سویلین مشرف کو پہلی سیاسی اننگزمیں دشواری
مشرف یہ سوچ کر پاکستان آئے کہ فیس بک پران کا’’7لاکھ کافین کلب‘‘ ان کااستقبال کرنے آئے گا۔
سابق صدراورآرمی چیف جنرل (ر)پرویزمشرف ،جب سے پاکستان واپس آئے ہیں۔
انھیں اپنی زندگی کو خطرے اورسیاسی تنہائی کے باعث بطورسویلین پہلی مرتبہ سیاسی اننگزکھیلنے میں شدیددشواری کاسامناہے تاہم وہ اپنے فیصلے پرنظرثانی کیلیے تیار نہیں ۔ اگرچہ وہ بدستورپرعزم ہیں مگرآخری معلومات تک انھوں نے کاغذات نامزدگی پردستخط نہیں کیے تھے تاہم انھوں نے ذاتی طور پر یا انٹیلی جنس مشورے پراپنی سرگرمیوں کومحدودرکھاہواہے، زمینی حقائق زیادہ مشکل ہیں بہ نسبت اس کے جو''جنرل''نے سوچا یا سوشل میڈیا پردیکھا تاہم آنے والے دنوں اورہفتوں میں انھیں اپنے حقیقی پیروکاروں کاپتہ چل جائیگا۔ پاکستان کواس وقت جس دہشت گردی کاسامناہے اس کی بڑی وجہ ان کے نوسالہ دورکی پالیسیاں ہیں۔
قوم توسابق آرمی چیف اور سابق صدرجنرل ضیا الحق اوران کے ساتھیوں کی پالیسیوں سے ابھی تک سنبھل نہیں سکی۔ اللہ ہی جانتاہے جنرل مشرف کی پالیسیوں کاخمیازہ ملککب تک بھگتے گا۔قوم نے ان کی پالیسوں کی بھاری قیمت اداکی ہے۔کم ازکم ایک ہزارسیاسی کارکنوں سمیت کم و بیش40 ہزار دہشت گردی کی نذرہوئے جبکہ عام انتخابات کے دوران ممکنہ دہشت گردی پربڑاسوالیہ نشا ن لگا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ پہلے ا وزیراعظم لیاقت علی خان اور پہلی خاتون وزیراعظم بنظیربھٹودہشت گردی کانشانہ بنے یا ان کا ماورائے عدالت قتل ہوا۔ مشرف یہ سوچ کر پاکستان آئے کہ فیس بک پران کا''7لاکھ کافین کلب'' ان کااستقبال کرنے آئے گا۔
تاہم وہ بڑے مایوس ہوئے کہ جم غفیران کااستقبال کرنے آیانہ وہ سیکیورٹی وجوہ کے باعث4گھنٹے تک ایرپورٹ سے باہر آسکے۔ آخری تین دنوں میں مزارقائد پر ان کی پریس کانفرنس اور عوامی جلسہ ''انٹیلی جنس رپورٹس'' پرمنسوخ ہوا جبکہ ان کا مجوزہ دورہ راولپنڈی اور اسلام آباد ابھی تک روکا ہوا ہے یاخفیہ رکھاجارہا ہے، انھیں تحریک طالبان سے شدید خطرہ ہے جس نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اس کے ''ڈیتھ اسکواڈ''مشرف کے پیچھے ہیں اوراسے مارکررہیں گے۔
وہ مختلف وجوہ پرتحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسندوںکی ہٹ لسٹ پر ہیں۔کوئی اپنے ساتھی امریکا کے حوالے کرنے پران کے درپے ہے اورکوئی لال مسجدآپریشن پرانھیں قتل کرنا چاہتا ہے جبکہ کوئی انھیں اکبربگٹی اورمتعدد بلوچوں کی ہلاکت کا موردالزام ٹھہراتا ہے۔ تاہم مشرف اپنے تمام اقداما ت کادفاع کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کسی ایک شخص کافیصلہ نہیں تھا ۔ واضح رہے کہ مشرف1999ء سے2008ء تک کے دورحکومت میں دوبڑے خودکش حملوں میں بال بال بچے جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کچھ اندورن وبیرون خانہ سازشیں بے نقاب کی تھیں ، اس دوران با وردی لوگ بھی گرفتارہوئے تھے، اب جبکہ وہ سویلین ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھیں ''ٹائٹ پروٹوکول''میسر ہے تاہم یہ یقیناً ویسی سیکیورٹی نہیں جیسے کہ انھیں بطور صدر یا آرمی چیف کے حاصل تھی۔ وہ یہ سادہ سی منطق سجمھیں یانہ سمجھیں یہ الگ معاملہ ہے
انھیں اپنی زندگی کو خطرے اورسیاسی تنہائی کے باعث بطورسویلین پہلی مرتبہ سیاسی اننگزکھیلنے میں شدیددشواری کاسامناہے تاہم وہ اپنے فیصلے پرنظرثانی کیلیے تیار نہیں ۔ اگرچہ وہ بدستورپرعزم ہیں مگرآخری معلومات تک انھوں نے کاغذات نامزدگی پردستخط نہیں کیے تھے تاہم انھوں نے ذاتی طور پر یا انٹیلی جنس مشورے پراپنی سرگرمیوں کومحدودرکھاہواہے، زمینی حقائق زیادہ مشکل ہیں بہ نسبت اس کے جو''جنرل''نے سوچا یا سوشل میڈیا پردیکھا تاہم آنے والے دنوں اورہفتوں میں انھیں اپنے حقیقی پیروکاروں کاپتہ چل جائیگا۔ پاکستان کواس وقت جس دہشت گردی کاسامناہے اس کی بڑی وجہ ان کے نوسالہ دورکی پالیسیاں ہیں۔
قوم توسابق آرمی چیف اور سابق صدرجنرل ضیا الحق اوران کے ساتھیوں کی پالیسیوں سے ابھی تک سنبھل نہیں سکی۔ اللہ ہی جانتاہے جنرل مشرف کی پالیسیوں کاخمیازہ ملککب تک بھگتے گا۔قوم نے ان کی پالیسوں کی بھاری قیمت اداکی ہے۔کم ازکم ایک ہزارسیاسی کارکنوں سمیت کم و بیش40 ہزار دہشت گردی کی نذرہوئے جبکہ عام انتخابات کے دوران ممکنہ دہشت گردی پربڑاسوالیہ نشا ن لگا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ پہلے ا وزیراعظم لیاقت علی خان اور پہلی خاتون وزیراعظم بنظیربھٹودہشت گردی کانشانہ بنے یا ان کا ماورائے عدالت قتل ہوا۔ مشرف یہ سوچ کر پاکستان آئے کہ فیس بک پران کا''7لاکھ کافین کلب'' ان کااستقبال کرنے آئے گا۔
تاہم وہ بڑے مایوس ہوئے کہ جم غفیران کااستقبال کرنے آیانہ وہ سیکیورٹی وجوہ کے باعث4گھنٹے تک ایرپورٹ سے باہر آسکے۔ آخری تین دنوں میں مزارقائد پر ان کی پریس کانفرنس اور عوامی جلسہ ''انٹیلی جنس رپورٹس'' پرمنسوخ ہوا جبکہ ان کا مجوزہ دورہ راولپنڈی اور اسلام آباد ابھی تک روکا ہوا ہے یاخفیہ رکھاجارہا ہے، انھیں تحریک طالبان سے شدید خطرہ ہے جس نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اس کے ''ڈیتھ اسکواڈ''مشرف کے پیچھے ہیں اوراسے مارکررہیں گے۔
وہ مختلف وجوہ پرتحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسندوںکی ہٹ لسٹ پر ہیں۔کوئی اپنے ساتھی امریکا کے حوالے کرنے پران کے درپے ہے اورکوئی لال مسجدآپریشن پرانھیں قتل کرنا چاہتا ہے جبکہ کوئی انھیں اکبربگٹی اورمتعدد بلوچوں کی ہلاکت کا موردالزام ٹھہراتا ہے۔ تاہم مشرف اپنے تمام اقداما ت کادفاع کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کسی ایک شخص کافیصلہ نہیں تھا ۔ واضح رہے کہ مشرف1999ء سے2008ء تک کے دورحکومت میں دوبڑے خودکش حملوں میں بال بال بچے جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کچھ اندورن وبیرون خانہ سازشیں بے نقاب کی تھیں ، اس دوران با وردی لوگ بھی گرفتارہوئے تھے، اب جبکہ وہ سویلین ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھیں ''ٹائٹ پروٹوکول''میسر ہے تاہم یہ یقیناً ویسی سیکیورٹی نہیں جیسے کہ انھیں بطور صدر یا آرمی چیف کے حاصل تھی۔ وہ یہ سادہ سی منطق سجمھیں یانہ سمجھیں یہ الگ معاملہ ہے