ایک تھے نبی بخش کھوسو

صوبے کی بیوروکریسی میں نبی بخش کھوسو کی صورت میں نئے اضافے کی خبر سننے کو ملی۔

وفات سے کچھ عرصہ پہلے تک نبی بخش کھوسو سندھ کے سیکریٹری اطلاعات تھے اور میں ان سے آخری بار بطور ایڈیٹر''برسات'' اس وقت ملا تھا جب انھوں نے چند ایسے مدیران جرائد کو اپنے دفتر میں چائے پر مدعو کیا تھا جن سے سرکار کو ان کی تحریروں خصوصاً اداریوں کے حوالے سے بعض شکایات تھیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم پہلے سے ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔

دوستی کہنا تو صحیح نہیں ہوگا لیکن ہمارے درمیان شناسائی تب سے تھی جب نہ انھوں نے کبھی بیوروکریسی میں کسی اہم منصب پر فائز ہونے کا سوچا ہوگا نہ ہی میں نے کبھی خواب میں بھی خود کوکسی اخبار کا ایڈیٹر بنتے دیکھا تھا۔ 72 میں جب ذوالفقار بھٹو نے کراچی سے ہلال پاکستان جاری کیا تو میں بھی اس کے ادارتی عملے میں شامل تھا اور بطور سب ایڈیٹر دن کی شفٹ میں کام کرتا تھا جب کہ کھوسو ان دنوں بے روزگار تھے اور کچھ نہیں کرتے تھے۔

عزیز ناریجو بھی میرے ساتھ دن کی شفٹ میں تھے جو صبح 9 بجے شروع ہوتی تھی، نبی بخش کی ان کے ساتھ دوستی تھی۔ میں ان دنوں پرانا لالوکھیت میں فلمستان سینما کے پیچھے لیاری ندی اور گجر نالہ کے سنگم پر واقع بستی محمدی کالونی میں رہتا تھا، جہاں پہلے کبھی عثمان گوٹھ ہوا کرتا تھا اور لیاقت آباد سی ون ایریا کی طرف سے بھی وہاں جانے کا راستہ تھا۔ صبح دفتر آنے کے لیے میں اسی راستے سے ڈاک خانہ پہنچتا جہاں سے مجھے بندر روڈ کے لیے سیون ایچ بس ملتی تھی۔

میں سب سے پہلے دفتر پہنچتا تھا جہاں ہمارے چوکیدارچاچا اﷲ ورایو کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتا تھا اور میں شفٹ شروع ہونے تک تمام اخبارات کا مطالعہ بھی کر چکا ہوتا تھا، لیکن پھر نبی بخش کھوسو نے مجھ سے یہ اعزاز چھین لیا اور میں جب دفتر پہنچتا تو انھیں پہلے سے عزیز ناریجو کی ٹیبل پر بیٹھا ہوا پاتا۔ ہماری علیک سلیک کو بے تکلفی میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا ، پھر وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر اخبارات کی ورق گردانی کیا کرتے۔

نہیں معلوم کہاں رہتے تھے جہاں سے اتنی جلدی صبح سویرے دفتر آ دھمکتے تھے، غالباً لی مارکیٹ وغیرہ جیسے کسی قریبی علاقے میں اکیلے رہتے تھے اور کسی جاننے والے، دوست یا رشتے دار کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ عزیز ناریجو لائٹ ہاؤس پر واقع سبحان اللہ ہوٹل کے بیرے کو اپنے اور نبی بخش کے لیے چائے اور بسکٹ وغیرہ لانے کا کہہ کر آتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ وہ دفتر میں ان کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ یہ گویا ان دونوں کا ناشتہ ہوتا تھا جس سے فارغ ہوتے ہی کھوسو صاحب جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے، یہ ان کا روز کا معمول تھا۔

میں نے ان سے یا عزیز ناریجو سے کبھی پوچھا تو نہیں لیکن میرا خیال تھا کہ وہ جاب کی تلاش میں تھے۔ پینٹ کے ساتھ میچنگ کوٹ پہنے رکھتے اور ٹائی بھی ضرور لگاتے جس سے سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے میں بڑی مدد ملتی تھی لیکن ایک دن جب وہ بے خیالی میں ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھے اپنے دوست سے باتیں کر رہے تھے، میری نظر ان کے جوتوں پر پڑی جن کے تلے نیچے سے گھس کر پھٹ چکے تھے۔

ظاہر ہے ان کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے، لیکن اس کے بعد میرے دل میں ان کی قدرومنزلت مزید بڑھ گئی اور مشکل حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کر نے والاایک خود دار انسان جان کر میں ان کی عزت کرنے لگا۔ ایک روز جب یہ دونوں اپنے کسی تیسرے مشترکہ دوست کے ساتھ باتیں کر رہے تھے، میں نے نبی بخش کھوسوکو کہتے ہوئے سنا کہ ان کی برادری کے ایک جج نے ان کے لیے کسی سے بات کی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی ان کی نوکری کا کوئی معقول بندوبست ہوجائے گا۔


اس کے کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے دفتر آنا چھوڑ دیا، میں روز ان کی راہ تکا کرتا کہ ان کی عادت سی ہوگئی تھی اور میرے دل سے ان کے لیے دعا ہی نکلتی ۔ پھر میرا تبادلہ نائٹ شفٹ میں ہوگیا اور عزیز ناریجو سے کوئی رابطہ نہ رہا، ایک بار پریس کلب سے دفتر آتے ہوئے میں نے اسے صدر میں دیکھا لیکن دو تین با پردہ خواتین اس کے ساتھ تھیں اس لیے ہم کوئی بات نہیں کر سکے ورنہ میں اس سے نبی بخش کے بارے میں ضرور دریافت کرتا کہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔

وقت تیزی سے گذرتا رہا اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جانے کے مصداق اس کی یاد ذہن کے سرد خانے کی نذر ہوکر دل و دماغ سے محو ہوگئی۔ کئی ماہ وسال گذر گئے، اب طویل بیروزگاری کے دن کاٹنے اور جوتیاں گھسانے کی ہماری باری تھی، انھی دنوں اپنے دوست سائیں بخش عباسی کے پاس ، جومحکمہ انکم ٹیکس میں افسر تھے، بیٹھا تھا کہ صوبے کی بیوروکریسی میں نبی بخش کھوسو کی صورت میں نئے اضافے کی خبر سننے کو ملی۔

اگرچہ یہ واضح نہیں تھا کہ ان کا تقرر کس حیثیت سے اور کہاں عمل میں آیا ہے لیکن میرے لیے یہ جاننا ہی بڑے اطمینان و مسرت کا باعث تھا کہ ان کی آزمائش کے دن بالآخر ختم ہوگئے۔ ہمارا ستارہ بھی گردش سے نکلنے کے لیے شاید کسی موقع کی تلاش میں تھا سو جوں ہی ضیاء الاسلام انصاری جنرل ضیاء کی دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سہام مرزا صاحب کے اخبار سویرا سے قطع تعلق کرکے نیشنل پریس ٹرسٹ ( این پی ٹی) کے چیئرمین بنے، مجھے ان کی جگہ ایڈیٹر کی حیثیت سے ذمے دارریاں سنبھالنے کی پیشکش کی گئی جو میں نے قبول کرلی۔

یہ 1988-90 کی بات ہے، الطاف حسین کی ایم کیو ایم جوبن پر تھی لیکن ابھی اس نے اخبار پر قبضہ نہیں کیا تھا کہ سہام مرزا نے مجھے انٹر کام پر بتایا کہ سندھ کے نئے سیکریٹری اطلاعات نبی بخش کھوسو خیر سگالی دورے پر تشریف لائے ہیں اور ان کے کمرے میں بیٹھے ہیں۔ مجھے ان سے ملکر جتنی خوشی ہوئی آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے، وہ کوئی گھنٹہ بھر وہاں ٹھہرے جس کے دوران ہم نے بہت سی پرانی یادیں تازہ کیں، عزیز ناریجو کے بارے میں بھی انھوں نے ہی بتایا کہ وہ اب امریکی شہری ہے اور وہاں اپنا سپر اسٹور چلاتا ہے۔

1994 میں جب سندھ سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہا تھا، وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ (موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے والد)نے دنیا کو اس کی جانکاری دینے کے لیے کراچی میں موجود غیر ملکی سفارتی نمایندوں کو چیف منسٹر ہاؤس میں بریفنگ دینے کا انتظام کیا تھا، میں روزنامہ برسات ، کراچی کے مدیر کی حیثیت سے مدعو تھا اور وہاں دوسری بار میری نبی بخش کھوسو سے سرسری ملاقات ہوئی۔ میری دعوت پر انھوں نے برسات کے دفتر آنے کا وعدہ بھی کیا لیکن بوجوہ وفا نہیں کرسکے۔

اسی سال عوامی جمہوریہ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سنہوا کا ایک وفد پاکستان آیا تھا، کراچی میں قیام کے دوران نبی بخش کھوسو نے سیکریٹری انفارمیشن سندھ کی حیثیت سے وفد کے اعزاز میں عشائیہ دیا تو مجھے بھی مدعو کیا، وہاں ایک بار پھرمیری ان سے بے تکلفانہ ماحول میں ملاقات ہوئی جس میں ڈان کے ایڈیٹر احمد علی خان صاحب بھی شریک تھے۔ آج جب میں ماضی میں جھانکنے کے لیے حسب عادت پرانے فوٹو البم دیکھ رہا تھا تو مذکورہ عشائیہ کی تصویر دیکھ کر نبی بخش کھوسو کے حوالے سے پرانی یادیں تازہ ہوگئیں اور میں اس کالم کی صورت میں انھیں قلمبند کرنے بیٹھ گیا۔

ان کے دوست عزیز ناریجو نے امریکا میں خوب ڈالر کمائے، اپنا سپر اسٹور ختم کر کے پاکستان لوٹ آئے اور کراچی سے اپنا اخبار جاری کیا، مگر ان کا یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا اور وہ سب کچھ لٹا کر ہوش میں آنے کے بعد پھر امریکا واپس چلے گئے، میری تو ان سے پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ نبی بخش کھوسو سے ضرور ملے ہوں گے، کیا پتہ اخبار نکالنے میں ان کا مشورہ بھی شامل رہا ہو۔
Load Next Story