بلاول بھٹو زرداری انتخابی مہم کیلیے واپس آ جائیں گے
انتخابات پیپلزپارٹی کے چیئرمین کاپہلاامتحان ہے،نوجوان کیلیے بوجھ بھاری ہی لگتا ہے
لاہور:
پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹوزرداری پارٹی کی انتخابی مہم کے اجراکیلیے واپس تو آ جائیں گے تاہم بینظیر بھٹوکی شہادت کے باوجود بھٹو خاندان کودھمکیوں کاسامنا ہے۔
پیپلزپارٹی اپنی انتخابی مہم پارٹی کے بانی سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی کے موقع پر4اپریل کوپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ سے شروع کررہی ہے،پارٹی قیاد ت کوسمجھ نہیں آرہاکہ اقتدارسے باہر آنے کے بعد سیکیورٹی کی صورتحال سے کس طرح نمٹاجائے،اگرچہ پارٹی اورخاندانی ذرائع بلاول کے اپنے والدصدرآصٖف علی زرداری سے اختلافات کی تردیدکررہے ہیں لیکن بظاہربلاول بھٹوانتخابی مہم میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے،دوسراجوکچھ بینظیرکے ساتھ ہوااس کے بعد پارٹی اورخاندان کوئی خطرہ مول نہیں لیناچاہتا۔
نوجوان بلاول کوسب سے زیادہ اس بات پراختلاف ہے کہ موجودہ سیکیورٹی ماحول میں انتخابی مہم کس طرح چلائی جائے،بلاول سیکیورٹی وجوہات پر ہی لندن گئے ہیں تاہم4اپریل تک ان کی واپسی کاامکان ہے،ابھی یہ واضح نہیں کہ وہ جلسہ گاہ میں آکریاوڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریںگے،یہ درست ہے کہ بعض معاملات پر وہ مطمئن نہیں ہیں اورپارٹی کو ان کے سوالوںکاجواب دینا چاہیے،بلاول کی بہنوںبختاوراورآصفہ نے اختلافات کی تردیدکی ہے تاہم سیکیورٹی خدشات کے پیش نظران کی سرگرمیاں بھی محدودکردی گئی ہیں،البتہ بینظیر کے بچے ہونے کے ناطے وہ انتخابی مہم کاحصہ بننے کیلیے پرعزم ہیں۔
اب جبکہ صدرزرداری کسی جلسے سے خطاب کر سکیں گے نہ انتخابی مہم کے سلسلے میں کہیں آجاسکیں گے،اس صورتحال میں پارٹی کواپنے چیئرمین کی طرح بینظیرکی بہت کمی محسوس ہورہی ہے،پیپلزپارٹی کے موجودہ لیڈرزیوسف رضا گیلانی یاامین فہیم انتخابی مہم میں بینظیر جیساکرشمہ نہیںدکھاسکتے لہذا پیپلزپارٹی کی تاریخ میں بہلی بار ہو رہاہے کہ انتخابی مہم قومی سطح کے بجائے علاقائی یاصوبائی سطح پرچلائی جائے گی،یوسف رضاگیلانی جنوبی پنجاب،راجاپرویزاشرف وسطی پنجاب اورامین فہیم صوبہ سندھ میں انتخابی مہم چلائیں گے جبکہ بلوچستان اورخیبر پختونخوامیں انتخابی مہم سے صوبائی قیادت ہی نمٹے گی۔
بلاول چاروں صوبوں میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کرسکتے ہیں،بلاول جو ابھی الیکشن لڑنے کی عمرکوبھی نہیں پہنچے ان کی نقل وحمل بھی محدودہے،اپنے نانا ذوالفقاربھٹو،نانی نصرت بھٹو اوروالدہ بینظر بھٹوکی طرح انتخابی مہم میں کھل کر اپنے جوہرنہیں دکھاپائیں گے،ذوالفقاربھٹو انتخابی مہم کونئی جہت دینے اورعوام کو اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت رکھتے تھے اورکچھ اسی طرح کی خوبیاؓں نصرت بھٹواورکرشمہ سازشخصیت بینظیر بھٹومیں بھی تھیں،بلاول کوانتخابی مہم میں جومشکلات پیش آ سکتی ہیں ان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہونے کے باوجودکسی اورنہیں ان کی والدہ بینظیربھٹو کامعمہ حل نہ ہوسکنے کامعاملہ بھی شامل ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں کس طرح اپنی حکومت کادفاع کرسکیں گے؟ وہ توان ملزموںکی گرفتاری کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے جن کی نشاندہی خودبینظیربھٹونے اپنے اوپرہونیوالے پہلے حملے(18 اکتوبر 2007 )کے دو دن بعد فیروزپور پولیس کو لکھے گئے خط میں کی تھی،نوجوان لیڈر کوگزشتہ5سال کے دوران اپنی پارٹی کی خراب کارکردگی کابوجھ بھی اٹھانا پڑے گااوران کے پاس مہنگائی،لوڈشیڈنگ، سی این جی بحران اور کرپشن کے حوالے سے سوالوں کاکوئی جواب نہیں ہوگا،بلاول اگرچہ پارٹی کے چیئرمین ہیں لیکن امیدواروں کوفائنل کرناان کے اختیار میں نہیں،ان کی پھوپھی فریال تالپورنہ صرف ٹکٹیں دے رہی ہے۔
بلکہ مختلف حلقوںکے امیدواروں سے انٹرویوزبھی کررہی ہیں،پیپلزپارٹی مشکل صورتحال کے باوجوداس وقت امیدواروں کوحتمی شکل دے رہی ہے اورسوائے ان حلقوںکے جہاں اس کی ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنت ہے پورے ملک میں امیدوارکھڑے کر رہی ہے،پیپلزپارٹی کے رہنماقمر زماں کائرہ نے انتخابی نتائج کے حوالے سے پیشگوئی سے انکار توکردیا البتہ اتنا دعویٰ ضرور کیا کہ ہم وہاں ہوں گے اورآپ دیکھیں گے، انتخابات بطورچیئرمین بلاول کا پہلا امتحان ہیں اوربوجھ کچھ زیادہ ہی بھاری لگتاہے۔
بلاول کی والدہ بینظیر بھٹوجب سیاست میں آئی تھیں توانہیں ان کی والدہ نصرت بھٹوکی بھرپورسپورٹ حاصل تھی،1977 کے الیکشن کی 90روزہ انتخابی مہم نصرت بھٹونے چلائی تھی،نصرت بھٹو کوانٹیلی جنس رپورٹس بھی دستیاب تھیں جن میں کہاگیاتھاکہ اگر الیکشن ہوئے توپیپلزپارٹی سویپ کرے گا،جس کے نتیجے میں الیکشن ملتوی کر دیے گئے، موجودہ انتخابی مہم میں بلاول کوایسی سہولتیں دستیاب نہیں ہوں گی، بلاول کے والدصدر آصف زرداری نے اپنی سیاسی چالوں سے بہت سے سیاسی پنڈتوںکوغلط ثابت کردیالیکن ان کے پاس کو ئی ایساکرشمہ نہیںکہ وہ اپنے بیٹے کی پشت پناہی کرسکیں،البتہ انتخابات کاجوبھی نتیجہ سامنے آئے اس کا الزام نوجوان کے سرنہیں دھراجاسکے گا،سیکیورٹی خدشات کے پیش نظرمحدودانتخابی مہم میں پارٹی بلاول بھٹو زرداری کوایک کرشمہ سازلیڈرکی حیثیت سے نہیں منواسکے گی جوبھٹوخاندان کاخاصاہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹوزرداری پارٹی کی انتخابی مہم کے اجراکیلیے واپس تو آ جائیں گے تاہم بینظیر بھٹوکی شہادت کے باوجود بھٹو خاندان کودھمکیوں کاسامنا ہے۔
پیپلزپارٹی اپنی انتخابی مہم پارٹی کے بانی سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی کے موقع پر4اپریل کوپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ سے شروع کررہی ہے،پارٹی قیاد ت کوسمجھ نہیں آرہاکہ اقتدارسے باہر آنے کے بعد سیکیورٹی کی صورتحال سے کس طرح نمٹاجائے،اگرچہ پارٹی اورخاندانی ذرائع بلاول کے اپنے والدصدرآصٖف علی زرداری سے اختلافات کی تردیدکررہے ہیں لیکن بظاہربلاول بھٹوانتخابی مہم میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے،دوسراجوکچھ بینظیرکے ساتھ ہوااس کے بعد پارٹی اورخاندان کوئی خطرہ مول نہیں لیناچاہتا۔
نوجوان بلاول کوسب سے زیادہ اس بات پراختلاف ہے کہ موجودہ سیکیورٹی ماحول میں انتخابی مہم کس طرح چلائی جائے،بلاول سیکیورٹی وجوہات پر ہی لندن گئے ہیں تاہم4اپریل تک ان کی واپسی کاامکان ہے،ابھی یہ واضح نہیں کہ وہ جلسہ گاہ میں آکریاوڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریںگے،یہ درست ہے کہ بعض معاملات پر وہ مطمئن نہیں ہیں اورپارٹی کو ان کے سوالوںکاجواب دینا چاہیے،بلاول کی بہنوںبختاوراورآصفہ نے اختلافات کی تردیدکی ہے تاہم سیکیورٹی خدشات کے پیش نظران کی سرگرمیاں بھی محدودکردی گئی ہیں،البتہ بینظیر کے بچے ہونے کے ناطے وہ انتخابی مہم کاحصہ بننے کیلیے پرعزم ہیں۔
اب جبکہ صدرزرداری کسی جلسے سے خطاب کر سکیں گے نہ انتخابی مہم کے سلسلے میں کہیں آجاسکیں گے،اس صورتحال میں پارٹی کواپنے چیئرمین کی طرح بینظیرکی بہت کمی محسوس ہورہی ہے،پیپلزپارٹی کے موجودہ لیڈرزیوسف رضا گیلانی یاامین فہیم انتخابی مہم میں بینظیر جیساکرشمہ نہیںدکھاسکتے لہذا پیپلزپارٹی کی تاریخ میں بہلی بار ہو رہاہے کہ انتخابی مہم قومی سطح کے بجائے علاقائی یاصوبائی سطح پرچلائی جائے گی،یوسف رضاگیلانی جنوبی پنجاب،راجاپرویزاشرف وسطی پنجاب اورامین فہیم صوبہ سندھ میں انتخابی مہم چلائیں گے جبکہ بلوچستان اورخیبر پختونخوامیں انتخابی مہم سے صوبائی قیادت ہی نمٹے گی۔
بلاول چاروں صوبوں میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کرسکتے ہیں،بلاول جو ابھی الیکشن لڑنے کی عمرکوبھی نہیں پہنچے ان کی نقل وحمل بھی محدودہے،اپنے نانا ذوالفقاربھٹو،نانی نصرت بھٹو اوروالدہ بینظر بھٹوکی طرح انتخابی مہم میں کھل کر اپنے جوہرنہیں دکھاپائیں گے،ذوالفقاربھٹو انتخابی مہم کونئی جہت دینے اورعوام کو اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت رکھتے تھے اورکچھ اسی طرح کی خوبیاؓں نصرت بھٹواورکرشمہ سازشخصیت بینظیر بھٹومیں بھی تھیں،بلاول کوانتخابی مہم میں جومشکلات پیش آ سکتی ہیں ان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہونے کے باوجودکسی اورنہیں ان کی والدہ بینظیربھٹو کامعمہ حل نہ ہوسکنے کامعاملہ بھی شامل ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں کس طرح اپنی حکومت کادفاع کرسکیں گے؟ وہ توان ملزموںکی گرفتاری کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے جن کی نشاندہی خودبینظیربھٹونے اپنے اوپرہونیوالے پہلے حملے(18 اکتوبر 2007 )کے دو دن بعد فیروزپور پولیس کو لکھے گئے خط میں کی تھی،نوجوان لیڈر کوگزشتہ5سال کے دوران اپنی پارٹی کی خراب کارکردگی کابوجھ بھی اٹھانا پڑے گااوران کے پاس مہنگائی،لوڈشیڈنگ، سی این جی بحران اور کرپشن کے حوالے سے سوالوں کاکوئی جواب نہیں ہوگا،بلاول اگرچہ پارٹی کے چیئرمین ہیں لیکن امیدواروں کوفائنل کرناان کے اختیار میں نہیں،ان کی پھوپھی فریال تالپورنہ صرف ٹکٹیں دے رہی ہے۔
بلکہ مختلف حلقوںکے امیدواروں سے انٹرویوزبھی کررہی ہیں،پیپلزپارٹی مشکل صورتحال کے باوجوداس وقت امیدواروں کوحتمی شکل دے رہی ہے اورسوائے ان حلقوںکے جہاں اس کی ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنت ہے پورے ملک میں امیدوارکھڑے کر رہی ہے،پیپلزپارٹی کے رہنماقمر زماں کائرہ نے انتخابی نتائج کے حوالے سے پیشگوئی سے انکار توکردیا البتہ اتنا دعویٰ ضرور کیا کہ ہم وہاں ہوں گے اورآپ دیکھیں گے، انتخابات بطورچیئرمین بلاول کا پہلا امتحان ہیں اوربوجھ کچھ زیادہ ہی بھاری لگتاہے۔
بلاول کی والدہ بینظیر بھٹوجب سیاست میں آئی تھیں توانہیں ان کی والدہ نصرت بھٹوکی بھرپورسپورٹ حاصل تھی،1977 کے الیکشن کی 90روزہ انتخابی مہم نصرت بھٹونے چلائی تھی،نصرت بھٹو کوانٹیلی جنس رپورٹس بھی دستیاب تھیں جن میں کہاگیاتھاکہ اگر الیکشن ہوئے توپیپلزپارٹی سویپ کرے گا،جس کے نتیجے میں الیکشن ملتوی کر دیے گئے، موجودہ انتخابی مہم میں بلاول کوایسی سہولتیں دستیاب نہیں ہوں گی، بلاول کے والدصدر آصف زرداری نے اپنی سیاسی چالوں سے بہت سے سیاسی پنڈتوںکوغلط ثابت کردیالیکن ان کے پاس کو ئی ایساکرشمہ نہیںکہ وہ اپنے بیٹے کی پشت پناہی کرسکیں،البتہ انتخابات کاجوبھی نتیجہ سامنے آئے اس کا الزام نوجوان کے سرنہیں دھراجاسکے گا،سیکیورٹی خدشات کے پیش نظرمحدودانتخابی مہم میں پارٹی بلاول بھٹو زرداری کوایک کرشمہ سازلیڈرکی حیثیت سے نہیں منواسکے گی جوبھٹوخاندان کاخاصاہے۔