اداکار رنگیلا مزاح کا بادشاہ تھا  آخری حصہ

رنگیلا کے ساتھ کام کرنا بڑا مشکل ہوتا تھا کیونکہ اس کی حرکتوں سے پورا شوٹ کا عملہ اپنی ہنسی روک نہیں سکتا تھا

فلموں میں کام کرنے کے جراثیم اس کے اندر زندہ تھے، جس کو باہر نکالنے کے لیے ایک دن اپنے دل کی بات اس وقت کے مشہور ہدایت کار ایم جے رانا سے کہہ ڈالی، جس نے ایک فلم جٹی میں مختصر ایک سین کا کام دیا۔ اس نے ایک ہی سین میں اپنے جسم کی حرکت سے ایسا متاثر کیا کہ ہدایت کار نے اس کے لیے دو سین اور لکھوا لیے۔ ان کے ساتھ مزاحیہ اداکار نذر سین میں کام کر رہے تھے جس نے کافی مخالفت کی، مگر اداکار ظریف نے اس فنکار کی تعریف کرتے ہوئے ہدایت کار کی تائید کی اور کہا کہ یہ نیا مزاحیہ اداکار ایک دن پاکستانی فلمی دنیا میں نام کمائے گا۔

اس فلم کی مزید کاسٹ میں سدھیر اور مسرت نذیر بھی تھیں۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو باکس آفس پر ہٹ ہوگئی جس میں فلم بینوں نے رنگیلے کا کام بھی پسند کیا اور فلمی اخباروں میں اس کے لیے تعریفیں لکھی گئیں۔شروع شروع میں رنگیلا کو چھوٹے چھوٹے کردار ملتے رہے، جس میں بھی اس نے اپنے آپ کو منوایا۔ اس وقت مزاحیہ فنکاروں میں نذر، آصف جاہ، ظریف کافی مقبول تھے اور چھائے ہوئے تھے۔

شروع میں اس نے اپنا اصلی نام سعید خان کو متعارف کروایا، لیکن اسے لگا کہ یہ نام مزاحیہ فنکار کو کمک نہیں کرتا، اس لیے ایک دن وہ بازار چلے گئے جہاں سے نام رکھنے کی متعدد کتابیں خرید لائے۔ کتابوں میں نام پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھ رنگیلا پر رک گئی اور اس کے چہرے پر خوشی آگئی۔ اس نے دوسرے دن فلم اسٹوڈیو آکر سب سے کہا کہ آج سے اس کا نام رنگیلا ہے اور پھر آنے والی فلموں میں وہ اس نام سے کاسٹ ہونے لگا، جس سے معلوم ہوا کہ واقعی نام بھی تقدیر پر اثرانداز ہوتا ہے، کیونکہ یہ نام رکھنے کے بعد اسے بہت ساری نئی فلمیں ملنے لگیں۔

رنگیلا کی یہ خوبی تھی کہ اس نے اپنے بولنے کے اسٹائل اور اس کے ساتھ جسم کی حرکات اور سکنات کو اس طرح سے استعمال کیا کہ فلم بین اسے دیکھ کر ہی ہنس پڑتے تھے۔ حالانکہ اداکار لہری، ننھا، منور ظریف اور دوسرے بھی اپنے فن میں مہارت رکھتے تھے۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ بوڑھے، بچے، عورتیں بھی اس کے مداح تھے اور فلم کی کاسٹ میں اس کا نام شامل ہوتا تو انھیں بھی خوشی ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں کا کہنا تھا کہ رنگیلا کے ساتھ کام کرنا بڑا مشکل ہوتا تھا کیونکہ اس کی حرکتوں سے پورا شوٹ کا عملہ اپنی ہنسی روک نہیں سکتا تھا، جس کی وجہ سے بڑے ری ٹیک ہوتے تھے۔

جب رنگیلا فلموں کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تو فلمساز، ہدایت کار اسے کاسٹ کرنے کے لیے آتے، ملتے رہے، جس سے اس کی آمدنی میں بے حد اضافہ ہوگیا۔ اب اس نے فلم 'دیا اور طوفان' بنانے کا اعلان کردیا مگر اس سے فلمی دنیا سے کم ہی افراد نے تعاون کیا پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارا اور فلم کو مکمل کرلیا۔ جب اس کی ڈسٹریبیوشن کا وقت آیا تو کوئی اس فلم کو لینے کو تیار نہیں تھا۔ بہرحال بڑی مشکل سے اس کی نمائش کا وقت آگیا۔


اس موقع پر ایک بڑے فنکار محمد علی کی ایک فلم بھی نمائش کے لیے تیار تھی اور اسے کہا گیا کہ وہ اپنی فلم کو آگے لے جائیں اور دوسری تاریخ کا اعلان کریں، جس پر محمد علی نے کہا کہ رنگیلا کی فلم کون دیکھے گا اور ''دیا اور طوفان'' کے سامنے فلم کی نمائش کردی گئی۔ رزلٹ یہ ہوا کہ ''دیا اور طوفان'' کامیاب ہوگئی اور محمد علی کی فلم زیادہ نہیں چل سکی۔جب 1969 میں دیا اور طوفان ریلیز ہوئی تو اس میں رنگیلا کی آواز میں ایک گانے ''گا میرے منوا، گاتا جا رے، جانا ہے ہم کا دور'' نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی، جس کے لیے کہا گیا کہ ان کی آواز گلوکار مکیش سے ملتی ہے۔

جب مکیش کا انتقال ہوگیا تو اسے مکیش کی طرح گانا گانے کے لیے بالی ووڈ سے آفر ہوئی تھی، جسے اپنی مصروفیات کی وجہ سے ٹھکرانا پڑا۔ یہ اس کا کمال ہے کہ اس نے ڈبل رول دو رنگیلے میں ادا کیا اور پھر تین رول 'میری زندگی ہے نغمہ' میں کامیابی سے ادا کیے، جس میں وہ دادا، باپ اور پوتا بنتا ہے۔ جب کہ 'پردہ نہ اٹھاؤ' میں چار چھوٹے مختلف رول ادا کیے۔رنگیلا نے تین شادیاں کی تھیں اور اس کے 12 بچے تھے جنھیں اس نے بڑی اچھی تعلیم اور تربیت دلوائی، سوائے ایک بیٹے کے علاوہ کسی نے بھی فلمی دنیا کا رخ نہیں کیا۔

اس نے تقریباً 30 گانے گائے تھے جس میں سندھی زبان بھی شامل ہے۔ وہ بڑا اچھا مخیر بھی تھا اور کئی لوگوں کی مالی مدد بھی کرتا تھا۔ کہتے ہیں اس کا ایک عالی شان گھر لاہور میں تھا جس کو اس نے ایک چوکیدار کو رہنے کو دیا تھا جس نے اس پر قبضہ کرلیا مگر رنگیلے نے اسے کچھ نہیں کہا اور مکان اس کے حوالے کردیا۔ایک لڑکا جو افغانستان کے شہر ننگر ہار میں پیدا ہوا اور سنگلاخ پہاڑوں میں بچپن گزارا، ان کے والد ایک غریب مسجد کے پیش امام تھے اور برٹش آرمی میں سپاہی کے طور پر کام کرچکے تھے۔

کسی بات کی وجہ سے علاقے میں کچھ لوگوں سے ان کی لڑائی ہوگئی جس میں ان کا بھائی قتل ہوگیا، صورتحال خراب ہوئی، نقل مکانی کرنا پڑی، ایک رات ان کا خاندان پیدل چلتے، راستے کی دشواریاں برداشت کرکے پاکستان کے علاقے پشاور پہنچ گیا۔ وہ اتنے غریب تھے کہ ان کے پاس اتنا بھی پیسہ نہیں تھا کہ وہ کسی سواری پر پشاور آجائیں۔پشاور میں رنگیلے نے ایک مدرسے سے ابتدائی اسلامی تعلیم حاصل کی، پرائمری تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔

وہ بچپن ہی سے بڑا محنتی تھا اور کبھی بھی سست نہیں بیٹھا، کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہا۔ اس نے اپنی محنت اور ذہانت سے فلمی دنیا میں ایک الگ مقام بنایا۔ جب وہ بیمار پڑ گئے اور حکومت کی طرف سے انھیں امداد کی پیشکش ہوئی تو اس نے وہ ٹھکرا دی۔ موت سے پہلے اس کا ایک یادگار گیت جو فلم میں اداکارہ نشو پر فلمایا گیا تھا، ''وے سب توں سوہنیا' ہائے وے من مونیا' میں تیری ہوگئی'' اداکارہ نشو نے اس کے بستر پر بیٹھ کر افسردہ آواز میں گا کر سنایا، جس کو ٹی وی میڈیا نے کور کیا اور لوگ گھر میں بیٹھ کر رو رہے تھے، اور اس کی صحت اور زندگی کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔

وہ زندگی کی پریشانیوں اور امراض سے لڑتے لڑتے آخر 24 اپریل 2005 کو دنیا چھوڑ کر چلے گئے جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ وہ آج بھی اپنے فن کے ذریعے ہمارے ساتھ ہے۔ ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کی مغفرت فرمائے اور اسے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔
Load Next Story