ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

پی پی پی نے اس کا نام روٹی کپڑا مکان رکھا ہے اور اسی امید میں بے شمار عقل کے اندھے اپی میتھس خوار ہوتے رہتے ہیں

barq@email.com

ہمیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم کوئی بھارتی فارمولا فلم دیکھ رہے ہیں، بھارتی فلموں کے دو مشہور و معروف ''مصالحے'' ہوتے ہیں ایک یادداشت کا چلے جانا اور پھر واپس آنا، دوسرا مصالحہ کسی میلے میں بچھڑے ہوئے لوگوں کا آپس میں اچانک مل جانا بلکہ اکثر تو دشمن ہوتے ہیں لیکن اچانک پتہ چلتا ہے کہ وہ دونوں تو سگے بھائی تھے جو کئی سال پہلے ''کمبھ'' کے میلے میں بچھڑ گئے تھے، ''کرسی کے میلے'' میں بچھڑنے اور ملنے والے بھائیوں کا ملن تو آج کل وسیع پیمانے پر دیکھ ہی رہا ہے بلکہ کہیں کہیں تو یہ فارمولا یا مصالحہ ''ڈبل دھماکا'' کے طور پر بھی چل رہا ہے یعنی یادداشت بھی واپس آجاتی ہے اور بھائی بھائی ایک دوسرے کو پہچان بھی لیتے ہیں، زیادہ تر جو بھائی برسر اقتدار پارٹیوں میں چلے گئے تھے ان کو آج کل اچانک یاد آیا ہے کہ وہ تو اصل میں کسی دوسری ماں کے بیٹے تھے لیکن برسر اقتدار ماں نے اسے دھوکہ دے کر اپنی گود میں بٹھا لیا تھا اور ان پر وزارت یا ممبری یا کوئی دوسرا ظلم توڑتی رہی لیکن اب ان کی آنکھ کھل گئی ہے اس لیے وہ سوتیلی ماں کو چھوڑ کر اپنی ''اصلی ماں'' کی گود میں جارہے ہیں

اے ماں ۔۔۔ تیری صورت سے الگ
بھگوان کی صورت کیا ہو گی اے ماں

افراد کے ساتھ ساتھ پارٹیوں کی کھوئی ہوئی یادداشت بھی واپس آرہی ہے ان کو یاد آگیا ہے کہ ان کا کوئی ''منشور'' بھی ہوا کرتا تھا جو ظالم سماج نے ان کو بھلا دیا تھا اور آج وہی بھولا بچھڑا ''منشور'' ان کو بلا رہا ہے کہ

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلاؤں
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

خاص طور پر پی پی پی اور اے این پی نے تو جب اپنے ''فتراک'' کو ٹٹولا تو اس میں ''منشور'' نامی نخچیر بھی ایک کونے میں پڑا ہوا تھا جسے پارٹی نے نکال کر جھاڑا پونچھا دانہ پانی دیا زخموں کا علاج کیا اور اب وہ اسے ایک مرتبہ پھر اکھاڑے میں اتار رہی ہیں، پی پی پی کا جو منشور یا نخچیر نکلا وہ تو وہی روٹی، کپڑا اور مکان والا ہے اور اے این پی کے نخچیر کا نام پختون ہے بلکہ اس کہانی میں اگر غور کیجیے تو وہ یونانی دیو مالا کی پنڈورا اور اس کے باکس جیسا ٹوسٹ بھی ہے، پنڈورا کے باکس کا قصہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا چلیے ہو سکتا ہے کہ بہت سوں کو معلوم نہ ہو اس لیے جتہ جتہ سنائے دیتے ہیں۔


یونانی دیوتاؤں نے انسان کو برباد کرنے کے لیے دو ٹائیان بھائیوں پرومیتھس اور اپی میتھس کو ایک تحفہ دیا جو انسانوں کے ہونے والے اجداد تھے اس تحفے کا نام پنڈورا یعنی ''سب کا تحفہ'' تھا اور اسے جہیز میں ایک بکس بھی دیا لیکن تاکید کی تھی کہ اس بکس کو ہر گز نہ کھولے، پرومیتھس ذہین تھا اس لیے دیوتاؤں کی چال سمجھ گیا اور پنڈورا کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن اپی میتھس پورا پاکستانی تھا اس نے محض پنڈورا کی خوب صورتی پر لٹو ہو کر اسے اپنا لیا، اور اس سے رہا نہ گیا اور ایک دن آخر کار اس نے وہ ممنوعہ بکس کھول ڈالا، دیوتاؤں کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر کسی کو کسی چیز سے منع کیا جائے تو وہ اور بھی زیادہ اس کے لیے اتاولا ہو جاتا ہے ورنہ اگر نہ کھولنا ہی مقصود تھا تو دیا کیوں؟ پنڈورا بکس کھلا تو اس میں سے دنیا جہاں کی جو بلائیں اور آفات تھیں وہ باہر نکل آئیں اور انسانوں کا مقدر ہو گئیں۔

بھوک، بیماریاں، لڑائیاں، دکھ، پریشانیاں، موت اور معذوریاں وغیرہ، لیکن پھر ان سب کے آخر میں ایک لولی لنگڑ معذور ''امید'' بھی لاٹھی ٹیکتے ہوئے نکلی جو اب ان آفات اور بے شمار آفات اور مصیبتوں کے مارے انسان کا واحد سہارا ہوتی ہے، امید ہی ہے جو انسان کو مقابلہ کرنے اور زندہ رہنے پر اکساتی ہے، اور یہی امید اب سیاسی پارٹیوں میں بھی ہوتی ہے خصوصاً پی پی پی اور اے این پی کا جو پنڈورا بکس ہے اس میں عوام پر بے پناہ آفات، مصیبتیں، بھوک، دربدری، قتل و قتال اور غربت کے بعد ایک مرتبہ پھر لولی لنگڑی ضعیف اور قریب المرگ ''امید'' نکال لی گئی۔

پی پی پی نے اس کا نام روٹی کپڑا مکان رکھا ہے اور اسی امید میں بے شمار عقل کے اندھے اپی میتھس خوار ہوتے رہتے ہیں، بھوک پیاس اور دربدری سہتے ہیں لوٹ مار کرپشن اور مہنگائی و مفلسی سہتے ہیں، اقتدار کے دنوں میں جب وہ ان آفات سے تقریباً قریب المرگ ہو جاتے ہیں تو الیکشن کے دنوں میں منشور نکال کر ایک مرتبہ پھر ''امید'' دلاتے ہیں اسی طرح اے اپن پی کی یادداشت بھی چلی گئی تھی، باچا خان اور ولی خان کے سپاہیوں کو آفات سے خوب خوب بھنبھوڑا بلکہ دیوتاؤں کے نازل کردہ ہر عذاب کا شکار بنایا، امریکا پرستی کرسی پرستی، دبئی ملائشیا اور تھائی لینڈ پرستی ہوتی رہی جب تک کرسی میں رہے تو یادداشت مکمل طور پر غائب رہی لیکن اب ایک مرتبہ پھر پرانے تھیلے میں سے پرانی ''امید'' کو برآمد کر رہے ہیں۔

تاکہ ایک مرتبہ پھر عوام کو آفات سہنے اور ان کے کاندھوں پر سواری گانٹھنے کے لیے تیار کر سکیں۔ یادداشت کے فقدان کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پورے پانچ سال میں کسی ماڑھے مٹھے وزیر کو بھی روٹی کپڑا اور مکان یاد نہیں آیا، طرح طرح کے آفات لاتی رہی اور عوام پر نازل کرتی رہی، چھوٹی بڑی ساری سوئیاں صرف ایک ریکارڈ پر ٹکی رہیں، بے نظیر بلاول زرداری، زرداری بلاول بے نظیر، کہیں پر کسی غلطی سے بھی یہ سوئیاں روٹی کپڑا مکان کے ریکارڈ پر نہیں گھومیں کیوں کہ روٹی کپڑا اور مکان کے چھیننے والے تو کرسی نشین تھے، روٹی کپڑا اور مکان کا ذکر آتا تو پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ یہ چیزیں ہیں کہاں اور پھر جب لوگ اس کا پتہ پا کر کمین گاہ کی طرف دیکھتے تو

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

وہ قصہ تو ہم نے آپ کو سنایا تھا کہ ایک نمازی کی گھڑی گم ہو گئی اس نے مسجد کے خادم سے اعلان گمشدہ کرنے کو کہا۔ خادم نے لاؤڈ اسپیکر سنبھالا اور اپنے مخصوص انداز میں گھڑی کی گمشدگی کا اعلان کرتے ہوئے گھڑی واپس کرنے کے ''ثوابات'' بتانے لگا حالاں کہ گھڑی خود اسی کی جیب میں تھی۔ دیکھتے ہیں اب نمازی کو گھڑی ملتی ہے یا نہیں لیکن پی پی پی کا فرض تو اعلان ہے اور وہ کر رہی ہے، روٹی کپڑا مکان۔۔۔ ہمارا منشور ہے۔ اے این پی کے بارے میں کیا کہا جائے۔ کہتے ہیں بچوں کے ہاتھ ایک طوطا پڑ گیا کوئی اس کے پر کھینچنے لگا کوئی دم نوچنے لگا اور کوئی چونچ کاٹنے لگا، تھوڑی دیر بعد لوگوں نے دیکھا کہ طوطی کی جگہ صرف گوشت کا ایک لوتھڑا پڑا ہوا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر اس لہولہان گوشت کے لوتھڑے کے اوپر ٹوپی رکھ کر اسے طوطی بنانے کی کوشش کی جائے گی، ہائے بے چارا طوطا ۔۔۔ جس کا نام پختون ہے۔
Load Next Story