سوچ بچار اچھی چیز نہیں

سوچ بچار کوئی بہت اچھی چیز نہیں اور وہ بھی امورِ مملکت کے بارے میں۔

بچے والدین سے سیکھتے ہیں اور عوام ریاست سے۔ اگر ریاست قانون و اصول پسند ہو تو اپنے بچوں کو بھی اصول و قانون اپنانے پر آمادہ کرسکتی ہے۔لیکن ریاستی ادارے اگر ایک طرف قانون و اصول کی حکمرانی پر عمل کم اور اس کی اہمیت کے بارے میں زبانی جمع خرچ زیادہ کرنے کے عادی ہوں اور اس باب میں اپنی اصلاح کرنے اور عوام کے لیے مثال بننے کے بجائے قانون سے روگردانی کو کبھی ''وقت کی ضرورت'' اور کبھی ''غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات'' کا تاویلاتی جامہ پہنانے پر مصر رہتے ہوں تو اس راہِ بے راہ روی پر ریاست اگر ایک قدم بڑھتی ہے تو عام آدمی شہہ پا کر دس قدم آگے دوڑ پڑتا ہے۔

اس کے بعد ریاست قانون و آئین کی حکمرانی کی اہمیت کے بارے میں بھلے کتنے ہی بھاشن کیوں نہ دے لے لوگ سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اپنا آئین و قانون و اصول خود ایجاد کر کے طوائف الملوکی کا سنگِ بنیاد رکھ دیتے ہیں اور پھر اس سنگِ بنیاد پر کذب کے گارے، دھوکے کی اینٹوںاور منافقت کے سیمنٹ سے کھڑی ہونے والی عمارت اونچی ہی ہوتی چلی جاتی ہے۔

اب خبر کی حرمت اور خبر میں جھوٹ سچ کی ملاوٹ کے وبائی مرض کو ہی لے لیں۔حالانکہ ریاست اچھی طرح واقف ہے کہ درست اطلاعات کی رسائی عوام کا بنیادی حق اور ریاست کا بنیادی فرض ہے۔لیکن اطلاعات کے بلا رکاوٹ بہاؤ کی راہ میں سنسر کا پہلا شہتیر کس نے ڈالا؟ ریاست نے یا عام آدمی نے؟ ہر وہ اطلاع کہ جس کے عام ہونے سے حکومت ِ وقت کو اپنی سبکی کا خطرہ رہتا ہو اس پر ''حساس معلومات'' کا ٹوپا کون چڑھاتا ہے؟ درست خبر کا اجرا ''قومی مفاد کے منافی'' قرار دے کر آہنی الماری میں کون مقفل کرتا ہے؟ پہلے فرد یا پھر حکومت؟

حکومتیں بیرونی ممالک سے جتنے بھی اقتصادی، مالیاتی، سیاسی، مواصلاتی، تجارتی و علاقائی معاہدے کرتی ہیں۔ان میں بظاہر اور بلاواسطہ کیا طے کیا جاتا ہے، قرضے کن شرائط پر لیے جا رہے ہیں، دفاعی سمجھوتوں کی غرض و غایت کیا ہے، بیرونی ممالک کو کیا سہولتیں دی یا لی جا رہی ہیں؟ کیا یہ سب جاننا ان لوگوں کا حق نہیں کہ جن کے گرویانہ حال اور مستقبل پر یہ کاروائیاں براہِ راست یا بلاواسطہ اثر انداز ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ سمجھوتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کاغذ پر نہیں بلکہ دو طرفہ انڈر اسٹینڈنگ کی شکل میں ہوتے ہیں۔آپ بھلے انھیں عمومی انداز میں مشتہر نہ کریں لیکن کیا عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ یا اس پارلیمنٹ کی متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹیاں بھی اس قابل نہیں ہوتی کہ انھیں کھلے میں نہ سہی بند کمرے میں ہی اعتماد میں لینے کے قابل سمجھا جائے۔

اگر یہ منتخب ارکان اتنے ہی غیر ذمے دار اور گھامڑ ہیں تو پھر ان پر اتنا خرچہ پانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر یہ ملک ہر دور میں منتخب و غیر منتخب کچن کیبنٹ کو ہی چلانا ہے تو پھر ہر چند برس بعد اتنی بڑی انتخابی مشق کرنے اور یہ غلط فہمی پھیلانے کی کیا ضرورت کہ اس ملک کے فیصلے عوام یا پھر ان کے منتخب نمایندے ہی کرتے ہیں۔

اور جب کوئی حادثہ ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت یا جغرافیہ یا پالیسی بدل جاتی ہے یا بدلنا پڑتی ہے یا اداروں کو ذمے داری کی تپش سے بچانا ہوتا ہے تو ان کی جگہ لینے والے کتنی آسانی سے یہ کہہ کے چھوٹ جاتے ہیں کہ ہم سے پہلے جو ہاتھ ہو گیا اس کے ہم ذمے دار نہیں۔حقائق چھپانے اور چند لوگوں کے ٹولے کے فیصلے مسلط کرنے اور پھر ان فیصلوں کے مثبت نتائج کا کریڈٹ لینے اور منفی نتائج کی ذمے داری سے ہاتھ جھاڑ لینے کی یہ ریلے ریس زخمی در زخمی ہونے کے باوجود پچھلے ستر برس سے رکنے کا نام کیوں نہیں لے رہی۔


جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر کا متن سنسر کرنے کی کوشش کرنے والے افسر کا کیا بنا؟ ہم کیا جانیں ہم تو ابھی ابھی آئے ہیں۔پاکستان کو سیٹو اور سینٹو میں کس نے دھکیلا، بڈبیر کا مرکز کس نے امریکیوں کو دیا، ان سے کیے گئے دفاعی معاہدے کی اعلانیہ و پوشیدہ شرائط کیا تھیں؟

ہمیں کیا پتہ، سہرودردی سے پوچھیں، ایوب خان کی قبر سے پوچھیں۔اچھا چلیں یہ تو بتا دیں کہ انیس سو ستر کے الیکشن کے بعد مشرقی پاکستان کی خبروں کو مغربی پاکستان نہ پہنچنے دینے کی حکمتِ عملی کس نے بنائی اور عمل کس کس نے کروایا؟ پان اور پٹ سن کیسے آجاتا تھا خبر کون آنے سے روک دیتا تھا؟ یہ تو آپ کو روئیداد خان ہی بتا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس دور کے کلیدی کرداروں میں سے اب وہی زندہ ہیں۔

اچھا تو پاکستان کو افغان جنگ میں کس نے کن شرائظ پر جھونکا اور پھر پورے ملک کو سپلائی کیمپ اور مہمان خانے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرنے والے ٹولے میں کون کون محبانِ وطن شامل رہے۔انھوں نے بالا ہی بالا کس نرخ پر سودا طے کیا؟ بس اتنا بتا سکتے ہیں کہ یہ سب ضیا دور میں ہوا؟ کیا ضرورت تھی، کس کو کیا فائدہ ہوا، آگے کا کیوں نہیں سوچا گیا؟ یہ تو ضیا الحق ہی بتا سکتے ہیں۔اب نہ وہ رہے نہ ان کے حواری۔لہذا گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا حاصل ؟ آگے کا سوچئے۔

مگر کتنا آگے کا؟ مہران گیٹ سے بھی آگے کا؟ کرگل کی لڑائی کے فیصلے کے کرداروں سے بھی آگے کا؟ نائن الیون کے بعد دہشتگردی کی عالمی لڑائی میں شمولیت کے محضوص ٹولہ جاتی فیصلے سے بھی آگے کا؟ دو ہزار دو کے انتخابات سے پہلے کی پولٹیکل انجینرنگ سے بھی آگے کا؟ ججوں کی برطرفی سے بھی آگے کا؟ اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے بھی آگے کا؟ بینظیر بھٹو کے قتل سے بھی آگے کا؟ آخر کتنا آگے کا؟

او جی ہم کیا چیز ہیں یہاں تو عدالتیں بھی ان تمام سوالوں کے جوابات اس دور کے زندہ مرکزی کرداروں بشمول پرویز مشرف سے حاصل کرنا چاہتی ہیں مگر جنھیں جواب دینا ہے وہ اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس ان فضولیات کی وضاحت کے لیے ٹائم ہی نہیں۔جہاں ستر سال انتظارکر لیا وہاں پچاس برس اور سہی۔

رہی ان تمام ادوار میں بننے والی اسمبلیاں تو یہ شریف بہو بیٹیاں بھلا کہاں ایسے سوالات پوچھ سکتی ہیں ، ان کو تو یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ اگر مسلسل نیچے کی جانب نہ دیکھا تو جانے کب پیروں تلے سے زمین نکل جائے۔کیا آپ کو اندازہ بھی ہے کہ ایک بار اسمبلی میں منتخب ہونے کے لیے کتناخرچہ کرنا پڑتا ہے۔ آپ اپنی دانشوری کرتے رہیں اور ہمیں جینے دیں۔ اب آپ کہیں یہ مت پوچھ لیجیے گا کہ بطور رکنِ پارلیمان ہم سی پیک کے بلیو پرنٹ اور شرائط کے بارے میں کیا اور کتنا جانتے ہیں ؟

آپ کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ خارجہ پالیسی بھلے پرامن بقائے باہمی پر نہ چل رہی ہو مگر داخلہ پالیسی پچھلے ستر برس سے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر استوار ہے۔ ہمارا کام ہے منتخب ہونا اور ان کا کام ہے پالیسی بنانا اور عمل کروانا۔آپ کو کوئی پرابلم ہے کیا اس انتظام سے؟ اتنا مت سوچا کریں۔سوچ بچار کوئی بہت اچھی چیز نہیں اور وہ بھی امورِ مملکت کے بارے میں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
Load Next Story