فیض آباد دھرنا کیس میں سیکرٹری دفاع داخلہ اور قانون طلب
سیکرٹری دفاع بتائیں کہ مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا، اسلام آباد ہائی کورٹ
ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری دفاع اور داخلہ کو طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی، عدالت نے گزشتہ سماعت میں سیکرٹری دفاع، داخلہ اور قانون کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو سے بھی رپورٹس طلب کی تھیں تاہم کسی بھی ادارے کی جانب سے رپورٹس پیش نہیں کی گئیں۔ رپورٹس پیش نہ کرنے پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ تاثر ہے کہ حکومت اور دفاع میں اختلافات ہیں، رپورٹس جمع نہ کرانے پر اکٹھے ہو گئے، اس معاملے کو دبانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ رپورٹس جمع نہ کرانے پرمتعلقہ افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔ راجا ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کرنے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے عدالت کو بتایا کہ رپورٹ پر ایک ممبر کے دستخط نہیں۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کی رپورٹ مسترد کردی
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے وزیر خارجہ وزیر داخلہ کی اور وزیر داخلہ وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں، موصوف نے فیض آباد میں بیٹھ کر عدلیہ کی تضحیک کی، چیف جسٹس کا نام لے کر بکواس کی اور آپ راضی نامہ کرکے بیٹھ گئے کہ جنرل صاحب نے دستخط کر دیئے۔ سیکرٹری دفاع بتائیں کہ مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا، وزارت دفاع کو بڑا مان ہے انگریزی اچھی ہوتی ہے، پھر آپ کیوں شرما رہے ہیں۔
عدالت نے ڈی جی آئی بی کی جانب سے وائرل آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق رپورٹ پیش نہ کر سکنے پر استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس ایسے کوئی آلات نہیں جس سے یہ پتہ چلایا جا سکے۔ جس پر جسٹس شوکت صدیقی نے استفسار کیا کہ پاکستان میں یہ سہولت کس ادارے کے پاس ہے۔ ڈی جی آئی بی نے جواب میں کہا کہ میرے پاس یہ سہولت نہیں، کسی اور کے متعلق بیان نہیں دے سکتا۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: فیض آباد ہنگامے، نجی املاک کو 2 کروڑ کا نقصان
ڈی جی آئی بی کے جواب پر جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیسے انٹیلی جنس سربراہ ہیں جسے وہ بات معلوم نہیں جو عام آدمی بھی جانتا ہے، کیا آپ صرف کسی جگہ آلات لگاتے یا اہم شخصیات کے ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں،اگر کسی دہشت گرد کی آواز کا موازنہ کرانے کی ضرورت پیش آئے تو کیا کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کے معاملے پر تحریک لبیک یارسول کی جانب سے نومبر 2017 میں 22 روز تک دھرنا دیا گیا جو بعدازاں وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے اور ایک معاہدے کے بعد ختم ہوا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی، عدالت نے گزشتہ سماعت میں سیکرٹری دفاع، داخلہ اور قانون کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو سے بھی رپورٹس طلب کی تھیں تاہم کسی بھی ادارے کی جانب سے رپورٹس پیش نہیں کی گئیں۔ رپورٹس پیش نہ کرنے پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ تاثر ہے کہ حکومت اور دفاع میں اختلافات ہیں، رپورٹس جمع نہ کرانے پر اکٹھے ہو گئے، اس معاملے کو دبانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ رپورٹس جمع نہ کرانے پرمتعلقہ افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔ راجا ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کرنے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے عدالت کو بتایا کہ رپورٹ پر ایک ممبر کے دستخط نہیں۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کی رپورٹ مسترد کردی
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے وزیر خارجہ وزیر داخلہ کی اور وزیر داخلہ وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں، موصوف نے فیض آباد میں بیٹھ کر عدلیہ کی تضحیک کی، چیف جسٹس کا نام لے کر بکواس کی اور آپ راضی نامہ کرکے بیٹھ گئے کہ جنرل صاحب نے دستخط کر دیئے۔ سیکرٹری دفاع بتائیں کہ مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا، وزارت دفاع کو بڑا مان ہے انگریزی اچھی ہوتی ہے، پھر آپ کیوں شرما رہے ہیں۔
عدالت نے ڈی جی آئی بی کی جانب سے وائرل آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق رپورٹ پیش نہ کر سکنے پر استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس ایسے کوئی آلات نہیں جس سے یہ پتہ چلایا جا سکے۔ جس پر جسٹس شوکت صدیقی نے استفسار کیا کہ پاکستان میں یہ سہولت کس ادارے کے پاس ہے۔ ڈی جی آئی بی نے جواب میں کہا کہ میرے پاس یہ سہولت نہیں، کسی اور کے متعلق بیان نہیں دے سکتا۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: فیض آباد ہنگامے، نجی املاک کو 2 کروڑ کا نقصان
ڈی جی آئی بی کے جواب پر جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیسے انٹیلی جنس سربراہ ہیں جسے وہ بات معلوم نہیں جو عام آدمی بھی جانتا ہے، کیا آپ صرف کسی جگہ آلات لگاتے یا اہم شخصیات کے ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں،اگر کسی دہشت گرد کی آواز کا موازنہ کرانے کی ضرورت پیش آئے تو کیا کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کے معاملے پر تحریک لبیک یارسول کی جانب سے نومبر 2017 میں 22 روز تک دھرنا دیا گیا جو بعدازاں وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے اور ایک معاہدے کے بعد ختم ہوا۔