سوات میں فوجی یونٹ پر خود کش حملہ
سوات کی تحصیل کبل میں پاک آرمی یونٹ پر حملہ ایک بزدلانہ فعل ہے۔
سوات کی تحصیل کبل میں آرمی یونٹ پر خود کش حملے میں کیپٹن سمیت11جوان شہید اور6زخمی ہوگئے' آئی ایس پی آر کے مطابق یہ خود کش حملہ ہفتے کی شام تحصیل کبل کے علاقے شریف آباد میں آرمی یونٹ کے اسپورٹس ایریا میں کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق خود کش بمبار نے خود کو گراؤنڈ میں اس جگہ اڑا دیا جہاں فوجی والی بال کھیل رہے تھے۔گزشتہ روز 11شرکاء کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ خود کش حملہ آور ایک حساس علاقے تک کیسے پہنچا' تحقیقی اداروں کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ خود کش حملہ آور کا یقیناً کوئی ہینڈلر اور سہولت کار ہو گا 'اس تک پہنچنا بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہینڈلر اور سہولت کار دہشت گردوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں' اس خود کش حملے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سوات میں بھی دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں۔ ان سہولت کاروں کو انجام تک پہنچانا انتہائی ضروری ہے۔
ادھر افغانستان پر برسراقتدار لوگوں کے قول و فعل پر غور کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں کابل خود کش حملوں کا شکار رہا ہے۔ کابل کے حکمرانوں نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے الزامات کا رخ پاکستان کی طرف موڑا ۔افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سفارتی حدود کو کراس کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے۔یہ پاکستان کو ایک طرح سے کھلی دھمکی ہے۔
عجیب بات یہ بھی ہے کہ افغانستان کے حکمران خود کسی کے سہارے پر برسراقتدار ہیں لیکن وہ دھمکیاں پاکستان کو دیتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کی اس دھمکی پر بھی ضرور غور ہونا چاہیے۔ کابل حملے کی ٹائمنگ ایسی بنی ہے کہ ادھر کابل میں خود کش حملے ہوتے ہیں 'اس کے بعد افغانستان کے انٹیلی جنس ادارے اور حکمران الزامات پاکستان پر عائد کرتے ہیں اور پھر کابل میں پاک آرمی کے یونٹ پر حملہ ہو جاتا ہے۔ یہ ٹائمنگ بہت کچھ عیاں کر رہی ہے۔
پاکستان کی شمال مغربی سرحد خاصے عرصے سے ڈسٹرب چلی آ رہی ہے ۔ پاکستان نے برسوں سے اس سرحد اور اس سے متصل قبائلی علاقوں کو کھلا چھوڑے رکھا' افغانستان میں سوویت یونین کی فوجیں داخل ہوئیں تو افغانستان سے مہاجرین اور جنگجوؤں کا ریلا فاٹا سے ہوتا ہوا خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں آیا اور پھر آگے نکل کر ملک بھر کے مختلف شہروں تک پھیل گیا۔
کراچی اور لاہور میں بھی جو خود کش حملے ہوئے' ان میں خود کش حملہ آور سے لے کر اس کے ہینڈلر اور سہولت کار تک کا تعلق افغانستان یا قبائلی علاقوں سے نکلا۔ یوں پاکستان میں موجود افغان مہاجرین ملک کے لیے نئے مسائل کا باعث بنے۔ جہاں تک کابل میں ہونے والے حالیہ حملوں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے پاکستان نے افغانستان کو مشترکہ تحقیقات بھی آفر کر دی ہے۔ لیکن اس سارے معاملے کا اصل نقطہ یہی ہے کہ کیا اس قسم کے خیرسگالی کے اعلانات مسائل کا حل ہو سکتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی لیڈر شپ افغانستان میں موجود ہے۔
ادھر افغان طالبان کی لیڈر شپ ڈرون حملوں میں پاکستان کے علاقوں میں ماری جاتی رہی ہے۔ہمارے پالیسی سازوں کو ان پہلوؤں پر سوچنا چاہیے ۔ ملک سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ افغانستان پاکستان کے لیے مسلسل مسائل کا سبب بن رہا ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان پر کوئی مستحکم حکومت نہیں ہے' وہاں طالبان برسراقتدار آئے تب بھی پاکستان کے لیے مسئلے رہے 'طالبان سے پہلے جو مجاہدین کے گروہ اقتدار میں آئے 'ان کے دور میں بھی مسائل رہے۔ ظاہر شاہ کے زمانے میں بھی افغانستان پاکستان کی مخالفت پر کمر بستہ رہا۔سوشلسٹ انقلاب کے بعد جو حکمران آئے 'ان کا رویہ بھی پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رہا۔
ادھر پاکستان کے اندر کچھ قوتیں افغانستان کے لیے آج بھی نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں' یہ قوتیں افغان مہاجرین کو بھی اس ملک میں بسانا چاہتی ہیں اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی خراب کرانا چاہتی ہیں۔یوں پاکستان ایک دہری مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔ ان مسائل سے عہدہ برا ٓہونے کے لیے پاکستان کو سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ پاکستان کے اندر موجود ان قوتوں کے اثرونفوذ کا خاتمہ کرنا ہو گا جو درپردہ آج بھی دہشت گردوں کے خلاف حتمی کارروائی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
یہی قوتیں افغانوں کو بھی سپورٹ کرتی ہیں۔انھی کی وجہ سے پاکستان کے امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آ رہا ہے۔پاکستان کو ان قوتوں کا بھی خاتمہ کرنا ہے' رہے سہے دہشت گرد گروپوں کا قلع قمع بھی کرنا ہے اور افغانستان کو بھی اس کی حدود میں رکھنا ۔ان اقدامات سے ہی پاکستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
سوات کی تحصیل کبل میں پاک آرمی یونٹ پر حملہ ایک بزدلانہ فعل ہے۔ سوات میں موجود دہشت گردوں کا صفایا کیا جا چکا ہے 'اب سوات میں امن قائم ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد اپنا وار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ خود کش حملہ آور ایک حساس علاقے تک کیسے پہنچا' تحقیقی اداروں کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ خود کش حملہ آور کا یقیناً کوئی ہینڈلر اور سہولت کار ہو گا 'اس تک پہنچنا بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہینڈلر اور سہولت کار دہشت گردوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں' اس خود کش حملے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سوات میں بھی دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں۔ ان سہولت کاروں کو انجام تک پہنچانا انتہائی ضروری ہے۔
ادھر افغانستان پر برسراقتدار لوگوں کے قول و فعل پر غور کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں کابل خود کش حملوں کا شکار رہا ہے۔ کابل کے حکمرانوں نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے الزامات کا رخ پاکستان کی طرف موڑا ۔افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سفارتی حدود کو کراس کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے۔یہ پاکستان کو ایک طرح سے کھلی دھمکی ہے۔
عجیب بات یہ بھی ہے کہ افغانستان کے حکمران خود کسی کے سہارے پر برسراقتدار ہیں لیکن وہ دھمکیاں پاکستان کو دیتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کی اس دھمکی پر بھی ضرور غور ہونا چاہیے۔ کابل حملے کی ٹائمنگ ایسی بنی ہے کہ ادھر کابل میں خود کش حملے ہوتے ہیں 'اس کے بعد افغانستان کے انٹیلی جنس ادارے اور حکمران الزامات پاکستان پر عائد کرتے ہیں اور پھر کابل میں پاک آرمی کے یونٹ پر حملہ ہو جاتا ہے۔ یہ ٹائمنگ بہت کچھ عیاں کر رہی ہے۔
پاکستان کی شمال مغربی سرحد خاصے عرصے سے ڈسٹرب چلی آ رہی ہے ۔ پاکستان نے برسوں سے اس سرحد اور اس سے متصل قبائلی علاقوں کو کھلا چھوڑے رکھا' افغانستان میں سوویت یونین کی فوجیں داخل ہوئیں تو افغانستان سے مہاجرین اور جنگجوؤں کا ریلا فاٹا سے ہوتا ہوا خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں آیا اور پھر آگے نکل کر ملک بھر کے مختلف شہروں تک پھیل گیا۔
کراچی اور لاہور میں بھی جو خود کش حملے ہوئے' ان میں خود کش حملہ آور سے لے کر اس کے ہینڈلر اور سہولت کار تک کا تعلق افغانستان یا قبائلی علاقوں سے نکلا۔ یوں پاکستان میں موجود افغان مہاجرین ملک کے لیے نئے مسائل کا باعث بنے۔ جہاں تک کابل میں ہونے والے حالیہ حملوں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے پاکستان نے افغانستان کو مشترکہ تحقیقات بھی آفر کر دی ہے۔ لیکن اس سارے معاملے کا اصل نقطہ یہی ہے کہ کیا اس قسم کے خیرسگالی کے اعلانات مسائل کا حل ہو سکتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی لیڈر شپ افغانستان میں موجود ہے۔
ادھر افغان طالبان کی لیڈر شپ ڈرون حملوں میں پاکستان کے علاقوں میں ماری جاتی رہی ہے۔ہمارے پالیسی سازوں کو ان پہلوؤں پر سوچنا چاہیے ۔ ملک سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ افغانستان پاکستان کے لیے مسلسل مسائل کا سبب بن رہا ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان پر کوئی مستحکم حکومت نہیں ہے' وہاں طالبان برسراقتدار آئے تب بھی پاکستان کے لیے مسئلے رہے 'طالبان سے پہلے جو مجاہدین کے گروہ اقتدار میں آئے 'ان کے دور میں بھی مسائل رہے۔ ظاہر شاہ کے زمانے میں بھی افغانستان پاکستان کی مخالفت پر کمر بستہ رہا۔سوشلسٹ انقلاب کے بعد جو حکمران آئے 'ان کا رویہ بھی پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رہا۔
ادھر پاکستان کے اندر کچھ قوتیں افغانستان کے لیے آج بھی نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں' یہ قوتیں افغان مہاجرین کو بھی اس ملک میں بسانا چاہتی ہیں اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی خراب کرانا چاہتی ہیں۔یوں پاکستان ایک دہری مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔ ان مسائل سے عہدہ برا ٓہونے کے لیے پاکستان کو سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ پاکستان کے اندر موجود ان قوتوں کے اثرونفوذ کا خاتمہ کرنا ہو گا جو درپردہ آج بھی دہشت گردوں کے خلاف حتمی کارروائی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
یہی قوتیں افغانوں کو بھی سپورٹ کرتی ہیں۔انھی کی وجہ سے پاکستان کے امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آ رہا ہے۔پاکستان کو ان قوتوں کا بھی خاتمہ کرنا ہے' رہے سہے دہشت گرد گروپوں کا قلع قمع بھی کرنا ہے اور افغانستان کو بھی اس کی حدود میں رکھنا ۔ان اقدامات سے ہی پاکستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔