دھرنا سیاست آخر کب تک

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حال ہی میں کہا ہے کہ دھرنا عناصرکے منصوبے فلاپ ہوگئے ہیں

جمہوریت میں احتجاج کا ہرکسی کو حق ہوتا ہے جو انھیں ملک کے آئین کے تحت ضرور حاصل ہے مگر آئین میں کہیں یہ درج نہیں ہے کہ احتجاج کو لاقانونیت، سرکاری املاک کے نقصان اور اپنے ہی عوام کو اذیت میں ڈال کر ہی کیا جائے اور یہ سب کچھ کرکے اپنے احتجاج کو پرتشدد بنادیا جائے تاکہ نقصانات میڈیا پر نمایاں ہوں اور ملک بھر کے عوام کی نظریں ان پر مرکوز ہوجائیں حالانکہ وہ ڈیڑھ دو ہزارکی تعداد تک ہی محدود کیوں نہ ہو۔

آمریت میں تو دفعہ 144 نافذ کرکے پانچ افراد کو بھی کسی جگہ جمع ہونے کی اجازت نہیں ہوتی مگر آمر حکومتوں ہی میں نہیں جمہوری دور میں بھی یہ پابندی حکومت کو عائد کرنا پڑتی ہے مگر سیاسی جماعتیں آمریت کے دور میں بھی اپنے کارکنوں کے لیے احتجاج ریکارڈ کراتی آئی ہیں اور سیاسی کارکنوں نے اس سلسلے میں قید و بند کی سزائیں بھی برداشت کیں اور کوڑے بھی کھائے اور بعض جیالوں نے خود کو جلایا بھی مگر احتجاج ضرور کرتے آئے اور خاموش نہیں رہے۔

1999 میں پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انھوں نے سیاسی سرگرمیاں ضرور بند کیں مگر سیاسی کارکنوں کو سزا دینے کے لیے فوجی عدالتیں قائم نہیں کی تھیں اور بعد میں محدود سیاست کی اجازت بھی دے دی تھی اور 2002 میں غیر جماعتی انتخابات کرا کر اپنی سربراہی میں مختلف جماعتوں کے ارکان اسمبلی توڑ کر مسلم لیگ (ق) کی سیاسی حکومت بھی بنوا دی تھی۔

(ق) لیگ کی حکومت میں دھرنا سیاست کو فروغ دینے والے بھی اسمبلیوں میں موجود تھے مگر انھوں نے دھرنا سیاست کی ابتدا نہیں کی تھی اور اس وقت جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد ہی اسلام آباد میں کبھی کبھی دھرنے کی سیاست کرلیا کرتے تھے مگر جماعت اسلامی کے دھرنے پرتشدد نہیں ہوتے تھے اور شاید اسی وجہ سے میڈیا اور عوام انھیں اہمیت نہیں دیتے تھے کیونکہ ان دھرنوں سے عوام کو اتنی پریشانی نہیں ہوتی تھی جتنی تحریک انصاف، عوامی تحریک اور حال ہی میں تحریک لبیک کے دھرنوں کے باعث ہوئی جن میں سیاسی حکومت بھی بے بس نظر آئی۔ اربوں روپے کا مالی نقصان کرا لیا گیا مگر جانی نقصان کے خوف سے حال ہی میں حکومت نے واٹرکینن بھی استعمال نہیں کیا ۔


جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حال ہی میں کہا ہے کہ دھرنا عناصرکے منصوبے فلاپ ہوگئے ہیں جب کہ سیاسی دھرنوں میں تو ایسا واقعی ہوا مگر مذہبی بنیاد پر راولپنڈی اسلام آباد میں دسمبر میں دیا جانے والے دھرنے کو تو حکومت نے کامیاب کرادیا جس سے اب مذہبی دھرنے والوں کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور جو حکومت سیاسی دھرنے مہینوں بعد بھی ختم نہ کراسکی تھی مگر مذہبی دھرنے کے آگے بے بس رہی اور ڈیڑھ ہزار مظاہرین کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئی اور عدالتی احکامات کے باوجود دھرنا جاری رہا۔

پاکستان میں مطالبات تو حکومت سے کیے جاتے ہیں مگر اب یہ اصول بن کر رہ گیا ہے کہ دھرنوں سے حکومت کو مالی نقصان پہنچایا جائے حالانکہ سرکاری املاک کا مالی نقصان اور عوام کا مفت جانی نقصان حکمرانوں کا ذاتی نہیں بلکہ عوام ہی کا ہوتا ہے اور حکومت کا مالی نقصان حکومت عوام سے ہی پورا کرلیتی ہے اور اس طرح عوام دونوں طرف سے ہی نقصان میں رہتے ہیں۔ دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں میں نجی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور ان کی ذاتی گاڑیاں بھی جلائی جاتی ہیں مگر حکومت ان کے نقصان کی تلافی نہیں کرتی اور حکومتی نااہلی کی سزا بھی عوام کو ہی بھگتنا ہوتی ہے۔

دھرنے اور احتجاج کرنے والوں کو پتا ہے کہ وہ اگر کسی گراؤنڈ میں دھرنا دیں گے تو اس سے مقصد حاصل نہیں ہوگا خواہ وہ سال بھر بھی دھرنا دیے رکھیں مگر حکومت انھیں اہمیت دے گی نہ میڈیا انھیں لفٹ دے گا۔ دھرنے کامیاب کرنے کا مقصد عوام کو پریشان کیے بغیر پورا نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے دھرنوں کے لیے گراؤنڈ کی بجائے مصروف شاہراؤں اور چورنگیوں ہی پر دھرنے دیے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر دھرنے دے کر شہروں کو مفلوج کردیا جاتا ہے تاکہ ٹریفک کی آمد و رفت معطل، جام یا بری طرح متاثر ہو۔ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو تو عوام کو پتا چلے کہ کسی پارٹی نے دھرنا دیا ہوا ہے، عوام ایسے موقعے پر حکومت ہی کو برا بھلا کہتے ہیں دھرنے والوں کو کچھ نہیں کہہ سکتے اور دھرنا عناصر کے شر سے ڈرتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ دھرنا عناصر نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ بے گناہ شہریوں کو بھی اپنے عتاب کا نشانہ بنایا اس لیے عوام دل میں بے شک دھرنائیوں کو کوسیں مگر منہ پر اعتراض کی جرأت نہیں کرسکتے۔

پاکستان عوامی تحریک اور پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں اپنے دھرنے کئی مہینوں تک ضرور برقرار رکھے مگر حاصل کچھ نہ کرسکے اور خود ہی دھرنے ختم کرنے پر مجبور ہوئے حکومت سے اپنا کوئی مطالبہ نہ منوا سکے۔ اسلام آباد کے طویل دھرنوں سے عوام ہی نہیں اعلیٰ عدلیہ بھی متاثر ہوئی تھی۔ ججوں کو مختلف راستوں سے اپنی عدالتوں میں پہنچنا پڑتا تھا ۔

عدلیہ نے دھرنوں کے خلاف فیصلے بھی دیے مگر اب دھرنا عناصر احکامات خاطر میں نہیں لا رہے اور انھیں صرف من پسند فیصلے ہی اچھے لگتے ہیں۔ حکومت تو بے بس ہو ہی چکی ہے اس لیے اب عوام کی نظریں صرف سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں جس کا حکم پورے ملک پر لاگو ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشنوں کے قیام پر پابندی لگا دی ہے اس لیے دھرنا سیاست پر عوام کے مجموعی مفاد کے لیے بھی سپریم کورٹ ہی کو کچھ کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ دھرنوں جیسے عوام کو پریشان کرنے والے تمام سیاسی و مذہبی اقدامات کو فل کورٹ بنچ کے ذریعے حل کرادیں تو عوام کا اہم مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ مظاہرین کے لیے حکومت سے کوئی جگہ مخصوص کرائے اور احتجاج کرنے والوں کو مخصوص جگہ احتجاج کی اجازت اور پابندی پر عمل کی ہدایت بھی کرے۔
Load Next Story