کراچی میں انتخابی حلقوں میںقانون کے مطابق رد وبدل کیا الیکشن کمیشن
مزید تبدیلی نہیں کی جاسکتی،ہائیکورٹ میں موقف،کمنٹس کی نقل متحدہ کو دینے کی ہدایت
الیکشن کمیشن نے موقف اختیارکیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں قانون کے مطابق انتخابی حلقوں میں رد و بدل کیا ہے۔
اگراس مرحلے پرکوئی تبدیلی کی گئی توپورا انتخابی عمل متاثر ہوگا،مزید تبدیلی نہیں کی جاسکتی، کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کی درخواست مستردکردی جائے کیونکہ یہ قابل سماعت نہیں، یہ موقف جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر عبدالجبارجمالی کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں داخل کیے گئے جواب میں اختیارکیاگیا ہے۔
بدھ کو جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے کراچی میں قومی اسمبلی کی 3اور صوبائی اسمبلی کی 8 نشستوں کی حد بندی میں رد و بدل کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ، این اے 239کی حلقہ بندی کے خلاف پیپلزپارٹی اورعدالتی حکم کے باوجودضلع نوشہروفیروزمیں حلقہ بندی نہ کرنے کے خلاف مرید علی شاہ کی درخواستوں کی سماعت کی۔عدالت نے الیکشن کمیشن کے کمنٹس کی نقل متحدہ قومی موومنٹ کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کو فراہم کرنے کی ہدایت کی جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل اشفاق تگڑ نے وفاق کی جانب سے جواب داخل کرنے کے لیے مہلت طلب کی، عدالت نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع جاری کرنے کی بیرسٹرفروغ نسیم کی استدعا مستردکردی۔
جبکہ فاضل عدالت نے ضلع نوشہروفیروز میںانتخابی حلقے نہ کرنے کے خلاف مرید علی شاہ کی جانب سے دائرتوہین عدالت کی درخواست پر صوبائی الیکشن کمشنرکورپورٹ جمع کرانے کے لیے 2اپریل تک مہلت دے دی ہے۔الیکشن کمیشن کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے 6اکتوبر2011کے فیصلے کی روشنی میں حلقہ بندی کے لیے مختلف اجلاس منعقد کیے، اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے 7مارچ 2013کو منعقدہ اجلاس میںنئی حلقہ بندی کے لیے صوبائی الیکشن کمشنرمحبوب انورکی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے 18مارچ کو رپورٹ پیش کی۔
کمیٹی کی تجاویز اور سفارشات پر الیکشن کمیشن نے 22مارچ کوکراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا نوٹیفیکیشن جاری کیا،اس روز انتخابی عمل بھی شروع ہوا، حلقہ بندی قانون کے مطابق کی گئی ہے جس پرسوال نہیں اٹھایا جاسکتا،متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینرڈاکٹرفاروق ستارنے بیرسٹرفروغ نسیم کے توسط سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ کراچی میں حلقہ بندی کے ذریعے خاص لسانی گروہ کوفائدہ پہنچے گا،مردم شماری کے بغیرحلقہ بندی نہیں کی جاسکتی۔انتخابی شیڈول اورانتخابات کے اعلان کے بعد حلقہ بندیوں کاکوئی جواز نہیں اور یہ عمل عمومی دفعات ایکٹ24-Aکی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حلقہ بندی کا نوٹیفیکیشن کالعدم قراردیاجائے۔عبدالقادر پٹیل نے اپنی درخواست میںموقف اختیار کیا ہے کہ حلقہ این اے 239 میں غیرمنطقی حلقہ بندی کی گئی ہے۔حلقہ بندی کرتے ہوئے فریقین کواعتماد میں نہیں لیاگیا۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن کا جاری کردہ نوٹیفیکیشن کالعدم قراردیا جائے۔دریں اثنا فاضل عدالت کو الیکشن کمیشن کی جانب سے بتایاگیا کہ ضلع نوشہروفیروز کی حلقہ بندی کے لیے قائم کردہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے۔عدالت نے ہدایت کی کہ رپورٹ کی روشنی میں قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔مرید علی شاہ نے درخواست میں موقف اختیارکیاتھا کہ فاضل عدالت نے27نومبر2012کو صوبائی الیکشن کمشنر کو ہدایت کی تھی کہ نوشہروفیروزمیں نئی حلقہ بندی کی جائے تاہم تاحال حلقہ بندی نہیں کی گئی،صوبائی الیکشن کمشنرکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ عدالت نے تینوں درخواستوں کی سماعت2اپریل کے لیے ملتوی کردی۔
اگراس مرحلے پرکوئی تبدیلی کی گئی توپورا انتخابی عمل متاثر ہوگا،مزید تبدیلی نہیں کی جاسکتی، کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کی درخواست مستردکردی جائے کیونکہ یہ قابل سماعت نہیں، یہ موقف جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر عبدالجبارجمالی کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں داخل کیے گئے جواب میں اختیارکیاگیا ہے۔
بدھ کو جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے کراچی میں قومی اسمبلی کی 3اور صوبائی اسمبلی کی 8 نشستوں کی حد بندی میں رد و بدل کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ، این اے 239کی حلقہ بندی کے خلاف پیپلزپارٹی اورعدالتی حکم کے باوجودضلع نوشہروفیروزمیں حلقہ بندی نہ کرنے کے خلاف مرید علی شاہ کی درخواستوں کی سماعت کی۔عدالت نے الیکشن کمیشن کے کمنٹس کی نقل متحدہ قومی موومنٹ کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کو فراہم کرنے کی ہدایت کی جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل اشفاق تگڑ نے وفاق کی جانب سے جواب داخل کرنے کے لیے مہلت طلب کی، عدالت نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع جاری کرنے کی بیرسٹرفروغ نسیم کی استدعا مستردکردی۔
جبکہ فاضل عدالت نے ضلع نوشہروفیروز میںانتخابی حلقے نہ کرنے کے خلاف مرید علی شاہ کی جانب سے دائرتوہین عدالت کی درخواست پر صوبائی الیکشن کمشنرکورپورٹ جمع کرانے کے لیے 2اپریل تک مہلت دے دی ہے۔الیکشن کمیشن کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے 6اکتوبر2011کے فیصلے کی روشنی میں حلقہ بندی کے لیے مختلف اجلاس منعقد کیے، اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے 7مارچ 2013کو منعقدہ اجلاس میںنئی حلقہ بندی کے لیے صوبائی الیکشن کمشنرمحبوب انورکی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے 18مارچ کو رپورٹ پیش کی۔
کمیٹی کی تجاویز اور سفارشات پر الیکشن کمیشن نے 22مارچ کوکراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا نوٹیفیکیشن جاری کیا،اس روز انتخابی عمل بھی شروع ہوا، حلقہ بندی قانون کے مطابق کی گئی ہے جس پرسوال نہیں اٹھایا جاسکتا،متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینرڈاکٹرفاروق ستارنے بیرسٹرفروغ نسیم کے توسط سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ کراچی میں حلقہ بندی کے ذریعے خاص لسانی گروہ کوفائدہ پہنچے گا،مردم شماری کے بغیرحلقہ بندی نہیں کی جاسکتی۔انتخابی شیڈول اورانتخابات کے اعلان کے بعد حلقہ بندیوں کاکوئی جواز نہیں اور یہ عمل عمومی دفعات ایکٹ24-Aکی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حلقہ بندی کا نوٹیفیکیشن کالعدم قراردیاجائے۔عبدالقادر پٹیل نے اپنی درخواست میںموقف اختیار کیا ہے کہ حلقہ این اے 239 میں غیرمنطقی حلقہ بندی کی گئی ہے۔حلقہ بندی کرتے ہوئے فریقین کواعتماد میں نہیں لیاگیا۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن کا جاری کردہ نوٹیفیکیشن کالعدم قراردیا جائے۔دریں اثنا فاضل عدالت کو الیکشن کمیشن کی جانب سے بتایاگیا کہ ضلع نوشہروفیروز کی حلقہ بندی کے لیے قائم کردہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے۔عدالت نے ہدایت کی کہ رپورٹ کی روشنی میں قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔مرید علی شاہ نے درخواست میں موقف اختیارکیاتھا کہ فاضل عدالت نے27نومبر2012کو صوبائی الیکشن کمشنر کو ہدایت کی تھی کہ نوشہروفیروزمیں نئی حلقہ بندی کی جائے تاہم تاحال حلقہ بندی نہیں کی گئی،صوبائی الیکشن کمشنرکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ عدالت نے تینوں درخواستوں کی سماعت2اپریل کے لیے ملتوی کردی۔