کچلے ہوئے طبقات کا اتحاد

ملک میں ایسی کوئی طبقاتی قیادت موجود نہیں جو اس اسٹیٹس کو کو توڑنے کی اہلیت رکھتی ہو۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ملک ستر سال سے اشرافیائی سیاسی کلچر میں پھنسا ہوا ہے، اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ مڈل کلاس کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس کلچرکو توڑنے کی کوششوں کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں اور مزید المیہ یہ ہے کہ اس ''نیک کام'' میں غریب عوام کی طاقت کو ہی استعمال کرتی ہیں۔

2014ء میں جب ایک بامعنی تبدیلی کے امکانات پیدا ہو رہے تھے سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں مورچہ لگا کر تبدیلی کے اس امکان کو سبوتاژکر دیا۔ عمران خان اور قادری کوئی انقلابی رہنما نہیں ہیں وہ ملک کے سیاسی فریم ورک کے اندر رہ کر ہی سیاست کرتے ہیں لیکن ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ سیاست اور اقتدار پر سے اشرافیائی بالادستی اور قبضے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

ہمارے سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی اگرچہ اشرافیائی جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں لیکن گاہے بگاہے وہ عوام کے اتحاد کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ 28 جنوری کو کراچی پریس کلب میں مزدوروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ''جب تک کچلے ہوئے طبقات کا ایک وسیع تر اتحاد نہیں بنے گا عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے'' رضا ربانی کا خیال سو فیصد درست ہے۔ لیکن رضا ربانی اس حقیقت سے بھی یقیناً واقف ہوں گے کہ اس ملک کی سیاسی اشرافیہ نے جمہوریت کے نام پر جمہوریت دشمن سیاسی جماعتیں بنا کر عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے۔ اسے ہم عوام کی بدقسمتی کہیں یا ملک و ملت کی بدقسمتی کہیں کہ سادہ لوح عوام اشرافیہ کی سیاسی طاقت بنے ہوئے ہیں۔

اشرافیائی سیاسی جماعتیں اگرچہ کہ اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ میں متحد رہتی ہیں لیکن عوام کو دھوکا دینے کے لیے الگ الگ سیاسی جماعتیں بنا کر اور عوامی خدمات کے نعرے لگا کر عوام کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں۔ آج کل سیاسی طاقت کے مظاہرے کرنے کا ایک پرفریب کلچر جلسوں کی شکل میں فروغ پا رہا ہے۔

دولت کے بے مہابا استعمال اور ریاستی مشنری کی مدد سے سادہ لوح عوام کو اپنے نام نہاد جلسوں میں گھسیٹ کر ہماری اشرافیہ طاقت کے جو مظاہرے کر رہی ہے۔ اس کا واحد مقصد یہ باور کرانا ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن دھوکے اور دیہاڑی سے لائے ہوئے عوام ان کی طاقت ہرگز نہیں بن سکتے۔ جب بھی کوئی سرپھرا طبقاتی بنیادوں پر ایک سیاسی پارٹی بنا کر خلوص نیت اور پختہ عزم کے ساتھ عوام میں آئے گا ۔

ذوالفقار علی بھٹو جیسا بڑا جاگیردار جب روٹی کپڑا مکان اور مزدور کسان راج کے نعروں کے ساتھ میدان سیاست میں ترقی پسند رہنماؤں کے ساتھ آیا تو مسائل کے مارے اور طبقاتی مظالم کے شکار عوام کراچی سے کشمیر تک لاکھوں کی تعداد میں بھٹوکے گرد جمع ہو گئے۔ بھٹوکی گزرگاہ کے راستے میں وہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں جمع رہتے تھے۔


یہ عوامی حمایت بھٹوکی شخصیت کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ان نعروں اور وعدوں کا نتیجہ تھی جو بھٹوکو اس کے ترقی پسند دوستوں نے بنا کر دیے تھے، لیکن جب بھٹو نے اپنے ترقی پسند دوستوں سے بے وفائی کر کے وڈیروں اور جاگیرداروں کو اپنی پارٹی میں جگہ دی اور پارٹی پر وڈیروں نے قبضہ جما لیا تو عوام بھٹو سے دور ہوتے چلے گئے اور اس قدر دور ہوگئے کہ بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے رات رات بھر ریلوے اسٹیشنوں پر سردی میں ٹھٹھرنے والے عوام بھٹوکی پھانسی پر بھی گھروں سے باہر نہ نکلے۔

ایوب خان کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے مزدوروں کو جب بھٹو حکومت آنے سے سہارا ملا تو مزدوروں کا عشروں سے دبا ہوا غصہ باہر نکل آیا اور مزدور اس قدر طاقتور ہو گئے کہ مالکان مزدور یونینوں کی اجازت کے بغیر اپنی ملوں اور فیکٹریوں میں نہیں آ سکتے تھے۔ بھٹو حکومت میں شامل ہونے والے وڈیروں کو مزدوروں کا یہ اتحاد مزدوروں کی یہ طاقت دہلانے لگی اور انھوں نے مزدوروں کے خلاف ریاستی مشینری کو اس وحشیانہ انداز میں استعمال کیا کہ ہزاروں مزدوروں کو لمبی لمبی مدت کے لیے جیلوں میں ٹھونس دیا۔

یوں مزدوروں کی طاقت کو اس بری طرح کچل دیا گیا کہ آج تک مزدور سنبھل نہ سکے۔ بھٹو کے بعد برسر اقتدار آنے والی حکومتیں عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے ان کی طاقت کو کمزورکرتی رہیں اور عوام مختلف اشرافیائی جماعتوں میں بٹ کر اپنی اجتماعی طاقت کو برباد کرتے رہے آج بھی وہ مختلف اشرافیائی جماعتوں کے کارکن بن کر اشرافیہ کی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں اور اپنی طاقت کو کمزورکر رہے ہیں۔

رضا ربانی کا تعلق مڈل کلاس سے ہے وہ غیر متنازعہ حیثیت کے حامل بھی ہیں۔ ان کے اس خیال سے سو فیصد اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ''جب تک کچلے ہوئے طبقات کا ایک وسیع تر اتحاد نہیں بنے گا ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔''

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف جماعتوں، برادریوں، لسانی اور قومیتوں میں بٹے ہوئے عوام کو کس طرح طبقاتی بنیادوں پر متحد کیا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے اس مکروہ حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ ستر سال سے پاکستان جس اشرافیائی اسٹیٹس کو کا شکار ہے سب سے پہلے اس اسٹیٹس کو کو توڑنا ضروری ہے۔

ملک میں ایسی کوئی طبقاتی قیادت موجود نہیں جو اس اسٹیٹس کو کو توڑنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ پہلی بار اشرافیہ سخت دباؤ میں ہے اور اپنی لوٹ مار کی وجہ سے عوام میں اس قدر بدنام اور بے اعتبار ہوگئی ہے کہ اس کمزور دیوار کو ایک دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ اور اگرکوئی کالا چور بھی اس دیوار کو دھکا دینے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو آج کے حالات میں اس کی حمایت کرنا ضروری ہے۔

رضا ربانی بہت جلد سینیٹ کی چیئرمین شپ سے علیحدہ ہونے والے ہیں۔ اگر رضا ربانی اور ان جیسے دوست کسی ایسی پارٹی کو جوائن کر لیتے ہیں جو اس ملک میں بامعنی تبدیلی کا پروگرام رکھتی ہے اور 70 سالہ اسٹیٹس کو کو توڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہو تو پاکستان کے اس سب سے بڑے مسئلے سے نمٹنے کی صورت پیدا ہو سکتی ہے اور کچلے ہوئے طبقات کا ایک وسیع تر اتحاد بنانے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک اچھا موقعہ ہے کہ عوام کے وسیع تر اتحاد بنانے کے لیے پہلے مڈل کلاس کا ایک وسیع تر اتحاد بنایا جائے۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
Load Next Story