خیالات کی گواہی
خیالات کی گواہی بھی بڑا کام کرتی ہے خواہ وہ خیالات نماز میں آئے ہوئے ہوں یا کوئی دوسرا کام کرتے ہوئے۔
مدعی سست گواہ چست کا مقولہ آپ نے بھی یقیناً سن رکھا ہوگا ، اس حوالے سے جو بہت سے قصے مشہور ہیں، ان میں سے ایک کے مطابق کسی عدالت میں نقب زنی وچوری کا ایک مقدمہ زیرسماعت تھا، پولیس کے پیش کردہ چالان میں جو ملزمان نامزد کیے گئے تھے، ان کے خلاف کوئی گواہ موجود نہیں تھا۔
یہ سقم ملزمان پر فرد جرم عائد کیے جانے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا اور وکلائے صفائی اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی سرتوڑکوشش کررہے تھے، قریب تھا کہ عدالت گواہوں کی عدم موجودگی کو عدم ثبوت قرار دے کر مقدمہ خارج کردیتی جس کے نتیجے میں ملزمان رہا ہو جاتے، پہلے دن سے عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے آنے والا ایک شخص جوکمرہ عدالت میں پچھلی بینچوں پر بیٹھا تھا، اچانک اچھل کر کھڑا ہوا اور جج کو مخاطب کرکے چیخا انھیں مت چھوڑیے گا جج صاحب، میں قسم کھا کے کہتا ہوں انھوں نے ہی چوری کی تھی۔
ایک غیر متعلقہ شخص کو عدالتی کارروائی میں مخل ہوتا دیکھ کر جج نے سامنے رکھا ہوا لکڑی کا روایتی ہتھوڑا میز پر برساتے ہوئے تین بار آرڈر آرڈر کہا اور اس شخص کو بیٹھ جانے کا حکم دیا مگر وہ باز نہ آیا اور بدستور چیختا چلاتا رہا کہ ملزمان ہی چور ہیں اور وہ ان کا چور ہونا ثابت کرسکتا ہے وغیرہ۔ جج کو مجبور ہوکر اسے کٹہرے میں آکر ثبوت پیش کرنے کے لیے کہنا پڑا۔
وہ آیا، حلف اٹھایا کہ جو کچھ کہے گا سچ کہے گا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہے گا، پھر اس نے جو کچھ کہا اس کے بعد مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش ہی نہ رہی، اس کے بیان نے مقدمے کا رخ ہی بدل دیا اور پولیس چالان میں کسی ثبوت اور گواہ کی عدم موجودگی کے باوجود ملزمان کا بچ نکلنا ناممکن ہوگیا۔
اس کا پیش کردہ سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ وہ خود بھی ملزمان کا ساتھی تھا، واردات بھی ان کے ساتھ ملکرکی تھی جس کے بعد چوری کے مال کی تقسیم پر اس کا اپنے ان ساتھیوں سے جھگڑا ہوا اور وہ ان سے الگ ہوگیا۔ وکلائے صفائی کے اٹھائے ہوئے اعتراضات اور قانونی نکات کے باوجود جج کے لیے اس کے اعترافی بیان کی صورت میں ملزمان کے خلاف اتنا بڑا ثبوت نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا اور مقدمہ خارج کرکے رہا کرنے کے بجائے اس نے انھیں جیل بھیج دیا۔
مندرجہ بالا عدالتی کارروائی مقولے کے عین مصداق تھی کہ پولیس کی صورت میں مدعی کے سست ہونے کے باوجود گواہ کی چستی نے کایا پلٹ دی اور ایک کمزور اور بے جان مقدمہ چوروں کوکیفرکردار تک پہنچانے کا ذریعہ بن گیا۔ ایسی ہی ایک دوسری مضبوط گواہی کا قصہ ہماری مسجد کے امام صاحب نے اپنے جمعے کے بیان میں سنایا تھا جس کے مطابق خیالات کی مضبوط گواہی پر سب کو نماز دہرانی پڑی تھی۔ ان کے بقول کوئی مولوی صاحب چار رکعت فرض نماز پڑھا رہے تھے۔ ان کے سلام پھیرتے ہی مسجد میدان کار زار بن گئی، شور شرابے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ، نمازی دو گروپوں میں بٹ گئے، ایک کا کہنا تھا کہ مولوی صاحب نے چار کے بجائے تین رکعت نماز پڑھائی ہے جب کہ دوسرا گروپ بضد تھا کہ چار رکعت نماز ہی پڑھی گئی ہے اور اعتراض کرنے والے غلط کہتے ہیں۔
آخر طے پایا کہ اس تنازعے کا فیصلہ مسجد کے وہ مستقل نمازی کریں گے جو پانچوں وقت پابندی سے نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ وہ صاحب پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے اور نیک نمازی مشہور تھے ، جب سب انھیں امین بنانے اور فیصلہ کرنے کا اختیار دینے پر راضی ہوگئے توموصوف نے محض چند لمحوں میں معاملہ نمٹا دیا اور فیصلہ سنایا کہ مولوی صاحب نے چار رکعت نماز پوری پڑھانے کے بجائے تین رکعت پڑھاکر سلام پھیر دیا تھا لہذا نماز لوٹانی پڑے گی۔
مخالف گروپ نے ثبوت مانگا تو انھوں نے بلا تامل ناقابل تردید مضبوط ثبوت پیش کردیا اور فرمایا ان کی چار دکانیں ہیں جن کا حساب وہ ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار رکعت والی با جماعت نمازوں میں فی رکعت ایک دکان کے تناسب سے کرتے ہیں، آج بھی حسب معمول وہ اپنی دکانوں کا حساب کر رہے تھے اور ابھی تیسری دکان کا حساب ہی کر پائے تھے کہ مولوی صاحب نے سلام پھیر دیا۔ ظاہر ہے ایک نیک نمازی تاجر کی اتنی مضبوط گواہی کو آسانی سے جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا سو ان کی دلیل تسلیم کرلی گئی اور مولوی صاحب نے نماز دہرا کر جان چھڑائی۔
سو جناب خیالات کی گواہی بھی بڑا کام کرتی ہے خواہ وہ خیالات نماز میں آئے ہوئے ہوں یا کوئی دوسرا کام کرتے ہوئے۔ امام صاحب کے بیان کا موضوع بھی خیالات کی اہمیت ہی تھا، ان کے بقول خیالات دو قسم کے ہوتے ہیں، خیالات کا آنا قابل مواخذہ نہیں البتہ خود سے خیالات لانا صحیح نہیں ہے۔
خیالات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، فرض کریں نماز ادا کرتے ہوئے اگر آپ کوکسی کی مدد کرنے یا کوئی دوسرا نیک کام کرنے کا خیال آتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ اچھا خیال ہے البتہ اگرکوئی برا خیال آئے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ شیطان کی طرف سے ڈالا گیا ہے۔
جس کا مقصد آپ کی نماز خراب کرنا یا آپ کو کسی بھی نیک کام سے باز رکھنا ہوتا ہے۔ باقی جو خیالات یا وسوسے دل میں آتے ہیں ان پر اس لیے کوئی پکڑ نہیں ہوگی کہ وہ انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتے ، وہ خیالات کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں قابل مواخذہ نہیں، صرف انھیں زبان پر نہ لانے کی احتیاط کی جانی چاہیے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بارکسی صحابی نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ انھیں دوران نماز اتنے برے برے خیالات آتے ہیں کہ وہ انھیں زبان پر لانے سے جل کر راکھ ہوجانا پسند کریں گے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا کہ یہ برے خیالات تمہارے دل میں ایمان کی موجودگی کا ثبوت ہیں۔ چور وہیں چوری کرنے جاتا ہے جہاں سے اسے کچھ ہاتھ لگنے کی امید ہوتی ہے، شیطان تمہارے دل میں بھی برے برے خیالات اور وسوسے اس لیے ڈالتا ہے کہ وہ تمہارا ایمان خراب کرے، لہذا ان کی فکر مت کرو اور نماز کا فرض دلجمعی سے ادا کرتے رہو۔
یہ ارشاد گرامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بقول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبروں میں واحد پیغمبر ہیں جو ہر زمانہ اور ہر قسم کے حالات میں تقلید واقتداء کے لائق ہیں، جن کی زندگی میں ایک غریب اور ایک دولت مند کو، ایک کمزور اور ایک طاقتورکو، ایک تاجر اور ایک حاکم کو، ایک بھائی، ایک باپ کو، ایک بیٹے اورایک شوہرکو، ایک معاہدہ کرنے والے اور ایک برسر جنگ آدمی کو، ایک مسرور اور ایک غمگین کو، ایک بیمار اور ایک تندرست کو، ایک جوان اور ایک بوڑھے کومستقل ہدایات اور عملی نمونے حاصل ہوسکتے ہیں ۔
پھر پیغمبروں کی صف میں تنہا وہ پیغمبر ہیں جن کی پوری زندگی کے واقعات، خلوت وجلوت کے حالات اور روحانی،جسمانی، اخلاقی اور مزاجی کیفیات پوری تفصیل اور پوری تاریخی صحت کے ساتھ محفوظ ہیں اور ہر شخص ان سے استفادہ کرسکتا ہے ۔ ان کے ساتھ ان کے ساتھیوں کی بھی تاریخ موجود ہے ، جنہوں نے زندگی کے مختلف حالات، حکومت، دولت و قوت کے امتحانات اور ان کی تعلیمات میں خود کو کامیاب ثابت کیا۔
ان کی شریعت میں وہ اصول و کلیات اور زندگی کے وہ حدود و قوانین ہیں جن پر ہر بدلے ہوئے زمانہ اور دنیا کے ہر مقام میں صالح تمدن، فاضل معاشرہ اور عادل سیاست کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور انسانی صلاحیتوں کو نشونما اورترقی حاصل کرنے کا پورا موقع مل سکتا ہے اور جن کی روشنی میں یہ پوری دنیا اپنے کمالِ مطلوب کی طرف مجموعی حرکت کرسکتی ہے ۔سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی اس کی تائید میں فرمایا تھا کہ اگر دلوں میں قفل نہ چڑھا لیا گیا ہوتا تو انبیائے علیہم السلام کی بات سمجھنا اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانا لوگوں کے لیے اس قدر مشکل نہ ہوجاتا۔
یہ سقم ملزمان پر فرد جرم عائد کیے جانے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا اور وکلائے صفائی اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی سرتوڑکوشش کررہے تھے، قریب تھا کہ عدالت گواہوں کی عدم موجودگی کو عدم ثبوت قرار دے کر مقدمہ خارج کردیتی جس کے نتیجے میں ملزمان رہا ہو جاتے، پہلے دن سے عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے آنے والا ایک شخص جوکمرہ عدالت میں پچھلی بینچوں پر بیٹھا تھا، اچانک اچھل کر کھڑا ہوا اور جج کو مخاطب کرکے چیخا انھیں مت چھوڑیے گا جج صاحب، میں قسم کھا کے کہتا ہوں انھوں نے ہی چوری کی تھی۔
ایک غیر متعلقہ شخص کو عدالتی کارروائی میں مخل ہوتا دیکھ کر جج نے سامنے رکھا ہوا لکڑی کا روایتی ہتھوڑا میز پر برساتے ہوئے تین بار آرڈر آرڈر کہا اور اس شخص کو بیٹھ جانے کا حکم دیا مگر وہ باز نہ آیا اور بدستور چیختا چلاتا رہا کہ ملزمان ہی چور ہیں اور وہ ان کا چور ہونا ثابت کرسکتا ہے وغیرہ۔ جج کو مجبور ہوکر اسے کٹہرے میں آکر ثبوت پیش کرنے کے لیے کہنا پڑا۔
وہ آیا، حلف اٹھایا کہ جو کچھ کہے گا سچ کہے گا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہے گا، پھر اس نے جو کچھ کہا اس کے بعد مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش ہی نہ رہی، اس کے بیان نے مقدمے کا رخ ہی بدل دیا اور پولیس چالان میں کسی ثبوت اور گواہ کی عدم موجودگی کے باوجود ملزمان کا بچ نکلنا ناممکن ہوگیا۔
اس کا پیش کردہ سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ وہ خود بھی ملزمان کا ساتھی تھا، واردات بھی ان کے ساتھ ملکرکی تھی جس کے بعد چوری کے مال کی تقسیم پر اس کا اپنے ان ساتھیوں سے جھگڑا ہوا اور وہ ان سے الگ ہوگیا۔ وکلائے صفائی کے اٹھائے ہوئے اعتراضات اور قانونی نکات کے باوجود جج کے لیے اس کے اعترافی بیان کی صورت میں ملزمان کے خلاف اتنا بڑا ثبوت نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا اور مقدمہ خارج کرکے رہا کرنے کے بجائے اس نے انھیں جیل بھیج دیا۔
مندرجہ بالا عدالتی کارروائی مقولے کے عین مصداق تھی کہ پولیس کی صورت میں مدعی کے سست ہونے کے باوجود گواہ کی چستی نے کایا پلٹ دی اور ایک کمزور اور بے جان مقدمہ چوروں کوکیفرکردار تک پہنچانے کا ذریعہ بن گیا۔ ایسی ہی ایک دوسری مضبوط گواہی کا قصہ ہماری مسجد کے امام صاحب نے اپنے جمعے کے بیان میں سنایا تھا جس کے مطابق خیالات کی مضبوط گواہی پر سب کو نماز دہرانی پڑی تھی۔ ان کے بقول کوئی مولوی صاحب چار رکعت فرض نماز پڑھا رہے تھے۔ ان کے سلام پھیرتے ہی مسجد میدان کار زار بن گئی، شور شرابے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ، نمازی دو گروپوں میں بٹ گئے، ایک کا کہنا تھا کہ مولوی صاحب نے چار کے بجائے تین رکعت نماز پڑھائی ہے جب کہ دوسرا گروپ بضد تھا کہ چار رکعت نماز ہی پڑھی گئی ہے اور اعتراض کرنے والے غلط کہتے ہیں۔
آخر طے پایا کہ اس تنازعے کا فیصلہ مسجد کے وہ مستقل نمازی کریں گے جو پانچوں وقت پابندی سے نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ وہ صاحب پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے اور نیک نمازی مشہور تھے ، جب سب انھیں امین بنانے اور فیصلہ کرنے کا اختیار دینے پر راضی ہوگئے توموصوف نے محض چند لمحوں میں معاملہ نمٹا دیا اور فیصلہ سنایا کہ مولوی صاحب نے چار رکعت نماز پوری پڑھانے کے بجائے تین رکعت پڑھاکر سلام پھیر دیا تھا لہذا نماز لوٹانی پڑے گی۔
مخالف گروپ نے ثبوت مانگا تو انھوں نے بلا تامل ناقابل تردید مضبوط ثبوت پیش کردیا اور فرمایا ان کی چار دکانیں ہیں جن کا حساب وہ ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار رکعت والی با جماعت نمازوں میں فی رکعت ایک دکان کے تناسب سے کرتے ہیں، آج بھی حسب معمول وہ اپنی دکانوں کا حساب کر رہے تھے اور ابھی تیسری دکان کا حساب ہی کر پائے تھے کہ مولوی صاحب نے سلام پھیر دیا۔ ظاہر ہے ایک نیک نمازی تاجر کی اتنی مضبوط گواہی کو آسانی سے جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا سو ان کی دلیل تسلیم کرلی گئی اور مولوی صاحب نے نماز دہرا کر جان چھڑائی۔
سو جناب خیالات کی گواہی بھی بڑا کام کرتی ہے خواہ وہ خیالات نماز میں آئے ہوئے ہوں یا کوئی دوسرا کام کرتے ہوئے۔ امام صاحب کے بیان کا موضوع بھی خیالات کی اہمیت ہی تھا، ان کے بقول خیالات دو قسم کے ہوتے ہیں، خیالات کا آنا قابل مواخذہ نہیں البتہ خود سے خیالات لانا صحیح نہیں ہے۔
خیالات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، فرض کریں نماز ادا کرتے ہوئے اگر آپ کوکسی کی مدد کرنے یا کوئی دوسرا نیک کام کرنے کا خیال آتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ اچھا خیال ہے البتہ اگرکوئی برا خیال آئے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ شیطان کی طرف سے ڈالا گیا ہے۔
جس کا مقصد آپ کی نماز خراب کرنا یا آپ کو کسی بھی نیک کام سے باز رکھنا ہوتا ہے۔ باقی جو خیالات یا وسوسے دل میں آتے ہیں ان پر اس لیے کوئی پکڑ نہیں ہوگی کہ وہ انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتے ، وہ خیالات کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں قابل مواخذہ نہیں، صرف انھیں زبان پر نہ لانے کی احتیاط کی جانی چاہیے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بارکسی صحابی نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ انھیں دوران نماز اتنے برے برے خیالات آتے ہیں کہ وہ انھیں زبان پر لانے سے جل کر راکھ ہوجانا پسند کریں گے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا کہ یہ برے خیالات تمہارے دل میں ایمان کی موجودگی کا ثبوت ہیں۔ چور وہیں چوری کرنے جاتا ہے جہاں سے اسے کچھ ہاتھ لگنے کی امید ہوتی ہے، شیطان تمہارے دل میں بھی برے برے خیالات اور وسوسے اس لیے ڈالتا ہے کہ وہ تمہارا ایمان خراب کرے، لہذا ان کی فکر مت کرو اور نماز کا فرض دلجمعی سے ادا کرتے رہو۔
یہ ارشاد گرامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بقول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبروں میں واحد پیغمبر ہیں جو ہر زمانہ اور ہر قسم کے حالات میں تقلید واقتداء کے لائق ہیں، جن کی زندگی میں ایک غریب اور ایک دولت مند کو، ایک کمزور اور ایک طاقتورکو، ایک تاجر اور ایک حاکم کو، ایک بھائی، ایک باپ کو، ایک بیٹے اورایک شوہرکو، ایک معاہدہ کرنے والے اور ایک برسر جنگ آدمی کو، ایک مسرور اور ایک غمگین کو، ایک بیمار اور ایک تندرست کو، ایک جوان اور ایک بوڑھے کومستقل ہدایات اور عملی نمونے حاصل ہوسکتے ہیں ۔
پھر پیغمبروں کی صف میں تنہا وہ پیغمبر ہیں جن کی پوری زندگی کے واقعات، خلوت وجلوت کے حالات اور روحانی،جسمانی، اخلاقی اور مزاجی کیفیات پوری تفصیل اور پوری تاریخی صحت کے ساتھ محفوظ ہیں اور ہر شخص ان سے استفادہ کرسکتا ہے ۔ ان کے ساتھ ان کے ساتھیوں کی بھی تاریخ موجود ہے ، جنہوں نے زندگی کے مختلف حالات، حکومت، دولت و قوت کے امتحانات اور ان کی تعلیمات میں خود کو کامیاب ثابت کیا۔
ان کی شریعت میں وہ اصول و کلیات اور زندگی کے وہ حدود و قوانین ہیں جن پر ہر بدلے ہوئے زمانہ اور دنیا کے ہر مقام میں صالح تمدن، فاضل معاشرہ اور عادل سیاست کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور انسانی صلاحیتوں کو نشونما اورترقی حاصل کرنے کا پورا موقع مل سکتا ہے اور جن کی روشنی میں یہ پوری دنیا اپنے کمالِ مطلوب کی طرف مجموعی حرکت کرسکتی ہے ۔سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی اس کی تائید میں فرمایا تھا کہ اگر دلوں میں قفل نہ چڑھا لیا گیا ہوتا تو انبیائے علیہم السلام کی بات سمجھنا اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانا لوگوں کے لیے اس قدر مشکل نہ ہوجاتا۔