوم بھی اِنہی مذموم صفات سے قریب تر ہے۔
اگر ہمارے سارے کام صرف اللہ کے لیے ہَوں تو ہم یقیناً رِیا کاری اور خود نمائی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بہ قول شخصے جب زندگی میں ہر چیز اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہو تو وہ زندگی کتنی آسودہ، مطمین اور لذّت بخش ہوتی ہے اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔
رِیا، یا رِیاکاری کا مفہوم واضح ہوچکا، یعنی ظاہر خوب صورت اور باطن مریض۔ قرآنِ کریم میں سورۂ انفال میں ارشادِ ایزدی ہے۔
مفہوم : '' اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو اِتراتے ہوئے اور لوگوں کو دِکھلانے کے واسطے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔''
سرکارِ ختمی نبوت آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک حدیثِ مبارکہ کی نورانیت ملاحظہ فرمائیے۔
مفہوم: '' ابنِ مسعود! اِس بات سے بچو کہ تم انسانوں کے سامنے تو اللہ کے لیے اپنے خشوع اور تواضع کا اظہار کرو، لیکن تمہارا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ یہ ہو کہ تم ربّ کی نافرمانی اور گناہوں پر اصرار کرتے ہو۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ عِزّ و جلّ فرماتا ہے: وہ (اللہ) خیانت کار آنکھوں کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ سینے میں چھپائے رہتے ہیں، ان کو بھی۔'' (بہ حوالہ: بحارالانوار۔ علّامہ مجلسیؒ۔ جلد77، صفحہ 109)
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہٗ کا ارشادِ گرامی ہے:
'' رِیا کار کا ظاہر جمیل اور باطن مریض ہوتا ہے۔'' (غرر الحکم)
حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
''انسان کے لیے کتنی بُری بات ہے کہ اُس کا باطن مریض اور ظاہر خوب صورت ہو۔'' (غرر الحکم)
حضرت لقمان حکیم اپنے فرزند سے فرماتے ہیں:
مفہوم: ''اے میرے پیارے بیٹے! لوگوں کو یہ مت دکھاؤ کہ تم اللہ سے ڈرتے ہو، جب کہ تمہارا دل فسق و فجور کا مرتکب ہو۔''
(بحار۔ جلد 77، صفحہ250)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حبِّ دنیا رکھنے والے دانش مند (عالم ) سے دُور رہنے کی نصیحت فرماتے ہیں، کیوں کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ حبِّ دنیا تمام تر بُرائیوں کی جڑ ہے۔ یہ بھی ایک دائمی صداقت ہے کہ جو کوئی فرد، اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے عمل کرتا ہے، اللہ اُسے اُسی کے سپرد کردیتا ہے۔ رِیاکار کا عمل قبول نہیں۔
کسی شخص نے آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا، ''یا رسول اللہ ﷺ! نجات کس بات میں ہے؟''
آپ ؐ نے فرمایا: '' اللہ کی اطاعت کے لیے ایسا کوئی عمل نہ کرو، جس سے تم لوگوں کی خوش نودی کو پیشِ نظر رکھو۔''
( شرحِ نہج البلاغہ۔ ابن ابی الحدید۔ جلد 2، صفحہ 179)
حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں:
''جان لو کہ تھوڑی سی رِیا بھی شرک ہے۔''(بحار۔ جلد 77، صفحہ291)
متعدد اور مستند احادیث اور روایات کی رُو سے رِیا کار جہنمی ہیں۔ ریا کار کی علامتوں کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں:
''ریا کار کی چار علامتیں ہیں: (1) جب اکیلا ہوتا ہے تو سُست ہوجاتا ہے۔ (سُستی کے ساتھ اعمال بجا لاتا ہے) (2) جب لوگوں میں ہوتا ہے تو خوش خوش انجام دیتا ہے۔ (3) جب اس کی تعریف کی جائے تو زیادہ اعمال بجا لاتا ہے۔ (4) جب اس کی تعریف نہ کی جائے تو اعمال میں کمی کردیتا ہے۔'' (شرحِ ابن ابی الحدید۔ جلد 2، صفحہ 180)
رِیا کے معنی کی تحقیق میں ایک روایت پیش کرتے ہیں۔ عبداللہ بن بکیر عبید سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خدمت میں عرض کیا : '' ایک شخص نماز شروع کرتا ہے اور اسے اچھے انداز میں بہترین طریقے سے ادا کرتا ہے، اس اُمید سے کہ اسے بعض دیکھنے والے آہستہ آہستہ اسی طرح یاد کرلیں، تو اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟''
امامؓ نے فرمایا : ''یہ رِیا نہیں ہے۔''(بحار۔ جلد72، صفحہ 301)
دراصل اِس مختصر سی، ناپائیدار اور فانی زندگی میں ہر بات اور ہر کام میں اللہ رحمن و رحیم کے لیے خلوصِ نیت پر باقی رہنا اشد ضروری ہے۔
احادیث اور روایات ہی کی روشنی میں خود پسندی عقل کے لیے آفت ہے۔ خودپسندی حماقت ہے، ہلاکت ہے، ترقی و تکامل میں مانع ہے۔ گناہ پر رنج درحقیقت نیکی پر اِترانے سے بہتر ہے۔ خود پسند نہ بننے اور اپنی بہت بڑی نیکی کو بھی کم جاننے کی تاکید کی گئی ہے۔
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں:
'' خود پسند شخص بے عقل ہوتا ہے۔'' (غرر الحکم)
ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ''خود پسندی راہِ راست کی مخالفت اور عقول کے لیے آفت ہے۔'' (بحار۔ جلد 77، صفحہ 204، 222 )
حجۃ الاسلام جناب مہدی خدامیان آرانی اپنی تالیف کردہ مفید اور معلوماتی کتاب ''رِیاکاری '' میں رقم طراز ہیں : '' جانتے ہو ایک کتاب لکھنا کتنا مشکل ہے، اکثر رات سے صبح تک جاگنا پڑتا ہے تب جاکر جملوں کو بنانے میں اور کتاب لکھنے میں کام یاب ہوتے ہو کہ لوگوں کے لیے مفید ثابت ہو۔ میں نے بھی بہت زحمت و محنت سے کتاب ''منازل الآخر'' لکھی، میں نے اِس کتاب میں قبر و قیامت کے سفر کی تفصیل لکھی اور چاہا کہ لوگ اپنے سفرِ آخرت سے آشنا ہَوں۔ اللہ کا شکر کہ میری کتاب چھپ گئی اور لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔
میرے والدِ محترم جو کہ مجھ سے بہت محبت رکھتے تھے، دن میں نمازِ جماعت کے لیے بی بی معصومۂ قم ؓ کے حرم جایا کرتے تھے اور نماز کے بعد جو مجلس حرم میں منعقد ہوتی، اُس میں بیٹھتے اور مقرر کی تقریر سے استفادہ کرتے۔ میں اپنے کمرے میں اپنی جگہ سے اُٹھا تاکہ گھر کا دروازہ کھولوں۔ جانتے ہو کہ کون مجھ سے ملنے آیا ہے۔ میرے والدِ محترم مجھ سے ملنے آئے تھے۔ میں بہت خوش ہوا۔ آپ سے کیا چھپانا کہ جب میرے والدِ محترم میرے گھر آئے تو اِس کا مطلب تھا کہ اُن کو مجھ سے کوئی ضروری کام ہوگا۔ جلدی جلدی وہ کتاب جو میرے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، اُسے جمع کیا اور والدِ محترم کو بٹھایا۔
میں گیا اور چائے لے آیا اور والدِ محترم کے سامنے دو زانو بیٹھ جاتا ہوں۔ اپنے والدِ محترم کی گفت گو کا منتظر تھا، لیکن یہ بتادوں کہ میرے والدِ محترم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ میرے والدِ محترم نے میری جانب دیکھا اور کہا : عباس! آج حرمِ بی بی معصومہؓ میں تھا۔ ایک مولانا منبر پر مجلس پڑھ رہے تھے۔ ایک کتاب اُن کے ہاتھ میں تھی اور اُس کتاب کی بہت تعریف کررہے تھے۔ اور شاید ''منازل الآخر'' نامی کتاب سے ہمارے لیے حدیث پڑھ رہے تھے۔ تم وہاں نہیں تھے۔ کتنی بہترین حدیث اُس کتاب میں لکھی تھی۔ کاش بیٹے! تم بھی منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو حدیث سُناتے۔ کب تک اِس گھر میں گوشہ نشین رہو گے؟
میں نے اپنے سر کو جھکا لیا۔ چند بار سوچا کہ کہوں کہ بابا جان! جو کتاب منبر سے لوگوں کے لیے پڑھی جارہی تھی، وہی کتاب ہے کہ جو میں نے لکھی ہے۔ میں ہی اُس کتاب کا مؤلّف ہوں۔ لیکن دیکھا کہ اس طرح تو رِیاکاری ہوجائے گی۔ دُرست نہیں کہ اپنی تعریف کروں۔ میں نے اس کتاب کو خدا کے لیے لکھا ہے، نہ کہ والدِ محترم کے سامنے فخر و مباہات کرنے کے لیے۔ میں نے اپنے والد ِمحترم کی جانب رُخ کیا اور کہا:
بابا جان! یہ کام توفیقِ الٰہی سے انجام پاتے ہیں۔ دُعا کیجیے کہ اللہ مجھے بھی توفیق دے کہ اِس کام کو بہتر انجام دے سکوں۔
میرے والدِ محترم نے میرے لیے دُعا کی۔ یہی وہ دُعا تھی کہ جو باعث بنی کہ اللہ نے مجھے ''مفاتیح الجنان '' جیسی کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائی جو کہ آج ہر گھر کی زینت ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ مجھے پہچان گئے ہوں گے۔ میں شیخ عباس قمی، مولف مفاتیح الجنان ہوں۔''
(ماخوذ از کتاب: رِیا کاری۔ تالیف: جناب مہدی خدامیان آرانی)
اگر ہمارے سارے کام صرف اللہ کے لیے ہَوں تو ہم یقیناً رِیا کاری اور خود نمائی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بہ قول شخصے جب زندگی میں ہر چیز اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہو تو وہ زندگی کتنی آسودہ، مطمین اور لذّت بخش ہوتی ہے اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔
رِیا، یا رِیاکاری کا مفہوم واضح ہوچکا، یعنی ظاہر خوب صورت اور باطن مریض۔ قرآنِ کریم میں سورۂ انفال میں ارشادِ ایزدی ہے۔
مفہوم : '' اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو اِتراتے ہوئے اور لوگوں کو دِکھلانے کے واسطے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔''
سرکارِ ختمی نبوت آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک حدیثِ مبارکہ کی نورانیت ملاحظہ فرمائیے۔
مفہوم: '' ابنِ مسعود! اِس بات سے بچو کہ تم انسانوں کے سامنے تو اللہ کے لیے اپنے خشوع اور تواضع کا اظہار کرو، لیکن تمہارا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ یہ ہو کہ تم ربّ کی نافرمانی اور گناہوں پر اصرار کرتے ہو۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ عِزّ و جلّ فرماتا ہے: وہ (اللہ) خیانت کار آنکھوں کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ سینے میں چھپائے رہتے ہیں، ان کو بھی۔'' (بہ حوالہ: بحارالانوار۔ علّامہ مجلسیؒ۔ جلد77، صفحہ 109)
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہٗ کا ارشادِ گرامی ہے:
'' رِیا کار کا ظاہر جمیل اور باطن مریض ہوتا ہے۔'' (غرر الحکم)
حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
''انسان کے لیے کتنی بُری بات ہے کہ اُس کا باطن مریض اور ظاہر خوب صورت ہو۔'' (غرر الحکم)
حضرت لقمان حکیم اپنے فرزند سے فرماتے ہیں:
مفہوم: ''اے میرے پیارے بیٹے! لوگوں کو یہ مت دکھاؤ کہ تم اللہ سے ڈرتے ہو، جب کہ تمہارا دل فسق و فجور کا مرتکب ہو۔''
(بحار۔ جلد 77، صفحہ250)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حبِّ دنیا رکھنے والے دانش مند (عالم ) سے دُور رہنے کی نصیحت فرماتے ہیں، کیوں کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ حبِّ دنیا تمام تر بُرائیوں کی جڑ ہے۔ یہ بھی ایک دائمی صداقت ہے کہ جو کوئی فرد، اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے عمل کرتا ہے، اللہ اُسے اُسی کے سپرد کردیتا ہے۔ رِیاکار کا عمل قبول نہیں۔
کسی شخص نے آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا، ''یا رسول اللہ ﷺ! نجات کس بات میں ہے؟''
آپ ؐ نے فرمایا: '' اللہ کی اطاعت کے لیے ایسا کوئی عمل نہ کرو، جس سے تم لوگوں کی خوش نودی کو پیشِ نظر رکھو۔''
( شرحِ نہج البلاغہ۔ ابن ابی الحدید۔ جلد 2، صفحہ 179)
حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں:
''جان لو کہ تھوڑی سی رِیا بھی شرک ہے۔''(بحار۔ جلد 77، صفحہ291)
متعدد اور مستند احادیث اور روایات کی رُو سے رِیا کار جہنمی ہیں۔ ریا کار کی علامتوں کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں:
''ریا کار کی چار علامتیں ہیں: (1) جب اکیلا ہوتا ہے تو سُست ہوجاتا ہے۔ (سُستی کے ساتھ اعمال بجا لاتا ہے) (2) جب لوگوں میں ہوتا ہے تو خوش خوش انجام دیتا ہے۔ (3) جب اس کی تعریف کی جائے تو زیادہ اعمال بجا لاتا ہے۔ (4) جب اس کی تعریف نہ کی جائے تو اعمال میں کمی کردیتا ہے۔'' (شرحِ ابن ابی الحدید۔ جلد 2، صفحہ 180)
رِیا کے معنی کی تحقیق میں ایک روایت پیش کرتے ہیں۔ عبداللہ بن بکیر عبید سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خدمت میں عرض کیا : '' ایک شخص نماز شروع کرتا ہے اور اسے اچھے انداز میں بہترین طریقے سے ادا کرتا ہے، اس اُمید سے کہ اسے بعض دیکھنے والے آہستہ آہستہ اسی طرح یاد کرلیں، تو اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟''
امامؓ نے فرمایا : ''یہ رِیا نہیں ہے۔''(بحار۔ جلد72، صفحہ 301)
دراصل اِس مختصر سی، ناپائیدار اور فانی زندگی میں ہر بات اور ہر کام میں اللہ رحمن و رحیم کے لیے خلوصِ نیت پر باقی رہنا اشد ضروری ہے۔
احادیث اور روایات ہی کی روشنی میں خود پسندی عقل کے لیے آفت ہے۔ خودپسندی حماقت ہے، ہلاکت ہے، ترقی و تکامل میں مانع ہے۔ گناہ پر رنج درحقیقت نیکی پر اِترانے سے بہتر ہے۔ خود پسند نہ بننے اور اپنی بہت بڑی نیکی کو بھی کم جاننے کی تاکید کی گئی ہے۔
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں:
'' خود پسند شخص بے عقل ہوتا ہے۔'' (غرر الحکم)
ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ''خود پسندی راہِ راست کی مخالفت اور عقول کے لیے آفت ہے۔'' (بحار۔ جلد 77، صفحہ 204، 222 )
حجۃ الاسلام جناب مہدی خدامیان آرانی اپنی تالیف کردہ مفید اور معلوماتی کتاب ''رِیاکاری '' میں رقم طراز ہیں : '' جانتے ہو ایک کتاب لکھنا کتنا مشکل ہے، اکثر رات سے صبح تک جاگنا پڑتا ہے تب جاکر جملوں کو بنانے میں اور کتاب لکھنے میں کام یاب ہوتے ہو کہ لوگوں کے لیے مفید ثابت ہو۔ میں نے بھی بہت زحمت و محنت سے کتاب ''منازل الآخر'' لکھی، میں نے اِس کتاب میں قبر و قیامت کے سفر کی تفصیل لکھی اور چاہا کہ لوگ اپنے سفرِ آخرت سے آشنا ہَوں۔ اللہ کا شکر کہ میری کتاب چھپ گئی اور لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔
میرے والدِ محترم جو کہ مجھ سے بہت محبت رکھتے تھے، دن میں نمازِ جماعت کے لیے بی بی معصومۂ قم ؓ کے حرم جایا کرتے تھے اور نماز کے بعد جو مجلس حرم میں منعقد ہوتی، اُس میں بیٹھتے اور مقرر کی تقریر سے استفادہ کرتے۔ میں اپنے کمرے میں اپنی جگہ سے اُٹھا تاکہ گھر کا دروازہ کھولوں۔ جانتے ہو کہ کون مجھ سے ملنے آیا ہے۔ میرے والدِ محترم مجھ سے ملنے آئے تھے۔ میں بہت خوش ہوا۔ آپ سے کیا چھپانا کہ جب میرے والدِ محترم میرے گھر آئے تو اِس کا مطلب تھا کہ اُن کو مجھ سے کوئی ضروری کام ہوگا۔ جلدی جلدی وہ کتاب جو میرے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، اُسے جمع کیا اور والدِ محترم کو بٹھایا۔
میں گیا اور چائے لے آیا اور والدِ محترم کے سامنے دو زانو بیٹھ جاتا ہوں۔ اپنے والدِ محترم کی گفت گو کا منتظر تھا، لیکن یہ بتادوں کہ میرے والدِ محترم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ میرے والدِ محترم نے میری جانب دیکھا اور کہا : عباس! آج حرمِ بی بی معصومہؓ میں تھا۔ ایک مولانا منبر پر مجلس پڑھ رہے تھے۔ ایک کتاب اُن کے ہاتھ میں تھی اور اُس کتاب کی بہت تعریف کررہے تھے۔ اور شاید ''منازل الآخر'' نامی کتاب سے ہمارے لیے حدیث پڑھ رہے تھے۔ تم وہاں نہیں تھے۔ کتنی بہترین حدیث اُس کتاب میں لکھی تھی۔ کاش بیٹے! تم بھی منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو حدیث سُناتے۔ کب تک اِس گھر میں گوشہ نشین رہو گے؟
میں نے اپنے سر کو جھکا لیا۔ چند بار سوچا کہ کہوں کہ بابا جان! جو کتاب منبر سے لوگوں کے لیے پڑھی جارہی تھی، وہی کتاب ہے کہ جو میں نے لکھی ہے۔ میں ہی اُس کتاب کا مؤلّف ہوں۔ لیکن دیکھا کہ اس طرح تو رِیاکاری ہوجائے گی۔ دُرست نہیں کہ اپنی تعریف کروں۔ میں نے اس کتاب کو خدا کے لیے لکھا ہے، نہ کہ والدِ محترم کے سامنے فخر و مباہات کرنے کے لیے۔ میں نے اپنے والد ِمحترم کی جانب رُخ کیا اور کہا:
بابا جان! یہ کام توفیقِ الٰہی سے انجام پاتے ہیں۔ دُعا کیجیے کہ اللہ مجھے بھی توفیق دے کہ اِس کام کو بہتر انجام دے سکوں۔
میرے والدِ محترم نے میرے لیے دُعا کی۔ یہی وہ دُعا تھی کہ جو باعث بنی کہ اللہ نے مجھے ''مفاتیح الجنان '' جیسی کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائی جو کہ آج ہر گھر کی زینت ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ مجھے پہچان گئے ہوں گے۔ میں شیخ عباس قمی، مولف مفاتیح الجنان ہوں۔''
(ماخوذ از کتاب: رِیا کاری۔ تالیف: جناب مہدی خدامیان آرانی)