سیاست کی معیشت
بی جے پی نے پورے ملک میں ہندوتوا کو پھیلا دیا ہے۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ اس سال کے بجٹ میں دیہی انڈیا پر بھی توجہ دی جائے گی جہاں 70 فیصد ووٹر بستے ہیں۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو سیاست میں اقتصادیات کی آمیزش پر کوئی اعتراض نہیں۔ ماضی میں سیاسی جماعتیں اس قسم کی حرکت پر احتجاج کرتی رہی ہیں۔
گزشتہ کئی سال سے اقتصادیات کو سیاسیات کے ساتھ خلط ملط کیا جارہا ہے اور بدقسمتی سے اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اس مرتبہ بجٹ میں جو کوشش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والی کثیر آبادی کی بہتری کے لیے کوئی کام کیا جائے۔ بالخصوص جس سے دیہی علاقوں کے غریبوں کا کچھ فائدہ ہوسکے۔ بی جے پی نے راجستھان کے ضمنی انتخابات میں جو اقدامات کیے ان سے یہ نظر آتا ہے کہ غریب دیہاتیوں کی طرف توجہ منعطف کی گئی۔
لوک سبھا کے انتخاب میں جس میں کہ کانگریس پارٹی جیت گئی تاہم یہ ابھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا کانگریس آیندہ بھی کامیابی جاری رہے گی۔ البتہ فی الوقت حالات کا اشارہ کانگریس کے حق میں ہے۔ ایک خاص نمونہ اجاگر ہوتا محسوس ہوا ہے۔ جن علاقوں میں کانگریس اقتدار میں ہے وہاں بی جے پی جیت گئی ہے اور دوسری طرف بی جے پی کے زیر اقتدار علاقوں میں کانگریس برتری حاصل کررہی ہے۔ ووٹروں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں کہ وہ ان دو پارٹیوں میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کریں۔ ایک تیسری جماعت بھی تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جو صرف ایک آدھ ریاست تک ہی محدود رہی۔
پورے ملک میں اس کی کوئی پذیرائی نظر نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا محاذ جو کہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اور بہار میں نتیش کمار کی جنتا یونائیٹڈ اور لالو پرساد کی راشٹریہ جنتا دل تک محدود رہ گیا ہے۔ کانگریس پارٹی جو کہ پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اس کا صرف ایک مدمقابل ہے اور وہ ہے بی جے پی۔ بھارت چونکہ ایک سیکولر ملک ہے لہٰذا یہ حیرت کی بات ہے کہ بی جے پی جو کھلم کھلا ہندو توا کا پرچار کرتی ہے اس کو اقتدار مل گیا۔ بی جے پی نے پورے ملک میں ہندوتوا کو پھیلا دیا ہے۔
بھارت جیسے ملک میں یہ بڑی عجیب بات ہے کیونکہ اس کے آئین میں واضح طور پر سیکولرازم لکھا ہوا ہے جو آئین کے دیباچے میں شامل ہے۔ آپ محمد علی جناح پر بھارت کی تقسیم کا الزام عائد کر سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقسیم کے معاملے پر مزاحمت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب میں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ اس موضوع پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ رچرڈ ایٹلی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کا آپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور قائم رہے۔
واضح رہے کہ ماؤنٹ بیٹن برصغیر کے لیے انگلینڈ کے آخری وائسرائے تھے جن سے میری ملاقات کئی سال بعد ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے تقسیم کے فارمولے کے اوپر بات کرنے اور اپنی رائے دینے کے لیے مہاتما گاندھی کو دعوت دی تھی لیکن جب انھوں نے ''پارٹیشن'' کا لفظ سنا تو وہ وائسرائے کے کمرے سے باہر نکل گئے۔
بعدازاں ماؤنٹ بیٹن نے محمد علی جناح کو بھی بلایا جنہوں نے تقسیم کا خیرمقدم کیا۔ وائسرائے نے پوچھا کیا آپ بھارت کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہیں گے تو قائداعظم نے کہا نہیں مجھے ان پر بھروسہ نہیں۔ گویا اس لحاظ سے برطانوی وزیراعظم ایٹلی کا وہ خواب منتشر ہوگیا جس میں وہ برصغیر کو متحد رکھنا چاہتے تھے۔
متحدہ بھارت کے لیے بجٹ کو طے کرنا یقینی طور پر بے حد کٹھن مرحلہ ہوتا کیونکہ اس وقت کانگریس واحد جماعت ہے جو ملک کی تمام ریاستوں میں موجود ہے۔ بی جے پی دھیرے دھیرے اس خلا کو پورا کردیتی ہے جو کانگریس نے پیدا کیا۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ بجٹ کا 80% ہندوؤں کو فائدے کے لیے خرچ ہو۔
وزیراعظم مودی نے ''مودی کیئر'' کے نام سے صحت کی انشورنس کا ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت وہ 5 کروڑ افراد کو صحت کی انشورنس فراہم کرنا چاہتے ہیں جس میں ہر فیملی کے لیے 5 لاکھ روپے تک کے اخراجات کیے جاسکیں۔ اس اسکیم کو دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ کیئر اسکیم کا درجہ حاصل ہوگا جب کہ وزیر خزانہ نے ہر پارلیمانی انتخابی حلقے میں ایک میڈیکل کالج کھولنے کا اعلان بھی کردیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 180 میڈیکل کالج اور اتنے ہی اسپتال قائم کیے جا رہے ہیں۔
اس تجویز کو کامیاب بنانے کے لیے مرکزی حکومت سرکاری اسپتالوں کو بھی اس منصوبے میں شامل کرکے منصوبے کو بہتر انداز میں چلانا چاہتی ہے۔ این ڈی اے حکومت کا یہ تیسرا انورنس پروگرام ہے اس سے قبل کسانوں کے لیے ایک بہت بڑا پروگرام تشکیل دیا جاچکا ہے۔ اس پروگرام پر 25000 کروڑ روپ کی رقم صرف کی گئی جو بہت کامیابی سے جاری ہے۔
اس حوالے سے ایک المیہ یہ ہے کہ مسلم برادری ہندوتوا کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بجائے پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ جب میں نے مسلم کمیونٹی کے ایک چوٹی کے لیڈر سے پوچھا کہ آخر انھوں نے پسپائی کا فیصلہ کیوں کیا تو ان کا جواب تھا کہ ہم اپنی اور اپنی جائیدادوں کی حفاظت چاہتے ہیں۔ ہمیں ہندوتوا کی فورسز سے لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں اور یوں بی جے پی کی فورسز کو ہندو آبادی کے لیے ہندوتوا کا فلسفہ پھیلانے کا مکمل موقع مل گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم مودی اگلا انتخاب بھی جیت جائیں گے لیکن یہ ان کی شخصی فتح ہوگی۔ بی جے پی کی فتح نہیں ہوگی۔ مودی نے ہندو ووٹرز کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ بالخصوص دیہی بھارت میں مودی کا ڈنکا بچ رہا ہے لیکن گجرات اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کی اکثریت کم ہوتی نظر آرہی ہے حالانکہ گجرات ہی میں مودی کا مضبوط گڑھ ہے کیونکہ کانگریس نے اس ریاست میں اپنے حامیوں کی تعداد بڑھا لی ہے۔
یہ بی جے پی کے لیے ایک بڑا جھٹکا بھی ثابت ہوسکتی ہے خاص طور پر وزیراعظم مودی اور پارٹی کے صدر امیت شاہ کے لیے۔ انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ گجرات میں انھیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ ہر صورت جیت جائیں گے۔ کانگریس کی خوشی دیدنی ہے کیونکہ انھوں نے شیر کو اس کے غار میں گھس کر قابو کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس موقع پر کانگریس کی مستقبل کے لیے جیت کی کوئی پیش گوئی تو نہیں کی جا سکتی مگر نتیش کمار مالم فرنٹ کے ساتھ مل کر تیسرا محاذ تیار کر رہا ہے جس میں غیر بی جے پی پارٹیاں جمع کی جا رہی ہیں۔ اس فرنٹ سے مرکز میں مودی کو چیلنج کیا جاسکے گا لیکن اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ نتیش کمار اپنی حکومت بچانے کے لیے بی جے پی کا سہارا لینے کی کوشش بھی کررہا ہے جس کی وجہ سے لالو پرشاد کی راشٹریہ جنتا دل اور اس کی اپنی پارٹی میں کچھ اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ لالو اب بھی مقبول لیڈر ہے جسے مشکل کے موقع پر غیر متوقع اطراف سے حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے ایک مالیاتی سکینڈل میں رانچی جیل کی ہوا کھانی پڑی لیکن اسے اپنے ورکروں کی مکمل حمایت اب بھی حاصل ہے اور نتیش کو اس کا بخوبی علم ہے۔ وزیراعظم مودی کو اس ساری صورتحال کی کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ اب بھی ووٹروں کی بڑی تعداد اس کے ساتھ ہے لیکن اصل صورتحال اگلے انتخابات کے بعد ہی واضح ہوگی۔
کیا مودی اگلے سال کے انتخابات قبل از وقت کروانے کی کوشش کریں گے۔ اس کا جواب بھی وقت ہی دے گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
گزشتہ کئی سال سے اقتصادیات کو سیاسیات کے ساتھ خلط ملط کیا جارہا ہے اور بدقسمتی سے اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اس مرتبہ بجٹ میں جو کوشش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والی کثیر آبادی کی بہتری کے لیے کوئی کام کیا جائے۔ بالخصوص جس سے دیہی علاقوں کے غریبوں کا کچھ فائدہ ہوسکے۔ بی جے پی نے راجستھان کے ضمنی انتخابات میں جو اقدامات کیے ان سے یہ نظر آتا ہے کہ غریب دیہاتیوں کی طرف توجہ منعطف کی گئی۔
لوک سبھا کے انتخاب میں جس میں کہ کانگریس پارٹی جیت گئی تاہم یہ ابھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا کانگریس آیندہ بھی کامیابی جاری رہے گی۔ البتہ فی الوقت حالات کا اشارہ کانگریس کے حق میں ہے۔ ایک خاص نمونہ اجاگر ہوتا محسوس ہوا ہے۔ جن علاقوں میں کانگریس اقتدار میں ہے وہاں بی جے پی جیت گئی ہے اور دوسری طرف بی جے پی کے زیر اقتدار علاقوں میں کانگریس برتری حاصل کررہی ہے۔ ووٹروں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں کہ وہ ان دو پارٹیوں میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کریں۔ ایک تیسری جماعت بھی تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جو صرف ایک آدھ ریاست تک ہی محدود رہی۔
پورے ملک میں اس کی کوئی پذیرائی نظر نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا محاذ جو کہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اور بہار میں نتیش کمار کی جنتا یونائیٹڈ اور لالو پرساد کی راشٹریہ جنتا دل تک محدود رہ گیا ہے۔ کانگریس پارٹی جو کہ پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اس کا صرف ایک مدمقابل ہے اور وہ ہے بی جے پی۔ بھارت چونکہ ایک سیکولر ملک ہے لہٰذا یہ حیرت کی بات ہے کہ بی جے پی جو کھلم کھلا ہندو توا کا پرچار کرتی ہے اس کو اقتدار مل گیا۔ بی جے پی نے پورے ملک میں ہندوتوا کو پھیلا دیا ہے۔
بھارت جیسے ملک میں یہ بڑی عجیب بات ہے کیونکہ اس کے آئین میں واضح طور پر سیکولرازم لکھا ہوا ہے جو آئین کے دیباچے میں شامل ہے۔ آپ محمد علی جناح پر بھارت کی تقسیم کا الزام عائد کر سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقسیم کے معاملے پر مزاحمت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب میں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ اس موضوع پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ رچرڈ ایٹلی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کا آپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور قائم رہے۔
واضح رہے کہ ماؤنٹ بیٹن برصغیر کے لیے انگلینڈ کے آخری وائسرائے تھے جن سے میری ملاقات کئی سال بعد ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے تقسیم کے فارمولے کے اوپر بات کرنے اور اپنی رائے دینے کے لیے مہاتما گاندھی کو دعوت دی تھی لیکن جب انھوں نے ''پارٹیشن'' کا لفظ سنا تو وہ وائسرائے کے کمرے سے باہر نکل گئے۔
بعدازاں ماؤنٹ بیٹن نے محمد علی جناح کو بھی بلایا جنہوں نے تقسیم کا خیرمقدم کیا۔ وائسرائے نے پوچھا کیا آپ بھارت کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہیں گے تو قائداعظم نے کہا نہیں مجھے ان پر بھروسہ نہیں۔ گویا اس لحاظ سے برطانوی وزیراعظم ایٹلی کا وہ خواب منتشر ہوگیا جس میں وہ برصغیر کو متحد رکھنا چاہتے تھے۔
متحدہ بھارت کے لیے بجٹ کو طے کرنا یقینی طور پر بے حد کٹھن مرحلہ ہوتا کیونکہ اس وقت کانگریس واحد جماعت ہے جو ملک کی تمام ریاستوں میں موجود ہے۔ بی جے پی دھیرے دھیرے اس خلا کو پورا کردیتی ہے جو کانگریس نے پیدا کیا۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ بجٹ کا 80% ہندوؤں کو فائدے کے لیے خرچ ہو۔
وزیراعظم مودی نے ''مودی کیئر'' کے نام سے صحت کی انشورنس کا ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت وہ 5 کروڑ افراد کو صحت کی انشورنس فراہم کرنا چاہتے ہیں جس میں ہر فیملی کے لیے 5 لاکھ روپے تک کے اخراجات کیے جاسکیں۔ اس اسکیم کو دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ کیئر اسکیم کا درجہ حاصل ہوگا جب کہ وزیر خزانہ نے ہر پارلیمانی انتخابی حلقے میں ایک میڈیکل کالج کھولنے کا اعلان بھی کردیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 180 میڈیکل کالج اور اتنے ہی اسپتال قائم کیے جا رہے ہیں۔
اس تجویز کو کامیاب بنانے کے لیے مرکزی حکومت سرکاری اسپتالوں کو بھی اس منصوبے میں شامل کرکے منصوبے کو بہتر انداز میں چلانا چاہتی ہے۔ این ڈی اے حکومت کا یہ تیسرا انورنس پروگرام ہے اس سے قبل کسانوں کے لیے ایک بہت بڑا پروگرام تشکیل دیا جاچکا ہے۔ اس پروگرام پر 25000 کروڑ روپ کی رقم صرف کی گئی جو بہت کامیابی سے جاری ہے۔
اس حوالے سے ایک المیہ یہ ہے کہ مسلم برادری ہندوتوا کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بجائے پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ جب میں نے مسلم کمیونٹی کے ایک چوٹی کے لیڈر سے پوچھا کہ آخر انھوں نے پسپائی کا فیصلہ کیوں کیا تو ان کا جواب تھا کہ ہم اپنی اور اپنی جائیدادوں کی حفاظت چاہتے ہیں۔ ہمیں ہندوتوا کی فورسز سے لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں اور یوں بی جے پی کی فورسز کو ہندو آبادی کے لیے ہندوتوا کا فلسفہ پھیلانے کا مکمل موقع مل گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم مودی اگلا انتخاب بھی جیت جائیں گے لیکن یہ ان کی شخصی فتح ہوگی۔ بی جے پی کی فتح نہیں ہوگی۔ مودی نے ہندو ووٹرز کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ بالخصوص دیہی بھارت میں مودی کا ڈنکا بچ رہا ہے لیکن گجرات اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کی اکثریت کم ہوتی نظر آرہی ہے حالانکہ گجرات ہی میں مودی کا مضبوط گڑھ ہے کیونکہ کانگریس نے اس ریاست میں اپنے حامیوں کی تعداد بڑھا لی ہے۔
یہ بی جے پی کے لیے ایک بڑا جھٹکا بھی ثابت ہوسکتی ہے خاص طور پر وزیراعظم مودی اور پارٹی کے صدر امیت شاہ کے لیے۔ انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ گجرات میں انھیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ ہر صورت جیت جائیں گے۔ کانگریس کی خوشی دیدنی ہے کیونکہ انھوں نے شیر کو اس کے غار میں گھس کر قابو کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس موقع پر کانگریس کی مستقبل کے لیے جیت کی کوئی پیش گوئی تو نہیں کی جا سکتی مگر نتیش کمار مالم فرنٹ کے ساتھ مل کر تیسرا محاذ تیار کر رہا ہے جس میں غیر بی جے پی پارٹیاں جمع کی جا رہی ہیں۔ اس فرنٹ سے مرکز میں مودی کو چیلنج کیا جاسکے گا لیکن اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ نتیش کمار اپنی حکومت بچانے کے لیے بی جے پی کا سہارا لینے کی کوشش بھی کررہا ہے جس کی وجہ سے لالو پرشاد کی راشٹریہ جنتا دل اور اس کی اپنی پارٹی میں کچھ اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ لالو اب بھی مقبول لیڈر ہے جسے مشکل کے موقع پر غیر متوقع اطراف سے حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے ایک مالیاتی سکینڈل میں رانچی جیل کی ہوا کھانی پڑی لیکن اسے اپنے ورکروں کی مکمل حمایت اب بھی حاصل ہے اور نتیش کو اس کا بخوبی علم ہے۔ وزیراعظم مودی کو اس ساری صورتحال کی کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ اب بھی ووٹروں کی بڑی تعداد اس کے ساتھ ہے لیکن اصل صورتحال اگلے انتخابات کے بعد ہی واضح ہوگی۔
کیا مودی اگلے سال کے انتخابات قبل از وقت کروانے کی کوشش کریں گے۔ اس کا جواب بھی وقت ہی دے گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)