خطرناک دشمن بمقابلہ نحیف پاکستان

حقائق کے غیرجانبدارانہ مطالعے سے انکشاف ہوگا کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کی توسیع کےلیے کس شاطرانہ انداز میں عمل پیرا ہے

حقائق کے غیرجانبدارانہ مطالعے سے انکشاف ہوگا کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کی توسیع کےلیے کس شاطرانہ انداز میں عمل پیرا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میرے حالیہ کچھ مضامین میں گریٹراسرائیل اور یہودیوں کی سازشوں کے حوالے سے آگاہی کی کوشش کی گئی تھی جس کے بعد مجھے میرے ہی بعض ساتھیوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جیسے مجھے ''اسرائیل فوبیا'' ہوگیا ہو۔ یہ ممکن ہے کہ میرے مضامین میں جس چیز کا خصوصی احاطہ کیا جارہا ہے وہ اسرائیل ہی ہو، لیکن میں یہ بات اپنے ہوش و حواس میں کہہ رہا ہوں کہ آج دنیا میں ہونے والی خونریزی کے پیچھے اگر کوئی طاقت ہے تو وہ اسرائیل ہی ہے۔ ایڈولف ہٹلر سے منسوب مشہور جملہ ہے: ''میں اپنے پیچھے چند یہودیوں کو زندہ چھوڑے جارہا ہوں تاکہ بعد میں آنے والوں کو معلوم ہوسکے کہ میں نے انہیں قتل کیوں کیا تھا۔''

کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں یہودیوں کی آبادی کی اوسط کیا ہے؟ پوری دنیا کی کل آبادی کا صرف 0.01 فیصد یہودیوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 24.1 فیصد ہے جبکہ عیسسائیوں کی آبادی کم و بیش 32.5 فیصد ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: 'گریٹر اسرائیل' کی قیمت: امریکی تباہی اور عالمی بربادی

یہ بات بالکل عام ہے کہ جن افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے وہ نمایاں ہوتے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ان کا کردار زیادہ نظر آتا ہے، یعنی آبادی کے اعتبار سے دنیا کے ہر شعبوں میں یا تو عیسائیوں کو نظر آنا چاہئے تھا یا مسلمانوں کو؛ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ پوری دنیا کی دولت ایک طرف جبکہ تین یہودی خاندانوں کی دولت دوسری طرف اور اس پر حاوی ہے تو آپ کو یقین آئے گا؟

یہ بلاگ بھی پڑھیے: بھارتی چوہے اوراسرائیلی کیڑے

جی ہاں! دنیا کے امیر ترین خاندان میں پہلے نمبر پر روتھ چائلڈ فیملی (Rothschild Family) کا شمار ہوتا ہے جس کے اثاثوں کی مالیت تقریباً 2 ٹریلین امریکی ڈالرز ہے۔

روتھ چائلڈ خاندان کے بعد جان ڈی راک فیلر (John D Rockefeller) اور گولڈ اسمتھ فیملی کا نمبر ہے جن کے اثاثوں کے بارے میں اندازہ ہے کہ دنیا کے دیگر تمام لوگوں کی مجموعی دولت اور ان چند خاندانوں کی دولت برابر ہے۔ خیر، یہ کوئی قابلِ گرفت بات ہرگز نہیں؛ لیکن یہ بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہودی دنیا کے ذہین ترین لوگ ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ دنیا کے شاطر اور ظالم ترین لوگ ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

دنیا کے موجودہ حالات کا اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو آپ پر حیرت انگیز انکشافات ہوں گے۔ اس وقت دنیا کے تقریباً ہر ملک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں اور اس حوالے سے مستقل خطرات موجود ہیں۔ دوسری جانب مشرقی وسطیٰ کا حال دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے کہ یہاں چاروں جانب تو آگ لگی ہوئی ہے مگر اسی خطے میں چھوٹے سے ٹکڑے میں، جہاں اسرائیل قابض ہے، مثالی امن قائم ہے۔ خطے میں موجود داعش اور دیگر شدت پسند گروہ بلاتفریق اسلام کے نام پر مسلمانوں ہی کو قتل کررہے ہیں، حتیٰ کہ انبیاء اور صالحین کے مزارات کو بھی نہیں بخشا جارہا، مقدس مقامات کو مسمار کیا جارہا ہے، غرض ہر وہ کام کیا جارہا ہے جس کی اسلام میں اجازت نہیں۔ لیکن مجال ہے جو یہ دہشت گرد گروہ اسرائیل کا رخ بھی کریں۔ وہ اسرائیل جو کھلے عام پوری دنیا کے مسلمانوں کی قتل و غارت گری کا بلواسطہ یہ بلاواسطہ ذمہ دار ہے۔

دنیا میں ہونے والی تمام تبدیلیاں ایک جانب اور صرف مسلم ممالک کے حالات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عرب خطے اور ایشیائی ممالک میں جہاں جہاں مسلم ملک ہیں، وہاں اسرائیل کا کیا کردار ہے۔ اگرچہ اسرائیل تمام ممالک پر براہ راست اثرانداز نہیں ہوتا، لیکن اس کے ہر فیصلے پر لبیک کہنے والے امریکا کا کردار بھی سب کے سامنے ہے۔

عشروں سے دنیا میں امریکا کو واحد سپرپاور سمجھا جاتا تھا اور امریکا کو اپنی مرضی کرنے کےلیے نہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کی پروا تھی اور نہ ہی کسی بھی قانونی اور اخلاقی پابندیوں کا لحاظ۔ نائن الیون کے بعد خارجہ پالیسی کے ماہرین میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر جارج بش کی انتظامیہ نے دہشت گرد حملوں پر ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ اس وقت کی امریکی صدارتی انتظامیہ میں حامیوں کے طور پر نئے قدامت پسندوں یعنی ''نیو کنزرویٹیوز'' کا اثر و رسوخ تھا۔

نئے قدامت پسندوں نے نائن الیون سے چار برس قبل ''پروجیکٹ فار نیو امریکن سینچری'' نامی تھنک ٹینک میں شمولیت اختیار کی۔ اس تھنک ٹینک کے بانیوں میں ولیم کرسٹل اور روبرٹ کیگن جیسے نظریہ ساز شامل تھے جنہوں نے امریکا پر زور دینا شروع کردیا تھا کہ وہ جب تک ممکن ہو، دنیا میں اپنی اجارہ داری قائم رکھے۔ واضح رہے کہ ولیم کرسٹل اور روبرٹ کیگن امریکی سیاست کی طاقتور شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، جبکہ یہ دونوں حضرات انتہاپسند یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

ولیم کرسٹل اور رابرٹ کیگن نے زیادہ فوجی اخراجات، ممکنہ خطرات کے خلاف پیشگی اور ضرورت کے مطابق یک طرفہ فوجی کارروائی اور امریکا کے نزدیک ناپسندیدہ ملکوں کی حکومتوں کو بزور طاقت تبدیل کرانے کے نظریات کو فروغ دینا شروع کیا۔ امریکا کی جانب سے دنیا میں مسلم ممالک کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے پیچھے جو مقاصد تھے وہ زرخیز ذہنوں میں تو واضح ہوتے جارہے تھے لیکن بعض حلقے ان سے نابلد تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ امریکا اور دیگر یورپی ممالک کا جو رویہ تھا، وہ نائن الیون کے حملے کا فوری ردعمل ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ مشرق وسطیٰ سمیت ایشائی ممالک میں بڑٰی تبدیلیوں کی تیاری تھی۔

2011 میں بہارِ عرب (Arab Spring) کے نام سے مشرق وسطیٰ میں دہائیوں سے حکمرانی کرنے والوں کے خلاف منظم تحریک شروع ہوئی جس نے عرب دنیا کی عظیم طاقتوں کو تخت سے اتار کر قبر میں پہنچا دیا، جبکہ بعض کو تو قبر بھی نصیب نہیں ہوئی۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو عرب اسپرنگ کے تانے بانے براہ راست مشرقِ وسطیٰ کی تباہی سے ملتے ہیں جو شام میں ایک خونریز جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ شام کے معاملے پر روسی صدر ہر صورت میں شامی صدر بشارالاسد کا دفاع کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں جبکہ انہیں ایران، عراق اور حزب اللہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔

یہ بات تو ہر خاص وعام کے علم میں ہے کہ امریکا، اسرائیل کے دفاع کےلیے اپنی پالیسیز میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امریکا کی پالیسیز اسرائیل میں بنائی جاتی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں تباہی مچانے والی دہشت گرد تنظیم داعش کو امریکا اسلحہ فراہم کرتا رہا۔ یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ جنگ بندی کے بعد 17 ستمبر 2016 کو امریکہ نے شامی افواج پر دیر الزور میں ایک بڑا فضائی حملہ کیا جس میں 50 سے زائد شامی فوجی ہلاک ہوگئے جن میں اعلیٰ فوجی حکام بھی شامل تھے۔ اس حملے نے نہ صرف شامی فوج کو نقصان پہنچایا بلکہ داعش کے جنگجوؤں کےلیے راستہ بھی ہموار کیا۔

اس وقت کی امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ ہم جنگجوؤں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کر رہے ہیں، تاکہ وہ بشارالاسد کے بے رحمانہ اور مطلق العنان نظامِ حکومت کے خلاف لڑ سکیں۔ اس کی تفصیل وکی لیکس نے بھی جاری کی تھی۔ امریکا کی جانب سے شامی حکومت کو تباہ کرنے اور شام کے وسائل پر اپنی سربراہی میں اسرائیل کو اختیارات دینے کے خواہش مند امریکا نے تقریباً چھ سال کی خانہ جنگی، پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کی ہلاکت، اربوں ڈالر کے انفراسٹرکچر کی تباہی اور لاکھوں انسانوں کی ہجرت کے باوجود سبق نہیں سیکھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اسرائیل نے امریکا کو ابھی اجازت ہی نہیں دی ہے کہ وہ اتنے بڑے نقصان کے باجود اپنی مجرمانہ کارروائیاں روکے، کیوں کہ تمام حاصل وسائل کے استعمال کے باوجود امریکا ابھی اس مقام پر نہیں پہنچ سکا ہے جہاں سے وہ اسرائیل کو اس ملک کی تیل کی دولت اوردیگر وسائل جھولی میں ڈالنے کے قابل ہوجائے۔

پہلے پہل یہ انکشاف دنیا کےلیے حیران کن تھا کہ عراق کی تباہی کے پیچھے بھی اسرائیل کا ہی کردار تھا۔ اسرائیل اپنی سرحدوں کو غیرمعمولی طور پر اتنا وسیع کرنا چاہتا ہے جو گریٹر اسرائیل کے نام سے عام ہوچکا ہے، مگر اب یہ کوئی راز نہیں رہا۔ اگر گریٹر اسرائیل کے نقشے کو دیکھا جائے تو اس کی ایک لکیر عراق کے شہر بغداد سے شروع ہوکر کردستان سے ترکی، اسرائیل، لبنان، اردن اور آخر میں سعودی عرب تک آتی ہے جو پورے عرب خطّے کو اپنی لیپٹ میں لے لیتی ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو مذکورہ خطے اور یہاں کے لوگ تباہی کی بدترین مثال بن چکے ہیں۔ عراق کو برباد کرنے کےلیے کہا گیا کہ یہاں تباہ کن ہتھیار موجود ہیں، لیکن لاکھوں عراقیوں کے قتل کے بعد بھی کسی ہتھیار کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ مگر عراق کے تیل کی دولت پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جو قبضہ کیا، اس پر سوال کرنے والا کوئی نہیں۔

عراق کی تباہی اور کنٹرول کا اصل مقصد وہاں موجود تیل کی دولت پر قبضہ کرنا تھا۔ اسرائیل کے معروف اخبار ''یروشلم پوسٹ'' میں 24 اگست 2015 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اسرائیل، عراق سے اپنی ضرورت کا 77 فیصد تیل حاصل کرتا ہے۔ ذراغور تو کیجیے کہ عراق سے اسرائیل کا فاصلہ کتنا ہے؟ تیل کی اس طویل ترین پائپ لائن کی حفاظت کیسے ہوتی ہے؟ جبکہ عرب خطّے میں موجود داعش، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں انبیاء علیہ السلام کے مزارات تک کو بھی نہیں بخش رہیں لیکن 1300 کلومیٹر پر مشتمل تیل کی پائپ لائن بلاتعطل باقاعدگی سے اسرائیل کو تیل فراہم کررہی ہے جو کسی معجزے سے کم نہیں اور کسی بھی صحت مند ذہن کےلیے ناقابل قبول ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج کہنے کو تو امن کےلیے ان ممالک میں موجود ہیں لیکن درحقیت وہ اسرائیل کو پہنچائے جانے والے وسائل کی نگہبانی کررہی ہیں۔


اگر دیکھا جائے تو امریکا، اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کرتا آرہا ہے، لیکن ٹرمپ نے جب امریکا میں اقتدار ہاتھ میں لیا تو کئی صہیونی لیڈروں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ٹرمپ کی شکل میں ان کےلیے قدرت نے 'مسیحا' نازل کیا ہے۔ ٹرمپ کا اقتدار پر فائز ہونا صہیونیوں کا 'ارض موعود' کی طرف پیش قدمی کےلیے اہم قدم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹرمپ کو مسیح مخلص قرار دیتے ہیں۔

ٹرمپ کی آمد سے صہیونیوں کے نہ صرف بیانات تبدیل ہوگئے ہیں بلکہ ان کے توسیع پسندانہ منصوبوں کا بھی ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ غرب اردن سے لے کر یروشلم کے گردونواح تک میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں حیرت انگیز تیزی آئی، جبکہ رہی سہی کسر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے نے پوری کردی۔ ٹرمپ کی آمد کے بعد فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کےلیے جتنا اسرائیل کو خطرناک سمجھا جارہا ہے درحقیقت اسرائیل اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ہاں! میں نے فلسطین کا سودا کیا

ٹرمپ کے فیصلوں پر بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر داخلہ نے کہا کہ ٹرمپ کی آمد اسرائیل کےلیے مسیح مخلص سے کم نہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی شکل میں خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور کل اسرائیل کا منتظر ہے۔ یعنی کہ گریٹراسرائیل کے حوالے سے ہونے والی تمام کوششیں اور سازشیں اب کھل کر سامنے آنے کا وقت ہے۔

یہ وہ تمام بیانات اور واقعات ہیں جو بین الاقوامی میڈیا پرجاری کیے گئے، ان میں میرا ذاتی بیان یا خیال کچھ نہیں ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کا حال، سعودی عرب کی یمن کے ساتھ جنگ اور ایشیا میں ہونے والی تمام تبدیلیاں گریٹر اسرائیل کا ہی حصہ ہیں؛ اور اسے عملی جامہ پہنانے میں اسرائیل کو اپنے حواریوں یعنی امریکا، بھارت اور ان تمام ممالک کا بھرپور تعاون حاصل ہے جو نظریاتی طور پر مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی نئی صورتحال کا بھی کسی نہ کسی طور اس منصوبے سے تعلق نکلتا ہے، اور افغانستان میں امن و امان پاکستان کے امن و امان سے جڑا ہوا ہے۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ گریٹر اسرائیل اور پاکستان کی بقا، یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ اسرائیل پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے گویا وہ پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کےلیے بڑی سے بڑٰی قیمت دینے کو تیار ہے۔ جبکہ افغانستان، جس کا امن براہ راست پاکستان سے جڑا ہوا ہے، وہاں بھارت کو کلیدی کردار دینے کےلیے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ یعنی ایک جانب پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں جبکہ دوسری جانب ہمارے اذلی دشمن کے ساتھ یارانہ۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: چانکیہ کا اکھنڈ بھارت اور پاکستان کی انسانی ہمدردیاں

یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا بلکہ وہ اکھنڈ بھارت کے نظریئے پر پاکستان کو خدانخواستہ توڑنے کےلیے کچھ بھی کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، وہاں موجود ٹی ٹی پی کو اسلحہ سمیت وہ تمام وسائل فراہم کررہا ہے جو پاکستان کو غیرمستحکم کرنے میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ یوں کہا جائے کہ بھارت پاکستان کا اذلی دشمن اور اسرائیل پاکستان کا نظریاتی دشمن اور اب یہ دونوں دشمن اپنے اپنے مفادات کےلیے متحد ہورہے ہیں۔

صہیونیت کے پیروکار دنیا کے شاطر اور ظالم ترین لوگ ہیں جو اپنے مفادات کے سوا کسی کے خیر خواہ نہیں۔ (واضح کرتا چلوں کہ ہر یہودی صیہونی نہیں ہوتا، لیکن ہر صیہونی یہودی ضرور ہوتا ہے، اور میں یہاں پر یہودی قوم کی نہیں بلکہ صیہونیوں کی بات کررہا ہوں۔)

اسرائیل اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان کو درحقیقت خطرات کا سامنا اندرونی طورپر ہے، اور بھارت وہ دشمن ہے جس کے رہنے والے رنگ نسل شکل صورت اور زبان میں بھی پاکستانیوں سے خاصی مماثلت رکھتے ہیں۔ گویا پاکستان کو نقصان پہنچانے میں بھارت کا کردار اہم ہوسکتا ہے، اس لیے بھارت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس نظریئے کی تکمیل کےلیے اسرائیل اور بھارت کے تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔

اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات کا مختصر جائزہ لیا جائے تو مؤرخین کا اس حوالے سے بتانا ہے کہ اسرائیل کے قیام کے پہلے چار عشروں کے دوران بھارت اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ تعلقات منفی انداز میں آگے بڑھے۔ کئی سال تک بھارت فلسطینیوں کے بنیادی حقوق اور مطالبات میں فلسطینی قوم کی واضح طرف داری کرتا رہا۔ تاہم 1992ء میں اسرائیل کی شاطر اور ظالم ترین شخصیت کا لقب حاصل کرنے والے آنجہانی صدر شمعون پیریز اپنی چکنی چپڑی سفارت کاری سے بھارت کو رام کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بھارت نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔

اس کے بعد سے اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے لیکن نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد بھارت اور اسرائیل کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ آپ کو شائد یاد ہو کہ گزشتہ سال جولائی میں جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا تو اس وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اسلام کے کھلے دشمن، شدت پسند ہندوؤں اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے اپنی محبت کا ڈرامہ رچاتے ہوئے اسرائیل کے ایک پھول (Chrysanthemum، اردو میں گل داؤدی) کا نام مودی کے نام پر رکھا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم کی اس محبت کا جواب دیتے ہوئے بھارتی وزیراعظم مودی نے دہلی کے تاریخی ''تین مورتی چوک'' کا نام بدل کر اسرائیل کے شہر حیفا کے نام پر رکھ دیا اور یوں بھارت اور اسرائیل نے ایک دوسرے سے بہترین دوستی کا حق ادا کردیا۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیل نے برصغیرمیں بھارت کو تھانیدار بنانے کی تیاری شروع کردی جس کی نشاندہی کئی مرتبہ امریکا کرچکا ہے۔

یہ بات تو ہندوستان کا ہر شہری جانتا ہے کہ نریندر مودی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جذبات رکھتے ہیں جبکہ مودی کو ''گجرات کا قصائی'' کا لقب بھی بھارت میں ہی دیا گیا تھا۔ فروری 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری سمیت 69 افراد لقمہ اجل بنے۔ یہ فسادات گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین پر ہونے والے حملے کے بعد ہوئے تھے جس میں 59 افراد مارے گئے تھے۔ فسادات کے وقت بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور بھارتی ہندوؤں اور مسلمانوں میں یہ تاثر عام ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کےقتل عام میں نریندر مودی کا کلیدی کردار تھا۔

ان تمام حقائق کا غیرجانبداری سے مطالعہ کرنے سے آپ پر یہ انکشاف ہوگا کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کی توسیع کےلیے کس شاطرانہ اندازمیں عمل پیرا ہے اور ہر وہ اقدام کر رہا ہے جس سے گریٹر اسرائیل کی راہ میں حائل ہر ہر ممکنہ رکاوٹ کو گرایا جاسکے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: پاکستان؛ ''گریٹر اسرائیل'' کی راہ میں بڑی رکاوٹ

مضمون کو اختتام کی جانب لے جاتے ہوئے اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ گریٹر اسرائیل کوئی ڈرامہ یا ٹیبل اسٹوری نہیں بلکہ ایک خطرناک مہم ہے، جس کےلیے لاکھوں انسانوں کو قتل کیا جاچکا ہے اور ابھی لاکھوں انسانوں کی مزید قربانی دینی ہے؛ جس کےلیے اسرائیل اپنے تمام وسائل بروئے کار لارہا ہے۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ جو مشرقِ وسطیٰ کی تباہی کی صورت میں تھا، تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اسلام کے نام پر قائم ملک پاکستان کو خدانخواستہ تباہ کرنا ہے جس میں یہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے، ان شاء اللہ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story