حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ایک مثالی شوہر
قرآن مجید نے کہا: ’’بے شک تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی قابل تقلید نمونہ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو انسان کامل بنایا ۔ آپؐ کی زندگی کا ہر گوشہ اور آپؐ کے کردار کا ہر رخ مسلمانوں کے لیے نمونہ اور اسوۂ کامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو انسانوں میں پیدا کیا اور انسانوں کی طرح پیدا کیا اور آپؐ نے عام انسانوں کی طرح ہی اپنی پوری زندگی گزاری۔ آپؐ بیٹے بھی تھے اور باپ بھی ، شوہر بھی تھے اور بھائی بھی۔ عمر میں چھوٹے بھی تھے اور بزرگ بھی۔ آپؐ نے تجارت بھی کی اور فوجیں بھی لڑائیں، محنت کشی بھی کی اور حکم رانی بھی ۔ آپ ہر حیثیت سے شاہ راہ حیات پر ایسے نقوش قدم چھوڑ گئے جو قیام قیامت تک لوگوں کے لیے نمونہ بنے رہیں گے۔
قرآن مجید نے کہا: ''بے شک تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی قابل تقلید نمونہ ہے۔''
چناںچہ ایک شوہر اور رفیق حیات کی حیثیت سے حضور اکرمؐ کا جو کردار ہے، وہ ہر شوہر کے لیے نمونہ ہے۔ اس حوالے سے آپؐ نے چند احکامات ارشاد فرمائے، ملاحظہ فرمائیں۔
حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ''تم میں سے بھلا آدمی وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بھلا ہو۔'' (ترمذی ، دارمی، ابن ماجہ)
ایک مقام پر فرمایا: ''تم میں سب سے بھلے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے بھلے ہوں۔'' (ترمذی)
ایک بار ایک صحابی کو جو زہد و عبادت کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کی وجہ سے اپنی اہلیہ سے غافل رہتے تھے، بلوایا اور فرمایا: ''اور تمہاری رفیقہ حیات کا بھی تم پر حق ہے۔'' (بخاری شریف)
بیوی کے حق کی وضاحت ایک اور موقع پر ایک سوال کے جواب میں یوں فرمائی کہ ''بیوی کا حق شوہر پر یہ ہے کہ جب خود کھائے تو اس کو کھلائے ، جب خود پہنے تو اس کو بھی پہنائے، نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے، نہ اس کو بُرا بھلا کہے، نہ گھر کے علاوہ (سزا کے لیے) اس کو علیحدہ کرے۔'' (ابن ماجہ)
اختصار کے خیال سے میں نے یہ چند ارشادات نبویؐ نقل کیے ہیں، ورنہ بیویوں کے حقوق کے سلسلے میں آپؐ کے احکام و ہدایات بکثرت ہیں۔
ایک شوہر کی حیثیت سے حضور اکرمؐ کیسے تھے، اس کا جواب عرض کرنے سے پہلے ہم یہ سوچتے چلیں کہ ایک شوہر کے لیے عمومی شرائط کیا ہونی چاہیں؟
۱۔ بیوی کے لیے محبت کا پیکر ہو
۲۔ اس کی ضروریات اور خواہشات کا حتی الامکان پورا پورا خیال رکھے۔
۳۔ جہاں تک اس کے اصول اجازت دیں، بیوی کی ان فرمائشوں اور خواہشوں کی تکمیل میں سعی کرے، جو چاہے خود اس کے مزاج کے خلاف ہوں۔
۴۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاںہوں تو اپنی محبت، وقت، مال اور توجہات کی ان میں ٹھیک ٹھیک اور عادلانہ تقسیم کرے۔
اب ان شرائط کی روشنی میں شوہر کا مثالی کردار ملاحظہ ہو۔ جہاں تک شرط اول یعنی محبت کا پیکر ہونے کا تعلق ہے اس کے لیے تو کچھ سوچنا ہی تحصیل لاحاصل ہے، کیوںکہ وہ پاک ہستیؐ سراپا محبت تھی، محبت کیش تھی، جس کا پیغام محبت کا پیغام تھا، جس کا مشن محبت کا مشن تھا، جس نے محبت اور صرف محبت ہی کے زور پر پوری دنیا کو فتح کیا تھا۔ جسے دوستوں ہی سے نہیں دشمنوں سے بھی محبت تھی۔ ایسے محبت کیش کی محبت کوشیوں کا کیا ٹھکانہ ہو گا اور وہ بھی اپنی ازواج مطہرات کے لیے۔
آپؐ نے چھٹی صدی کے عرب معاشرے میں عورت سے جیسی محبت کر کے دکھائی اور کرنا سکھائی اس کا اندازہ کرنے کے لیے سیدنا عمر فاروقؓ کا یہ قول سنیئے۔ ''ہم لوگ اسلام سے قبل عورتوں کو کچھ نہیں سمجھتے تھے، اسلام نے عورتوں کے لیے احکام نافذ کیے اور ان کے حقوق مقرر کیے۔''
یہ تو سیدنا عمر فاروقؓ تھے، اس سے بھی دل چسپ بات خود حضور اکرمؓ کی ملاحظہ ہو۔ عورتوں کے حقوق کے اس داعی اعظم نے اپنی ہر رفیقہ حیات کو عملاً بہت آزادی دے رکھی تھی اور بہت زیادہ حقوق عطا فرما رکھے تھے۔ ایک بار نبی اکرمؐ اپنی زوجۂ حیات سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مصروف کلام تھے۔ کسی خانگی اور نجی مسئلے پر گفتگو تھی، بات ذرا بڑھ گئی، جذبات ذرا تلخ ہو گئے۔ سرکار دو عالمؐ ایک طرف حلیم تھے دوسری طرف عملاً مساوات کی تربیت کرنی تھی اس لیے طرفین میں سے حضرت عائشہؓ ہی کے الفاظ میں ترشی تھی اور لہجہ بھی بلند تھا۔ میاں بیوی میں یہ کارزار گرم تھا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ آنکلے۔
وہ ادھر سرکار مدینہؐ کے جان نثار تھے تو ادھر حبیبہ رسولؐ کے پدر بزرگوار بھی تھے۔ گویا دو چند ذمے داری حضرت صدیق اکبرؓ نے محسوس کی۔ باپ اپنی بیٹی کی سرزنش کے لیے آگے بڑھا اور جوش میں گرجا۔ ''عائشہ! تو رسول اللہ ﷺ کے سامنے آواز اونچی کرتی ہے!'' اور ہاتھ بھی بلند کر دیا مگر بیٹی اپنے غضب ناک باپ کی سرزنش سے صاف بچ نکلی۔ کس نے بچالیا، حقوق نسواں کے مبلغ اعظمؐ بیچ میں حائل ہو گئے تھے۔
سلام ان پر جنہوں نے عورتوں کی دست گیری فرمائی۔ جناب صدیق اکبرؓ کے غیظ و غضب کا پارہ کتنی ہی بلند ی پر کیوں نہ چڑھ گیا ہو جس فعل میں ان کے رفیق و حبیبؐ حائل و مانع ہوں اس کی تکمیل کی انہیں کب جرأت ہو سکتی تھی۔ غضب پر ادب غالب آیا اور صدیق اکبرؓ واپس لوٹ گئے۔ یوں میاں بیوی کی چپقلش ایک تیسرے فریق کے بیچ میں آنے سے ختم ہو گئی۔
جناب صدیق اکبرؓ چند روز بعد کاشانہ نبوت پر حاضر ہوئے تو آج رنگ دوسرا تھا، مثالی شوہر اور معیاری بیوی آج حسب معمول خوش مزاجی کی حالت میں تھے۔ صدیق اکبرؓ کے دل کی کلی کھل اٹھی اور عرض کیا :'' میں نے جنگ میں دخل دیا تھا اور اب صلح میں بھی مجھے شریک کیجئے۔'' نبی اکرمؐ مسکرائے اور فرمانے لگے ''ہاں ہاں! ضرور۔''
حضور نبی اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کو اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنے پر جس طرح بار بار متوجہ فرمایا اس کے نتیجے میں چند سال کے اندر اندر صنف ضعیف کو جو آزادی حاصل ہو گئی تھی اس کا اندازہ بھی آستانہ نبویؐ کے ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے۔
حضور اکرمؐ کی ازواج مطہرات کو حضور اکرمؐ سے بناء بشریت کبھی کبھی عارضی طور پر کچھ شکوہ بھی ہو جاتا تھا۔ ممکن ہے اس رنج و شکوے کی کوئی حقیقت اور اساس ہوتی ہی نہ ہو اور یہ ''ناز'' کا ایک انداز ہی ہو تا ہو، بہر حال ازواج مطہرات کبھی کبھی اپنے شکوے کا اظہار حضور اکرمؐ سے کیا کرتی تھیں۔ یہ اظہار کس شان سے ہوتا تھا، یہ بھی سننے سے تعلق رکھتا ہے یہ بھی حضور اکرمؐ کی کامل و ہمہ جہتی تربیت کا ایک شاہ کار ہے۔
اس انداز شکایت کی مثال خود سرکار دو عالمؐ ہی کی زبان مبارک سے سنیے۔ آپؐ نے ایک بار حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا: ''تم مجھ سے برہم ہو جاتی ہو تو میں سمجھ جاتا ہوں۔'' سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے دریافت کیا۔ ''وہ کیسے؟''، ''جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو اور کسی بات پر قسم کھانی ہوتی ہے تو ''محمد ﷺ کے خدا کی قسم کہتی ہو اور جب مجھ سے خوش نہیں ہوتی تو ابراہیمؑ کے خدا کی قسم کہتی ہو۔''
زوجۂ رسول نے عرض کیا: ''جی ہاں! یا رسول اللہ ﷺ (میں نا خوشی میں) صرف آپ کا نام چھوڑ دیتی ہوں۔''
سنا آپ نے! اب بیوی نا خوش ہونا بھی جان گئی ہے اور اس ناخوشی کے برملا اظہار کی جرأت بھی اس میں پیدا ہوگئی ہے۔ کیا آپ کو اس پر کوئی حیرت نہیں ہو رہی؟ اگر چھٹی صدی عیسوی میں پوری دنیا کی اخلاقی و معاشرتی حالت آپ کے سامنے ہے اور اس دور کے عرب کی عورت کی حالت زار کا نقشہ آپ بھول نہیں گئے تو آپ کی حیرت کی کوئی حد نہیں رہی ہو گی۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور سرکار دو عالمؐ کی عمر میں بہت فرق تھا۔ ایک ذہین اور طباع اور پھر کمسن لڑکی کا مزاج، مذاق، رنگ طبیعت، انداز فکر ،دل چسپیاں غرض ہر چیز ایک پختہ عمر، سنجیدہ، متین ثقہ اور ذمہ دار مرد سے مختلف ہونی چاہیے اور پھر مرد نبی اکرمؐ جیسا، جن کے کاندھوں پر پوری دنیا کی قیادت کا بار تھا، جن کے دل میں ساری انسانیت کی اصلاح کا جذبہ تھا اور جن کے ذہن میں نئے اور عظیم تر انقلاب کے منصوبے پرورش پا رہے تھے۔
جن کو شوق تھا آدمی کو انسان بنانے کا، جن کو فکر تھی نئے خطوط پر معاشرے کی تشکیل جدید کی۔ مختصر یہ کہ حضور اکرمؐ کی دل چسپیاں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی دل چسپیوں سے جدا نوعیت کی تھیں، یا یوں کہیے کہ ان کے مزاجوں میں اتنا ہی بُعد تھا جتنا بڑھاپے اور جوانی میں ہوتا ہے لیکن دوسروں کے جذبات کا پاس کرنا بھی تو آپؐ سکھانا چاہتے تھے۔ دوسرے کی جائز خواہشوں کو حتی الامکان پورا کرنا بھی آپؐ ضروری سمجھتے تھے۔
عید کا دن تھا۔ چند حبشی باشندے حرم نبویؐ کے قریب ایک تماشا دکھا رہے تھے۔ بتقاضائے عمر حضرت عائشہ صدیقہؓ نے یہ تماشہ دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی۔ سرکار دو عالمؐ کے دوش مبارک پر ٹھوڑی رکھ کر تماشا دیکھنے لگیں اور دیر تک دیکھتی رہیں۔ ایک بار دریافت فرمایا ''کیوں حمیرا جی نہیں بھرا۔'' حبیبہ رسولؐ نے بے تکلف انکار فرما دیا ''ابھی نہیں بھرا۔''
چناںچہ آپؐ یوں ہی کھڑے رہے یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ صدیقہؓ تھک کر ہٹ گئیں۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں آستانہ نبویؐ میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی کمسن سہیلیاں جمع ہو جایا کرتی تھیں۔ سرکار دو عالمؐ اندر تشریف لاتے تو وہ بھاگ جاتیں مگر آپؐ ان کو بلالیا کرتے۔
ابتدائی زمانے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ گڑیاں تک کھیلا کرتی تھیں۔ نبی اکرمؐ اس کھیل میں حارج و مانع نہیں ہوتے تھے بلکہ کبھی کبھی کسی کھلونے کے متعلق کوئی سوال بھی فرما لیا کرتے اور بھولے پن کا کوئی جواب سن کر مسکرا دیتے۔ شادی کے چند دن بعد ایک بار خود نبی اکرمؐ کی تحریک پر دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ آگے نکل گئیں۔ بہت دن بعد جب ایک بار پھر دوڑ ہوئی۔ اب کے میدان نبی اکرمؐ کے ہاتھ رہا۔ حضور اکرمؐ نے پہلا مقابلہ یاد دلا کر فرمایا: ''آج اس دن کا بدلہ ہو گیا۔''
ایک مرتبہ عید کا دن تھا، حرم نبویؐ میں چند بچیاں جمع ہو کر کچھ گانے لگیں۔ آپؐ نے فرمایا ''ان بچیوں کو گانے دو یہ ان کے عید کا دن ہے۔'' (بخاری)
ایک سفر میں ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں، سار بانوں نے اونٹوں کو دوڑانا شروع کیا تو آپؐ کو خواتین کا خیال آگیا اور ساربانوں سے فرمایا: ''ذرا دیکھ کر! یہ (عورتیں) آبگینے بھی ساتھ ہیں۔'' اور سچ ہے کہ سیرت مبارکہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپؐ نے ان آبگینوں کی نزاکت کا پورا پورا خیال رکھا۔ صنف لطیف کے مزاج کی نزاکت کا آپؐ نے ہر قدم اور ہر بات میں خیال فرمایا: ''بے شک حضور اکرم ﷺ ایک مثالی شوہر تھے۔''
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو انسانوں میں پیدا کیا اور انسانوں کی طرح پیدا کیا اور آپؐ نے عام انسانوں کی طرح ہی اپنی پوری زندگی گزاری۔ آپؐ بیٹے بھی تھے اور باپ بھی ، شوہر بھی تھے اور بھائی بھی۔ عمر میں چھوٹے بھی تھے اور بزرگ بھی۔ آپؐ نے تجارت بھی کی اور فوجیں بھی لڑائیں، محنت کشی بھی کی اور حکم رانی بھی ۔ آپ ہر حیثیت سے شاہ راہ حیات پر ایسے نقوش قدم چھوڑ گئے جو قیام قیامت تک لوگوں کے لیے نمونہ بنے رہیں گے۔
قرآن مجید نے کہا: ''بے شک تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی قابل تقلید نمونہ ہے۔''
چناںچہ ایک شوہر اور رفیق حیات کی حیثیت سے حضور اکرمؐ کا جو کردار ہے، وہ ہر شوہر کے لیے نمونہ ہے۔ اس حوالے سے آپؐ نے چند احکامات ارشاد فرمائے، ملاحظہ فرمائیں۔
حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ''تم میں سے بھلا آدمی وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بھلا ہو۔'' (ترمذی ، دارمی، ابن ماجہ)
ایک مقام پر فرمایا: ''تم میں سب سے بھلے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے بھلے ہوں۔'' (ترمذی)
ایک بار ایک صحابی کو جو زہد و عبادت کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کی وجہ سے اپنی اہلیہ سے غافل رہتے تھے، بلوایا اور فرمایا: ''اور تمہاری رفیقہ حیات کا بھی تم پر حق ہے۔'' (بخاری شریف)
بیوی کے حق کی وضاحت ایک اور موقع پر ایک سوال کے جواب میں یوں فرمائی کہ ''بیوی کا حق شوہر پر یہ ہے کہ جب خود کھائے تو اس کو کھلائے ، جب خود پہنے تو اس کو بھی پہنائے، نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے، نہ اس کو بُرا بھلا کہے، نہ گھر کے علاوہ (سزا کے لیے) اس کو علیحدہ کرے۔'' (ابن ماجہ)
اختصار کے خیال سے میں نے یہ چند ارشادات نبویؐ نقل کیے ہیں، ورنہ بیویوں کے حقوق کے سلسلے میں آپؐ کے احکام و ہدایات بکثرت ہیں۔
ایک شوہر کی حیثیت سے حضور اکرمؐ کیسے تھے، اس کا جواب عرض کرنے سے پہلے ہم یہ سوچتے چلیں کہ ایک شوہر کے لیے عمومی شرائط کیا ہونی چاہیں؟
۱۔ بیوی کے لیے محبت کا پیکر ہو
۲۔ اس کی ضروریات اور خواہشات کا حتی الامکان پورا پورا خیال رکھے۔
۳۔ جہاں تک اس کے اصول اجازت دیں، بیوی کی ان فرمائشوں اور خواہشوں کی تکمیل میں سعی کرے، جو چاہے خود اس کے مزاج کے خلاف ہوں۔
۴۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاںہوں تو اپنی محبت، وقت، مال اور توجہات کی ان میں ٹھیک ٹھیک اور عادلانہ تقسیم کرے۔
اب ان شرائط کی روشنی میں شوہر کا مثالی کردار ملاحظہ ہو۔ جہاں تک شرط اول یعنی محبت کا پیکر ہونے کا تعلق ہے اس کے لیے تو کچھ سوچنا ہی تحصیل لاحاصل ہے، کیوںکہ وہ پاک ہستیؐ سراپا محبت تھی، محبت کیش تھی، جس کا پیغام محبت کا پیغام تھا، جس کا مشن محبت کا مشن تھا، جس نے محبت اور صرف محبت ہی کے زور پر پوری دنیا کو فتح کیا تھا۔ جسے دوستوں ہی سے نہیں دشمنوں سے بھی محبت تھی۔ ایسے محبت کیش کی محبت کوشیوں کا کیا ٹھکانہ ہو گا اور وہ بھی اپنی ازواج مطہرات کے لیے۔
آپؐ نے چھٹی صدی کے عرب معاشرے میں عورت سے جیسی محبت کر کے دکھائی اور کرنا سکھائی اس کا اندازہ کرنے کے لیے سیدنا عمر فاروقؓ کا یہ قول سنیئے۔ ''ہم لوگ اسلام سے قبل عورتوں کو کچھ نہیں سمجھتے تھے، اسلام نے عورتوں کے لیے احکام نافذ کیے اور ان کے حقوق مقرر کیے۔''
یہ تو سیدنا عمر فاروقؓ تھے، اس سے بھی دل چسپ بات خود حضور اکرمؓ کی ملاحظہ ہو۔ عورتوں کے حقوق کے اس داعی اعظم نے اپنی ہر رفیقہ حیات کو عملاً بہت آزادی دے رکھی تھی اور بہت زیادہ حقوق عطا فرما رکھے تھے۔ ایک بار نبی اکرمؐ اپنی زوجۂ حیات سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مصروف کلام تھے۔ کسی خانگی اور نجی مسئلے پر گفتگو تھی، بات ذرا بڑھ گئی، جذبات ذرا تلخ ہو گئے۔ سرکار دو عالمؐ ایک طرف حلیم تھے دوسری طرف عملاً مساوات کی تربیت کرنی تھی اس لیے طرفین میں سے حضرت عائشہؓ ہی کے الفاظ میں ترشی تھی اور لہجہ بھی بلند تھا۔ میاں بیوی میں یہ کارزار گرم تھا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ آنکلے۔
وہ ادھر سرکار مدینہؐ کے جان نثار تھے تو ادھر حبیبہ رسولؐ کے پدر بزرگوار بھی تھے۔ گویا دو چند ذمے داری حضرت صدیق اکبرؓ نے محسوس کی۔ باپ اپنی بیٹی کی سرزنش کے لیے آگے بڑھا اور جوش میں گرجا۔ ''عائشہ! تو رسول اللہ ﷺ کے سامنے آواز اونچی کرتی ہے!'' اور ہاتھ بھی بلند کر دیا مگر بیٹی اپنے غضب ناک باپ کی سرزنش سے صاف بچ نکلی۔ کس نے بچالیا، حقوق نسواں کے مبلغ اعظمؐ بیچ میں حائل ہو گئے تھے۔
سلام ان پر جنہوں نے عورتوں کی دست گیری فرمائی۔ جناب صدیق اکبرؓ کے غیظ و غضب کا پارہ کتنی ہی بلند ی پر کیوں نہ چڑھ گیا ہو جس فعل میں ان کے رفیق و حبیبؐ حائل و مانع ہوں اس کی تکمیل کی انہیں کب جرأت ہو سکتی تھی۔ غضب پر ادب غالب آیا اور صدیق اکبرؓ واپس لوٹ گئے۔ یوں میاں بیوی کی چپقلش ایک تیسرے فریق کے بیچ میں آنے سے ختم ہو گئی۔
جناب صدیق اکبرؓ چند روز بعد کاشانہ نبوت پر حاضر ہوئے تو آج رنگ دوسرا تھا، مثالی شوہر اور معیاری بیوی آج حسب معمول خوش مزاجی کی حالت میں تھے۔ صدیق اکبرؓ کے دل کی کلی کھل اٹھی اور عرض کیا :'' میں نے جنگ میں دخل دیا تھا اور اب صلح میں بھی مجھے شریک کیجئے۔'' نبی اکرمؐ مسکرائے اور فرمانے لگے ''ہاں ہاں! ضرور۔''
حضور نبی اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کو اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنے پر جس طرح بار بار متوجہ فرمایا اس کے نتیجے میں چند سال کے اندر اندر صنف ضعیف کو جو آزادی حاصل ہو گئی تھی اس کا اندازہ بھی آستانہ نبویؐ کے ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے۔
حضور اکرمؐ کی ازواج مطہرات کو حضور اکرمؐ سے بناء بشریت کبھی کبھی عارضی طور پر کچھ شکوہ بھی ہو جاتا تھا۔ ممکن ہے اس رنج و شکوے کی کوئی حقیقت اور اساس ہوتی ہی نہ ہو اور یہ ''ناز'' کا ایک انداز ہی ہو تا ہو، بہر حال ازواج مطہرات کبھی کبھی اپنے شکوے کا اظہار حضور اکرمؐ سے کیا کرتی تھیں۔ یہ اظہار کس شان سے ہوتا تھا، یہ بھی سننے سے تعلق رکھتا ہے یہ بھی حضور اکرمؐ کی کامل و ہمہ جہتی تربیت کا ایک شاہ کار ہے۔
اس انداز شکایت کی مثال خود سرکار دو عالمؐ ہی کی زبان مبارک سے سنیے۔ آپؐ نے ایک بار حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا: ''تم مجھ سے برہم ہو جاتی ہو تو میں سمجھ جاتا ہوں۔'' سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے دریافت کیا۔ ''وہ کیسے؟''، ''جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو اور کسی بات پر قسم کھانی ہوتی ہے تو ''محمد ﷺ کے خدا کی قسم کہتی ہو اور جب مجھ سے خوش نہیں ہوتی تو ابراہیمؑ کے خدا کی قسم کہتی ہو۔''
زوجۂ رسول نے عرض کیا: ''جی ہاں! یا رسول اللہ ﷺ (میں نا خوشی میں) صرف آپ کا نام چھوڑ دیتی ہوں۔''
سنا آپ نے! اب بیوی نا خوش ہونا بھی جان گئی ہے اور اس ناخوشی کے برملا اظہار کی جرأت بھی اس میں پیدا ہوگئی ہے۔ کیا آپ کو اس پر کوئی حیرت نہیں ہو رہی؟ اگر چھٹی صدی عیسوی میں پوری دنیا کی اخلاقی و معاشرتی حالت آپ کے سامنے ہے اور اس دور کے عرب کی عورت کی حالت زار کا نقشہ آپ بھول نہیں گئے تو آپ کی حیرت کی کوئی حد نہیں رہی ہو گی۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور سرکار دو عالمؐ کی عمر میں بہت فرق تھا۔ ایک ذہین اور طباع اور پھر کمسن لڑکی کا مزاج، مذاق، رنگ طبیعت، انداز فکر ،دل چسپیاں غرض ہر چیز ایک پختہ عمر، سنجیدہ، متین ثقہ اور ذمہ دار مرد سے مختلف ہونی چاہیے اور پھر مرد نبی اکرمؐ جیسا، جن کے کاندھوں پر پوری دنیا کی قیادت کا بار تھا، جن کے دل میں ساری انسانیت کی اصلاح کا جذبہ تھا اور جن کے ذہن میں نئے اور عظیم تر انقلاب کے منصوبے پرورش پا رہے تھے۔
جن کو شوق تھا آدمی کو انسان بنانے کا، جن کو فکر تھی نئے خطوط پر معاشرے کی تشکیل جدید کی۔ مختصر یہ کہ حضور اکرمؐ کی دل چسپیاں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی دل چسپیوں سے جدا نوعیت کی تھیں، یا یوں کہیے کہ ان کے مزاجوں میں اتنا ہی بُعد تھا جتنا بڑھاپے اور جوانی میں ہوتا ہے لیکن دوسروں کے جذبات کا پاس کرنا بھی تو آپؐ سکھانا چاہتے تھے۔ دوسرے کی جائز خواہشوں کو حتی الامکان پورا کرنا بھی آپؐ ضروری سمجھتے تھے۔
عید کا دن تھا۔ چند حبشی باشندے حرم نبویؐ کے قریب ایک تماشا دکھا رہے تھے۔ بتقاضائے عمر حضرت عائشہ صدیقہؓ نے یہ تماشہ دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی۔ سرکار دو عالمؐ کے دوش مبارک پر ٹھوڑی رکھ کر تماشا دیکھنے لگیں اور دیر تک دیکھتی رہیں۔ ایک بار دریافت فرمایا ''کیوں حمیرا جی نہیں بھرا۔'' حبیبہ رسولؐ نے بے تکلف انکار فرما دیا ''ابھی نہیں بھرا۔''
چناںچہ آپؐ یوں ہی کھڑے رہے یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ صدیقہؓ تھک کر ہٹ گئیں۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں آستانہ نبویؐ میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی کمسن سہیلیاں جمع ہو جایا کرتی تھیں۔ سرکار دو عالمؐ اندر تشریف لاتے تو وہ بھاگ جاتیں مگر آپؐ ان کو بلالیا کرتے۔
ابتدائی زمانے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ گڑیاں تک کھیلا کرتی تھیں۔ نبی اکرمؐ اس کھیل میں حارج و مانع نہیں ہوتے تھے بلکہ کبھی کبھی کسی کھلونے کے متعلق کوئی سوال بھی فرما لیا کرتے اور بھولے پن کا کوئی جواب سن کر مسکرا دیتے۔ شادی کے چند دن بعد ایک بار خود نبی اکرمؐ کی تحریک پر دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ آگے نکل گئیں۔ بہت دن بعد جب ایک بار پھر دوڑ ہوئی۔ اب کے میدان نبی اکرمؐ کے ہاتھ رہا۔ حضور اکرمؐ نے پہلا مقابلہ یاد دلا کر فرمایا: ''آج اس دن کا بدلہ ہو گیا۔''
ایک مرتبہ عید کا دن تھا، حرم نبویؐ میں چند بچیاں جمع ہو کر کچھ گانے لگیں۔ آپؐ نے فرمایا ''ان بچیوں کو گانے دو یہ ان کے عید کا دن ہے۔'' (بخاری)
ایک سفر میں ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں، سار بانوں نے اونٹوں کو دوڑانا شروع کیا تو آپؐ کو خواتین کا خیال آگیا اور ساربانوں سے فرمایا: ''ذرا دیکھ کر! یہ (عورتیں) آبگینے بھی ساتھ ہیں۔'' اور سچ ہے کہ سیرت مبارکہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپؐ نے ان آبگینوں کی نزاکت کا پورا پورا خیال رکھا۔ صنف لطیف کے مزاج کی نزاکت کا آپؐ نے ہر قدم اور ہر بات میں خیال فرمایا: ''بے شک حضور اکرم ﷺ ایک مثالی شوہر تھے۔''