مکالمہ عیاری اور فن کاری کے درمیان بولتا ہے

سرمد صہبائی سے اس کے مرتبے کا کام نہیں لیا گیا، شعیب منصور جیسا نابغہ بھارت کے پاس بھی نہیں ہے، سجاد کشور

اسلام آباد سینٹر کا بیڑا ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ نے غرق کیا، صاحبِ اسلوب فن کار سجاد کشور کی باتیں۔ فوٹو : فائل

بارہ ربیع الاول 6 جولائی 1933 کو بھارت کے شہر لدھیانہ میں آباد یوسف زئی پٹھان گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ماں باپ نے محمد سجاد خان رکھا، آج کا صاحبِ اسلوب اداکار سجاد کشور وہی سجاد خان ہے۔

پرائمری تعلیم لدھیانہ کے مشنری ادارے ''یونیک کرسچین گورنمنٹ اسکول سے مکمل کی اور اسلامیہ مڈل اسکول لدھیانہ سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ نویں کلاس میں تھے کہ برصغیر پاک و ہند تقسیم ہو گیا اور یوں سجاد کشور اپنے خاندان کے ساتھ راول پنڈی آ گئے۔

یہاں پر مسلم ہائی اسکول سید پور روڈ راول پنڈی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر ایف اے اور بی اے کا امتحان اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے پاس کرنے کے بعد روزنامہ پاکستان ٹائم میں بطور سرکولیشن منیجر اپنے کیریئر کاآغاز کیا لیکن میلانِ طبع نوکری سے میل نہ کھاتا تھا، خوئے آزاد رکھتے ہیں سو پابندی بھی برداشت نہیں ہوتی تھی تبھی 1966 میں اس وقت کے ایم ڈی پاکستان ٹیلی ویژن اسلم اظہر کے کہنے پر اداکاری کے میدان میں قدم رکھا، جس تا ایں دم جوہر دکھا رہے ہیں۔ پہلا ڈراما ریزگاری تھا اسی دوران شعر کہنے کا بھی شوق چرایا تو سجاد کشور ہو گئے۔

اس نام کی برکت تھی کہ عالمِ فن میں اسی نام سے فروزاں ہیں۔ اب ماشاء اللّٰہ 80 سال کے ہو چلے ہیں لیکن ''ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں''۔ 23 مارچ 2010 کو انہیں حکومت پاکستان نے ڈرامے میں اداکاری کے شعبہ میں تمغۂ امتیاز پیش کیا۔ سجاد کشور نے اپنے فنی کیریئر میں ہر طرح کے کردار ادا کیے۔ پی ٹی وی کے لیے 200 سے زیادہ ڈراموں میں کام کیا۔ معروف ڈراما سیریل وارث، آپے رانجھا ہوئی اور چانن تے دریا میں ان کے کردار لازوال ہیں اور آج بھی ڈرامے کا ذکر ہو ان کا باب ضرور کھلتا ہے۔

پی ٹی وی کے ایک تاریخی ڈرامے میں بھی سلطان علاؤ الدین خلجی کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا، جس کو 22 منٹ کے ایک ہی ٹیک میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ریڈیو پاکستان پر بھی ایک ہزار سے زیادہ ڈراموں میں صداکاری کی اور ریڈیو کے فن کاروں سے خود کو منوایا۔ سلور سکرین کے لیے لگ بھگ 200 فلموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ ان کی معروف فلموں میں مہربانی، چوروں قطب، لازوال، آئینہ اور زندگی اور خدا کے لیے شامل ہیں۔

اداکار سجاد کشور نے پی ٹی وی ریجنل ایوارڈ 1999 اور 2002 ، پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ اور لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ اور متعدد دوسرے اعزازات حاصل کیے۔ ڈراما اداکاری پر انہیں ناروے کا سفارت خانہ بھی لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ پیش کر چکا ہے۔ عمر انہیں خاصا بیت چکی ہے لیکن انہیں سنیے تو لگتا ہے آواز کا زیر و بم، جہاں پنتالیس برس پہلے تھا، وہیں ہے۔

زندگی کے بعض ڈرامائی لمحوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ''سینتالیس سال پہلے کی بات ہے، جب شہزاد احمد شہزاد پی ٹی وی راول پنڈی سنٹر پر ڈراموں کااسکرپٹ دیکھا کرتے تھے اور اسلم اظہر صاحب اسٹیشن مینیجر تھے، ان کی پروڈکشن کے تحت ڈراما ''ریزگاری'' ریکارڈ ہونا تھا میں شہزاد احمد شہزاد کے پاس بیٹھا تھا اچانک وہ مجھے اسلم اظہر کے پاس لے گئے، اسلم اظہر نے مجھے سکرپٹ دیا اور کہا ''ڈرامے میں دو چیزیں اہم ہوتی ہیں، لکھی ہوئی لائن اور ڈراما کی موو، تمہیں کون سی شے یاد رہے گی؟ میں نے کہا دونوں کو یاد رکھنے کی کوشش کروں گا لیکن میری ایک شرط ہے، ڈراما نشر ہونے سے پہلے میں اُسے دیکھوں گا، اگر میں خود کو اچھا لگا تو کام جاری رکھوںگا ورنہ معذرت سمجھیے، وہ مان گئے۔

ڈراما دیکھا تو اپنا آپ کچھ اچھا ہی لگا سو جانے دیا، دوسرے دن حسب معمول چائے پینے صدر گیا تو لوگوں کا ردعمل دیکھ کر اپنا آپ پہلے سے زیادہ اچھا لگنے لگا سو میں اداکار بن گیا، پھر صداکاری کے میدان میں بھی قدم دھرا اور اب تک اسی دنیا کا باسی ہوں، اس کے کچھ ہی عرصے بعد میں نے منّو بھائی کے ایک ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کیا اور اس کے بعد مجھے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی مہلت نہیں ملی، اب تک مصروف ہوں''۔

ماضی اور حال کے ڈرامے میں فرق کو سجاد کشور نے یوں واضح کیا ''پہلے ڈراما لکھنے والا پروڈیوسر کی ضرورت پوری کرتا تھا اور پروڈیوسر خود بھی ڈراما لکھنے کے فن سے آشنا ہوتا تھا، اب دونوں ہی ایک دوسرے سے دوری پر رہ کے کام کر رہے ہیں، پھر یہ بھی ہے کہ اس فن میں بہت سے نابالغ گھس بیٹھیے بھی آ گئے ہیں۔ ہمارا ماضی کا ڈراما بھارت کی پونا اکیڈمی میں پڑھایا جاتا تھا اورآج ہم بھارتی ڈراموں کے جادو میں جکڑے ہوئے ہیں، اجارہ داروں نے ہمیں یرغمال بنا لیا ہے لہٰذا اب جو غیر ملکی رطب و یابس، کوڑا کرکٹ چاہیں دکھا دیں، کون روکے بھائی۔

سوچنے کا مقام ہے کہ ہم تعلیم، تربیت اور تفریح کی آڑ میں ناظرین کو کیا دے رہے ہیں؟ مصنوعی ہارمون اور وہ بھی جائز مقدار سے زیادہ ! ڈرامے کے ذریعے اپنی بات کہنے اور پیغام دینے کے ہنر کو ہی فن کہا جاتا ہے، کیا وہ ہنر اور کہاں گئے وہ ہنرمند؟ اِس شعبے سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے جواز جھوٹے اور استدلال بودے ہیں لیکن شہرت اور دولت حاصل کرنے کے لیے ہم سمجھوتوں کا جو بارِگراں بنا چکے ہیں، اداکاری جیسا نازک فن تو اس کے نیچے آ کر مرحوم ہو چکا، اب فن کار کہلانے کے لیے سرحد پار سے سرٹیفکیٹ لانا پڑتا ہے، خدا کی شان! ہمیں سند تصدیق عطا کرنے والوں نے یہ فن ہم ہی سے سیکھا، اب وہ معتبر اور ہم اناڑی ۔۔۔

سجاد کشور نے کہا '' فن کار کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ اس عمر میں بھی میرے کام کرنے کے جذبے جوان ہیں لیکن شاید اب ہمارے لیے جگہ نہیں رہی''۔ ''آج ہر چینل پر ایک ہی سکرپٹ چل رہا ہے بس اتنا ہے کہ اِس دیوار کی تصویر اُس دیوار پر چسپاں کردی، صوفے اِس کونے سے اُس کونے کو دھکیل دیا، لو جی بن گیا نیا ڈراما، کبھی لگتا ہے سارے ڈرامے ریڑھی پر لدے ہوئے ہیں اور ریڑھی بان آواز لگا رہا ہے ''ہر مال ملے گا دو آنا'' بات یہیں تک رہتی تو بھی کوئی بات تھی مگر اب دھرتی کی اقدار و روایات اور شرم و حیا کو جس بری طرح مسخ کیا جا رہا ہے وہ بہت اذیت دیتا ہے، بیٹیوں بہنوں میں بیٹھ کر ڈراما دیکھنا دشوار ہو گیا ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات اور دوسرے ذمہ دار اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، لو اور تو اور پی ٹی وی بھی ''ہر مال ملے گا دو آنا'' والی ریڑھی سے شاپنگ فرما رہا ہے''۔

''بات کہنے کا سلیقہ ہونا چاہیے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے اور شائستگی سے کہا جا سکتا ہے، یہ بات یاد رکھیے کہ مکالمہ عیاری اور فن کاری کے درمیان بولتا ہے، اس سے قوم کی تعلیم و تربیت تو خیر کیا ہوگی، تفریح کا پہلو بھی نہیں نکلتا، ہاں! سنسنی ضرور پھیل رہی ہے، مار دھاڑ، تشدد اور عدم برداشت خوب پنپ رہے ہیں، کمرشل ازم نے ٹی وی ڈرامے کی ہیئت بدل کر رکھ دی ہے، ڈراما، ٹوپی ڈراما بن گیا ہے، میں یہاں نئے اداکاروں کی تعریف کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھاؤں گا، ہمارے نئے بچے، جو اس وقت اداکاری کے میدان میں ہیں، ان میں سے کئی ایک تو بہت کمال کا کام کر رہے ہیں، اگر یہ کہوں کہ وہ ہمارے عہد کی نسل سے زیادہ ٹیلینٹڈ ہیں تو غلط نہ ہوگا''۔


انہوں نے کہا '' نئے بچوں کے ساتھ اگر سینیئر لوگوں کو بھی کاسٹ کیا جائے تو ہمارے ڈرامے کا معیار مزید بہتر ہو سکتا ہے اور نئے بچوں کو سیکھنے، اُٹھنے، بیٹھنے اور ڈرامے کی باریکیوں کو جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا اگر تجربے کو نظرانداز کرکے شارٹ کٹ اور اسی نوعیت کے دیگر عوامل پر نام نہاد مفاہمت کر لی جائے تو نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے، آج ڈرامے میں یہی کچھ ہو رہا ہے، اِس پر اور کیا کہوں۔ آج سے کئی سال پہلے ریڈیو اور ٹی وی ڈرامے کے مکالمے لوگوں کے روزمرے کا حصہ بن جایا کرتے تھے لیکن اب ڈرامے میں دکھائے جانے والے فیشن، بناؤ سنگھار اور نمود و نمائش کی دھن سوار ہو چکی ہے''۔

کہتے ہیں ''اداکاری کی طرح شعر گوئی جاری ہے، کبھی تھا میں بھی مشاعروں کا شاعر، غزلیں اور نظمیں شائع بھی ہوتی تھیں مگر یہ شوق ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکا کیوں کہ میری شاعری صرف میری داخلی کیفیات تک محدود ہے، ایک تازہ شعر عرض ہے

تیری الجھی ہوئی زلفوں کو سنواریں کیسے؟
زندگی تو ہی بتا تجھ کو گزاریں کیسے؟

سجاد کشور نے سلور سکرین کی زبوں حالی پر یوں تبصرہ کیا ''کمرشل ازم اور گروہ بندیوں کی وجہ سے شوبز کی پوری صنعت برے حال کو پہنچی ہوئی ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ اب ہمارے ہاں اچھا کام کرنے والے لوگ نہیں، انہیںشعیب منصور کے کام سے رہ نمائی حاصل کرنی چاہیے، میرا عویٰ ہے کہ اُس سا ہنرمند بھارت کے پاس بھی نہیں، میں ہنر مند اور فن کار اُسے سمجھتا ہوں، وہ خواہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، جس کا مشاہدہ حقیقت پر مبنی ہے اور وہ اُس کو عملی سطح پر استعمال کرنے کا اہل بھی ہو، وہ ہی بامراد بھی ہوتا ہے، یہ منزل ریاضت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اورجب بندہ اس مرحلے سے گزر کے فن کار کا درجہ پاتا ہے تو پھر اُس کی راہوں میں کھڑی تمام رکاوٹیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔

مثلاً مکالمے میں کہاں وقفۂ جلی اور کہاں وقفۂ خفی ہو گا، یہ معلوم ہونا کافی نہیں جب تک اس کے استعمال کا عملی مظاہرہ نہیں کیا جاتا، مسکراہٹ کی جگہ قہقہہ لگانے سے سین کا حلیہ کیسے بگڑتا ہے، آواز کا زیرو بم کیسے قائم رکھنا ہے؟ اپنے گلے اور سینے کو آواز کا مخراج کیسے بنانا ہے؟ فن کار کوعلم ہونا چاہیے یہ وہ باتیں ہیں جو آپ کی گفت گو کے علاوہ مکالمے کی ا دائی کو بھی موثر بناتی ہیں، بدقسمتی سے ہمارے نئے اداکاروں کو ان باریکیوں کا علم نہیں اس زیادہ بڑا المیہ یہ کہ جو لوگ ان سے کام لے رہے ہیں، وہ خود بے بہرہ! حال آںکہ نئے فن کاروں میں ٹیلنٹ موجود ہے مگر اُس سے کیسے کام لینا ہے، اس کا کسی کو علم نہیں، ہم خوش قسمت عہد کے لوگ تھے ہمیں صرف بتایا ہی نہیں جاتا تھا بل کہ رزلٹ بھی مانگا جاتا تھا''۔

سجاد کشور نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا ''میرا زیادہ عرصہ پی ٹی وی لاہور سنٹر پر گزرا، 14 سال میں نے وہاں راج کیا، ان دنوں میرے ساتھ قوی خان، خیام سرحدی، سجاد انور اور عابد علی تھے، مجھے اور عابد علی کو ذرا زیادہ کام ملتا تھا، اس کے بعد 1985 میں جب میں نے راول پنڈی کا رخ کیا تو پھر وہاں دوسرے اچھے اداکاروں کی جگہ بنی، ان دنوں لاہور سنٹر پر اشفاق احمد صاحب کے ڈراموں کو مشکل ترین سمجھا جاتا تھا ان کو تیار کرنا پرڈیوسر سے لے کر اداکار اور تکنیکی عملے تک کے لیے ایک چیلنج ہوتا تھا، جب تک اشفاق صاحب کے فلسفے کو سمجھ نہیں لیا جاتا تھا۔

آپ ایک شارٹ بھی فلما نہیں سکتے تھے لیکن میں یہاں فخر کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان کے بیش تر مشکل ترین ڈراموں کے کردار میں نے کیے۔ اُن دنوں وہاں یاور حیات، کنور آفتاب، محمد نثار حسین نمایاں پروڈیوسر ہوا کرتے تھے، اشفاق صاحب کے ڈراموں کو اگر سب سے بہتر کسی نے فلمایا ہے تو وہ محمد نثار حسین صاحب ہی تھے جب کہ نئے پروڈیوسروں میں ساحرہ کاظمی نے کمال مہارت سے ان کے ڈرامے بنائے لیکن ان کے ڈراموں کا ٹیمپو تھوڑا تیز ہوتا تھا''۔

راول پنڈی سنٹر اور لاہور سنٹر کے ماحول میں فرق بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''راول پنڈی وہ اسٹیشن ہے جس نے باقی تمام مراکز کے لیے ڈرامے تیار کیے، چکلالہ اسٹیشن کی بیرکوں میں قائم اِس سنٹر میں ایکس چینج پروگرام کے تحت اتنا زیادہ کام ہوا کہ باقی اسٹیشنوں پر شاید ہی ہوا ہو، عابد علی، قوی خان، فردوس جمال کے علاوہ درجنوں معروف فن کاروں کو بریک تھرو راول پنڈی سے ملا مگر اس سنٹر کا بیڑا غرق اُس وقت ہوا جب یہاں سے حالات حاضرہ کی نشریات شروع ہوئیں۔''

''غفران امتیازی، شہزاد خلیل، خالد محمود زیدی سمیت دیگر بہت سے اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک پروڈیوسروں نے کام کرکے اس سنٹر کا جو وقار قائم کیا ہوا تھا وہ حالات حاضرہ کے ان 10 برسوں کی نذر ہو گیا جب یہاں سے ڈراما پروڈکشن کو ثانوی قرار دے دیا گیا''۔

برے دنوں کے محسنوں کو خراجِ محبت پیش کرتے ہیں ''لاہور میں مجھے امین صاحب اور شاکر عزیر کے بڑے بھائی زاہد عزیر نے کبھی پریشان نہیں ہونے دیا، مجھے باپ کا درجہ دیا اور میں آج بھی دعاگو ہوں اللہ سب کو ایسی اولاد سے سرفراز فرمائے''۔

''ایک بار ڈاکٹر انور سجاد لاہور میں میری پذیرائی سے چڑ گئے، کہنے لگے تم اخبار میں اچھی نوکری کرتے ہو پھر اداکاری میں دوسروں کا حق کیوں مار رہے ہو اور وہ بھی پنڈی سے یہاں آ کر۔ میں نے برجستہ کہا ''لاہور پاکستان سے باہر ہے، میں یہاں کیوں کام نہیں کر سکتا، قباحت کیا ہے؟؟؟ میرا جارحانہ انداز دیکھا تو چپ چاپ چل دیے''۔

سجاد کشور نے سرمد صہبائی کو پی ٹی وی کا سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا یہ پی ٹی وی کی بدقسمتی تھی اور ہے کہ ان سے اُس طرح کام نہیں لیا گیا جس مرتبے کے وہ لکھاری، ہدایت کار اور فن کار ہے، شاعر تو خیر وہ قادر الکلام ہے ہی''۔ سجاد کشور نے پاکستان کے ٹی وی ڈرامے کو دوبارہ عروج پر لے جانے کے لیے تجویز دی کہ ''پی ٹی وی کو اب دوبارہ ڈرامے پروڈیوس کرنے چاہییں، خریدا ہوا مال بالکل ایسے ہی ہے جس طرح ہوٹل سے منگوایا ہوا کھانا، اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس بچے نے ماں کے ہاتھ کی پکی روٹی کھائی ہی نہیں اُس کو نان قلچے کھلائے گئے ہوں اُسے کیا علم ہو کہ ماں کے ہاتھوں کا لمس آٹے میں کیسے اتر آتا ہے''۔
Load Next Story