بڑھتی ہوئی بے حسی
ایسے واقعات میں دن بہ دن کیوں اضافہ ہو رہا ہے اور کیوں ریاست بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
بدی کبھی اپنی اصلی شکل میں رونما ہونے کی جرأت نہیں کرتی۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی نیکی کا لبادہ اوڑھ کر ہی سامنے آتی ہے اور یوں خود اپنی شکست کا خاموش اعتراف کرلیتی ہے۔ اس سے انسان کی حقیقی فطرت کا بھی پتا چلتا ہے جو خیر اور حسن خلق سے عبارت ہے۔ انسان کو باقی حیوانی دنیا سے ممیز کرنے والی چیز اخلاق ہی ہے۔ اس کے سنوارنے سے انسان کا سنوار ہے اور اس کے بگاڑنے سے انسان کا بگاڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ تہذیب میں تمام معاشرے اور تمام تمدن جس چیز پر متفق نظر آتے ہیں وہ حسن اخلاق ہے۔
قرآن کی اخلاقی تعلیمات کی پہلی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش اور امتحان کے لیے بھیجا ہے اور ایک دن انسان کو پوری زندگی کا حساب اﷲ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنا ہوگا۔ ہمارا مذہب اسلام تو بہت خوب صورت ہے مگر اس کو چند ایسے لوگوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے جو مسلمان تو ضرور ہے مگر اسلامی تعلیمات وہ جانتے تک نہیں ہیں، اچھائی اور نیکی کا جھوٹا لبادہ اوڑھے یہ لوگ وقتی طور پر لوگوں پر اپنا اچھا اثر ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر آخرکار ایک دن ان کی حقیقت منظرعام پر آہی جاتی ہے۔
قصور کی زینب کا مجرم پورے محلے میں بڑا ہی نیک مشہور تھا، وقتی طور پر تو یہ لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا مگر اﷲ نے اس کا بھیانک چہرہ سب کے سامنے کھول دیا۔ قصور میں یا پھر پاکستان کے کسی علاقے میں ایسا واقعہ پہلا یا نیا نہیں ہوا، نیوز پیپر اب ایسے شرمناک واقعات سے روز بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہم سے اس امر کا تقاضا کر رہی ہے کہ پوری سنجیدگی سے غور کریں کہ ہمارا معاشرہ اور اس کے ساتھ ہم کدھر کا رخ اختیار کرتے ہوئے، کتنی بڑی تباہی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیا ہورہا ہے؟ ایسی شرمناک حرکات کی اجازت نہ ہی اسلام دیتا ہے اور نہ ہی کسی ملک کی ریاست، پھر ایسے واقعات میں دن بہ دن کیوں اضافہ ہو رہا ہے اور کیوں ریاست بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
ہم آج جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں، اس میں دنیا کی فکری سمت بڑی تیزی سے بدل رہی ہے، دنیا کا نقشہ بھی بدل رہا ہے، ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور میڈیا کی یلغار نے معاشرے کی قدروں کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ طریقہ تعلیم اور معیار تعلیم کے زاویے بدل گئے ہیں، سرمائے کی گردش نے سوچ، فکر اور نظریات کو تبدیل کردیا ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے خاص طور پر ہمارے معاشرے کو تتر بتر کرنا شروع کردیا ہے۔ اچھی حکمرانی ایک خواب لگتا ہے۔ معاشرتی نظم و ضبط زوال پذیر ہے۔ دور حاضر کے ان چیلنجوں سے آج کا پاکستان اور اسلامی تحریک بھی اسی شدت سے دوچار ہے، ان سے نکلنے کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
آج زینب کیس جیسے شرمناک واقعات میں شرافت کا لبادہ اوڑھے آدمی نظر آتے ہیں ایسے لوگ مسلسل اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ننھی زینب تو بے دردی سے قتل کردی گئی مگر وہ قوم کو، بچوں کو لاحق ان خطرات کی طرف متوجہ کرگئی جس پر پوری دنیا میں کام کیے جانے کے بعد قانون بھی بنائے جا چکے ہیں مگر ہم پاکستانی ابھی تک نظریں چرا رہے ہیں۔
21 جنوری 1996 میں ٹیکساس کے شہر آرلنگٹن میں امبر نامی ایک نو سالہ بچی اغوا ہوئی۔ پانچویں روز بچی کی لاش ایک نالے سے ملی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اسے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کیا گیا اس قتل کے بعد ایسا سسٹم متعارف کروایا گیا جس سے ایسے شرمناک واقعات کو روکا جاسکتا تھا، یہ سسٹم امبر الرٹ کہلاتا ہے۔ مگر افسوس ایسا سسٹم ابھی تک پاکستان میں رائج نہیں کیا گیا، اتنے سارے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں، مگر مجرم آزاد گھوم رہا ہے، ہماری ریاست ناکام ہوچکی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو حل کرسکے، اب عوام کو خود اپنی حفاظت کرنی ہوگی۔
اب ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کیا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو اپنے بچوں میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا کہ وہ بغیر شرمائے اپنے ماں باپ سے ہر بات شیئر کرے۔ امریکا اور یورپ کے اسکولز میں بچوں کو اپنی حفاظت کی تربیت دی جاتی ہے۔ اساتذہ انھیں گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتاتے ہیں اور والدین کو بھی بچوں کی تربیت کے بارے میں باقاعدہ ٹپس دی جاتی ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں نہ والدین اور نہ ہی اسکول اس بات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ بعض بچے تو اپنے ہی اسکول میں اپنے استاد سے زیادتی کا نشانہ بن جاتے ہیں اور وہ بچے کبھی گھر آکر اپنے والدین سے ایسی باتیں شیئر تک نہیں کرپاتے کیونکہ والدین نے کبھی ان کو اتنا اعتماد ہی نہیں دیا ہوتا جو بچہ اپنے والدین کو ایسی باتیں بتا سکتا۔
جہاں ریاست کی غفلت ہے وہیں ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات پر عمل نہ ہونے کے برابر ہوچکا ہے، سب اپنی اپنی ذمے داریاں ایک دوسرے کے کندھوں پر ڈال کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ذمے داری پوری کردی ہے۔ دین داری میں لپٹی مکاری و عیاری اپنے عروج پر آپ کو نظر آئے گی۔
آج پاکستان اپنی سماجی، سیاسی، پسماندگی کی اس انتہا پر پہنچ چکا ہے کہ مجرم سرعام گھومتا پھرتا ہے، انصاف نام کو نہیں ہے، انصاف کس سے مانگیں؟ انصاف دینے کے ذمے داروں نے ہی تو انصاف بکھیر کر رکھ دیا ہے، سو عالم بے بسی میں اپنے مظلوم ہونے کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے جو کسی بھی ریاست کے استحکام اور سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے ۔ پاکستان کے حکمران عوام کو نہ صرف انصاف دینے میں ناکام ہوئے بلکہ معاشرے میں امن کی صورتحال بگڑنے میں بھی انھی حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اہل علم آپس میں ملیں اور درپیش مسائل و مشکلات سے نمٹنے کے لیے باہم مشورے کریں۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیب و تمدن کی سطح پر کوئی پیش رفت، عملی جدوجہد کے بغیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ کسی ایک شخص ایک اینکر کے پیچھے پڑ جانے سے معاشرے کی اصلاحات نہیں ہوتی، ہمیں اپنی تمام تر کوشش برائی کے خاتمے پر لگانی چاہیے، مجرم تو آزاد گھومتے ہیں اور جو مجرم کی نشاندہی کرتا ہے اس کی بات کو پکڑ لیتے ہیں اس طرح تو اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ ہمیں آپس میں اس وقت اتحاد کی بہت ضرورت ہے۔ ہم تو آپس میں ہی دست و گریبان ہیں مجرم کو کیا پکڑیں گے جرائم اس معاشرے میں تیزی کے ساتھ پھیلتے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی تعمیر و ترقی کی جدوجہد سے وابستگی رکھنے والے تحقیق کاروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ حق کی اشاعت کریں، باطل کے جھاڑ جھنکار کی صفائی کریں اور ایمان و یقین کی فضا کو چاروں طرف پھیلائیں۔ انشا اللہ اس سے اسلام غالب ہوگا معاشرے کی اصلاح ہوگی، سیاست، معیشت، معاشرت، ثقافت اور مملکت کے تمام شعبوں میں بہتری آئے گی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی اس بے حسی پر قابو پایا جاسکے گا۔
قرآن کی اخلاقی تعلیمات کی پہلی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش اور امتحان کے لیے بھیجا ہے اور ایک دن انسان کو پوری زندگی کا حساب اﷲ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنا ہوگا۔ ہمارا مذہب اسلام تو بہت خوب صورت ہے مگر اس کو چند ایسے لوگوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے جو مسلمان تو ضرور ہے مگر اسلامی تعلیمات وہ جانتے تک نہیں ہیں، اچھائی اور نیکی کا جھوٹا لبادہ اوڑھے یہ لوگ وقتی طور پر لوگوں پر اپنا اچھا اثر ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر آخرکار ایک دن ان کی حقیقت منظرعام پر آہی جاتی ہے۔
قصور کی زینب کا مجرم پورے محلے میں بڑا ہی نیک مشہور تھا، وقتی طور پر تو یہ لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا مگر اﷲ نے اس کا بھیانک چہرہ سب کے سامنے کھول دیا۔ قصور میں یا پھر پاکستان کے کسی علاقے میں ایسا واقعہ پہلا یا نیا نہیں ہوا، نیوز پیپر اب ایسے شرمناک واقعات سے روز بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہم سے اس امر کا تقاضا کر رہی ہے کہ پوری سنجیدگی سے غور کریں کہ ہمارا معاشرہ اور اس کے ساتھ ہم کدھر کا رخ اختیار کرتے ہوئے، کتنی بڑی تباہی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیا ہورہا ہے؟ ایسی شرمناک حرکات کی اجازت نہ ہی اسلام دیتا ہے اور نہ ہی کسی ملک کی ریاست، پھر ایسے واقعات میں دن بہ دن کیوں اضافہ ہو رہا ہے اور کیوں ریاست بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
ہم آج جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں، اس میں دنیا کی فکری سمت بڑی تیزی سے بدل رہی ہے، دنیا کا نقشہ بھی بدل رہا ہے، ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور میڈیا کی یلغار نے معاشرے کی قدروں کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ طریقہ تعلیم اور معیار تعلیم کے زاویے بدل گئے ہیں، سرمائے کی گردش نے سوچ، فکر اور نظریات کو تبدیل کردیا ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے خاص طور پر ہمارے معاشرے کو تتر بتر کرنا شروع کردیا ہے۔ اچھی حکمرانی ایک خواب لگتا ہے۔ معاشرتی نظم و ضبط زوال پذیر ہے۔ دور حاضر کے ان چیلنجوں سے آج کا پاکستان اور اسلامی تحریک بھی اسی شدت سے دوچار ہے، ان سے نکلنے کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
آج زینب کیس جیسے شرمناک واقعات میں شرافت کا لبادہ اوڑھے آدمی نظر آتے ہیں ایسے لوگ مسلسل اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ننھی زینب تو بے دردی سے قتل کردی گئی مگر وہ قوم کو، بچوں کو لاحق ان خطرات کی طرف متوجہ کرگئی جس پر پوری دنیا میں کام کیے جانے کے بعد قانون بھی بنائے جا چکے ہیں مگر ہم پاکستانی ابھی تک نظریں چرا رہے ہیں۔
21 جنوری 1996 میں ٹیکساس کے شہر آرلنگٹن میں امبر نامی ایک نو سالہ بچی اغوا ہوئی۔ پانچویں روز بچی کی لاش ایک نالے سے ملی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اسے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کیا گیا اس قتل کے بعد ایسا سسٹم متعارف کروایا گیا جس سے ایسے شرمناک واقعات کو روکا جاسکتا تھا، یہ سسٹم امبر الرٹ کہلاتا ہے۔ مگر افسوس ایسا سسٹم ابھی تک پاکستان میں رائج نہیں کیا گیا، اتنے سارے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں، مگر مجرم آزاد گھوم رہا ہے، ہماری ریاست ناکام ہوچکی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو حل کرسکے، اب عوام کو خود اپنی حفاظت کرنی ہوگی۔
اب ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کیا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو اپنے بچوں میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا کہ وہ بغیر شرمائے اپنے ماں باپ سے ہر بات شیئر کرے۔ امریکا اور یورپ کے اسکولز میں بچوں کو اپنی حفاظت کی تربیت دی جاتی ہے۔ اساتذہ انھیں گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتاتے ہیں اور والدین کو بھی بچوں کی تربیت کے بارے میں باقاعدہ ٹپس دی جاتی ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں نہ والدین اور نہ ہی اسکول اس بات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ بعض بچے تو اپنے ہی اسکول میں اپنے استاد سے زیادتی کا نشانہ بن جاتے ہیں اور وہ بچے کبھی گھر آکر اپنے والدین سے ایسی باتیں شیئر تک نہیں کرپاتے کیونکہ والدین نے کبھی ان کو اتنا اعتماد ہی نہیں دیا ہوتا جو بچہ اپنے والدین کو ایسی باتیں بتا سکتا۔
جہاں ریاست کی غفلت ہے وہیں ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات پر عمل نہ ہونے کے برابر ہوچکا ہے، سب اپنی اپنی ذمے داریاں ایک دوسرے کے کندھوں پر ڈال کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ذمے داری پوری کردی ہے۔ دین داری میں لپٹی مکاری و عیاری اپنے عروج پر آپ کو نظر آئے گی۔
آج پاکستان اپنی سماجی، سیاسی، پسماندگی کی اس انتہا پر پہنچ چکا ہے کہ مجرم سرعام گھومتا پھرتا ہے، انصاف نام کو نہیں ہے، انصاف کس سے مانگیں؟ انصاف دینے کے ذمے داروں نے ہی تو انصاف بکھیر کر رکھ دیا ہے، سو عالم بے بسی میں اپنے مظلوم ہونے کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے جو کسی بھی ریاست کے استحکام اور سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے ۔ پاکستان کے حکمران عوام کو نہ صرف انصاف دینے میں ناکام ہوئے بلکہ معاشرے میں امن کی صورتحال بگڑنے میں بھی انھی حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اہل علم آپس میں ملیں اور درپیش مسائل و مشکلات سے نمٹنے کے لیے باہم مشورے کریں۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیب و تمدن کی سطح پر کوئی پیش رفت، عملی جدوجہد کے بغیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ کسی ایک شخص ایک اینکر کے پیچھے پڑ جانے سے معاشرے کی اصلاحات نہیں ہوتی، ہمیں اپنی تمام تر کوشش برائی کے خاتمے پر لگانی چاہیے، مجرم تو آزاد گھومتے ہیں اور جو مجرم کی نشاندہی کرتا ہے اس کی بات کو پکڑ لیتے ہیں اس طرح تو اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ ہمیں آپس میں اس وقت اتحاد کی بہت ضرورت ہے۔ ہم تو آپس میں ہی دست و گریبان ہیں مجرم کو کیا پکڑیں گے جرائم اس معاشرے میں تیزی کے ساتھ پھیلتے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی تعمیر و ترقی کی جدوجہد سے وابستگی رکھنے والے تحقیق کاروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ حق کی اشاعت کریں، باطل کے جھاڑ جھنکار کی صفائی کریں اور ایمان و یقین کی فضا کو چاروں طرف پھیلائیں۔ انشا اللہ اس سے اسلام غالب ہوگا معاشرے کی اصلاح ہوگی، سیاست، معیشت، معاشرت، ثقافت اور مملکت کے تمام شعبوں میں بہتری آئے گی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی اس بے حسی پر قابو پایا جاسکے گا۔