سب کے لیے سیکیورٹی ممکن نہیں
پاکستان مقبوضہ کشمیر کے بارے میں صرف سیاسی اور سفارتی حمایت کا دعوے دار ہے
وادی کشمیر میں دو مزید پولیس والے ہلاک ہو گئے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کشمیر میں ہلاکتیں جاری ہیں اور اس معاملے میں تشویش کا پہلو یہ ہے کہ ہلاکتیں باقاعدہ وقفوں کے بعد ہو رہی ہیں۔ نئی دہلی حکومت تشدد پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کی ذمہ داری مرکز میں مودی حکومت پر عاید ہوتی ہے گویا تشدد پر قابو پانے کے لیے مرکز کی اصلاح ضروری ہے۔ کم از کم دو عسکریت پسند دو قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے اسپتال کے کمپلیکس میں داخل ہو گئے جو کہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ وادی میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ جنگجوؤں کو بیمار لوگوں کا بھی کوئی احساس نہیں۔
اس کے ساتھ ہی ہماری سیکیورٹی کی کمزوری بھی عیاں ہوتی ہے جب 22سالہ نوید جٹ جسے 2014ء کلگام سے گرفتار کیا گیا تھا وہ دن دہاڑے حملہ آوروں کے ہمراہ فرار ہو گیا۔ وہ سرکاری اسپتال میں طبی معائنے کی خاطر لایا گیا تھا۔ ایسے لگتا ہے جیسے عسکریت پسندوں کا وادی میں نیٹ ورک بہت فول پروف ہے اور انھیں پتہ تھا نوید جٹ کو کب اور کہاں لایا جائے گا لہٰذا وہ اسپتال کی پارکنگ میں پہلے سے انتظار کر رہے تھے اور جونہی نوید جٹ کو مزید قیدیوں کے ساتھ وہاں لایا گیا، انھوں نے فائر کھول دیا۔ نوید جٹ کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ شہریوں اور فوجی افسروں پر بہت سے حملوں میں شریک تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی نے سری نگر ایئرپورٹ پر اپنے مخبر تعینات کیے ہوتے ہیں لہٰذا باہر سے کوئی بھی وہاں آتا ہے اس کی اطلاع انھیں مل جاتی ہے۔ یہی وادی کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ عسکریت پسندوں کے انٹیلی جنس نظام میں بھی خامیاں موجود ہیں۔ محبوبہ مفتی کی حکومت کو اپنی ناکامیوں کا اعتراف ہے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں پر پتھراؤ کرنے والے تمام نوجوانوں کو خیرسگالی کے طور پر رہا کر دیا گیا مگر اصل وجہ یہ تھی کہ وادی میں ان کو عوام کی بھرپور حمایت موجود تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یسین ملک اور شبیر شاہ جیسے پرانے حریت پسندوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ اب قیادت نئے ابھرتے نوجوانوں نے سنبھال لی ہے اور وہ اس بات کو قطعاً راز نہیں رکھ رہے کہ وہ ایک آزاد اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں۔ وہ نہ پاکستان نواز ہیں اور نہ یہ بھارت نواز بلکہ وہ اپنی آزادی چاہتے ہیں۔
نئی دہلی کو اس بات کا احساس ہے مگر حکومت کے پاس انھیں دینے کے لیے کوئی متبادل موجود نہیں سوائے سیکیورٹی فورسز کے جس کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل وادی کے لیے نئی اسلامی شناخت ہے۔ وہ مسلمان ہیں مگر شکر ہے کہ فاروق عبداللہ نے وادی کے بھارت کے ساتھ الحاق کو سوالیہ نشان نہیں بنایا۔ پاکستان کو علم ہے اگر انھوں نے یہ سوال اٹھایا تو تقسیم کے پورے فارمولے پر سوال اٹھ کھڑا ہو گا لہٰذا وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کوئی ایسا حل ڈھونڈیں جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ نئی دہلی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ وہ اس وقت تک پاکستان سے بات نہیں کرے گا جب تک پاکستان عسکریت پسندوں سے تعلق ختم کرنے کی یقین دہانی نہیں کراتا لیکن یہ صرف خواب و خیال کی بات ہے۔
پاکستان مقبوضہ کشمیر کے بارے میں صرف سیاسی اور سفارتی حمایت کا دعوے دار ہے لیکن مقبوضہ وادی کے حالات طویل عرصے سے معمول پر نہیں آ رہے۔ بھارت کا پاکستان پر کشمیر میں مداخلت کا دعویٰ ہے جب کہ بھارت کشمیر پر کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بنا سکا اور غلطی پر غلطی کرتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو 1952ء کو شیخ عبداللہ کو نہرو حکومت نے گرفتار کر لیا کیونکہ وہ ریاست کے لیے امور خارجہ' دفاع اور مواصلات کے علاوہ باقی شعبوں میں مکمل خود مختار مانگ رہے تھے جس کا بھارت وعدہ کر چکا تھا مگر اب پس و پیش سے کام لے رہا تھا۔ 1989ء میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات پر دھاندلی کا الزام عاید کیا گیا تب کشمیری نوجوانوں نے یہ خیال کر کے کہ ان کا مطالبہ بیلٹ بکس کے ذریعے پورا نہیں ہو گا چنانچہ انھوں نے بیلٹ کے بجائے بندوق اٹھانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ انھوں نے چار دہائیوں تک صبر کے ساتھ انتظار کیا تھا جب کشمیر میں آزادی کی تحریک شروع ہو گئی اس تحریک میں بہت سی جانیں ضایع ہو گئیں۔
کشمیری لیڈروں کو بالخصوص نوجوانوں کو حقائق کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ان کے لیے ایک نیا موقع پیدا ہو رہا ہے کہ وہ آیندہ سال لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لیں۔ اس صورت میں وہ اسمبلی میں جا کر کہہ سکتے ہیں کہ 1952ء میں انھیں ان کے جس حق سے محروم رکھا گیا وہ حق اب انھیں دیا جائے اور دہلی ایگریمنٹ کے تحت ان کی ریاست کو خصوصی درجہ دیا جائے جس میں خارجہ' دفاع اور مواصلات کے سوا باقی تمام شعبوں میں انھیں خود مختاری دی جائے۔ انھیں یہ آنے والا موقع کھونا نہیں چاہیے۔ کشمیری لیڈر پارلیمنٹ کا انتخاب جیت کر حکومت کے اس الزام کو غلط ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کے مطالبے کی وجہ ان کا خوف تھا کیونکہ ریاست میں بنیاد پرستی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انھیں یقین ہونا چاہیے کہ وہ ریاست میں غیریقینی کی صورت حال کی وجہ سے مرکزی حکومت کشمیر کو خصوصی درجہ دینے میں مانع تھی جس کا وزیراعظم نہرو نے شیخ عبداللہ سے وعدہ کیا تھا۔ اب نئی دہلی حکومت کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ وادی کی بھرپور مالی مدد کرے تاکہ وہاں تعمیر وترقی کے منصوبے پروان چڑھائے جا سکیں اور انھیں وہ تمام ترقیاتی پیکیج دیے جائیں جن کا ماضی کے کئی عشروں میں ان سے وعدہ کیا گیا۔ سب سے پہلے راجیو گاندھی نے 2000 کروڑ روپے کا وعدہ کیا اور ان کی بعد آنے والے تمام وزرائے اعظم نے اس رقم میں مزید اضافہ کرنے کا اعلان کیا لیکن حقیقت میں انھیں کچھ بھی نہ مل سکا۔ اگر وادی میں اقتصادی ترقی کے منصوبے شروع ہوتے تو صورت حال میں بہتری آ سکتی تھی۔
کشمیر کے حالات اس وقت بدلیں گے جب وہاں سیاح آنا شروع ہونگے مگر یہ تب ہی ممکن ہو گا جب وہاں پر تشدد کی وارداتیں ختم ہوں گی۔ سیاح وہاں پہنچ کر پیسے بھی خرچ کرتے ہیں جو ریاست کے کام آتے ہیں۔ آج لوگ تشدد کی وارداتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی بھرمار کی وجہ سے کشمیری بہت مشکل میں ہیں۔ مشکل حالات نے ان کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ وہ تعمیر و ترقی چاہتے ہیں۔ صرف سیاسی وعدوں سے کام نہیں چلے گا جو محبوبہ مفتی کی حکومت انھیں پیش کر رہی ہے۔ ایک ذمہ دار صاف شفاف انتظامیہ کشمیریوں کی مشکلات میں نمایاں کمی کر سکتی ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
اس کے ساتھ ہی ہماری سیکیورٹی کی کمزوری بھی عیاں ہوتی ہے جب 22سالہ نوید جٹ جسے 2014ء کلگام سے گرفتار کیا گیا تھا وہ دن دہاڑے حملہ آوروں کے ہمراہ فرار ہو گیا۔ وہ سرکاری اسپتال میں طبی معائنے کی خاطر لایا گیا تھا۔ ایسے لگتا ہے جیسے عسکریت پسندوں کا وادی میں نیٹ ورک بہت فول پروف ہے اور انھیں پتہ تھا نوید جٹ کو کب اور کہاں لایا جائے گا لہٰذا وہ اسپتال کی پارکنگ میں پہلے سے انتظار کر رہے تھے اور جونہی نوید جٹ کو مزید قیدیوں کے ساتھ وہاں لایا گیا، انھوں نے فائر کھول دیا۔ نوید جٹ کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ شہریوں اور فوجی افسروں پر بہت سے حملوں میں شریک تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی نے سری نگر ایئرپورٹ پر اپنے مخبر تعینات کیے ہوتے ہیں لہٰذا باہر سے کوئی بھی وہاں آتا ہے اس کی اطلاع انھیں مل جاتی ہے۔ یہی وادی کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ عسکریت پسندوں کے انٹیلی جنس نظام میں بھی خامیاں موجود ہیں۔ محبوبہ مفتی کی حکومت کو اپنی ناکامیوں کا اعتراف ہے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں پر پتھراؤ کرنے والے تمام نوجوانوں کو خیرسگالی کے طور پر رہا کر دیا گیا مگر اصل وجہ یہ تھی کہ وادی میں ان کو عوام کی بھرپور حمایت موجود تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یسین ملک اور شبیر شاہ جیسے پرانے حریت پسندوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ اب قیادت نئے ابھرتے نوجوانوں نے سنبھال لی ہے اور وہ اس بات کو قطعاً راز نہیں رکھ رہے کہ وہ ایک آزاد اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں۔ وہ نہ پاکستان نواز ہیں اور نہ یہ بھارت نواز بلکہ وہ اپنی آزادی چاہتے ہیں۔
نئی دہلی کو اس بات کا احساس ہے مگر حکومت کے پاس انھیں دینے کے لیے کوئی متبادل موجود نہیں سوائے سیکیورٹی فورسز کے جس کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل وادی کے لیے نئی اسلامی شناخت ہے۔ وہ مسلمان ہیں مگر شکر ہے کہ فاروق عبداللہ نے وادی کے بھارت کے ساتھ الحاق کو سوالیہ نشان نہیں بنایا۔ پاکستان کو علم ہے اگر انھوں نے یہ سوال اٹھایا تو تقسیم کے پورے فارمولے پر سوال اٹھ کھڑا ہو گا لہٰذا وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کوئی ایسا حل ڈھونڈیں جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ نئی دہلی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ وہ اس وقت تک پاکستان سے بات نہیں کرے گا جب تک پاکستان عسکریت پسندوں سے تعلق ختم کرنے کی یقین دہانی نہیں کراتا لیکن یہ صرف خواب و خیال کی بات ہے۔
پاکستان مقبوضہ کشمیر کے بارے میں صرف سیاسی اور سفارتی حمایت کا دعوے دار ہے لیکن مقبوضہ وادی کے حالات طویل عرصے سے معمول پر نہیں آ رہے۔ بھارت کا پاکستان پر کشمیر میں مداخلت کا دعویٰ ہے جب کہ بھارت کشمیر پر کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بنا سکا اور غلطی پر غلطی کرتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو 1952ء کو شیخ عبداللہ کو نہرو حکومت نے گرفتار کر لیا کیونکہ وہ ریاست کے لیے امور خارجہ' دفاع اور مواصلات کے علاوہ باقی شعبوں میں مکمل خود مختار مانگ رہے تھے جس کا بھارت وعدہ کر چکا تھا مگر اب پس و پیش سے کام لے رہا تھا۔ 1989ء میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات پر دھاندلی کا الزام عاید کیا گیا تب کشمیری نوجوانوں نے یہ خیال کر کے کہ ان کا مطالبہ بیلٹ بکس کے ذریعے پورا نہیں ہو گا چنانچہ انھوں نے بیلٹ کے بجائے بندوق اٹھانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ انھوں نے چار دہائیوں تک صبر کے ساتھ انتظار کیا تھا جب کشمیر میں آزادی کی تحریک شروع ہو گئی اس تحریک میں بہت سی جانیں ضایع ہو گئیں۔
کشمیری لیڈروں کو بالخصوص نوجوانوں کو حقائق کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ان کے لیے ایک نیا موقع پیدا ہو رہا ہے کہ وہ آیندہ سال لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لیں۔ اس صورت میں وہ اسمبلی میں جا کر کہہ سکتے ہیں کہ 1952ء میں انھیں ان کے جس حق سے محروم رکھا گیا وہ حق اب انھیں دیا جائے اور دہلی ایگریمنٹ کے تحت ان کی ریاست کو خصوصی درجہ دیا جائے جس میں خارجہ' دفاع اور مواصلات کے سوا باقی تمام شعبوں میں انھیں خود مختاری دی جائے۔ انھیں یہ آنے والا موقع کھونا نہیں چاہیے۔ کشمیری لیڈر پارلیمنٹ کا انتخاب جیت کر حکومت کے اس الزام کو غلط ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کے مطالبے کی وجہ ان کا خوف تھا کیونکہ ریاست میں بنیاد پرستی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انھیں یقین ہونا چاہیے کہ وہ ریاست میں غیریقینی کی صورت حال کی وجہ سے مرکزی حکومت کشمیر کو خصوصی درجہ دینے میں مانع تھی جس کا وزیراعظم نہرو نے شیخ عبداللہ سے وعدہ کیا تھا۔ اب نئی دہلی حکومت کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ وادی کی بھرپور مالی مدد کرے تاکہ وہاں تعمیر وترقی کے منصوبے پروان چڑھائے جا سکیں اور انھیں وہ تمام ترقیاتی پیکیج دیے جائیں جن کا ماضی کے کئی عشروں میں ان سے وعدہ کیا گیا۔ سب سے پہلے راجیو گاندھی نے 2000 کروڑ روپے کا وعدہ کیا اور ان کی بعد آنے والے تمام وزرائے اعظم نے اس رقم میں مزید اضافہ کرنے کا اعلان کیا لیکن حقیقت میں انھیں کچھ بھی نہ مل سکا۔ اگر وادی میں اقتصادی ترقی کے منصوبے شروع ہوتے تو صورت حال میں بہتری آ سکتی تھی۔
کشمیر کے حالات اس وقت بدلیں گے جب وہاں سیاح آنا شروع ہونگے مگر یہ تب ہی ممکن ہو گا جب وہاں پر تشدد کی وارداتیں ختم ہوں گی۔ سیاح وہاں پہنچ کر پیسے بھی خرچ کرتے ہیں جو ریاست کے کام آتے ہیں۔ آج لوگ تشدد کی وارداتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی بھرمار کی وجہ سے کشمیری بہت مشکل میں ہیں۔ مشکل حالات نے ان کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ وہ تعمیر و ترقی چاہتے ہیں۔ صرف سیاسی وعدوں سے کام نہیں چلے گا جو محبوبہ مفتی کی حکومت انھیں پیش کر رہی ہے۔ ایک ذمہ دار صاف شفاف انتظامیہ کشمیریوں کی مشکلات میں نمایاں کمی کر سکتی ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)