ریٹنگ کی جنگ

چند سینئر صحافی جوصحافتی اخلاقیات اور اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے وہ ریٹنگ کی دوڑ میں شامل نہیں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ جب ڈاکٹر صحافی اورصحافی سیاستدان بن جائیں، سیاستدان سرمایہ دار بن جائیں اور' کالے دھن' سے سرمایہ کاری کی جانے لگے تو پھر نظریات اور سوچ کا محورصرف دولت اور شہرت کا حصول ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں صحافی کو اس کے نام اور برانڈ پر فروخت کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے جس طرح معصوم زینب کے کیس میں غیر ذمے دارنہ رپورٹنگ اور بغیر ثبوت کے ایک خودساختہ کہانی بیان کی، اس کے زینب کیس پر بھی منفی اثرات پڑے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت پاکستان کے تمام بڑے اینکر اور صحافیوں کو بھی عدالت میں طلب کیا تاکہ اس مسئلے کا حل خوش اسلوبی سے نکالا جاسکے تاکہ ریاست کے چوتھے ستون کا وقار اورعزت سلامت رہے۔ اب گیند صحافیوں کی کورٹ میں ہے کہ وہ اپنا اور اپنے ساتھیوں کا خود احتساب کرتے ہیں ،آزادی اظہار اور مادر پدر آزادی کے درمیان کوئی لائن ڈرا کرتے ہیں یا پھر یہ کام بھی سپریم کورٹ انجام دے گی۔

صحافی، ادیب اور شاعر کسی بھی قوم کے حساس ترین لوگ ہوتے ہیں، جو پھول کو بھی پتھر کی طرح محسوس کرسکتے ہیں یہ لوگوں کو سوچ اور راستہ دیتے ہیں۔ جب قوم کسی گمراہی کی طرف گامزن ہو تو ان کا قلم لوگوں کو درست سمت کی نشاندھی کرتا ہے، صحافتی معیاراورکردارکسی بھی ریاست کی مقامی اور قومی سیاست کا عکاس ہوتا ہے، جس ملک میں جیسی سیاست ہوگی وہاں ویسی ہی صحافت ملے گی ۔سیاست اگر کاروبار بن جائے تو صحافت بھی کاروبار بن جاتی ہے۔

جب سیاست میں نظریات کونظر انداز کیا جائے اور کرپشن کو پروان چڑھایا جائے تو پھراس معاشرے میںصحافت کا معیار بھی گرجاتا ہے۔ وطن عزیز میں صحافیوںنے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ سچ لکھنے اور حقائق سامنے لانے پر صحافی مختلف ادوار میں پابند سلاسل ہوئے، کوڑے کھائے، معاشی مشکلات کا شکار ہوئے۔

صحافت نے کئی دہائیوں کی آمریت، پابندیوں اور سنسرشپ کا جرات مندی اور ہمت سے مقابلہ کیا مگر آج وہ صحافی اور کردار بہت مشکل سے ملتے ہیں۔یہی حال ہماری قومی سیاست کا ہے ذوالفقار علی بھٹو، شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفوراحمد،اصغر خان، شیر بازخان مزاری، میرغوث بخش بزنجو،نوابزادہ نصر اللہ خان، جی ایم سید،خان عبدالولی خان، مفتی محمود اور سید مودودی وغیرہ جیسے نظریاتی اور باکردارسیاستدان آج کے دور میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، اگراْس دور کے باکردار صحافیوں کی بات کی جائے تو مولانا ظفر علی خاں، ضمیر نیازی، الطاف حسین، میاں افتخار الدین، منہاج برنا، عبدالحمید چھاپڑا، نثار عثمانی، حمید نظامی ، مجید نظامی اور پیر علی محمد راشدی جیسے نامور مفکرین صحافت کے علمبردار بن کر پرچم اْٹھائے ہوئے تھے زرد صحافت اور درباری صحافت ان سے کوسوں دور سے بھی نہیں گزری تھی۔

ایک وہ دور تھا کہ صحافی قلم کے تقدس کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے تھے باضمیر صحافیوں نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہتے ہوئے کوڑے کھائے اور جیلوں کی صحبتیں برداشت کیں۔ صحافیوں کی تمام تر قربانیوں اور جدوجہد کے باوجود چند گندی مچھلیوں نے پورے صحافتی تالاب کو گندا کرکے رکھ دیا ہے۔نجی چینل کی بھر مار کے بعد صحافت گو ایک انڈسٹری بن گئی ہے۔


اس اسٹاک ایکسچینج میں صحافیوں کے بھاؤ لگائے جاتے ہیں۔قلم کی حرمت کا حال یہ ہے کہ کچھ چینل حکومت کے حق میں قصیدے پڑھ رہے ہیں اور کچھ چینل حکومت مخالفت میں زہر اگل رہے ہیں۔ چینل ایک دوسرے کے سرعام کپڑے اتار رہے ہیںایک دوسرے پر سنگین الزامات لگارہے ہیں۔موجودہ حالات میں صحافت سوالیہ نشان بن گئی ہے۔

کچھ اینکر پرسن اس سچائی سے جھوٹ کا پرچار کرتے ہیں کہ سو فی صد جھوٹ بھی سچ لگتا ہے حد تو یہ کہ جھوٹ اس اعتماد اور یقین کے ساتھ بولا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی خبر پر سو موٹو لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مقابلے اور ریٹنگ کی جنگ میں تمام اخلاقیات اور صحافتی اصولوں اور قدروں کو ہی پامال کر دیا گیا ہے۔

آزاد صحافت کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کیمرہ اور مائیک اٹھاکر کسی کے بھی دفتر، فیکٹری،گھر میں گھس جائیں، کیمرہ بند ہونے کا جھانسہ دیکرکسی کی بھی نجی زندگی کا تماشہ بنادیں۔آزادی صحافت کے نام پر لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا لائسنس مل گیا ہے ۔صحافت میں تجزیہ، رپورٹنگ، تحقیق اور تبصرے کی الگ الگ صفت ہوتی ہیں مگر اینکر اپنے پروگرام میں خبر کو کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ اپنا تجزیہ پیش کررہے ہیں یا تحقیقی رپورٹ کے حقائق بیان کررہے ہیں۔

سیاست دانوں کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے، اگر صحافتی اخلاقیات کو ضابطے میں لانے کی بات کی جائے تو آزادی صحافت پر بندش لگانے کا الزام لگا کر ایک ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد اب صحافی برادری کو اپنے گرد ایک دائرہ کھینچنا ہوگا کہ ان کی آزادی کی حدود کہاں تک ہیں۔متحارب فریقوں کو آپس میں لڑا کر تماشہ لگانا اب روزکا معمول بن گیا ہے۔ٹی وی چینل پرایک طوفان بدتمیزی برپا ہے سیاسی و ذاتی الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔

الیکٹرونک میڈیا نے صحافت کے معنوں اور مقاصد کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ایک وقت تھا کہ پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی تخلیقات ادارتی ڈیسک کی چھلنی سے گذر کر عوام تک پہنچتی تھیں۔اخبار میں ایک لائن کی چھپی ہوئی خبرکی اہمیت اور حیثیت تھی۔ایک خبر پر وزیر اور بیوروکریٹ کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی تھی ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آپ گھنٹو ں کسی وزیر ، مشیر کسی صوبائی و قومی محکمہ کی خبر چلاتے رہیں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رنگتی۔

چند سینئر صحافی جوصحافتی اخلاقیات اور اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے وہ ریٹنگ کی دوڑ میں شامل نہیں۔ جس پروگرام میں صحافتی اقدار کا پامال نہیںکیا جاتا ہے ، اخلاقیات کی حدیں پار نہیں کی جاتیں بدقسمتی سے ایسے پروگرام مقبولیت کی درجہ بندی میں بہت نیچے چلے جاتے ہیں۔یہ ہمارے مجموعی معاشرے کی گراوٹ اور تباہی کی آئینہ دار ہے ہم کس طرح پستی در پستی گرتے ہی جا رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا جو کچھ پیش کررہا ہے اس کے ذمے دار صرف صحافی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر پورا سماج اور معاشرہ ہی خستہ اور بوسیدہ ذہن کا شکار ہے۔

ہم اجتماعی طور پر پیسے اور شہرت کے پیچھے آنکھیں بند کرکے بھاگ رہے ہیں اور ایک نا ختم ہونے والی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے اس تمام صورت حال کو کچھ یوں بیان کیا ہے اگر کوئی شخص بازار میں ننگا کھڑاہو جائے تویہ تماشہ دیکھنے کے لیے ایک مجمع لگ جائے گا لیکن شہرت حاصل کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔
Load Next Story