اداکار رنگیلا مزاح کا بادشاہ تھا پہلا حصہ
انھوں نے نماز پڑھنا شروع کردی اور نمازکو اتنا لمبا کر دیا کہ ٹکٹ چیکر چلا گیا
ایک زمانہ تھا کہ فلمیں دیکھنا لوگوں کے لیے بڑی تفریح ہوتی تھی، ہم بچپن میں نئی فلم کے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے اور ہر فلم کی کاسٹ کو غور سے پڑھتے، ہیرو، ہیروئن اور ولن کے علاوہ مزاحیہ اداکارکا نام ضرور پڑھتے تھے اور خاص طور پر رنگیلا کا نام دیکھتے ہی لوگ اچھل پڑتے ۔ ویسے تو پاکستان کی فلمی دنیا میں کئی اچھے کامیڈین ہوتے تھے لیکن اداکار رنگیلا کی بات ہی کچھ اور تھی، اگر وہ ڈائیلاگ نہ بھی بولتے تو ان کے جسم کی حرکات ، آنکھوں میں شرارت اور انداز ایسے ہوتے تھے کہ آدمی کتنا بھی سنجیدہ اور رنجیدہ کیوں نہ ہو اپنی ہنسی کو روک نہیں سکتا تھا۔ یہ وہ فنکار تھا جس نے اپنے جسم کے ہر عضو سے مزاح پیدا کیا ۔ وہ فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔
میں بھی ان کا فین تھا اور کبھی بھی ان کی کوئی فلم مس نہیں کی بلکہ عید کا موقع ہو یا فلم کا عام دنوں میں پہلے شو میں اور میرے دوست رنگیلے کی فلم ضرور دیکھتے چاہے ٹکٹ کتنا مہنگا کیوں نہ ملے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی خوبی ضرور رکھی ہے جسے وہ صحیح طریقے سے کام میں لاکر بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی زندگی کی جدوجہد، محنت اور ارادے کی پختگی دیکھ کر انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ ان کا حوصلہ، صبر اور مستقل مزاجی تھی جس نے ایک ان پڑھ آدمی کوکامیابی کی منزلوں تک پہنچایا۔ ان کی اتنی لاجواب فلمیں ہیں جن کا ذکرکرتے کرتے میں تھک جاؤں گا۔
ایک مرتبہ ایک ٹی وی کے پروگرام میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ جب کام سے گھر واپس لوٹتے ہیں تو سب سے پہلے کیا کرتے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ وہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتے تھے اور پھر دیر سے گھر لوٹتے تھے جس کی وجہ سے جاتے اور لوٹتے وقت ان کے بچے سوئے ہوتے تھے۔ اس لیے وہ اکثر رات کو بچوں کو اٹھا کرکہتے تھے کہ میں تمہارا باپ ہوں ، ایسا نہ ہوکہ وہ ایک رات گھر آئیں اور ان کے بچے انھیں چور سمجھ کر مارنے لگیں۔ ان کے کام کرنے کا انداز سب سے مختلف تھا اور پھر ان کے جسم اور چہرے کی ساخت بھی عجیب تھی کے دیکھتے ہی ہنسی چھوٹ جائے۔ ان کا چہرہ کرتب باز تھا، بہرحال انھوں نے اپنی اس خصوصیت کوکیش کرایا اور ایک دن پاکستانی فلمی دنیا میں کئی شعبوں میں نام کمایا اور اس دنیا کو روتا ہوا چھوڑ گیا۔
رنگیلا نے مزاحیہ کرداروں کے علاوہ سنجیدہ رول بھی ادا کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پروڈیوسر، ہدایت کار،گلوکار، شاعر، کہانی کار بن گئے اور کئی گانوں کی دھنیں بھی خود مرتب کی ہیں۔ فلموں میں کام کرنے کا انھیں بچپن ہی سے شوق تھا اور 14 سال کی عمر میں فلم دشمنی میں کام کیا جو بری طرح سے فلاپ ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ بھی مایوس ہوگئے اور اس طرف توجہ دینا بند کردی۔ قدرتی طور پر ان کے گال اندرکو دھنسے ہوئے تھے اور گال کی ہڈیاں باہرکی طرف نمایاں تھیں جس کی وجہ سے ان کا چہرہ مسکرانے پر مجبور کردیتا تھا۔ قد بھی بڑا نہیں تھا اور جسم بھی گول مٹول تھا جس پرگوشت کم تھا جس پر کسی نے ان سے کہا کہ وہ ہیرو بننے کے لیے اپنی باڈی کو تیار کریں۔
باڈی بنانے کے لیے انھوں نے ایک اکھاڑے میں داخلہ لے لیا اور جسم کو بنانے میں لگ گئے جس کی وجہ سے وہ ایک چھوٹا پہلوان بن گئے اور جب انھیں ایک مقابلے میں بری طرح شکست ہوئی تو انھوں نے پہلوانی سے توبہ کرلی مگر ہیرو بننے کے لیے باڈی بلڈنگ جاری رکھی۔ جب وہ اپنی باڈی کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے تو لوگ بے تحاشہ ہنس پڑتے اور ان کو مشورہ دیتے کہ وہ جاکر فلموں میں مسخرے بن جائیں۔ اب انھیں وہ عشق یاد آیا جو انھوں نے کسی لڑکی سے کیا تھا اور وہ فلموں میں کام کرکے اسے متاثر کرنا چاہتے تھے۔ اب انھیں یہ بھی خیال آیا کہ انھیں اداکار بننا ہے اور وہ پشاور سے بغیر ٹکٹ ریل گاڑی میں بیٹھ گئے اور جب ٹکٹ چیکر آیا تو انھوں نے نماز پڑھنا شروع کردی اور نمازکو اتنا لمبا کر دیا کہ ٹکٹ چیکر چلا گیا ۔
لاہور ریلوے اسٹیشن پر اترے تو وہ ایک بڑھیا کے ساتھ ساتھ چلنے لگے اور جیسے ہی گیٹ پر آئے تو ٹکٹ چیکرکوکہا کہ وہ ان بڑھیا کے ساتھ ہیں اور وہاں سے رفوچکر ہوگئے۔ لاہور تو وہ آگئے لیکن وہاں پر تو ان کا کوئی جاننے والا یا رشتے دار نہیں تھا اور وہ لاہور کی سڑکوں پر آوارہ یہاں سے وہاں گھومتے رہے۔ ان کو بھوک بھی بہت لگ رہی تھی، اچانک ایک مسجد سے اذان کی آواز آئی اور وہ مسجد میں چلے گئے اورکہنے لگے کون کہتا ہے کہ ان کا کوئی گھر نہیں، خدا کا گھر سب کا گھر ہے۔ وہ نماز پڑھ کر وہیں لیٹ گئے۔ جب مغرب کی نماز ختم ہوئی تو انھوں نے مسجد کے پیش امام کوکہا کہ وہ لاہور میں اجنبی ہیں اور ان کا کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے اور ان کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں ۔ انھیں بہت بھوک لگی ہے، اگر وہ اسے اجازت دیں تو کچھ دن مسجد میں رہ لوں ۔ مولوی صاحب نے انھیں وہاں ٹھہرایا اور تین وقت کھانا بھی کھلاتے تھے۔
بعد ازاں انھوں نے مسجد میں 5 وقت نماز پڑھنا شروع کی، مسجد کی صفائی کرتے، پانی کی ٹنکی کو پانی سے بھر کر رکھتے، جس کی وجہ سے پیش امام کے دل میں جگہ بنا لی ۔ اب وہ اذان کے وقت اذان بھی دیا کرتے جس کی وجہ سے لوگوں میں ان کی عزت بڑھنے لگی اور اللہ تعالیٰ بھی ان پر مہربان ہوگئے۔ اب رنگیلا نے ایک دن پیش امام سے کہا کہ انھیں کوئی کام دلائیں تاکہ وہ فارغ بیٹھ کر روٹیاں نہ توڑیں جس پر مولانا نے انھیں ایک کمپنی کے پاس بھیجا جنھوں نے ان کو قرآن پاک ہدیہ پر شہر میں لے جانے کا کام دیا اب وہ لاہور کی گلیوں میں گھومتے پھرتے اور ان کی جو بھی رقم بنتی وہ اس سے کھانے پینے کی چیزیں اور ضرورت والی اشیا لے آتے اور مولوی صاحب کے حوالے کردیتے۔ اس طرح اب ان کی زندگی چل رہی تھی۔
ایک دن گھومتے ہوئے ان کی ملاقات پشاور کے جاننے والے ایک بدمعاش سے ہوگئی جسے ''کاکا ''کہہ کر پکارتے تھے۔ بدمعاش نے ایک جاننے والے پینٹرکے پاس بھیجا کہ وہاں جاکے کام سیکھیں۔ دراصل رنگیلے کو پینٹنگ کا کام آتا تھا جو ان کے لیے موزوں کام تھا۔ وہ استاد پینٹر سے ملے جس نے ان کا ٹیلنٹ دیکھ کر کام پے لگایا اور انھوں نے تھوڑے ہی عرصے میں استاد کا دل جیت لیا جس نے فلمی پوسٹر بنانے کے لیے دینا شروع کر دیے۔ اب ان کا کام بڑا پسند کیا گیا اور ان کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ جب ان کی جان پہچان فلموں والوں سے زیادہ بڑھ گئی تو استاد نے کہا کہ اب وہ اپنا الگ کام کریں اور کچھ پیسے کمائیں۔
اس کام سے پہلے وہ ایک دن کسی ہوٹل میں ویٹر بننے گئے جہاں پر ان سے کہا گیا کہ ایک مہینے کے لیے ٹرائل پر رکھا جائے گا اور اگر وہ صحیح کام کرنے لگے تو پھر ان کی دیہاڑی بنائیں گے۔ اس دوران انھیں صرف تین وقت کا کھانا ملے گا اور اگر کوئی نقصان ہوگیا تو اسے بھرنا پڑے گا۔ ایک ہی دن میں ان پر کام کا اتنا بوجھ ڈالا گیا کہ وہ یہ مزدوری چھوڑ کر چلے آئے ۔ کمپنی سے بھی کام اس لیے چھوڑا تھا کہ اس کمیشن میں ان کا گزارا نہیں ہو رہا تھا اور پھر پورا دن گلیوں میں مقدس کتاب لے کر آوازیں لگا کر وہ تھک جاتے تھے۔
آزاد جو ان کا پینٹنگ میں استاد تھا، اس نے رنگیلے کی ایک ہیرے کی طرح تراش خراش کردی تھی اور اپنے پاس جتنا بھی فن تھا رنگیلے کو منتقل کیا کیونکہ رنگیلا محنتی، سعادت مند تھا جس نے استاد کا کہا مان کر دل لگا کرکام کیا۔ اب ان کی آمدنی دن بہ دن بڑھتی گئی جس سے وہ مولوی صاحب کے منع کرنے پر بھی ان کی خدمت کرتے رہتے تھے۔
(جاری ہے۔)
میں بھی ان کا فین تھا اور کبھی بھی ان کی کوئی فلم مس نہیں کی بلکہ عید کا موقع ہو یا فلم کا عام دنوں میں پہلے شو میں اور میرے دوست رنگیلے کی فلم ضرور دیکھتے چاہے ٹکٹ کتنا مہنگا کیوں نہ ملے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی خوبی ضرور رکھی ہے جسے وہ صحیح طریقے سے کام میں لاکر بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی زندگی کی جدوجہد، محنت اور ارادے کی پختگی دیکھ کر انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ ان کا حوصلہ، صبر اور مستقل مزاجی تھی جس نے ایک ان پڑھ آدمی کوکامیابی کی منزلوں تک پہنچایا۔ ان کی اتنی لاجواب فلمیں ہیں جن کا ذکرکرتے کرتے میں تھک جاؤں گا۔
ایک مرتبہ ایک ٹی وی کے پروگرام میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ جب کام سے گھر واپس لوٹتے ہیں تو سب سے پہلے کیا کرتے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ وہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتے تھے اور پھر دیر سے گھر لوٹتے تھے جس کی وجہ سے جاتے اور لوٹتے وقت ان کے بچے سوئے ہوتے تھے۔ اس لیے وہ اکثر رات کو بچوں کو اٹھا کرکہتے تھے کہ میں تمہارا باپ ہوں ، ایسا نہ ہوکہ وہ ایک رات گھر آئیں اور ان کے بچے انھیں چور سمجھ کر مارنے لگیں۔ ان کے کام کرنے کا انداز سب سے مختلف تھا اور پھر ان کے جسم اور چہرے کی ساخت بھی عجیب تھی کے دیکھتے ہی ہنسی چھوٹ جائے۔ ان کا چہرہ کرتب باز تھا، بہرحال انھوں نے اپنی اس خصوصیت کوکیش کرایا اور ایک دن پاکستانی فلمی دنیا میں کئی شعبوں میں نام کمایا اور اس دنیا کو روتا ہوا چھوڑ گیا۔
رنگیلا نے مزاحیہ کرداروں کے علاوہ سنجیدہ رول بھی ادا کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پروڈیوسر، ہدایت کار،گلوکار، شاعر، کہانی کار بن گئے اور کئی گانوں کی دھنیں بھی خود مرتب کی ہیں۔ فلموں میں کام کرنے کا انھیں بچپن ہی سے شوق تھا اور 14 سال کی عمر میں فلم دشمنی میں کام کیا جو بری طرح سے فلاپ ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ بھی مایوس ہوگئے اور اس طرف توجہ دینا بند کردی۔ قدرتی طور پر ان کے گال اندرکو دھنسے ہوئے تھے اور گال کی ہڈیاں باہرکی طرف نمایاں تھیں جس کی وجہ سے ان کا چہرہ مسکرانے پر مجبور کردیتا تھا۔ قد بھی بڑا نہیں تھا اور جسم بھی گول مٹول تھا جس پرگوشت کم تھا جس پر کسی نے ان سے کہا کہ وہ ہیرو بننے کے لیے اپنی باڈی کو تیار کریں۔
باڈی بنانے کے لیے انھوں نے ایک اکھاڑے میں داخلہ لے لیا اور جسم کو بنانے میں لگ گئے جس کی وجہ سے وہ ایک چھوٹا پہلوان بن گئے اور جب انھیں ایک مقابلے میں بری طرح شکست ہوئی تو انھوں نے پہلوانی سے توبہ کرلی مگر ہیرو بننے کے لیے باڈی بلڈنگ جاری رکھی۔ جب وہ اپنی باڈی کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے تو لوگ بے تحاشہ ہنس پڑتے اور ان کو مشورہ دیتے کہ وہ جاکر فلموں میں مسخرے بن جائیں۔ اب انھیں وہ عشق یاد آیا جو انھوں نے کسی لڑکی سے کیا تھا اور وہ فلموں میں کام کرکے اسے متاثر کرنا چاہتے تھے۔ اب انھیں یہ بھی خیال آیا کہ انھیں اداکار بننا ہے اور وہ پشاور سے بغیر ٹکٹ ریل گاڑی میں بیٹھ گئے اور جب ٹکٹ چیکر آیا تو انھوں نے نماز پڑھنا شروع کردی اور نمازکو اتنا لمبا کر دیا کہ ٹکٹ چیکر چلا گیا ۔
لاہور ریلوے اسٹیشن پر اترے تو وہ ایک بڑھیا کے ساتھ ساتھ چلنے لگے اور جیسے ہی گیٹ پر آئے تو ٹکٹ چیکرکوکہا کہ وہ ان بڑھیا کے ساتھ ہیں اور وہاں سے رفوچکر ہوگئے۔ لاہور تو وہ آگئے لیکن وہاں پر تو ان کا کوئی جاننے والا یا رشتے دار نہیں تھا اور وہ لاہور کی سڑکوں پر آوارہ یہاں سے وہاں گھومتے رہے۔ ان کو بھوک بھی بہت لگ رہی تھی، اچانک ایک مسجد سے اذان کی آواز آئی اور وہ مسجد میں چلے گئے اورکہنے لگے کون کہتا ہے کہ ان کا کوئی گھر نہیں، خدا کا گھر سب کا گھر ہے۔ وہ نماز پڑھ کر وہیں لیٹ گئے۔ جب مغرب کی نماز ختم ہوئی تو انھوں نے مسجد کے پیش امام کوکہا کہ وہ لاہور میں اجنبی ہیں اور ان کا کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے اور ان کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں ۔ انھیں بہت بھوک لگی ہے، اگر وہ اسے اجازت دیں تو کچھ دن مسجد میں رہ لوں ۔ مولوی صاحب نے انھیں وہاں ٹھہرایا اور تین وقت کھانا بھی کھلاتے تھے۔
بعد ازاں انھوں نے مسجد میں 5 وقت نماز پڑھنا شروع کی، مسجد کی صفائی کرتے، پانی کی ٹنکی کو پانی سے بھر کر رکھتے، جس کی وجہ سے پیش امام کے دل میں جگہ بنا لی ۔ اب وہ اذان کے وقت اذان بھی دیا کرتے جس کی وجہ سے لوگوں میں ان کی عزت بڑھنے لگی اور اللہ تعالیٰ بھی ان پر مہربان ہوگئے۔ اب رنگیلا نے ایک دن پیش امام سے کہا کہ انھیں کوئی کام دلائیں تاکہ وہ فارغ بیٹھ کر روٹیاں نہ توڑیں جس پر مولانا نے انھیں ایک کمپنی کے پاس بھیجا جنھوں نے ان کو قرآن پاک ہدیہ پر شہر میں لے جانے کا کام دیا اب وہ لاہور کی گلیوں میں گھومتے پھرتے اور ان کی جو بھی رقم بنتی وہ اس سے کھانے پینے کی چیزیں اور ضرورت والی اشیا لے آتے اور مولوی صاحب کے حوالے کردیتے۔ اس طرح اب ان کی زندگی چل رہی تھی۔
ایک دن گھومتے ہوئے ان کی ملاقات پشاور کے جاننے والے ایک بدمعاش سے ہوگئی جسے ''کاکا ''کہہ کر پکارتے تھے۔ بدمعاش نے ایک جاننے والے پینٹرکے پاس بھیجا کہ وہاں جاکے کام سیکھیں۔ دراصل رنگیلے کو پینٹنگ کا کام آتا تھا جو ان کے لیے موزوں کام تھا۔ وہ استاد پینٹر سے ملے جس نے ان کا ٹیلنٹ دیکھ کر کام پے لگایا اور انھوں نے تھوڑے ہی عرصے میں استاد کا دل جیت لیا جس نے فلمی پوسٹر بنانے کے لیے دینا شروع کر دیے۔ اب ان کا کام بڑا پسند کیا گیا اور ان کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ جب ان کی جان پہچان فلموں والوں سے زیادہ بڑھ گئی تو استاد نے کہا کہ اب وہ اپنا الگ کام کریں اور کچھ پیسے کمائیں۔
اس کام سے پہلے وہ ایک دن کسی ہوٹل میں ویٹر بننے گئے جہاں پر ان سے کہا گیا کہ ایک مہینے کے لیے ٹرائل پر رکھا جائے گا اور اگر وہ صحیح کام کرنے لگے تو پھر ان کی دیہاڑی بنائیں گے۔ اس دوران انھیں صرف تین وقت کا کھانا ملے گا اور اگر کوئی نقصان ہوگیا تو اسے بھرنا پڑے گا۔ ایک ہی دن میں ان پر کام کا اتنا بوجھ ڈالا گیا کہ وہ یہ مزدوری چھوڑ کر چلے آئے ۔ کمپنی سے بھی کام اس لیے چھوڑا تھا کہ اس کمیشن میں ان کا گزارا نہیں ہو رہا تھا اور پھر پورا دن گلیوں میں مقدس کتاب لے کر آوازیں لگا کر وہ تھک جاتے تھے۔
آزاد جو ان کا پینٹنگ میں استاد تھا، اس نے رنگیلے کی ایک ہیرے کی طرح تراش خراش کردی تھی اور اپنے پاس جتنا بھی فن تھا رنگیلے کو منتقل کیا کیونکہ رنگیلا محنتی، سعادت مند تھا جس نے استاد کا کہا مان کر دل لگا کرکام کیا۔ اب ان کی آمدنی دن بہ دن بڑھتی گئی جس سے وہ مولوی صاحب کے منع کرنے پر بھی ان کی خدمت کرتے رہتے تھے۔
(جاری ہے۔)