مہذب سردار
ان کی زندگی کے ساتھ پیپلز پارٹی کی سیاسی جدوجہد کا ایک باب اختتام پذیر ہوا۔
عجیب سا تھا کرائم سین۔ دو بندے ایک کمرے میں، کمرہ بند اور دونوں مردہ پائے گئے۔ یقینا ایک نے کسی ایک کو مارا اور دوسرے نے پھر اپنے آپ کو۔ ایک عورت اور ایک مرد، اگر سوچا جائے تو عورت گولی کیسے چلا سکتی ہے۔ مرد کے وجود میںایک گولی پیوست ہوئی جب کہ عورت کے تین گولیاں ۔ چلو یہ معاملہ بھی سلجھا کہ مرد نے گولیاں چلائیںاور دونوں اوسطا 70 سال کی عمر سے اوپر تھے ، دونوں میاں بیوی تھے، مگر دوسری شادی۔ عورت کی دوسری شادی تب ہی ہوسکتی ہے جب پہلی شادی ختم ہوچکی ہو، جب کہ مرد کی پہلی بیوی ہوتے ہوئے بھی دوسری ہوسکتی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کا آپس میں پیار بھی تھا یا پھر شاید کہیں عشق کے ساتھ ساتھ وحشت بھی تھی۔کبھی عشق آڑے آتا تھاکبھی وحشت۔ کبھی وحشت عشق سے الجھ پڑتی تھی اورکبھی عشق وحشت سے۔ بالآخر وحشت پر عشق کی مات ہوئی۔ جیسے کہ dual تھی۔ قدیم یورپی وحشی طریقہ ۔ کہتے ہیں زار نے پشکن کو اسی الزام میں پھنسایا اور مروا دیا تھا کیونکہ پشکن کی شاعری بغاوت کی وجہ بننے لگی تھی اور پھر یوں پشکن ایک خوبصورت بیوی کا شوہر فقط 39 سال کی عمر میں ایک الزام کے تحت مارا گیا۔ ہمارے میر ہزار خان بجارانی کے ساتھ ایسا کوئی ماجرہ نہ تھا۔ دونوں زمانے کے نشیب و فراز سے گزر کر اس عمر کو پہنچے تھے فیض کی ان سطروں کی طرح:
ہم تو اس عمر کو پہنچے ہیں جہاں
دل ملاتے ہیں فقط رسم نبھانے کے لیے
کیا تھا ایسا ؟نیم سفید داڑھی ، سفید بال جس کو میر صاحب نے کبھی خضاب کے رنگوں سے نہیں رنگا۔ یہ دونوں روحیں تھیں جو آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے، مگر جو ہوا ہے وہ کچھ عجیب سا ہے، جنون حد سے زیادہ گزر جائے اور اس کیفیت میں وحشت کا عشق کو مات دینا۔ مہذب سوسائٹی پرکسی کو اپنی رو پر چلنے کے سارے آداب ختم ہوجائیں۔
میر صاحب میرے بھی دوست تھے ۔ ایک دو محفلوں میں ہم بھی رات دیر تک ان کے ساتھ رہے۔ بہت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ میں نے ان کا ایک پرو فائل انٹرویو بھی کیا تھا، آپ بجارانی قبیلے کے سردار تھے۔ مختلف بلیدی قبیلے جوکہ بجارانی قبیلے سے ہی تعلق رکھتے ہیںآپ ان کے بھی سردار تھے۔ بائیس سال کی عمر میں ذوالفقار علی بھٹو نے ان کو سیاست سے متعارف کروایا۔
پیار علی الانا، در محمد اوستو، عبدالوحید کٹپر یہ تھی سندھ میں پہلی بار پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی کابینہ جس کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی تھے، میرے چاچا بھی اسی اسمبلی کے رکن تھے، بہت ہی پڑھے لکھے لوگ تھے۔ وہ کابینہ ، وہ اسمبلی اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اس کابینہ سے صرف دو لوگ ہی موجود تھے ایک ہیں قائم علی شاہ اور دوسرے تھے میر صاحب۔ یہ کہنا شاید قبل از وقت ہوگا مگر تفتیش کے سارے رخ یہیں ختم ہورہے ہیں کہ میر صاحب نے اپنی بیوی فریحہ رزاق ہارون کو مارکر خودکشی کرلی، مگر یہ کیسے ممکن ہے۔
اتنے پڑھے لکھے آدمی تھے جب ان کے والد نے میرصاحب کو بھٹو صاحب سے متعارف کروایا تو میر صاحب نے سول سروسز میں نوکری کی خواہش ظاہر کی، مگر بھٹو صاحب نے ان کو ہدایت کی کہ تم اچھا vision رکھتے ہو تو تم جیسے لوگوں کو سیاست میں آنا چاہیے۔ یعنی دو تھے میر صاحب، ایک وہ جو اپنی دوسری بیوی فریحہ رزاق ہارون سے منسلک تھے جو کہ ایک بہت ہی پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ لندن اور امریکا کی نامور یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھیں اور اسی طرح بجارانی صاحب بھی باہر سے تعلیم یافتہ تھے۔ ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو سرداری اور قبائلی تھا۔
ایسے ایسے جرگہ فیصلے بھی ان سے منسوب ہیں جن میں خون کے عوض چھوٹی بچیوں کے نکاح کروائے گئے اور اسی طرح سے کارو کاری کے فیصلے بھی انھوں نے صادر کیے۔ قبیلے نے بھی ہمیشہ ان کو جتوایا چاہے وہ پارٹی کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں۔ مخدوم خلیق الزماں جب سندھ میں پارٹی کی صدارت سے مستعفیٰ ہوئے تو یہ باگ ڈور بجارانی نے سنبھالی اور پھر وہ مشہور پیجارو جو کہ خلیق صاحب چلاتے تھے بجارانی چلانے لگے۔
بجارانی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جوشیلے جیالے بھی تھے اور شاید بھرپور قبائلی بھی۔ مگر انھوں نے خودکشی کیوں کی ؟اور وہ بھی اس طرح سے کہ پہلے کسی کو مارا اور پھر خود کو مارا۔ یہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کا پہلو بھی نظر نہیں آتا۔ وہ آئے بیٹھے، رات بھر لڑتے رہے، نوکروں نے چیخنے کی آوازیں بھی سنیں اور رات دیر یا صبح چھ بجے گولیوں کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ خاتون کی لاش فرش پر اور ان کی لاش صوفے پر پائی گئی۔
نواب اکبر بگٹی کے آخرے دنوں میں، میں ان کے بہت قریب رہا۔ تقریبا روز ہم فون پر بات کرتے تھے۔ ان کے دو پروفائل انٹرویو بھی کیے۔ وہ میرے والد کے ساتھ، شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ میں بھی شامل ہوئے جب کہ دوسرے بلوچ NAP میں تھے۔ وہ جب غاروں میں چلے گئے، ان کی خواہش تھی کہ میں ان کے پاس وہاں بھی جاؤں، جب میں نہ گیا تو اس دکھ کا انھوں نے جیکب آباد کے ہمارے ایک صحافی ساتھی ''سرکی'' کے ساتھ بطور احوال ذکر بھی کیا۔ میں اٹھاسی سال کے اس بزرگ کو جب پہاڑوں اور غاروں پر چڑھتے اور چھپتے دیکھتا تو اس کو خودکشی کے برابر سمجھتا تھا، مگر یہ اور بات ہے کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے وہ اپنے عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہ گئے۔
ہمارے نارتھ سندھ سے جو لوگ ایوانوں میں پہنچے ان میں اکثریت قبائلی سرداروںکی تھی ان کا رکھ رکھاؤ اور سوچ بھی سرداری ہی تھی، لیکن ان میں قدرے جو مختلف تھے وہ بجارانی تھے۔ ویسٹرن انداز کے کپڑے پہنتے، روانی سے انگریزی بولتے مگرسادگی اور انکساری میں بھی اپنی مثال آپ تھے، لیکن ہوا کیا؟ کیوں اور کیسے ہوا؟ ایک شخص اپنے انداز میں اتنا مختلف اور یہ سب کچھ ہونا اتنا مختلف جیسے کسی فلم کا سین۔ پہلے اپنے بیڈ روم سے منسلک اسٹڈی روم کا کمرہ بند کیا پھر جسے بہت چاہا اس کو اپنی ہی پستول سے قتل کرنا اور جب ان کی بیوی مرچکی تو خود بھی اپنے آپ سے جینے کا حق چھین لینا۔
ایک عجیب داستان بنی ہے یہ عمر کے اس دہانے پر۔ وہ اپنی بیوی سے بہت پیار کرتے تھے شاید جب وہ ایسا محسوس کرنے لگے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ پائیں گے تو نہ خود جیے نہ ہی یہ حق اپنی بیوی کو دیا۔
یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کا نہ نقصان ہوا نہ سود۔ اسی حلقے سے پارٹی کو یقینا میر صاحب کا نعم البدل مل جائے گا۔ نہ قبیلے کے لوگ سرداروں کو قبائلی ووٹ دینا چھوڑیں گے نہ ہی قبیلے کے سردار پیپلزپارٹی کو چھوڑیں گے۔
آخر شب کے ہمسفر نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کدھر کو صبح
رات نہ جانے کدھر نکل گئی
نہ رہے تو میر ہزار خان بجارانی۔ ان کی زندگی کے ساتھ پیپلز پارٹی کی سیاسی جدوجہد کا ایک باب اختتام پذیر ہوا۔ یقینا وقت رواں ہے اور ان کی خالی کی ہوئی جگہ بھی پر ہوجائیگی لیکن جو ایک خلاء سیاسی میچور شخصیت کا میر ہزار خان بجارانی کے جانے سے پیدا ہوا ہے وہ خلاء شاید ہمیشہ ہی رہے گا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کا آپس میں پیار بھی تھا یا پھر شاید کہیں عشق کے ساتھ ساتھ وحشت بھی تھی۔کبھی عشق آڑے آتا تھاکبھی وحشت۔ کبھی وحشت عشق سے الجھ پڑتی تھی اورکبھی عشق وحشت سے۔ بالآخر وحشت پر عشق کی مات ہوئی۔ جیسے کہ dual تھی۔ قدیم یورپی وحشی طریقہ ۔ کہتے ہیں زار نے پشکن کو اسی الزام میں پھنسایا اور مروا دیا تھا کیونکہ پشکن کی شاعری بغاوت کی وجہ بننے لگی تھی اور پھر یوں پشکن ایک خوبصورت بیوی کا شوہر فقط 39 سال کی عمر میں ایک الزام کے تحت مارا گیا۔ ہمارے میر ہزار خان بجارانی کے ساتھ ایسا کوئی ماجرہ نہ تھا۔ دونوں زمانے کے نشیب و فراز سے گزر کر اس عمر کو پہنچے تھے فیض کی ان سطروں کی طرح:
ہم تو اس عمر کو پہنچے ہیں جہاں
دل ملاتے ہیں فقط رسم نبھانے کے لیے
کیا تھا ایسا ؟نیم سفید داڑھی ، سفید بال جس کو میر صاحب نے کبھی خضاب کے رنگوں سے نہیں رنگا۔ یہ دونوں روحیں تھیں جو آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے، مگر جو ہوا ہے وہ کچھ عجیب سا ہے، جنون حد سے زیادہ گزر جائے اور اس کیفیت میں وحشت کا عشق کو مات دینا۔ مہذب سوسائٹی پرکسی کو اپنی رو پر چلنے کے سارے آداب ختم ہوجائیں۔
میر صاحب میرے بھی دوست تھے ۔ ایک دو محفلوں میں ہم بھی رات دیر تک ان کے ساتھ رہے۔ بہت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ میں نے ان کا ایک پرو فائل انٹرویو بھی کیا تھا، آپ بجارانی قبیلے کے سردار تھے۔ مختلف بلیدی قبیلے جوکہ بجارانی قبیلے سے ہی تعلق رکھتے ہیںآپ ان کے بھی سردار تھے۔ بائیس سال کی عمر میں ذوالفقار علی بھٹو نے ان کو سیاست سے متعارف کروایا۔
پیار علی الانا، در محمد اوستو، عبدالوحید کٹپر یہ تھی سندھ میں پہلی بار پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی کابینہ جس کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی تھے، میرے چاچا بھی اسی اسمبلی کے رکن تھے، بہت ہی پڑھے لکھے لوگ تھے۔ وہ کابینہ ، وہ اسمبلی اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اس کابینہ سے صرف دو لوگ ہی موجود تھے ایک ہیں قائم علی شاہ اور دوسرے تھے میر صاحب۔ یہ کہنا شاید قبل از وقت ہوگا مگر تفتیش کے سارے رخ یہیں ختم ہورہے ہیں کہ میر صاحب نے اپنی بیوی فریحہ رزاق ہارون کو مارکر خودکشی کرلی، مگر یہ کیسے ممکن ہے۔
اتنے پڑھے لکھے آدمی تھے جب ان کے والد نے میرصاحب کو بھٹو صاحب سے متعارف کروایا تو میر صاحب نے سول سروسز میں نوکری کی خواہش ظاہر کی، مگر بھٹو صاحب نے ان کو ہدایت کی کہ تم اچھا vision رکھتے ہو تو تم جیسے لوگوں کو سیاست میں آنا چاہیے۔ یعنی دو تھے میر صاحب، ایک وہ جو اپنی دوسری بیوی فریحہ رزاق ہارون سے منسلک تھے جو کہ ایک بہت ہی پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ لندن اور امریکا کی نامور یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھیں اور اسی طرح بجارانی صاحب بھی باہر سے تعلیم یافتہ تھے۔ ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو سرداری اور قبائلی تھا۔
ایسے ایسے جرگہ فیصلے بھی ان سے منسوب ہیں جن میں خون کے عوض چھوٹی بچیوں کے نکاح کروائے گئے اور اسی طرح سے کارو کاری کے فیصلے بھی انھوں نے صادر کیے۔ قبیلے نے بھی ہمیشہ ان کو جتوایا چاہے وہ پارٹی کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں۔ مخدوم خلیق الزماں جب سندھ میں پارٹی کی صدارت سے مستعفیٰ ہوئے تو یہ باگ ڈور بجارانی نے سنبھالی اور پھر وہ مشہور پیجارو جو کہ خلیق صاحب چلاتے تھے بجارانی چلانے لگے۔
بجارانی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جوشیلے جیالے بھی تھے اور شاید بھرپور قبائلی بھی۔ مگر انھوں نے خودکشی کیوں کی ؟اور وہ بھی اس طرح سے کہ پہلے کسی کو مارا اور پھر خود کو مارا۔ یہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کا پہلو بھی نظر نہیں آتا۔ وہ آئے بیٹھے، رات بھر لڑتے رہے، نوکروں نے چیخنے کی آوازیں بھی سنیں اور رات دیر یا صبح چھ بجے گولیوں کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ خاتون کی لاش فرش پر اور ان کی لاش صوفے پر پائی گئی۔
نواب اکبر بگٹی کے آخرے دنوں میں، میں ان کے بہت قریب رہا۔ تقریبا روز ہم فون پر بات کرتے تھے۔ ان کے دو پروفائل انٹرویو بھی کیے۔ وہ میرے والد کے ساتھ، شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ میں بھی شامل ہوئے جب کہ دوسرے بلوچ NAP میں تھے۔ وہ جب غاروں میں چلے گئے، ان کی خواہش تھی کہ میں ان کے پاس وہاں بھی جاؤں، جب میں نہ گیا تو اس دکھ کا انھوں نے جیکب آباد کے ہمارے ایک صحافی ساتھی ''سرکی'' کے ساتھ بطور احوال ذکر بھی کیا۔ میں اٹھاسی سال کے اس بزرگ کو جب پہاڑوں اور غاروں پر چڑھتے اور چھپتے دیکھتا تو اس کو خودکشی کے برابر سمجھتا تھا، مگر یہ اور بات ہے کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے وہ اپنے عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہ گئے۔
ہمارے نارتھ سندھ سے جو لوگ ایوانوں میں پہنچے ان میں اکثریت قبائلی سرداروںکی تھی ان کا رکھ رکھاؤ اور سوچ بھی سرداری ہی تھی، لیکن ان میں قدرے جو مختلف تھے وہ بجارانی تھے۔ ویسٹرن انداز کے کپڑے پہنتے، روانی سے انگریزی بولتے مگرسادگی اور انکساری میں بھی اپنی مثال آپ تھے، لیکن ہوا کیا؟ کیوں اور کیسے ہوا؟ ایک شخص اپنے انداز میں اتنا مختلف اور یہ سب کچھ ہونا اتنا مختلف جیسے کسی فلم کا سین۔ پہلے اپنے بیڈ روم سے منسلک اسٹڈی روم کا کمرہ بند کیا پھر جسے بہت چاہا اس کو اپنی ہی پستول سے قتل کرنا اور جب ان کی بیوی مرچکی تو خود بھی اپنے آپ سے جینے کا حق چھین لینا۔
ایک عجیب داستان بنی ہے یہ عمر کے اس دہانے پر۔ وہ اپنی بیوی سے بہت پیار کرتے تھے شاید جب وہ ایسا محسوس کرنے لگے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ پائیں گے تو نہ خود جیے نہ ہی یہ حق اپنی بیوی کو دیا۔
یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کا نہ نقصان ہوا نہ سود۔ اسی حلقے سے پارٹی کو یقینا میر صاحب کا نعم البدل مل جائے گا۔ نہ قبیلے کے لوگ سرداروں کو قبائلی ووٹ دینا چھوڑیں گے نہ ہی قبیلے کے سردار پیپلزپارٹی کو چھوڑیں گے۔
آخر شب کے ہمسفر نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کدھر کو صبح
رات نہ جانے کدھر نکل گئی
نہ رہے تو میر ہزار خان بجارانی۔ ان کی زندگی کے ساتھ پیپلز پارٹی کی سیاسی جدوجہد کا ایک باب اختتام پذیر ہوا۔ یقینا وقت رواں ہے اور ان کی خالی کی ہوئی جگہ بھی پر ہوجائیگی لیکن جو ایک خلاء سیاسی میچور شخصیت کا میر ہزار خان بجارانی کے جانے سے پیدا ہوا ہے وہ خلاء شاید ہمیشہ ہی رہے گا۔