قابل قدر شاعر قتیل شفائی دوسری قسط
میڈم نور جہاں کی آواز کا حسن،ماسٹر غلام حیدرکی لازوال دھنوں اورپھر قتیل شفائی کی شاعری نے ہر گیت کو یادگار بنادیا تھا۔
قتیل شفائی نے پاکستان کی پہلی فلم ''میری یاد'' میں گیت لکھنے کے بعد خود کو باقاعدہ طور پر فلمی دنیا سے منسلک کرلیا تھا۔ یہ 1953ء کا زمانہ تھا اور لاہور کے فلم اسٹوڈیوز میں دو فلموں کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک فلم کا نام تھا ''گلنار'' اور دوسری فلم تھی ''محبوبہ''۔ گلنار کے فلمساز و ہدایت کار تھے سید شوکت حسین رضوی، فلم کی کہانی مشہور مثنوی زہر عشق سے ماخوذ تھی، فلم کی ہیروئن میڈم نور جہاں تھیں اور ہیرو سنتوش کمار جب کہ فلم کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے۔ میڈم نور جہاں کی آواز کا حسن، ماسٹر غلام حیدر کی لازوال دھنوں اور پھر قتیل شفائی کی شاعری نے ہر گیت کو یادگار بنادیا تھا۔ خاص طور پر یہ گیت تھا:
بچپن کی یادگارو
میں تم کو ڈھونڈتی ہوں
تم بھی مجھے پکارو
اس کے ساتھ ہی ایک اور گیت تھا جس کی گونج سارے ہندوستان اور پاکستان میں پھیل گئی تھی اور وہ لاجواب گیت تھا:
لو چل دیے وہ ہم کو تسلی دیے بغیر
اک چاند چھپ گیا ہے اُجالا کیے بغیر
یہ فلم ریلیز ہوئی اور اس نے کھڑکی توڑ بزنس کیا تھا، مگر افسوس اس کے موسیقار غلام حیدر فلم کی ریلیز سے کچھ دن پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے اور وہ پاکستان میں اپنی فلم ''گلنار'' کو زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوتا نہ دیکھ سکے تھے۔اب میں آتا ہوں اسی زمانے کی دوسری فلم ''محبوبہ'' کی طرف، جس کے یوں تو کئی گیتوں کو مقبولیت حاصل ہوئی تھی مگر قتیل شفائی کے لکھے ہوئے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی جس کی موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے دی تھی اور گیت کے بول تھے:
محبت مسکرائی جھوم اٹھی ہر شے جوانی میں
کسی کا نام شامل ہوگیا میری کہانی میں
اس گیت کے دوسرے مصرعے نے بڑا غضب ڈھایا تھا اور محبت کرنے والوں کے دل کی پکار بن گیا تھا اس گیت میں میڈم نور جہاں کا ساتھ اس دور کے ایک نمایاں گلوکار افضل حسین نے دیا تھا۔ 1956ء میں ایک فلم حمیدہ ریلیز ہوئی تھی، یہ ایک سوشل فلم تھی جس کی کہانی بھی بڑی جاندار تھی۔ اور موسیقار صفدر حسین کی دھنیں بھی بڑی دلکش تھیں ایک درد بھرے گیت کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی جسے کوثر پروین نے گایا تھا اور جس کے بول تھے:
ہر قدم پر ستم ہر گھڑی غم پہ غم ہم کو سہنا پڑا
اب خدا بھی غریبوں کی سنتا نہیں ہم کو کہنا پڑا
انھی دنوں گلوکارہ زبیدہ خانم بھی نئی نئی منظر عام پر آئی تھی اور اس کی آواز میں بھی ایک گیت کو بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے:
مرے اشکوں کا نذرانہ دل ناشاد لایا ہے
تری دنیا نے لوٹا ہے یہی فریاد لایا ہے
اس فلم کو دیکھنے کے لیے خواتین کی تعداد بھی دیکھنے والی ہوا کرتی تھی اور اس قسم کی سوشل فلموں سے خواتین فلم بینوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا تھا۔ اب میں آتا ہوں ایک مایہ ناز اور شہرہ آفاق فلم ''انتظار'' کی طرف۔ فلم انتظار کی کہانی بھی خواجہ خورشید انور نے لکھی تھی مکالمے سید امتیاز علی تاج نے لکھے تھے فلم انتظار کا ہر گیت خورشید انور کی موسیقی کے ساتھ امر گیت کا درجہ اختیار کر گیا تھا اور مندرجہ ذیل گیتوں کی گونج برسوں تک ذہنوں کو مسحور کیے رہی بلکہ آج بھی ان گیتوں کا حسن ماند نہیں ہوا ہے اور وہ گیت تھے:
او جانے والے ٹھہرو ذرا رک جاؤ
لوٹ آؤ' لوٹ آؤ
......
جس دن سے پیا دل لے گئے دکھ دے گئے
اس دن سے گھڑی پل ہائے چین نہیں آئے
......
آ بھی جا آ بھی جا دیکھ آکر ذرا
مجھ پہ گزری ہے کیا ترے پیار میں
یہ گیت سارے برصغیر میں مشہور ہوئے تھے اور جب فلم انتظار ہندوستان میں ریلیز ہوئی تھی تو مشہور فلمی میگزین فلم فیئر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا انتظار فلم کی موسیقی اور گیت اتنے دلکش اور متاثر کن ہیں کہ ایک اندھا بھی فلم کی پوری کہانی اور ہر منظر کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھ سکتا تھا۔
یہاں میں ایک دلچسپ بات اور بیان کرتا چلوں کہ فلم کے ایک منظر میں فلم کی ہیروئن نور جہاں قبر پر جاتی ہے جو ہیروئن کے باپ کی قبر ہوتی ہے وہاں بغیر کسی ساز کے ایک شعر پڑھنا تھا وہاں صرف آواز کا استعمال تھا میڈم نور جہاں نے کہا کسی بھی ایک ساز کے بغیر میں یہ شعر کیسے دہراؤں گی تو خواجہ خورشید انور بولے ارے بھئی تمہاری آواز میں تو اللہ نے تان پورے چھیڑ رکھے ہیں تمہیں سازوں کی کیا ضرورت ہے۔
خواجہ خورشید انور کو فلم انتظار کی موسیقی پر پاکستان کا پہلا صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا اور اسی سال صدارتی ایوارڈ کا اجرا ہوا تھا۔ ایران کے شہنشاہ نے بھی فلم انتظار کی موسیقی کی تعریف کی تھی۔ اب میں آتا ہوں پاکستان کی دو اور تاریخی فلموں کی طرف جن کی کہانیوں پر پاکستان اور ہندوستان میں کئی بار فلمیں بنائی گئی ہیں ان فلموں کے نام ہیں ''عشق لیلیٰ'' اور ''انارکلی''۔ یہ 1957ء کا زمانہ تھا ''عشق لیلیٰ'' میں شاعر قتیل شفائی اور موسیقار صفدر حسین کا ملاپ ہوا تھا اور ان دونوں کی سنگت میں کئی یادگار گیتوں نے جنم لیا تھا خاص طور پر قتیل شفائی کی یہ غزل جسے گلوکارہ اقبال بانو نے گا کر امر کردیا تھا:
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ اسی غزل کو انڈیا میں جگجیت سنگھ نے اپنے البم ''شامِ غزل'' میں شامل کیا تھا اور اسے چترا سنگھ نے بھی گایا تھا۔عشق لیلیٰ کا ایک اور دلکش گیت ان دنوں بڑا مقبول ہوا تھا، جس کے بول تھے:
چاند تکے چھپ چھپ کے اونچی کھجور سے
ملنے کو آئی تھی میں تو حضور سے
اور یہ گیت صبیحہ خانم اور سنتوش کمار پر فلمایا گیا تھا۔ اسی فلم میں پنجابی فلموں کے نامور گلوکار عنایت حسین بھٹی نے بھی ایک گیت گایا تھا جس کے بول تھے:
جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے
محبت کا جنازہ جا رہا ہے
یہ وہ دور تھا جب فلمساز و ہدایتکار انور کمال پاشا، قاتل، گمنام اور سرفروش جیسی کامیاب فلمیں دے چکے تھے۔ 1958 میں ایک اور نایاب فلم ''انار کلی'' ریلیز ہوئی تھی جس کے موسیقار رشید عطرے تھے اور قتیل شفائی کے لکھے ہوئے گیت بڑے مقبول ہوئے، جیسے کہ مندرجہ ذیل یہ گیت:
صدا ہوں اپنے پیار کی ' جہاں سے بے نیاز ہوں
کسی پہ جو نہ کھل سکے وہ زندگی کا راز ہوں
......
پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے
ایک اور خوبصورت فلم میری یادوں سے ٹکرا رہی ہے، جس کا نام تھا ''محبوبہ''۔ اس فلم کی موسیقی بھی رشید عطرے نے دی تھی، اس گیت کو بھی ملکہ ترنم نور جہاں نے بڑے رچاؤ کے ساتھ گایا تھا، جس کے بول تھے:
نگاہیں ملا کر بدل جانے والے
مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے
یہ دنیا بڑی سنگدل ہے یہاں پر
کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے
اس انداز سے ملتا جلتا قتیل شفائی نے فلم ''عشق پر زور نہیں ہے'' کے لیے لکھا تھا جو محبت کرنے والوں کے درمیان ایک تلخ حقیقت کی غمازی کرتا تھا اس گیت کے بول تھے:
دل دیتا ہے رو رو دہائی
کسی سے کوئی پیار نہ کرے
اس گیت کو نئی نئی منظر عام پر آنے والی گلوکارہ مالا نے گایا تھا، اس گیت کی ابتدا ایک الاپ سے تھی اور یہ الاپ سائیں اختر کی آواز میں تھا جس نے گیت کے حسن کو اور بڑھا دیا تھا۔ یہ گیت اداکارہ یاسمین پر عکس بند کیا گیا تھا اور گلوکارہ مالا اس گیت کے بعد شہرت سے مالا مال ہوگئی تھی۔ اسی انداز اور تلخیٔ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے قتیل شفائی کے لکھے ہوئے فلم کے اک تیرا سہارا کے لیے نسیم بیگم اور سلیم رضا نے ایک ڈوئیٹ کی صورت میں گایا تھا، موسیقار تھے ماسٹر عنایت حسین، گیت کے بول تھے:
اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں
جس نے بھلا دیا تجھے اس کا ہے انتظار کیوں
اس فلم کے پروڈیوسر آغا جی اے گل اور ہدایت کار شمیم آرا کی پہلی فلم کنواری بیوہ والے ہدایت کار نجم نقوی تھے اور یہ گیت شمیم آرا اور درپن پر پکچرائز کیا گیا تھا۔ اداکارہ شمیم آرا کی بات جب نکلی ہے تو مجھے شمیم آرا کی ایک شہرہ آفاق فلم فرنگی کی یاد آگئی ہے جس کے ہدایت کار خلیل قیصر اور موسیقار رشید عطرے تھے اور نسیم بیگم کی آواز میں قتیل شفائی کے دو گیتوں نے بڑی دھوم مچائی تھی اور وہ گیت تھے:
آجا بھی دلدارا آ بھی جا دلدارا
......
آئے گا اکبر خاناں کہ دوں گی دلبر جانا پخیر راغلے
(جاری ہے)
بچپن کی یادگارو
میں تم کو ڈھونڈتی ہوں
تم بھی مجھے پکارو
اس کے ساتھ ہی ایک اور گیت تھا جس کی گونج سارے ہندوستان اور پاکستان میں پھیل گئی تھی اور وہ لاجواب گیت تھا:
لو چل دیے وہ ہم کو تسلی دیے بغیر
اک چاند چھپ گیا ہے اُجالا کیے بغیر
یہ فلم ریلیز ہوئی اور اس نے کھڑکی توڑ بزنس کیا تھا، مگر افسوس اس کے موسیقار غلام حیدر فلم کی ریلیز سے کچھ دن پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے اور وہ پاکستان میں اپنی فلم ''گلنار'' کو زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوتا نہ دیکھ سکے تھے۔اب میں آتا ہوں اسی زمانے کی دوسری فلم ''محبوبہ'' کی طرف، جس کے یوں تو کئی گیتوں کو مقبولیت حاصل ہوئی تھی مگر قتیل شفائی کے لکھے ہوئے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی جس کی موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے دی تھی اور گیت کے بول تھے:
محبت مسکرائی جھوم اٹھی ہر شے جوانی میں
کسی کا نام شامل ہوگیا میری کہانی میں
اس گیت کے دوسرے مصرعے نے بڑا غضب ڈھایا تھا اور محبت کرنے والوں کے دل کی پکار بن گیا تھا اس گیت میں میڈم نور جہاں کا ساتھ اس دور کے ایک نمایاں گلوکار افضل حسین نے دیا تھا۔ 1956ء میں ایک فلم حمیدہ ریلیز ہوئی تھی، یہ ایک سوشل فلم تھی جس کی کہانی بھی بڑی جاندار تھی۔ اور موسیقار صفدر حسین کی دھنیں بھی بڑی دلکش تھیں ایک درد بھرے گیت کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی جسے کوثر پروین نے گایا تھا اور جس کے بول تھے:
ہر قدم پر ستم ہر گھڑی غم پہ غم ہم کو سہنا پڑا
اب خدا بھی غریبوں کی سنتا نہیں ہم کو کہنا پڑا
انھی دنوں گلوکارہ زبیدہ خانم بھی نئی نئی منظر عام پر آئی تھی اور اس کی آواز میں بھی ایک گیت کو بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے:
مرے اشکوں کا نذرانہ دل ناشاد لایا ہے
تری دنیا نے لوٹا ہے یہی فریاد لایا ہے
اس فلم کو دیکھنے کے لیے خواتین کی تعداد بھی دیکھنے والی ہوا کرتی تھی اور اس قسم کی سوشل فلموں سے خواتین فلم بینوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا تھا۔ اب میں آتا ہوں ایک مایہ ناز اور شہرہ آفاق فلم ''انتظار'' کی طرف۔ فلم انتظار کی کہانی بھی خواجہ خورشید انور نے لکھی تھی مکالمے سید امتیاز علی تاج نے لکھے تھے فلم انتظار کا ہر گیت خورشید انور کی موسیقی کے ساتھ امر گیت کا درجہ اختیار کر گیا تھا اور مندرجہ ذیل گیتوں کی گونج برسوں تک ذہنوں کو مسحور کیے رہی بلکہ آج بھی ان گیتوں کا حسن ماند نہیں ہوا ہے اور وہ گیت تھے:
او جانے والے ٹھہرو ذرا رک جاؤ
لوٹ آؤ' لوٹ آؤ
......
جس دن سے پیا دل لے گئے دکھ دے گئے
اس دن سے گھڑی پل ہائے چین نہیں آئے
......
آ بھی جا آ بھی جا دیکھ آکر ذرا
مجھ پہ گزری ہے کیا ترے پیار میں
یہ گیت سارے برصغیر میں مشہور ہوئے تھے اور جب فلم انتظار ہندوستان میں ریلیز ہوئی تھی تو مشہور فلمی میگزین فلم فیئر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا انتظار فلم کی موسیقی اور گیت اتنے دلکش اور متاثر کن ہیں کہ ایک اندھا بھی فلم کی پوری کہانی اور ہر منظر کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھ سکتا تھا۔
یہاں میں ایک دلچسپ بات اور بیان کرتا چلوں کہ فلم کے ایک منظر میں فلم کی ہیروئن نور جہاں قبر پر جاتی ہے جو ہیروئن کے باپ کی قبر ہوتی ہے وہاں بغیر کسی ساز کے ایک شعر پڑھنا تھا وہاں صرف آواز کا استعمال تھا میڈم نور جہاں نے کہا کسی بھی ایک ساز کے بغیر میں یہ شعر کیسے دہراؤں گی تو خواجہ خورشید انور بولے ارے بھئی تمہاری آواز میں تو اللہ نے تان پورے چھیڑ رکھے ہیں تمہیں سازوں کی کیا ضرورت ہے۔
خواجہ خورشید انور کو فلم انتظار کی موسیقی پر پاکستان کا پہلا صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا اور اسی سال صدارتی ایوارڈ کا اجرا ہوا تھا۔ ایران کے شہنشاہ نے بھی فلم انتظار کی موسیقی کی تعریف کی تھی۔ اب میں آتا ہوں پاکستان کی دو اور تاریخی فلموں کی طرف جن کی کہانیوں پر پاکستان اور ہندوستان میں کئی بار فلمیں بنائی گئی ہیں ان فلموں کے نام ہیں ''عشق لیلیٰ'' اور ''انارکلی''۔ یہ 1957ء کا زمانہ تھا ''عشق لیلیٰ'' میں شاعر قتیل شفائی اور موسیقار صفدر حسین کا ملاپ ہوا تھا اور ان دونوں کی سنگت میں کئی یادگار گیتوں نے جنم لیا تھا خاص طور پر قتیل شفائی کی یہ غزل جسے گلوکارہ اقبال بانو نے گا کر امر کردیا تھا:
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ اسی غزل کو انڈیا میں جگجیت سنگھ نے اپنے البم ''شامِ غزل'' میں شامل کیا تھا اور اسے چترا سنگھ نے بھی گایا تھا۔عشق لیلیٰ کا ایک اور دلکش گیت ان دنوں بڑا مقبول ہوا تھا، جس کے بول تھے:
چاند تکے چھپ چھپ کے اونچی کھجور سے
ملنے کو آئی تھی میں تو حضور سے
اور یہ گیت صبیحہ خانم اور سنتوش کمار پر فلمایا گیا تھا۔ اسی فلم میں پنجابی فلموں کے نامور گلوکار عنایت حسین بھٹی نے بھی ایک گیت گایا تھا جس کے بول تھے:
جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے
محبت کا جنازہ جا رہا ہے
یہ وہ دور تھا جب فلمساز و ہدایتکار انور کمال پاشا، قاتل، گمنام اور سرفروش جیسی کامیاب فلمیں دے چکے تھے۔ 1958 میں ایک اور نایاب فلم ''انار کلی'' ریلیز ہوئی تھی جس کے موسیقار رشید عطرے تھے اور قتیل شفائی کے لکھے ہوئے گیت بڑے مقبول ہوئے، جیسے کہ مندرجہ ذیل یہ گیت:
صدا ہوں اپنے پیار کی ' جہاں سے بے نیاز ہوں
کسی پہ جو نہ کھل سکے وہ زندگی کا راز ہوں
......
پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے
ایک اور خوبصورت فلم میری یادوں سے ٹکرا رہی ہے، جس کا نام تھا ''محبوبہ''۔ اس فلم کی موسیقی بھی رشید عطرے نے دی تھی، اس گیت کو بھی ملکہ ترنم نور جہاں نے بڑے رچاؤ کے ساتھ گایا تھا، جس کے بول تھے:
نگاہیں ملا کر بدل جانے والے
مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے
یہ دنیا بڑی سنگدل ہے یہاں پر
کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے
اس انداز سے ملتا جلتا قتیل شفائی نے فلم ''عشق پر زور نہیں ہے'' کے لیے لکھا تھا جو محبت کرنے والوں کے درمیان ایک تلخ حقیقت کی غمازی کرتا تھا اس گیت کے بول تھے:
دل دیتا ہے رو رو دہائی
کسی سے کوئی پیار نہ کرے
اس گیت کو نئی نئی منظر عام پر آنے والی گلوکارہ مالا نے گایا تھا، اس گیت کی ابتدا ایک الاپ سے تھی اور یہ الاپ سائیں اختر کی آواز میں تھا جس نے گیت کے حسن کو اور بڑھا دیا تھا۔ یہ گیت اداکارہ یاسمین پر عکس بند کیا گیا تھا اور گلوکارہ مالا اس گیت کے بعد شہرت سے مالا مال ہوگئی تھی۔ اسی انداز اور تلخیٔ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے قتیل شفائی کے لکھے ہوئے فلم کے اک تیرا سہارا کے لیے نسیم بیگم اور سلیم رضا نے ایک ڈوئیٹ کی صورت میں گایا تھا، موسیقار تھے ماسٹر عنایت حسین، گیت کے بول تھے:
اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں
جس نے بھلا دیا تجھے اس کا ہے انتظار کیوں
اس فلم کے پروڈیوسر آغا جی اے گل اور ہدایت کار شمیم آرا کی پہلی فلم کنواری بیوہ والے ہدایت کار نجم نقوی تھے اور یہ گیت شمیم آرا اور درپن پر پکچرائز کیا گیا تھا۔ اداکارہ شمیم آرا کی بات جب نکلی ہے تو مجھے شمیم آرا کی ایک شہرہ آفاق فلم فرنگی کی یاد آگئی ہے جس کے ہدایت کار خلیل قیصر اور موسیقار رشید عطرے تھے اور نسیم بیگم کی آواز میں قتیل شفائی کے دو گیتوں نے بڑی دھوم مچائی تھی اور وہ گیت تھے:
آجا بھی دلدارا آ بھی جا دلدارا
......
آئے گا اکبر خاناں کہ دوں گی دلبر جانا پخیر راغلے
(جاری ہے)