خبر کا اعتبار سچ کا جنازہ آخری حصہ

آزادی صحافت ایک امانت ہے، قومی ورثہ ہے، لنڈا بازار کا جیکٹ نہیں۔

ایک بار گلوکار مائیکل جیکسن نے اپنے گیت، موسیقی اور ڈانس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوام منفی چیزوں کو پسند کرتے ہیں، اور ایسی پوئٹری لکھی بھی جارہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہی چیز سیل آؤٹ ہوتی ہے، مطلب مائیکل جیکسن کا بھی یہی ہے کہ گڈ نیوز بکتی نہیں۔

ایلکس ٹیزن نے لکھا کہ ہمارے استاد اور بڑے معلم ٹی وی اور موویز تھیں، جب ہم امریکا میں سکونت پذیر ہوئے تو ویت نام کی جنگ جاری تھی جس میں ایشیائی عوام کو قابل نفرت چیز بنا کر پیش کیا جاتا تھا، وہ مکمل نفرت کا نشانہ بنتے تھے، انھیں دشمن سمجھا جاتا تھا، پھر وقت بدلا مگر میرے اعصاب اور ذہن پر وہ یادیں اور اثرات آج بھی شعور کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں۔

یہ میڈیا کا امریکی قصہ ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ کوئی برے طریقہ سے اچھی خبر کبھی نہیں بنا سکتا، اسی کوشش میں خبر اعتباریت کھوتی اور خواہشات، توہمات اور تمناؤں کی ابابیلیں ریاستی ستونوں، معاشرہ، میڈیا اور اقدار کو بھوسہ بنا دیتی ہیں۔ بری خبر اسے کہا جاتا ہے جو بروں میں گردش کرتی ہے کیونکہ اسی پر وہ لوگ شور مچاتے ہیں۔

فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے خوبصورت مثال دی، ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم کوشش کریں کہ ایک ورلڈ کلاس نیوز فیڈ تشکیل پائے، ورلڈ کلاس پیغام رسانی سسٹم سامنے لائیں، ورلڈ کلاس سرچ پروڈکٹ بنائیں، ورلڈ کلاس اشتہاری میکانیت قائم کریں، ورچوئل ریالٹی کی دنیا تخلیق کریں اور ڈرون بنائیں، تو یقین جانیے میں اس خلفشار میں ایک سطر بھی code کا نہیں لکھ سکتا۔ وہی زکربرگ اب سوچنے پر مجبور ہیں کہ facebook کی خبروں اور دیگر مواد پر اعتباریت کے حوالہ سے شکوک کے الزامات کا کس طرح جواب دیں۔

اسی کمپنی کے ایک ماہر وجے سیٹھ اوپاتی کا موقف ہے کہ میں فیس بک پر ایکٹیو تھا، لوگوں کے کمنٹس دیکھ رہا تھا، کرمفرماؤں کے توصیفی پیغامات نوٹ کررہا تھا اور انھیں تہنیتی میسج ارسال کررہا تھا کہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ فیس بک فیڈ پس پردہ میرے احساسات کو کچل رہی ہے، پھر مجھے ایک آئٹم دیکھ کر سخت اذیت اور کرب ناک کیفیت سے گزرنا پڑا، قبل اس کے کہ میں اس کو رسپانس کرتا، مجھے ایک خبر کے نیچے مسخرے پن میں مصروف کوئی MOM نظر آئیں، میں کنفیوز ہوگیا کہ ہمارے میڈیا پر کیا ہورہا ہے؟ یہ سوال سوشل میڈیا کے بارے میں تھا، جو مادر پدر آزاد ہے مگر حقیقت میں اسی مسئلے پر اقبال کا مشہور شعر یاد آتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

اپنی کتاب ''انڈر اسٹینڈنگ میڈیا اینڈ دی ایکسٹینشن آف مین'' میں میڈیا پر احساس کو کچلنے کا الزام عائد کیا ہے، وہ تو کہتے ہیں کہ ذرایع ابلاغ انسانی مرکزی نظام اعصاب کو شل کردیتے ہیں، انھوں نے ایک لفظ استعمال کیا ہے disinterestedness، جو عدم دلچسپی، بے حسی اور لاتعلقی کا ذہنی رویہ ہے۔

اس پر بحث کی کافی گنجائش ہے، کیونکہ دنیا کو میڈیا سے شکایت بہت ساری ہیں مگر آج لمحہ موجود میں کوئی اس عالمگیر حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بے حسی میڈیا نہیں، انسان اقدار کے خلاف بغاوت اور غیر انسانی رویوں کے خمیر سے اٹھتی ہوئی انتہاپسندی، جنگجویانہ طبعیت اور عدم رواداری کا زہریلا پروپیگنڈا ہے جس نے ادارہ جاتی بالادستی کے جنون کی شکل اختیار کرکے سویلین حکومتوں کو بیکار کی کوئی چیز بنا کر پیش کیا ہے۔

میڈیا کی خیال آرائیوں سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو اطلاعات کے جتنے سونامی اسکرین پر نمودار ہورہے ہیں اس میں کس کو کسی چیز کا ہوش رہ سکتا ہے، المیہ ہے کہ سریلی خبر کے ساتھ ہی ناچتی گاتی سو لڑکیاں اور لڑکے دھمال ڈالتے نظر آتے ہیں، ریموٹ کا بٹن دباتے جائیے اعصاب پر ہر قسم کی خرافات کے سیلاب امڈتے چلے جاتے ہیں، واقعات کی نہ ختم ہونے والی سیریز جان نہیں چھوڑتی، درد انگیز دستاویزی فلم پر سے نظر ہٹتی ہے تو ڈراموں کے مسلسل مناظر پہلے سے تلخ زندگی کو اور بھی المناک بنادیتے ہیں۔


حیرت، انتقام، صدمہ، سرمستی، کرب، غضبناکی، تشدد، جنسی آوارگی، اینی میشن کے تیزرفتار کرداروں کی رواں دواں فلمیں، یااﷲ... ہمارا پاکستانی معاشرہ تو اس رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہا، یہ کہاں کا الیکٹرانک انداز گفتگو، کہاں کی سماجی سبک روی، چلت پھرت اور اخلاق باختگی کا یہ کون سا پینوراما ہے جس میں میڈیا ہمیں چوبیس گھنٹے نیلامی کے لیے پیش کرتا ہے۔

ڈرامے دیکھ لیجیے، اکثر ایک ہی بنگلے میں تیار ہوتے ہیں۔ چھ عشروں سے پرائیویٹ ڈرامہ اور فیچر فلمیں کمرشل رومانیت کے دلدلی اسکرین پلے سے باہر نہیں نکلیں۔ جو سیاسی منظرنامہ ہے اسے میڈیا نے دماغی امراض کی آفرینش کا سرچشمہ بنادیا ہے، ہماری نئی نسل نے تو جوڈیشل مرڈر کا لفظ بھٹو کیس کے تناطر میں سنا تھا، آج کیوں پورا معاشرہ حقیقی طور پر مرڈر در مرڈر اور معصوم بچیوں سے زیادتی اور قتل کی بہیمیت کا شکار ہے۔

سوچنے کا مقام ہے کہ اس آزاد میڈیا اور عدلیہ کے فیض سے معصوم انسانیت محروم کیوں ہے، جتنا میڈیا آزاد ہے اس سے زیادہ آزاد جرائم پیشہ مافیا ہے، میڈیا کے دفاعی مبصرین کی سنو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست اور اس کے سارے ادارے، دو کو چھوڑ کر، سقوط کی خاک چاٹ رہے ہیں، کل نہ معلوم کیا ہو۔

اس حقیقت کو ماننا اس لیے لازم ہے کہ خبر کی سچائی رپورٹر کا ایمان ہے۔ کوئی تکنیکی پیشہ ایسا نہیں جس سے وابستگی کسی تعلیم اور پیشہ ورانہ تجربہ سے مشروط نہ ہو، مگر یہ بات 70 کی دہائی میں ممتاز ماہر قانون اے کے بروہی نے امریکی ثقافتی سینٹر کے ایک سیمینار میں کہی تھی کہ پاکستانی صحافت میں داخلہ کے لیے کسی تعلیمی سند کی ضرورت نہیں، یہاں ایک دودھ فروش صبح ملک سینٹر چلاتا ہے، دوسرا اسٹاک بروکر شام کو رپورٹنگ کرتا ہے جب کہ ریکروٹنگ ایجنسی کا مالک چیف ایڈیٹر ہے۔

صحافتی کارڈ بس ڈرائیور کے پاس بھی ملے گا۔ مجھ سے تو خود ایک منشیات فروش کے بیٹے نے کافی عرصہ ہوا کسی چھوٹے سے اخبار کا کارڈ مانگا تھا جو اسے نہیں مل سکا۔ المیہ یہ ہے کہ میڈیا مزید شاہد مسعود پیدا کرنے سے بہتر ہے بنیادی صحافتی اصولوں کی پیروی کا کلچر مستحکم کرے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان پریس کونسل یا کمیشن کے تحت احتساب کا نظام تشکیل پائے، رپورٹر یا سب ایڈیٹر سب کے لیے۔

خود احتسابی تو ایڈیٹر کے ادارہ سے مشروط ہوتی ہے، کون سا ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر خبر کو اوکے کرے گا جو جھوٹی، خود ساختہ، من گھڑت اور ایجنڈا بردار ہو۔ یہ حقیقت تلخ سہی مگر حقیقت تو ہے کہ پرنٹ میڈیا پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا سے پہلے صحافتی قدروں کی آبیاری کرتا رہا ہے اور صحافت کی سب سے بڑی جنگ پرنٹ میڈیا کے سرفروش، سوختہ سامان جرنلسٹوں نے لڑی ہے۔

آزادی صحافت ایک امانت ہے، قومی ورثہ ہے، لنڈا بازار کا جیکٹ نہیں۔ پیشہ صحافت کے بانیان نے قربانیاں دی ہیں، آمروں سے چومکھی لڑائی لڑی ہے، کوڑے کھائے ہیں، ابلاغ و اطلاعات کے اس گلشن کو اجاڑنے کی کسی کو اجازت نہیں ملنی چاہیے، خبر کو خبر کی ٹریٹمنٹ ملنی چاہیے، اس پر چیک اینڈ بیلنس کا مضبوط میکنزم وضع ہونا چاہیے، اطلاع اور خبر کو انٹرٹینمنٹ شو سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے، انفارمیشن کی سونامی سے پولرائزیشن بڑھی ہے، فکر کی آوارگی اور چرب زبانوں کی چالاکیوں نے اہل صحافت کا وقار پامال کیا ہے۔

آج صحافی ہونا سماجی اعزاز نہیں ایک الزام ہے۔ کتنی دردناک بات ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے صحافی ایک ہاری ہوئی جنگ کے سپاہیوں کے طور پر پیش ہوئے، سینئر صحافیوں نے ندامت کا اعتراف کیا۔ ان سے سپریم کورٹ نے اہم سوال پوچھا تھا کہ وہ بتائیں، کیا ہونا چاہیے؟ کیا ایک ماہ بعد کمیٹی کو شاہد مسعود بتائیں گے کہ کیا ہونا چاہیے۔

اب کچھ کہاوتیں پڑھ لیں جو ''تحدث و اخبارہا'' کی تقدیس و حرمت سے منسلک ہیں۔

بری خبر کو پر لگے ہوتے ہیں۔ اچھی خبر دور تک جاتی ہے، مگر بری خبر دور تلک۔ خبر کو راستہ چلتے ہوئے نیند نہیں آتی۔ کسی کو مشتبہ سمجھے سے پہلے سات مرتبہ غور کرو۔ اے سمندر بتا کوئی خبر؟ مچھلی نے جواب دیا، خبریں بہت مگر منہ پانی سے بھرا ہوا ہے۔ دو ہفتوں کے دوران کئی حیرتیں (خبروں کے ساتھ) سر اٹھاتی ہیں۔
Load Next Story