پرانے کپڑے خرید کر ٹائیاں بنائیں اور صدر میں فروخت کیں انور مقصود
خانساماں جب میچ دیکھتے ہیں تو مجھ سے پوچھتے ہیں ’سر! شام کو کیا بنا رہے ہیں‘‘۔
KARACHI:
یوں تو انہیں جب بولنا ہو، وہ پہلے لکھ لیتے ہیں، مگر ہم اپنا سوال نامہ لے گئے تھے، اس کے باوجود اُن کے جواب بالکل اسی طرح برجستہ، نپے تُلے اور کاٹ دار تھے، جیسے ہم سنتے آئے ہیں۔۔۔ اُنھیں سن کر مسکراتے مسکراتے کبھی آہ نکلتی ہے اور کبھی پلکیں نم ہوتی ہیں۔۔۔ کیوں کہ وہ تفریح برائے تفریح کے قائل نہیں۔
کہتے ہیں کہ خالی مذاق سے کام نہیں چلے گا، ایک نہ ایک بات ایسی ہونا ضروری ہے، جو لوگوں پر اثر کرے۔' یہ خوب صورت گفتگو ہماری آپ کی جانی پہچانی شخصیت انور مقصود سے ہے، جنہوں نے سنجیدہ تحریر فاطمہ بجیا کی تحریر دیکھ کر اور سنجیدہ شاعری زہرہ نگاہ کا کلام دیکھ کر چھوڑ دی کہ میں ان جیسا تو نہیں لکھ سکتا۔
انور مقصود کے والد کا تعلق بدایوں سے تھا، نانا نواب نثار یار جنگ علی گڑھ میں پیدا ہوئے، بعد میں حیدرآباد (دکن) اور پھر 1948ء میں کراچی اگٓئے۔ نانا کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ دکن میں 'اول تعلقہ دار' تھے۔ گھر پر مولانا مودودی، مولوی عبدالحق، جگر مراد آبادی، فانی بدایونی کی آمدورفت رہتی۔ نانا، شاعر اور داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ ان کی کلیات 'کیفیات' کے نام سے شایع ہوئی۔ اُن کا یہ شعر بہت مشہور ہوا؎
اتنا تو مجھے یاد ہے کچھ اُس نے کہا تھا
کیا اُس نے کہا تھا یہ مجھے یاد نہیں ہے
انور مقصود بتاتے ہیں کہ 1948ء میں دکن کا گھر ملازمین کے سپرد کیا اور قائداعظم کے چہلم سے ایک دن پہلے کراچی پہنچے، حکومتی پیش کش کے باوجود نانا نے کوئی خالی مکان نہ لیا، بلکہ خالی زمین پر خیمہ لگا کر رہے، ڈیڑھ برس بعد پیر الٰہی بخش کالونی گئے، جہاں بغیر چھت اور بغیر دروازوں کے مکان میں بھی زندگی بسر کرنا پڑی۔ آٹھ سال ایسے کوارٹر میں رہے، جہاں نہ پانی تھا، نہ بجلی۔۔۔ مگر وہاں ایک تہذیب تھی۔۔۔ فیضؔ، فرازؔ، جگرؔ، فراقؔ، شاکر، صادقین اور عسکری جیسے اصحاب آتے۔ ہم 10 بہن بھائیوں میں اتنی محبت اس لیے تھی کہ ہمارے والدین جائیداد نہیں کتابیں چھوڑ گئے تھے۔
جس طرح ان کی بڑی بہن فاطمہ ثریا بجیا نے 12 برس کی عمر میں پہلا ناول لکھا، دوسری بہن زہرہ نگاہ نے اس عمر میں پہلا شعر کہا، اسی طرح انور مقصود کی پہلی مصوری بھی اسی عمر کا واقعہ ہے، ہم نے پہلی تصویر کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کوئلے سے گھر کی دیواروں پر نانی، والدہ اور بہن بھائیوں کی تصاویر بناتے۔۔۔ شاکر علی کو جب انور مقصود کے اس شوق کا علم ہوا، تو انہوں نے پینٹ لا کر دیا اور یوں باقاعدہ اُن کی مصوری شروع ہوئی۔ 1958ء میں انور مقصود کی مصوری کی پہلی نمائش ہوئی، سفارت کار جمشید مارکر نے وہ پوری نمائش خرید لی۔
بجیا اور زہرہ نگاہ کو دورۂ بھارت پر نہرو کی جانب سے واپسی کی دعوت کا ذکر ہوا تو وہ بولے کہ 'بہت کہا گیا۔۔۔ مگر ہمیں ایک نئی زمین اور نیا آسمان ملا تھا، پہلی مرتبہ کھلی فضا میں چاند تارے دیکھ رہے تھے۔۔۔' ہم نے پوچھا وہاں گھر کتنا بڑا تھا، تو بتایا 'تقریباً چھے ہزار گز کا تھا۔' اس منفرد انداز بیان کا خالق انور مقصود جیسا کلاکار ہی ہو سکتا تھا۔
انور مقصود کہتے ہیں کہ انہوں نے ماڈلنگ بھی کی، ملبوسات بھی تیار کیے، پتلون پر چھوٹا کرتا متعارف کرایا۔ 1959-60ء میں 'لائٹ ہاؤس' سے پرانی فراکیں لاتا، اس میں سے بٹن نکال کر کف لنکز (Cufflinks) بناتا اور کاٹ کر ٹائیاں بنا کر صدر میں بیچتا۔ پی ٹی وی پر لکھنے کی شروعات 1968ء میں ہوئی۔ کہتے ہیں کہ ضیا محی الدین سے بہت سیکھا۔ پہلا اسکرپٹ بھی انہی کے لیے لکھا، پہلا لانگ پلے ''ہیرو'' آیا، پھر 'ففٹی ففٹی' اور 'شوشا' لکھا۔
اداکاری شروع کر کے لکھنے کی طرف مائل ہونے کا ماجرا پوچھا، تو انور مقصود بے ساختہ بولے ''اداکاری کے لیے پڑھنا ضروری نہ تھا، اور مجھے پڑھنے کا شوق تھا۔۔۔!'' پھر کہنے لگے کہ 'آج جتنے مشہور اداکار ہیں، اُن کے گھر میں آپ کو کوئی کتاب نظر نہیں آئے گی۔۔۔ مشہور سیاست دانوں کا بھی یہی حال ہے۔ بس اقبال کے دس، پندرہ سب سے خراب اشعار یاد ہیں، وہی تقریروں اور احتجاج میں پڑھ دیتے ہیں۔' ہم نے کہا کہ آج کل تو لکھنے والے بھی نہیں پڑھتے؟
''دوسروں کی کتابیں پڑھتے ہیں، تاکہ لکھنے میں آسانی ہو جائے!'' انہوں نے برجستہ کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی شعبے کے قد آوروں کے اثر سے ہم بچ نہیں سکتے، لیکن انداز اپنا ہونا چاہیے۔ انور مقصود کہتے ہیں کہ 'ٹی وی کی 'مشین' میں ایسا پھنسا کہ پھر کسی دوسرے شعبے کے لیے وقت نہ مل سکا، میں نے جب دیکھا کہ متوسط طبقے کی زندگی میں یہی ایک تفریح کا ذریعہ ہے، یہی عام لوگ میرا مخاطب ہیں اور انہی اخبار بیچنے والوں، گوشت اور ترکاری والوں سے ردعمل ملتا ہے۔ 'شوشا' اور 'ففٹی ففٹی' اور 'آنگن ٹیڑھا' کے زمانے میں بس میں سفر کرتا، مجھے دیکھ کر پوری بس کھڑی ہو جاتی تھی!
انور مقصود کے نجی چینل سے معاہدے میں درج ہے کہ کہ وہ خود سنسر کریں گے، کیوں کہ وہ اپنی تحریر میں تبدیلی قبول نہیں کرتے۔ پروگرام 'لوز ٹاک' (Loose Talk) میں معین اختر کو اپنی مرضی سے کھانسنے سے بھی روکتے۔ کہتے ہیں کہ لوز ٹاک لکھا ہی معین اختر کی وجہ سے تھا، 380 پروگراموں میں ہر بار مختلف روپ وہی دھار سکتے تھے۔
انہیں پی ٹی وی کی 'آزادی' کا اندازہ تھا، پھر بھی 'آنگن ٹیڑھا' 13 قسطوں بعد رکا، وہ کسی اور سے لکھوانا چاہتے تھے، لیکن بارہویں قسط میں وہ تمام کرداروں کو لے گئے، اور آخری قسط میں 60 سال بعد کا منظر دکھایا۔ اسکرپٹ میں اپنا تذکرہ کرنے کا ذکر ہوا تو بولے ''کچھ لوگ ناراض ہوتے ہیں، لیکن بعد میں کہتے ہیں کہ ہم بلاوجہ خفا ہوئے۔'' 'آنگن ٹیڑھا' روکنے کی وجہ انہیں یہ بتائی گئی کہ 'پنجاب کے خلاف ہے، ایک مہاجر کا ایک پنجابی چوہدری کی بہن سے عشق کرا رہے ہیں۔ 'اسٹوڈیو ڈھائی' سے عمران خان ناراض ہوئے، اور اسے بند کرا دیا۔ اس کے بعد جب اسٹوڈیو پونے تین کیا، تو پہلے تیرہویں قسط دکھائی، پھر بارہویں اور گیارہویں، تاکہ ایک پروگرام تو 13 قسط تک چلے!
انور مقصود کہتے ہیں کہ میرے زیادہ دوستوں کا تعلق پنجاب سے ہے، فیض، غلام مصطفی صوفی، مجید امجد، اشفاق احمد، بانو وغیرہ۔ اگر پنجاب نہ ہوتا، تو شاید پاکستان میں اردو نہ ہوتی، بٹوارے سے پہلے بھی پنجاب نے اردو کی بہت خدمت کی، مولانا ظفر علی خان، منشی پریم چند، فیض، منٹو، میرا جی، مجید امجد، انتظار حسین، اور منو بھائی نے بہت لکھا۔
بہت سی جگہوں پر الفاظ سے زیادہ انور مقصود کا انداز بامعنی ہوتا ہے، وہ ٹھیرتے ہیں اور پیغام واضح ہو جاتا ہے، اِس 'خاموش اِبلاغ' کا ذکر ہوا تو گویا ہوئے ''جب اپنے مخاطب ذہن میں رکھ کر لکھتے ہیں، تو جہاں قلم رکے، وہاں آپ بھی رک جاتے ہیں۔' انور مقصود نے بتایا کہ لکھنؤ یونیورسٹی شعبۂ اردو کے صدر نے اُن کا ڈراما 'ہاف پلیٹ' اپنے نصاب میں شامل کیا۔ 'دور جنوں' کا جاپانی اور انگریزی ترجمہ شایع ہوا۔
انور مقصود ان دنوں بیدلؔ اور حافظؔ کو پڑھنے کے واسطے فارسی سیکھ رہے ہیں، کہ اردو شاعری وہیں سے آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ جس شعبے میں خود کام نہ کیا ہو، اس پر کیسے تنقید کرسکتے ہیں۔' انور مقصود سارنگی نواز پر ایک فلم کی کہانی بھی لکھ رہے ہیں، اسے متوقع طور پر سرمدکھوسٹ ڈائریکٹ کریں گے۔
'آنگن ٹیڑھا 2' پر بھی متحرک ہیں، کہتے ہیں کہ اس میں شریف کے بہ جائے بے ایمان سرکاری افسر ہے، جس کے بیٹے کو پڑھانے آنے والے استاد کو گھر میں خانساماں رکھ لیا جاتا ہے۔ انہیں پڑھانے کے پانچ ہزار، جب کہ خانساماں کے 15 ہزار روپے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے گھر کی تو بجلی بھی کٹی ہوئی ہے، یہاں اے سی 'سرونٹ کوارٹر' میں رہیے۔ وہاں ایک دعوت میں ایک 'صاحب' استاد کو 'خانساماں' دیکھ کر حیران ہوتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ آپ سرکاری اسکولوں میں تنخواہ بڑھا دیں، تو میں واپس چلا جاتا ہوں!
انور مقصود کہتے ہیں کہ پہلے لوگوں میں ملک کے سوا کوئی خواہش نہ تھی، اب خواہشات ہیں، آدھا ملک ٹوٹ گیا، ہر آنے والا دن جانے والے دن سے برا آرہا ہے۔ وہی دن سب سے اچھا تھا، جس کے اگلے دن پاکستان بنا۔ اب یہ وہ ملک نہیں! اس ملک کو بنانے والے قائداعظم بھی سال بھر ہی اسے دیکھ سکے۔۔۔ اقبال نے جو خواب دیکھا، وہ توبہ کرتا ہے کہ میں اب سوؤں گا ہی نہیں! انہوں نے کہا 'اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!' ارے اس ملک میں غریب سوتے ہی کب ہیں! نہ پانی، نہ بجلی، نہ پیسہ! اقبال اس زمانے میں ہوتے، تو لکھتے 'اٹھو میری دنیا کے امیروں کو بھگا دو! تاکہ غریب زندہ رہ سکیں۔
انور مقصود کہتے ہیں کہ پہلے لوگ کہتے تھے کہ اس گھر میں اچھے لوگ نہیں رہتے، آج کہتے ہیں کہ اس گھر میں اچھے لوگ رہتے ہیں! اُن کی زندگی کا مشکل ترین لمحہ وہ ہوتا ہے، جب وہ سچ بولیں۔ خالی وقت میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنا بہت پسند ہے۔
انور مقصود بلاناغہ کھانا پکاتے ہیں، اُن کا باورچی خانہ الگ ہے۔ کچھ پکوان والدہ سے سیکھے باقی ان کی اختراع ہیں۔ زبیدہ طارق کو وہ کھانے پکانے کی استاد مانتے تھے، کہتے ہیں میرا کھانا بالکل مختلف ہے۔ وہ مخصوص مقدار کے بہ جائے 'درست انداز' کے قائل ہیں۔ پوتا، پوتی، نواسا، نواسی انہیں انور کہتے ہیں۔ خانساماں جب کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اِن سے پوچھتے ہیں کہ سر، شام کو کیا پکا رہے ہیں؟' یوں وہ کھانا پکاتے ہیں اور خانساماں میچ دیکھتے ہیں۔ رئیس امروہی اور جون ایلیا سے گہری دوستی رہی، کہتے ہیں رئیس امروہی کے 'قطعات' ملکی تاریخ ہیں۔
انور مقصود کو ضیا محی الدین کا اسکرپٹ لکھنے کے 200 روپے اور آنگن ٹیڑھا کے 300 روپے ملتے۔ 'اسٹوڈیو ڈھائی' کے ایک گھنٹے کے پروگرام (مع موسیقی، نغمے اور میزبانی) کے 600 روپے ملتے، جب کہ یہ 32 لاکھ روپے میں بکتا تھا۔ ملبوسات کی تیاری کے 100، ڈیڑھ سو روپے، کفلنکز 15روپے اور ٹائی 10روپے میں بک جاتی تھی۔ ایوارڈز کا سوال ہوا تو بولے، 55 سال لکھا، لیکن پی ٹی وی سے کبھی بطور لکھاری نام زَد ہی نہیں ہوا۔ وہ کہتے پہلے حکومت کی تعریف میں لکھو، مگر میری کوئی نیکی آڑے آئی، میں نے نہ لکھا۔ 1992ء میں تمغۂ حسن کارکردگی، 2012ء میں ہلال امتیاز اور قائداعظم ایوارڈ ملا۔
جب ''آرمی نامہ'' چھپا
انور مقصود چار سال روزنامہ 'حریت' کے میگزین ایڈیٹر رہے، جہاں سجاد میر اور جمال احسانی بھی تھے۔ 'سفر ہے شرط' کے عنوان سے ہفتے میں تین کالم لکھتے۔ جب ضیا الحق نے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلائی، تو انہوں نے پورے صفحے پر فیضؔ کے مصرعے میں یوں تحریف کی' 'ہم پرورش 'اہل قلم' کرتے رہیں گے'' کہتے ہیں کہ نظیر اکبر آبادی کی طویل نظم 'آدمی نامہ' ان کی نوکری سے نکالنے کا باعث بنی؎
دنیا میں بادشاہ ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
اور سب میں جو برا ہے وہ بھی آدمی
ضیاالحق کا زمانہ تھا، میں نے ''غلطی'' سے 'د' کی جگہ 'ر' لکھ دیا، پورے صفحے پر ''آرمی نامہ'' چھپ گیا! جنرل مجیب کا فون آیا تو میں نے کہا کاتب کی غلطی سے 'د' کی جگہ 'ر' ہوگیا۔ کاتب کو پکڑا، تو اس نے دکھایا کہ 'ر' ہی تو لکھا ہے۔ محمود ہارون وزیر داخلہ تھے، انہوں نے کہا اس سے پہلے کہ تم گرفتار ہو، اب آرام سے گھر چلے جاؤ۔ نکال دیے جانے کے بعد بہت سے اخبارات نے کالم لکھنے کے لیے کہا، مگر یہ سلسلہ جاری نہ رہا۔ انہوں نے ''ڈیلی اسٹار'' میں چار برس 'کارٹون' بھی بنائے، اس کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں رکھا۔
ایم کیو ایم میں شمولیت پر بہت اصرار ہوا
انور مقصود کہتے ہیں کہ ''برا وقت ہمیشہ اچھے لوگوں پر آتا ہے اور اس وقت کو کاٹنے کے لیے ایک تہذیب چاہیے۔۔۔'' اگلے ہی سانس میں وہ ایک دوسرے پہلو کی طرف آگئے اور بولے ''جب ایم کیو ایم بنی، تو ان لوگوں کے مطالبات برے نہ تھے، وہ یہی کہہ رہے تھے کہ پڑھے لکھے لڑکوں کو نوکری دے دو، وہ نہیں دی! اب یہ اوسط درجے کے غریب لوگ نمبر دو اور تین تک تو بہت اچھے رہتے ہیں، لیکن جب نمبر ون بنتے ہیں، تو قیامت ڈھا دیتے ہیں، ایم کیو ایم نمبر ون ہوگئی! پھر نوجوان نسل، پڑھنے لکھنے کے بہ جائے موٹر سائیکل پر جھنڈا لگا کر گھومنے میں لگ گئی، یہ پوری نسل بگڑ گئی۔ جہاں رہ رہے تھے وہیں رہنا چاہیے تھا۔ فیڈرل بی ایریا سے ڈیفنس، اور چھے، چھے گاڑیاں سات، سات گارڈ۔۔۔ بگڑ گئے یہ سب!''
'آپ کے خیال میں یہ کب تک ٹھیک تھے؟' ہم نے پوچھا۔ ''بس شروع کے تین چار مہینے، بقول نظیر اکبر آبادی؎
جس کام کو تو دنیا میں آیا تھا اے نظیر
خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا
پانچ پارٹیاں بن گئیں، تباہ ہوگئے سارے! جن لوگوں کے لیے آئے تھے، ان پر ایک ٹھپا لگ گیا۔' انور مقصود نے انکشاف کیا کہ اُن سے ایم کیو ایم میں شمولیت پر بہت اصرار کیا گیا، انہوں نے کہا کہ وہ ووٹ تو دے دیں گے، لیکن سیاست میں آئے، تو اپنے مداحوں سے وابستگی ٹوٹ جائے گی۔ بے نظیر، آصف زرداری کے علاوہ عمران خان بھی انہیں انتخابی ٹکٹ کی پیش کش کر چکے۔
پہلی کتاب چین کا ''سفرنامہ'' ہوگی
انور مقصود نے حیدر آباد دکن میں 7 ستمبر 1940ء کو آنکھ کھولی، بچپن میں ہی والد کا سایہ اٹھ گیا، بہادر یار جنگ اکیڈمی (کراچی) سے 1958ء میں میٹرک کیا، یہاں خواجہ معین الدین کی مفید صحبت ملی۔ والدین انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے، لیکن اُن کا مزاج نہ تھا، آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ نتائج آئے، تو گھر والوں پر یہ راز کھلا کہ وہ آرٹس میں ہیں۔ جامعہ کراچی میں شعبہ معاشیات میں داخلہ لیا، جس کا سبب وہاں دوستوں اور چار، پانچ جاننے والی خواتین کا ہونا تھا۔ کہتے ہیں جامعہ کراچی جا کر کتابیں ڈھونڈتا، کیوں کہ خرید نہیں سکتا تھا۔ 1965ء میں آنرز کے بعد پہلی نوکری ایک بینک میں کی، ایک بجے گھر آجاتے، اعتراض ہوا تو چھوڑ دیا۔
1970ء کے عشرے میں میوزک کمپنی 'ای ایم آئی' میں آٹھ برس رہے، جہاں منّی بیگم، غلام فرید صابری اور نصرت فتح علی وغیرہ کو متعارف کرایا۔ پی ٹی وی سے وابستگی فری لانس تھی، اب باقاعدہ 'اے آر وائے' کا حصہ ہیں، روزانہ موسیقی اور اخبار کا مطالعہ ان کی عادت ہے۔ کہتے ہیں 'مسلمان دو مرتبہ جھکتا ہے، ایک اللہ کے سامنے اور دوسرا اخبار اٹھانے کے لیے!' حسن نثار کو شوق سے پڑھتے ہیں۔
صبح لکھتے ہیں، اپنے پسندیدہ ڈراموں میں آنگن ٹیڑھا، سرفہرست ہے، 'ستارہ اور مہرالنسا' اور 'یہ کہاں کی دوستی' بھی بھاتے ہیں۔ انور مقصود کے پرستار ان کی پہلی کتاب کے منتظر ہیں، اُن کی شریک حیات عمرانہ مقصود نے ایک برس قبل اُن پر ایک کتاب 'الجھے سلجھے انور' لکھی، جس میں نہایت بے تکلفانہ انداز میں اہم اور دل چسپ واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ انور مقصود بتاتے ہیں کہ میری پہلی کتاب چین کا سفرنامہ ہوگی، جس میں قاری پکڑ نہیں سکتا کہ میں چین نہیں گیا۔ وہ اپنی مصوری، شاعری اور تحریروں کو بھی یک جا کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اُن کے لکھے ہوئے ڈراموں کا دورانیہ دو ہزار گھنٹے ہے، انہیں اپنا روپ بطور مصور زیادہ پسند ہے۔
عصری کہانیاں نہیں 'فکشن' ہونا چاہیے
انور مقصود کے گوشۂ کتب میں آٹھ ہزار کتابیں ہیں، اقبال کی نظمیں 'ایک حاجی مدینے کے راستے میں، فاطمہ بنت عبداللہ، ساقی نامہ اور جگنو وغیرہ بے حد پسند ہیں، مسجد قرطبہ کو اردو شاعری کی سب سے بڑی نظم اور 'بال جبریل' کو بیسویں صدی کی اردو شاعری کی سب سے اچھی کتاب کہتے ہیں۔ کہتے ہیں، اردو شاعری میں ایک صدی میرؔ کی ہے، پھر غالبؔ اور اس کے بعد اقبالؔ کی صدی ہے، فیضؔ، اقبالؔ کی صدی میں پیدا ہوئے، اس لیے ان کا درجہ اقبال کے بعد ہے۔ پسندیدہ نثر نگاروں میں وہ چراغ حسن حسرت اور میرا جی کو گنتے ہیں۔
سعادت منٹو کو دنیا کے بڑے افسانہ نگاروں میں شمار کرتے ہیں۔ انور مقصود کا خیال ہے کہ 'ہمارے ہاں فکشن نہیں، عصری کہانیاں ہیں، جو وقت کے ساتھ ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔ انگریزی ادب 'فکشن' کے سبب زندہ ہے، کہانی ایسی کہانی ہونی چاہیے، جو زمانے کے بعد بھی اہم ہو۔ انور مقصود کے وسیع ذخیرۂ موسیقی میں 600 گھنٹے دورانیے کا ولایت خان کا ستار ہے، روشن آرا بیگم، روی شنکر اور دیگر کلاسیکل گائیکوں کے نغمے ہیں۔ انور مقصود کا ایک شوق کرکٹ بھی ہے، انہوں نے آصف اقبال، صادق محمد اور ظہیر عباس کے ساتھ خوب کرکٹ کھیلی۔ 1973ء کی بات ہے، ناظم آباد کے ایک کلب میں وہ سیمنٹ کی وکٹ پر 'ہارڈ بال' سے میچ تھا، وہ لیگ پر فیلڈنگ کر رہے تھے کہ بلے باز نے نئی گیند کو پُل (Pull) کیا، کیچ پکڑنے کی کوشش میں گیند اُن کے ہاتھ پر لگی اور انگلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
پروگراموں پر اعتراض کے سبب نہیں لکھ رہا
انور مقصود کہتے ہیں کہ مذاق اڑانا آسان ہے۔ میں نے کبھی کسی کا نام لے کر نکتہ چینی نہیں کی۔ آج سیاست دانوں کا نام لے کر مذاق کیا جا رہا ہے۔ 16برس سے 'اے آر وائے' میں بورڈ پر ان کا ڈائریکٹر ہوں، لیکن پروگراموں پر اعتراض کے سبب نہیں لکھ رہا! 'قدوسی صاحب کی بیوہ' میں بہت سے جملے فحش تھے، اگر آپ کا ملک پڑھا لکھا ہو تو ایساکریں، لیکن جہاں 80 فی صد لوگ غیر تعلیم یافتہ ہوں، وہاں نہیں۔ انور مقصود چینلوں کی شرح بندی (Rating) کو تباہی کا سبب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جتنی بدتمیزی اور بے ہودگی ہوگی، اتنی ریٹنگ ملے گی۔ ایک شخص آپ کا مہمان ہے، تو آپ کو تہذیب سے بات کرنی چاہیے۔
جھوٹی کہانیوں پر مبنی 'کرائم شوز' میں باقاعدہ جرائم دکھائے جا رہے ہیں۔ عصمت دری کا شکار بچی سے تفصیلات پوچھی جاتی ہیں۔ ایک اور نجی ڈراما چینل پر محترم رشتوں کے قابل اعتراض 'تعلقات' دکھائے گئے، اگر یہ حقیقت بھی ہو، تب بھی پردہ ڈالنا چاہیے۔ اُن کا خیال ہے کہ دھیان نہ دینے سے چیزیں اپنے آپ ختم ہو جاتی ہیں، دھیان دینے سے وہ مزید بگڑتی ہیں۔ ضیا نے شراب پر پابندی لگائی، تو پینے والے تو پیتے رہے، جب کہ غریبوں نے اس سے زیادہ مہلک چیزیں پینا شروع کر دیں! جگت بازی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ چل پڑی ہے، ختم نہیں ہوگی! اُن کا ماننا ہے کہ آپ کی تحریروں میں ایک تہذیب ہونی چاہیے۔ مگر حالت یہ ہے، بقول جالبؔ اب قلم سے ازاربند ہی ڈال۔۔۔!
''مجھے کیوں نکالا؟''
تھیٹر کے سوال پر انور مقصود گویا ہوئے کہ ''آج کل سرکاری تھیٹر دیکھ رہا ہوں، یہ زیادہ مزے کا لگتا ہے مجھے۔۔۔! جب تھیٹر لکھنے کے لیے بہت اصرار ہوا، تو ''پونے 14 اگست'' لکھا، جسے ایک ہفتے چلنا تھا، لیکن وہ چھے ماہ چلا۔ پھر ''آنگن ٹیڑھا''، ''سوا 14 اگست''، ''ہاف پلیٹ''، ''سیاچن'' اور ''دھرنا'' لکھا۔ اب کراچی آرٹس کونسل کی نئی عمارت میں 'بجیا' کے نام سے منسوب تھیٹر کے لیے اپنے روایتی انداز میں ایک نیا پلے (تمثیل) لکھ رہے ہیں، جو اپریل میں شروع ہوگا، اس کا عنوان ہے ''مجھے کیوں نکالا؟'' 'یہ ایک بنگالی خانساماں کی کہانی ہے، جسے گھر والے نکال دیتے ہیں، کہ تم پیسے ڈھاکے بھجواتے ہو، بے ایمانی کرتے ہو، شام میں کہیں اور بھی کام کرتے ہو۔ سارا پس منظر سیاسی ہے۔ کہتے ہیں کہ آدم کو جنت سے نکالا، تو انہوں نے بھی نہیں کہا کہ 'مجھے کیوں نکالا؟' اس لیے آدم کی اولاد کو بھی یہ کہنے کا حق نہیں، وہ بھی 'شریف' اولاد کو!
یوں تو انہیں جب بولنا ہو، وہ پہلے لکھ لیتے ہیں، مگر ہم اپنا سوال نامہ لے گئے تھے، اس کے باوجود اُن کے جواب بالکل اسی طرح برجستہ، نپے تُلے اور کاٹ دار تھے، جیسے ہم سنتے آئے ہیں۔۔۔ اُنھیں سن کر مسکراتے مسکراتے کبھی آہ نکلتی ہے اور کبھی پلکیں نم ہوتی ہیں۔۔۔ کیوں کہ وہ تفریح برائے تفریح کے قائل نہیں۔
کہتے ہیں کہ خالی مذاق سے کام نہیں چلے گا، ایک نہ ایک بات ایسی ہونا ضروری ہے، جو لوگوں پر اثر کرے۔' یہ خوب صورت گفتگو ہماری آپ کی جانی پہچانی شخصیت انور مقصود سے ہے، جنہوں نے سنجیدہ تحریر فاطمہ بجیا کی تحریر دیکھ کر اور سنجیدہ شاعری زہرہ نگاہ کا کلام دیکھ کر چھوڑ دی کہ میں ان جیسا تو نہیں لکھ سکتا۔
انور مقصود کے والد کا تعلق بدایوں سے تھا، نانا نواب نثار یار جنگ علی گڑھ میں پیدا ہوئے، بعد میں حیدرآباد (دکن) اور پھر 1948ء میں کراچی اگٓئے۔ نانا کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ دکن میں 'اول تعلقہ دار' تھے۔ گھر پر مولانا مودودی، مولوی عبدالحق، جگر مراد آبادی، فانی بدایونی کی آمدورفت رہتی۔ نانا، شاعر اور داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ ان کی کلیات 'کیفیات' کے نام سے شایع ہوئی۔ اُن کا یہ شعر بہت مشہور ہوا؎
اتنا تو مجھے یاد ہے کچھ اُس نے کہا تھا
کیا اُس نے کہا تھا یہ مجھے یاد نہیں ہے
انور مقصود بتاتے ہیں کہ 1948ء میں دکن کا گھر ملازمین کے سپرد کیا اور قائداعظم کے چہلم سے ایک دن پہلے کراچی پہنچے، حکومتی پیش کش کے باوجود نانا نے کوئی خالی مکان نہ لیا، بلکہ خالی زمین پر خیمہ لگا کر رہے، ڈیڑھ برس بعد پیر الٰہی بخش کالونی گئے، جہاں بغیر چھت اور بغیر دروازوں کے مکان میں بھی زندگی بسر کرنا پڑی۔ آٹھ سال ایسے کوارٹر میں رہے، جہاں نہ پانی تھا، نہ بجلی۔۔۔ مگر وہاں ایک تہذیب تھی۔۔۔ فیضؔ، فرازؔ، جگرؔ، فراقؔ، شاکر، صادقین اور عسکری جیسے اصحاب آتے۔ ہم 10 بہن بھائیوں میں اتنی محبت اس لیے تھی کہ ہمارے والدین جائیداد نہیں کتابیں چھوڑ گئے تھے۔
جس طرح ان کی بڑی بہن فاطمہ ثریا بجیا نے 12 برس کی عمر میں پہلا ناول لکھا، دوسری بہن زہرہ نگاہ نے اس عمر میں پہلا شعر کہا، اسی طرح انور مقصود کی پہلی مصوری بھی اسی عمر کا واقعہ ہے، ہم نے پہلی تصویر کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کوئلے سے گھر کی دیواروں پر نانی، والدہ اور بہن بھائیوں کی تصاویر بناتے۔۔۔ شاکر علی کو جب انور مقصود کے اس شوق کا علم ہوا، تو انہوں نے پینٹ لا کر دیا اور یوں باقاعدہ اُن کی مصوری شروع ہوئی۔ 1958ء میں انور مقصود کی مصوری کی پہلی نمائش ہوئی، سفارت کار جمشید مارکر نے وہ پوری نمائش خرید لی۔
بجیا اور زہرہ نگاہ کو دورۂ بھارت پر نہرو کی جانب سے واپسی کی دعوت کا ذکر ہوا تو وہ بولے کہ 'بہت کہا گیا۔۔۔ مگر ہمیں ایک نئی زمین اور نیا آسمان ملا تھا، پہلی مرتبہ کھلی فضا میں چاند تارے دیکھ رہے تھے۔۔۔' ہم نے پوچھا وہاں گھر کتنا بڑا تھا، تو بتایا 'تقریباً چھے ہزار گز کا تھا۔' اس منفرد انداز بیان کا خالق انور مقصود جیسا کلاکار ہی ہو سکتا تھا۔
انور مقصود کہتے ہیں کہ انہوں نے ماڈلنگ بھی کی، ملبوسات بھی تیار کیے، پتلون پر چھوٹا کرتا متعارف کرایا۔ 1959-60ء میں 'لائٹ ہاؤس' سے پرانی فراکیں لاتا، اس میں سے بٹن نکال کر کف لنکز (Cufflinks) بناتا اور کاٹ کر ٹائیاں بنا کر صدر میں بیچتا۔ پی ٹی وی پر لکھنے کی شروعات 1968ء میں ہوئی۔ کہتے ہیں کہ ضیا محی الدین سے بہت سیکھا۔ پہلا اسکرپٹ بھی انہی کے لیے لکھا، پہلا لانگ پلے ''ہیرو'' آیا، پھر 'ففٹی ففٹی' اور 'شوشا' لکھا۔
اداکاری شروع کر کے لکھنے کی طرف مائل ہونے کا ماجرا پوچھا، تو انور مقصود بے ساختہ بولے ''اداکاری کے لیے پڑھنا ضروری نہ تھا، اور مجھے پڑھنے کا شوق تھا۔۔۔!'' پھر کہنے لگے کہ 'آج جتنے مشہور اداکار ہیں، اُن کے گھر میں آپ کو کوئی کتاب نظر نہیں آئے گی۔۔۔ مشہور سیاست دانوں کا بھی یہی حال ہے۔ بس اقبال کے دس، پندرہ سب سے خراب اشعار یاد ہیں، وہی تقریروں اور احتجاج میں پڑھ دیتے ہیں۔' ہم نے کہا کہ آج کل تو لکھنے والے بھی نہیں پڑھتے؟
''دوسروں کی کتابیں پڑھتے ہیں، تاکہ لکھنے میں آسانی ہو جائے!'' انہوں نے برجستہ کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی شعبے کے قد آوروں کے اثر سے ہم بچ نہیں سکتے، لیکن انداز اپنا ہونا چاہیے۔ انور مقصود کہتے ہیں کہ 'ٹی وی کی 'مشین' میں ایسا پھنسا کہ پھر کسی دوسرے شعبے کے لیے وقت نہ مل سکا، میں نے جب دیکھا کہ متوسط طبقے کی زندگی میں یہی ایک تفریح کا ذریعہ ہے، یہی عام لوگ میرا مخاطب ہیں اور انہی اخبار بیچنے والوں، گوشت اور ترکاری والوں سے ردعمل ملتا ہے۔ 'شوشا' اور 'ففٹی ففٹی' اور 'آنگن ٹیڑھا' کے زمانے میں بس میں سفر کرتا، مجھے دیکھ کر پوری بس کھڑی ہو جاتی تھی!
انور مقصود کے نجی چینل سے معاہدے میں درج ہے کہ کہ وہ خود سنسر کریں گے، کیوں کہ وہ اپنی تحریر میں تبدیلی قبول نہیں کرتے۔ پروگرام 'لوز ٹاک' (Loose Talk) میں معین اختر کو اپنی مرضی سے کھانسنے سے بھی روکتے۔ کہتے ہیں کہ لوز ٹاک لکھا ہی معین اختر کی وجہ سے تھا، 380 پروگراموں میں ہر بار مختلف روپ وہی دھار سکتے تھے۔
انہیں پی ٹی وی کی 'آزادی' کا اندازہ تھا، پھر بھی 'آنگن ٹیڑھا' 13 قسطوں بعد رکا، وہ کسی اور سے لکھوانا چاہتے تھے، لیکن بارہویں قسط میں وہ تمام کرداروں کو لے گئے، اور آخری قسط میں 60 سال بعد کا منظر دکھایا۔ اسکرپٹ میں اپنا تذکرہ کرنے کا ذکر ہوا تو بولے ''کچھ لوگ ناراض ہوتے ہیں، لیکن بعد میں کہتے ہیں کہ ہم بلاوجہ خفا ہوئے۔'' 'آنگن ٹیڑھا' روکنے کی وجہ انہیں یہ بتائی گئی کہ 'پنجاب کے خلاف ہے، ایک مہاجر کا ایک پنجابی چوہدری کی بہن سے عشق کرا رہے ہیں۔ 'اسٹوڈیو ڈھائی' سے عمران خان ناراض ہوئے، اور اسے بند کرا دیا۔ اس کے بعد جب اسٹوڈیو پونے تین کیا، تو پہلے تیرہویں قسط دکھائی، پھر بارہویں اور گیارہویں، تاکہ ایک پروگرام تو 13 قسط تک چلے!
انور مقصود کہتے ہیں کہ میرے زیادہ دوستوں کا تعلق پنجاب سے ہے، فیض، غلام مصطفی صوفی، مجید امجد، اشفاق احمد، بانو وغیرہ۔ اگر پنجاب نہ ہوتا، تو شاید پاکستان میں اردو نہ ہوتی، بٹوارے سے پہلے بھی پنجاب نے اردو کی بہت خدمت کی، مولانا ظفر علی خان، منشی پریم چند، فیض، منٹو، میرا جی، مجید امجد، انتظار حسین، اور منو بھائی نے بہت لکھا۔
بہت سی جگہوں پر الفاظ سے زیادہ انور مقصود کا انداز بامعنی ہوتا ہے، وہ ٹھیرتے ہیں اور پیغام واضح ہو جاتا ہے، اِس 'خاموش اِبلاغ' کا ذکر ہوا تو گویا ہوئے ''جب اپنے مخاطب ذہن میں رکھ کر لکھتے ہیں، تو جہاں قلم رکے، وہاں آپ بھی رک جاتے ہیں۔' انور مقصود نے بتایا کہ لکھنؤ یونیورسٹی شعبۂ اردو کے صدر نے اُن کا ڈراما 'ہاف پلیٹ' اپنے نصاب میں شامل کیا۔ 'دور جنوں' کا جاپانی اور انگریزی ترجمہ شایع ہوا۔
انور مقصود ان دنوں بیدلؔ اور حافظؔ کو پڑھنے کے واسطے فارسی سیکھ رہے ہیں، کہ اردو شاعری وہیں سے آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ جس شعبے میں خود کام نہ کیا ہو، اس پر کیسے تنقید کرسکتے ہیں۔' انور مقصود سارنگی نواز پر ایک فلم کی کہانی بھی لکھ رہے ہیں، اسے متوقع طور پر سرمدکھوسٹ ڈائریکٹ کریں گے۔
'آنگن ٹیڑھا 2' پر بھی متحرک ہیں، کہتے ہیں کہ اس میں شریف کے بہ جائے بے ایمان سرکاری افسر ہے، جس کے بیٹے کو پڑھانے آنے والے استاد کو گھر میں خانساماں رکھ لیا جاتا ہے۔ انہیں پڑھانے کے پانچ ہزار، جب کہ خانساماں کے 15 ہزار روپے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے گھر کی تو بجلی بھی کٹی ہوئی ہے، یہاں اے سی 'سرونٹ کوارٹر' میں رہیے۔ وہاں ایک دعوت میں ایک 'صاحب' استاد کو 'خانساماں' دیکھ کر حیران ہوتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ آپ سرکاری اسکولوں میں تنخواہ بڑھا دیں، تو میں واپس چلا جاتا ہوں!
انور مقصود کہتے ہیں کہ پہلے لوگوں میں ملک کے سوا کوئی خواہش نہ تھی، اب خواہشات ہیں، آدھا ملک ٹوٹ گیا، ہر آنے والا دن جانے والے دن سے برا آرہا ہے۔ وہی دن سب سے اچھا تھا، جس کے اگلے دن پاکستان بنا۔ اب یہ وہ ملک نہیں! اس ملک کو بنانے والے قائداعظم بھی سال بھر ہی اسے دیکھ سکے۔۔۔ اقبال نے جو خواب دیکھا، وہ توبہ کرتا ہے کہ میں اب سوؤں گا ہی نہیں! انہوں نے کہا 'اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!' ارے اس ملک میں غریب سوتے ہی کب ہیں! نہ پانی، نہ بجلی، نہ پیسہ! اقبال اس زمانے میں ہوتے، تو لکھتے 'اٹھو میری دنیا کے امیروں کو بھگا دو! تاکہ غریب زندہ رہ سکیں۔
انور مقصود کہتے ہیں کہ پہلے لوگ کہتے تھے کہ اس گھر میں اچھے لوگ نہیں رہتے، آج کہتے ہیں کہ اس گھر میں اچھے لوگ رہتے ہیں! اُن کی زندگی کا مشکل ترین لمحہ وہ ہوتا ہے، جب وہ سچ بولیں۔ خالی وقت میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنا بہت پسند ہے۔
انور مقصود بلاناغہ کھانا پکاتے ہیں، اُن کا باورچی خانہ الگ ہے۔ کچھ پکوان والدہ سے سیکھے باقی ان کی اختراع ہیں۔ زبیدہ طارق کو وہ کھانے پکانے کی استاد مانتے تھے، کہتے ہیں میرا کھانا بالکل مختلف ہے۔ وہ مخصوص مقدار کے بہ جائے 'درست انداز' کے قائل ہیں۔ پوتا، پوتی، نواسا، نواسی انہیں انور کہتے ہیں۔ خانساماں جب کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اِن سے پوچھتے ہیں کہ سر، شام کو کیا پکا رہے ہیں؟' یوں وہ کھانا پکاتے ہیں اور خانساماں میچ دیکھتے ہیں۔ رئیس امروہی اور جون ایلیا سے گہری دوستی رہی، کہتے ہیں رئیس امروہی کے 'قطعات' ملکی تاریخ ہیں۔
انور مقصود کو ضیا محی الدین کا اسکرپٹ لکھنے کے 200 روپے اور آنگن ٹیڑھا کے 300 روپے ملتے۔ 'اسٹوڈیو ڈھائی' کے ایک گھنٹے کے پروگرام (مع موسیقی، نغمے اور میزبانی) کے 600 روپے ملتے، جب کہ یہ 32 لاکھ روپے میں بکتا تھا۔ ملبوسات کی تیاری کے 100، ڈیڑھ سو روپے، کفلنکز 15روپے اور ٹائی 10روپے میں بک جاتی تھی۔ ایوارڈز کا سوال ہوا تو بولے، 55 سال لکھا، لیکن پی ٹی وی سے کبھی بطور لکھاری نام زَد ہی نہیں ہوا۔ وہ کہتے پہلے حکومت کی تعریف میں لکھو، مگر میری کوئی نیکی آڑے آئی، میں نے نہ لکھا۔ 1992ء میں تمغۂ حسن کارکردگی، 2012ء میں ہلال امتیاز اور قائداعظم ایوارڈ ملا۔
جب ''آرمی نامہ'' چھپا
انور مقصود چار سال روزنامہ 'حریت' کے میگزین ایڈیٹر رہے، جہاں سجاد میر اور جمال احسانی بھی تھے۔ 'سفر ہے شرط' کے عنوان سے ہفتے میں تین کالم لکھتے۔ جب ضیا الحق نے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلائی، تو انہوں نے پورے صفحے پر فیضؔ کے مصرعے میں یوں تحریف کی' 'ہم پرورش 'اہل قلم' کرتے رہیں گے'' کہتے ہیں کہ نظیر اکبر آبادی کی طویل نظم 'آدمی نامہ' ان کی نوکری سے نکالنے کا باعث بنی؎
دنیا میں بادشاہ ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
اور سب میں جو برا ہے وہ بھی آدمی
ضیاالحق کا زمانہ تھا، میں نے ''غلطی'' سے 'د' کی جگہ 'ر' لکھ دیا، پورے صفحے پر ''آرمی نامہ'' چھپ گیا! جنرل مجیب کا فون آیا تو میں نے کہا کاتب کی غلطی سے 'د' کی جگہ 'ر' ہوگیا۔ کاتب کو پکڑا، تو اس نے دکھایا کہ 'ر' ہی تو لکھا ہے۔ محمود ہارون وزیر داخلہ تھے، انہوں نے کہا اس سے پہلے کہ تم گرفتار ہو، اب آرام سے گھر چلے جاؤ۔ نکال دیے جانے کے بعد بہت سے اخبارات نے کالم لکھنے کے لیے کہا، مگر یہ سلسلہ جاری نہ رہا۔ انہوں نے ''ڈیلی اسٹار'' میں چار برس 'کارٹون' بھی بنائے، اس کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں رکھا۔
ایم کیو ایم میں شمولیت پر بہت اصرار ہوا
انور مقصود کہتے ہیں کہ ''برا وقت ہمیشہ اچھے لوگوں پر آتا ہے اور اس وقت کو کاٹنے کے لیے ایک تہذیب چاہیے۔۔۔'' اگلے ہی سانس میں وہ ایک دوسرے پہلو کی طرف آگئے اور بولے ''جب ایم کیو ایم بنی، تو ان لوگوں کے مطالبات برے نہ تھے، وہ یہی کہہ رہے تھے کہ پڑھے لکھے لڑکوں کو نوکری دے دو، وہ نہیں دی! اب یہ اوسط درجے کے غریب لوگ نمبر دو اور تین تک تو بہت اچھے رہتے ہیں، لیکن جب نمبر ون بنتے ہیں، تو قیامت ڈھا دیتے ہیں، ایم کیو ایم نمبر ون ہوگئی! پھر نوجوان نسل، پڑھنے لکھنے کے بہ جائے موٹر سائیکل پر جھنڈا لگا کر گھومنے میں لگ گئی، یہ پوری نسل بگڑ گئی۔ جہاں رہ رہے تھے وہیں رہنا چاہیے تھا۔ فیڈرل بی ایریا سے ڈیفنس، اور چھے، چھے گاڑیاں سات، سات گارڈ۔۔۔ بگڑ گئے یہ سب!''
'آپ کے خیال میں یہ کب تک ٹھیک تھے؟' ہم نے پوچھا۔ ''بس شروع کے تین چار مہینے، بقول نظیر اکبر آبادی؎
جس کام کو تو دنیا میں آیا تھا اے نظیر
خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا
پانچ پارٹیاں بن گئیں، تباہ ہوگئے سارے! جن لوگوں کے لیے آئے تھے، ان پر ایک ٹھپا لگ گیا۔' انور مقصود نے انکشاف کیا کہ اُن سے ایم کیو ایم میں شمولیت پر بہت اصرار کیا گیا، انہوں نے کہا کہ وہ ووٹ تو دے دیں گے، لیکن سیاست میں آئے، تو اپنے مداحوں سے وابستگی ٹوٹ جائے گی۔ بے نظیر، آصف زرداری کے علاوہ عمران خان بھی انہیں انتخابی ٹکٹ کی پیش کش کر چکے۔
پہلی کتاب چین کا ''سفرنامہ'' ہوگی
انور مقصود نے حیدر آباد دکن میں 7 ستمبر 1940ء کو آنکھ کھولی، بچپن میں ہی والد کا سایہ اٹھ گیا، بہادر یار جنگ اکیڈمی (کراچی) سے 1958ء میں میٹرک کیا، یہاں خواجہ معین الدین کی مفید صحبت ملی۔ والدین انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے، لیکن اُن کا مزاج نہ تھا، آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ نتائج آئے، تو گھر والوں پر یہ راز کھلا کہ وہ آرٹس میں ہیں۔ جامعہ کراچی میں شعبہ معاشیات میں داخلہ لیا، جس کا سبب وہاں دوستوں اور چار، پانچ جاننے والی خواتین کا ہونا تھا۔ کہتے ہیں جامعہ کراچی جا کر کتابیں ڈھونڈتا، کیوں کہ خرید نہیں سکتا تھا۔ 1965ء میں آنرز کے بعد پہلی نوکری ایک بینک میں کی، ایک بجے گھر آجاتے، اعتراض ہوا تو چھوڑ دیا۔
1970ء کے عشرے میں میوزک کمپنی 'ای ایم آئی' میں آٹھ برس رہے، جہاں منّی بیگم، غلام فرید صابری اور نصرت فتح علی وغیرہ کو متعارف کرایا۔ پی ٹی وی سے وابستگی فری لانس تھی، اب باقاعدہ 'اے آر وائے' کا حصہ ہیں، روزانہ موسیقی اور اخبار کا مطالعہ ان کی عادت ہے۔ کہتے ہیں 'مسلمان دو مرتبہ جھکتا ہے، ایک اللہ کے سامنے اور دوسرا اخبار اٹھانے کے لیے!' حسن نثار کو شوق سے پڑھتے ہیں۔
صبح لکھتے ہیں، اپنے پسندیدہ ڈراموں میں آنگن ٹیڑھا، سرفہرست ہے، 'ستارہ اور مہرالنسا' اور 'یہ کہاں کی دوستی' بھی بھاتے ہیں۔ انور مقصود کے پرستار ان کی پہلی کتاب کے منتظر ہیں، اُن کی شریک حیات عمرانہ مقصود نے ایک برس قبل اُن پر ایک کتاب 'الجھے سلجھے انور' لکھی، جس میں نہایت بے تکلفانہ انداز میں اہم اور دل چسپ واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ انور مقصود بتاتے ہیں کہ میری پہلی کتاب چین کا سفرنامہ ہوگی، جس میں قاری پکڑ نہیں سکتا کہ میں چین نہیں گیا۔ وہ اپنی مصوری، شاعری اور تحریروں کو بھی یک جا کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اُن کے لکھے ہوئے ڈراموں کا دورانیہ دو ہزار گھنٹے ہے، انہیں اپنا روپ بطور مصور زیادہ پسند ہے۔
عصری کہانیاں نہیں 'فکشن' ہونا چاہیے
انور مقصود کے گوشۂ کتب میں آٹھ ہزار کتابیں ہیں، اقبال کی نظمیں 'ایک حاجی مدینے کے راستے میں، فاطمہ بنت عبداللہ، ساقی نامہ اور جگنو وغیرہ بے حد پسند ہیں، مسجد قرطبہ کو اردو شاعری کی سب سے بڑی نظم اور 'بال جبریل' کو بیسویں صدی کی اردو شاعری کی سب سے اچھی کتاب کہتے ہیں۔ کہتے ہیں، اردو شاعری میں ایک صدی میرؔ کی ہے، پھر غالبؔ اور اس کے بعد اقبالؔ کی صدی ہے، فیضؔ، اقبالؔ کی صدی میں پیدا ہوئے، اس لیے ان کا درجہ اقبال کے بعد ہے۔ پسندیدہ نثر نگاروں میں وہ چراغ حسن حسرت اور میرا جی کو گنتے ہیں۔
سعادت منٹو کو دنیا کے بڑے افسانہ نگاروں میں شمار کرتے ہیں۔ انور مقصود کا خیال ہے کہ 'ہمارے ہاں فکشن نہیں، عصری کہانیاں ہیں، جو وقت کے ساتھ ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔ انگریزی ادب 'فکشن' کے سبب زندہ ہے، کہانی ایسی کہانی ہونی چاہیے، جو زمانے کے بعد بھی اہم ہو۔ انور مقصود کے وسیع ذخیرۂ موسیقی میں 600 گھنٹے دورانیے کا ولایت خان کا ستار ہے، روشن آرا بیگم، روی شنکر اور دیگر کلاسیکل گائیکوں کے نغمے ہیں۔ انور مقصود کا ایک شوق کرکٹ بھی ہے، انہوں نے آصف اقبال، صادق محمد اور ظہیر عباس کے ساتھ خوب کرکٹ کھیلی۔ 1973ء کی بات ہے، ناظم آباد کے ایک کلب میں وہ سیمنٹ کی وکٹ پر 'ہارڈ بال' سے میچ تھا، وہ لیگ پر فیلڈنگ کر رہے تھے کہ بلے باز نے نئی گیند کو پُل (Pull) کیا، کیچ پکڑنے کی کوشش میں گیند اُن کے ہاتھ پر لگی اور انگلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
پروگراموں پر اعتراض کے سبب نہیں لکھ رہا
انور مقصود کہتے ہیں کہ مذاق اڑانا آسان ہے۔ میں نے کبھی کسی کا نام لے کر نکتہ چینی نہیں کی۔ آج سیاست دانوں کا نام لے کر مذاق کیا جا رہا ہے۔ 16برس سے 'اے آر وائے' میں بورڈ پر ان کا ڈائریکٹر ہوں، لیکن پروگراموں پر اعتراض کے سبب نہیں لکھ رہا! 'قدوسی صاحب کی بیوہ' میں بہت سے جملے فحش تھے، اگر آپ کا ملک پڑھا لکھا ہو تو ایساکریں، لیکن جہاں 80 فی صد لوگ غیر تعلیم یافتہ ہوں، وہاں نہیں۔ انور مقصود چینلوں کی شرح بندی (Rating) کو تباہی کا سبب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جتنی بدتمیزی اور بے ہودگی ہوگی، اتنی ریٹنگ ملے گی۔ ایک شخص آپ کا مہمان ہے، تو آپ کو تہذیب سے بات کرنی چاہیے۔
جھوٹی کہانیوں پر مبنی 'کرائم شوز' میں باقاعدہ جرائم دکھائے جا رہے ہیں۔ عصمت دری کا شکار بچی سے تفصیلات پوچھی جاتی ہیں۔ ایک اور نجی ڈراما چینل پر محترم رشتوں کے قابل اعتراض 'تعلقات' دکھائے گئے، اگر یہ حقیقت بھی ہو، تب بھی پردہ ڈالنا چاہیے۔ اُن کا خیال ہے کہ دھیان نہ دینے سے چیزیں اپنے آپ ختم ہو جاتی ہیں، دھیان دینے سے وہ مزید بگڑتی ہیں۔ ضیا نے شراب پر پابندی لگائی، تو پینے والے تو پیتے رہے، جب کہ غریبوں نے اس سے زیادہ مہلک چیزیں پینا شروع کر دیں! جگت بازی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ چل پڑی ہے، ختم نہیں ہوگی! اُن کا ماننا ہے کہ آپ کی تحریروں میں ایک تہذیب ہونی چاہیے۔ مگر حالت یہ ہے، بقول جالبؔ اب قلم سے ازاربند ہی ڈال۔۔۔!
''مجھے کیوں نکالا؟''
تھیٹر کے سوال پر انور مقصود گویا ہوئے کہ ''آج کل سرکاری تھیٹر دیکھ رہا ہوں، یہ زیادہ مزے کا لگتا ہے مجھے۔۔۔! جب تھیٹر لکھنے کے لیے بہت اصرار ہوا، تو ''پونے 14 اگست'' لکھا، جسے ایک ہفتے چلنا تھا، لیکن وہ چھے ماہ چلا۔ پھر ''آنگن ٹیڑھا''، ''سوا 14 اگست''، ''ہاف پلیٹ''، ''سیاچن'' اور ''دھرنا'' لکھا۔ اب کراچی آرٹس کونسل کی نئی عمارت میں 'بجیا' کے نام سے منسوب تھیٹر کے لیے اپنے روایتی انداز میں ایک نیا پلے (تمثیل) لکھ رہے ہیں، جو اپریل میں شروع ہوگا، اس کا عنوان ہے ''مجھے کیوں نکالا؟'' 'یہ ایک بنگالی خانساماں کی کہانی ہے، جسے گھر والے نکال دیتے ہیں، کہ تم پیسے ڈھاکے بھجواتے ہو، بے ایمانی کرتے ہو، شام میں کہیں اور بھی کام کرتے ہو۔ سارا پس منظر سیاسی ہے۔ کہتے ہیں کہ آدم کو جنت سے نکالا، تو انہوں نے بھی نہیں کہا کہ 'مجھے کیوں نکالا؟' اس لیے آدم کی اولاد کو بھی یہ کہنے کا حق نہیں، وہ بھی 'شریف' اولاد کو!