گورنر ہاؤس کے عالیشان مہمان خانے

موجودہ دور میں ایک گورنر جو کہ براہ راست برطانیہ سے لاہور کے گورنر ہاؤس میں منتقل ہوئے تھے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

مصالحوں کی تجارت کے لیے برطانیہ سے برصغیر آنے والے انگریزدراصل کاروبار کے درپردہ برصغیر کے وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے آئے تھے ان کو برصغیر اور اس کے باشندوں کے بارے میںجو معلومات ملی تھیں ان کو سن کر چالاک انگریزوں نے برصغیر کے وسائل کو لوٹنے کی منصوبہ بندی کی کیونکہ ان کی معلومات کے مطابق مالی وسائل سے مالا مال اس خطے کے باشندے بھی نہایت سادہ لوح تھے جو کہ بڑی آسانی سے بے وقوف بن جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

اس لیے انگریزوں نے پہلے تجارت کا ڈول ڈالا اور بعد میں اپنی مشہور و معروف ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اس جنت نظیر خطے پر قبضہ کر لیا اور کئی صدیوں سے مسلمان حکمرانوں کو اپنی حکمت عملی سے معزول کر کے قید میں کر لیا اور شاہی خاندان کے افراد کا وظیفہ مقرر کردیا گیا جوکہ وہ اپنی آخری سانسوں تک کھاتے رہے اور اس وقت کی یاد میں آنسو بہاتے رہے جب وہ اس ملک کے چپے چپے کے بلاشرکت غیر ے مالک تھے اور کہاں یہ وقت کہ وہ سات سمندر پار سے آنے والے فرنگیوں کے وظیفہ خوار بن گئے اور اسی غم میں مر گئے۔

برصغیر میں آنے والے انگریزوں نے اس خطے کے وسائل پر قبضہ تو بہر حال کر ہی لیا اور ان کو بتدریج انگلستان منتقل کرنا شروع کر دیا تا کہ تاج برطانیہ کو معاشی طور پر مزید مضبوط کیا جا سکے اور اس میں دنیا بھر کے علاوہ برصغیر کا بھی حصہ ہو ۔بجا طور پر تاج برطانیہ کے اقتدار کے دوران نہ غروب ہونے والے سورج کے متعلق انگریز نہایت جذباتی ہوتے تھے کیونکہ دنیا کے جتنے ملکوں پر وہ قابض تھے ان میں سے کسی نہ کسی جگہ سورج طلوع ہو رہا ہوتا۔

یہ ان کی اپنی خوش قسمتی اور تدبیر تھی کہ وہ اپنی حکمرانی کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے گئے اور اگر آج کے حالات کا موازنہ انگریزوں کے دور حکومت سے کیا جائے تو جو چند بابے اس دور کے زندہ رہ گئے ہیں وہ انگریز کی حکمرانی کو اب بھی یاد کرتے ہیں۔ برصغیر میں ان کے دور میں جتنی ترقی ہوئی اس کا عشر عشیر بھی ان کے چلے جانے کے بعد ہم کرنے سے قاصر رہے بلکہ ہم نے ان کے بیشتر منصوبوں کو بحال رکھنے کے بجائے ختم ہی کر دیا، ریلوے کا وسیع و عریض نیٹ ورک جس کو دیکھ کر آج بھی انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ مشینری کے نہ ہونے کے باوجود اتنا حیرت انگیز نظام کس طرح بن گیا، پہاڑوں کو چیر کر سرنگیں بنائی گئیں۔

برصغیر کے کونے کونے تک ریل پہنچتی تھی مگر ان کے بعد ہم اسی ریل کی پٹریاں تک بیچ کر کھا گئے بلکہ یہ ظلم بھی کیے کہ انگریز کے دور میں دریاؤں پر جو دیو ہیکل لوہے کے پل بنائے گئے تھے تا کہ ریل اور دوسری ٹریفک ساتھ ساتھ رواں رہے، ان میں سے بھی بعض کو سیمنٹ اور سریئے کے ناقص پلوں سے تبدیل کر کے ان کا ولائتی لوہا ہم کھا گئے ۔ ایک پل کا تو میں گواہ ہوں، میرے ضلع خوشاب میں عام ٹریفک کے لیے دریائے جہلم پر سیمنٹ اور سریئے کا پل بنایا گیا جو کہ اپنے افتتاح سے پہلے ہی تیز ہواؤں کے جھکڑ کی وجہ سے زمین بوس ہو گیا یہ کوئی افسانہ نہیں حقیقت ہے جس سے ایک جہاں واقف ہے۔


انگریزوں نے جہاں پر عوام کی ترقی کے منصوبے مکمل کیے وہیں پر انھوں نے خوبصورت طرز کی شاندارعمارتیں بھی تعمیر کیں جو کہ آج بھی اپنے عظیم رفتہ کی یاد دلاتی ہیں۔ لاہورکے مال روڈ پر ڈاک خانے کی بڑی عمارت ، ہائیکورٹ کی بلند بالا شاندار عمارتیں، پرانا جمخانہ اور اب قائد اعظم لائبریری ، انگریزوں کے چیف کالج کی پرانی عمارت اس دور کی چند یاد گاریں ہیں ۔ رہائش کے لیے وسیع و عریض لاہور کا گورنر ہاؤس اپنے خوبصورت سبزہ زاروں کے ساتھ اپنے نئے مکینوں کو انگریزوں کی ہر دم یاد دلاتا رہتا ہے۔

ہماری جمہوری حکومتوں نے لاہور کے اس گورنر ہاؤس کو عوامی منصوبوں میں تبدیل کرنے کے بلند بانگ دعوے تو ضرور کیے مگران پر عملدرآمد سے قاصر رہے اور اب یہ خبر آئی ہے کہ اس گورنر ہاؤس کی شان و شوکت میں مزید اضافے کے لیے اس میں اشرافیہ کے قیام کے لیے چار مزید مہمان خانے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے کروڑوں کے فنڈ جاری کر دیے گئے ہیں تا کہ لاہور میں آنے والے مہمانوں کو عوام کے وسائل سے قیام و طعام کی اعلیٰ سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاہور کے اس وسیع و عریض قطعہ زمین کو حکمرانوں کے وعدے کے مطابق کسی بڑی تعلیمی درسگاہ میں تبدیل کر دیا جاتا اور ایک شخص یعنی موجودہ دور کے لاٹ صاحب کی رہائش کے لیے ان کے عہدے کے مطابق عالیشان جگہ تلاش کر کے ان کو وہاں منتقل کر دیا جاتا اور کئی مربعوں پر محیط گورنر ہاؤس کو تعلیم کی کسی بڑی درسگاہ میں تبدیل کر دیا جائے لیکن وہی ہوا جو اس ملک کے عوام کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور یہ نئی خبر ملی ہے کہ اس میں مزید مہمان خانے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

موجودہ دور میں ایک گورنر جو کہ براہ راست برطانیہ سے لاہور کے گورنر ہاؤس میں منتقل ہوئے تھے اور اپنے آپ کو شائد ایک نمایندہ تصور کر بیٹھے، انھوں نے اس ملک کے عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے اقدامات کا آغاز کر دیا تھا لیکن ہمارے جمہوری حکمران ان کو برداشت نہ کر پائے اور وہ بالآخر واپس ولائیت جانے کے بجائے حکومت کی ایک بڑی سیاسی حریف پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ ان نئے مہمان خانوں کی خبر کے ساتھ ہی ایک اور خبر بھی شایع ہوئی ہے پاکستان میں ہر سال آلودہ پانی سے 47 ہزار بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یونیسف کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آیندہ چند سالوں میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہو گا اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے پاکستان کو سالانہ 4.3 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ عوام کو صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانی ہے یا اشرافیہ کے لیے پرتعیش مہمان خانوں کی تعمیر ضروری ہے؟
Load Next Story