مشرف کہانی
جناب پرویز مشرف پر خاصی حد تک حقائق آشکار ہو چکے ہیں۔
بوڑھا آسمان کیا عجب منظر دیکھ رہا ہے، اعلیٰ ججوں کو بیک جنبش قلم برطرف کرنے، انھیں خاندانوں سمیت حبس بے جا میں رکھنے والا سابق صدر پرویز مشرف، اسی عدلیہ سے واپسی کا محفوظ راستہ دینے کی اپیل کر رہا تھا۔ درخواست گزار ان کی صاحبزادی ہیں، جن کا اپنے والد کے کے اقدامات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بھی المیہ ہے کہ اکثر آمر جب قانون کے شکنجے میں آنے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں تو خواتین ہی قانونی جنگ لڑتی ہیں' سارے حکمران ایک جیسے ہوتے ہیں اور ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔
جناب پرویز مشرف پر خاصی حد تک حقائق آشکار ہو چکے ہیں۔ کراچی ائر پورٹ پر لاکھوں کیا ہزاروں کا مجمع بھی نہیں تھا۔ ڈھول کی تھاپ پر چند سو لونڈے لپاڑے دیگر افراد انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے جمع کیے جا سکے۔ ان کا حفاظتی عملہ استقبالی ہجوم سے زیادہ لگتا تھا۔ جناب مشرف اپنے اقدامات کا دفاع کرنے کے بجائے ان سے لاتعلقی ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ دن کی روشنی میں اپنے ''کارناموں'' پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھول جائیں کہ 12 مئی 2007ء کو کراچی کی شاہراہوں خاص طور پر شاہراہ فیصل کیا ہوا تھا۔ وہ 12 مئی کی شام ڈی چوک اسلام آباد کا وہ منظر بھی بھلانا چاہتے ہیں جب انھوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ساری دنیا نے کراچی کی سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ دیکھ لیا ہے۔ اگر ہم بھول بھی جائیں تو کیمرے کیسے صاف کیے جا سکتے ہیں۔
جنرل مشرف کی آمد پر جناب نواز شریف کی معنی خیز خاموشی ہمارے جیسے ملکوں کے با وقار رہنمائوں کی مجبوریوں کی المناک داستان سنا رہی ہے کہ غالباً مشرف کی سرپرستی بھی سرور پیلس کے مالکان ہی کر رہے ہیں۔ برادرم نصرت جاوید نے اپنے مخصوص ڈھکے چھپے انداز میں سوال اٹھایا ہے کہ پرویز مشرف کیا سوچ کر پاکستان واپس آئے ہیں کیونکہ خوشامدیوں کا ٹولہ تو شاید اب انھیں پہچاننے کے لیے بھی تیار نہیں ہو گا کہ وہ اپنے لیے عافیت کے نئے ٹھکانے تلاش کر چکے۔ نصرت جاوید کے محتاط انداز میں پوچھے گئے سوال کا جواب کچھ یوں آیا ہے کہ جنرل مشرف ''مبینہ بے وفائی اور حکم عدولی پر کسی سے انتقام کے لیے خطرات مول لے کر وارد ہوئے ہیں''۔
اس پر مزید تبصرہ تو متعلقہ احباب ہی کر سکتے ہیں لیکن خاکسار کے ناقص علم کے مطابق جنرل صاحب کبھی بھی اتنے شیر دلیر نہیں تھے کہ انا کی تسکین یا جذبہ انتقام کی تکمیل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔ جناب والا! یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ وہ تو اپنے فارم ہائوس کی قرقی کی کارروائی کو موخر کرانے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ اگر جناب الطاف حسین نے ترس کھا کر کراچی سے قومی اسمبلی کی ایک نشست انھیں خیرات کر دی تو ان کی آمد کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ ویسے اگلے چند ہفتوں میں جب عدالتوں کے چکر لگانے پڑے تو انھیں بہت کچھ یاد آئے گا۔
سوال یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کسی سے انتقام کیوں لینا چاہتے ہیں، اس کالم نگار کے ذرایع معلومات بہت محدود ہیں لیکن بعض باخبر حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ زرداری، نواز شریف مشترکہ مواخذے کی تحریک سے بچنے کے لیے مستعفی ہونے سے پہلے جنرل صاحب نے تیسری بار ملک میں مارشل لاء لگانے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔
'' انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند رے''
ویسے تو پرویز مشرف کے دور حکومت میں جو کچھ ہوا' اس کی فہرست بڑی طویل ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کا اقدام، نائن الیون کے بعد واشنگٹن سے آنے والی ایک فون کال پر ''احتیاطاً'' لیٹ جانا، کارگل کے مس ایڈونچر کے بعد جناب نواز شریف کو واشنگٹن بھجوانا، واجپائی کی آمد پر لاہور میں ہنگامہ آرائی، ججوں کو برطرف کر کے انھیں حبس بے جا میں رکھنا۔ بزرگ بلوچ سردار اکبر بگٹی کو شہید کرانا یہ سب ان کے دور میں ہوا۔ لال مسجد کیس تو ان کے تعاقب میں ہے۔ لگتا ہے کہ اس سانحہ میں بڑے بڑوں کے سفینے غرق ہوں گے۔ بہت پہلے جناب پرویز الٰہی تو یہ کہہ چکے ہیں کہ انھیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے استقبال کو روکنے کا کہا گیا تھا لیکن انھوں نے اس جلوس کو ہر ممکن حفاظت فراہم کرنے کی پالیسی اختیار کی۔
بزرگ قانون دان ایس ایم ظفر نے گزشتہ دنوں منظر عام پر آنے والی اپنی سوانح حیات میں بڑی تفصیل سے جنرل کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا احوال بیان کرتے ہوئے ان کے توہین آمیز رویے کا ذکر کیا ہے۔ میر ظفر اللہ جمالی کی برطرفی کی اصل وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف ڈاکٹر اے کیو خان کو امریکیوں کے حوالے کرنے پر راضی تھے۔ صلاح مشورے شروع کیے تو کسی دور اندیش نے کہا ہے کہ اگر کابینہ کی منظوری کے بغیر یہ قدم اٹھایا گیا تو ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑیں گے۔ اس اقدام کا بوجھ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی اور اس کی کابینہ پر بھی ڈالا جائے۔ لیکن بظاہر تابع فرمان بلوچ سردار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔ ابھی مزید بہت سے انکشافات سامنے آئیں گے۔
حرف آخر یہ کہ گزشتہ کالم میں سہواً اپنے مہربان دوست وکلاء کا ذکر نہ کر سکا 1993ء کے دور ابتلاء میں اس وقت کے وزارت قانون کے اعلیٰ افسر ہماری ضمانتوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے، اس وقت جناب عبادالرحمٰن لودھی، لاہور سے ڈاکٹر فاروق حسن نے ہماری دست گیری کی۔ یہ بھی وقت کی ستم ظریفی تھی کہ ڈاکٹر بابر اعوان نے اسلام آباد سیشن کورٹ میں اللہ واسطے ہمارا مقدمہ لڑ کر ہمیں دور بے نظیر میں باعزت بری کرایا تھا جو بعدازاں صدر زرداری کے اوپننگ بیٹسمین قرار پائے اور پھر معتوب ہو کر پس منظر میں چلے گئے۔
اسلام آباد کچہری کے تمام وکلاء خاص طور پر بزرگوارم اصغر علی سبزواری صاحب کی عنایات تا دم آخر یاد رہیں گی۔ سب سے بڑھ کر سینیٹر ظفر علی شاہ اگر اسلام آباد کے کمانڈوز سے الجھ کر ہمارے لیے ''محفوظ راستہ نہ بناتے تو ہمارا انجام نجانے کیا ہوتا'' ہمارے دوست عبادالرحمٰن لودھی اب جسٹس عباد الرحمٰن لودھی ہیں۔ سابق رجسٹرار سپریم کورٹ جناب امین فاروقی نے عدالتی معاملات میں ہماری بے پناہ معاونت کی کہ انھیں ہماری بے گناہی اور ریاستی طاقت کا بخوبی علم تھا۔
جناب پرویز مشرف پر خاصی حد تک حقائق آشکار ہو چکے ہیں۔ کراچی ائر پورٹ پر لاکھوں کیا ہزاروں کا مجمع بھی نہیں تھا۔ ڈھول کی تھاپ پر چند سو لونڈے لپاڑے دیگر افراد انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے جمع کیے جا سکے۔ ان کا حفاظتی عملہ استقبالی ہجوم سے زیادہ لگتا تھا۔ جناب مشرف اپنے اقدامات کا دفاع کرنے کے بجائے ان سے لاتعلقی ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ دن کی روشنی میں اپنے ''کارناموں'' پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھول جائیں کہ 12 مئی 2007ء کو کراچی کی شاہراہوں خاص طور پر شاہراہ فیصل کیا ہوا تھا۔ وہ 12 مئی کی شام ڈی چوک اسلام آباد کا وہ منظر بھی بھلانا چاہتے ہیں جب انھوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ساری دنیا نے کراچی کی سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ دیکھ لیا ہے۔ اگر ہم بھول بھی جائیں تو کیمرے کیسے صاف کیے جا سکتے ہیں۔
جنرل مشرف کی آمد پر جناب نواز شریف کی معنی خیز خاموشی ہمارے جیسے ملکوں کے با وقار رہنمائوں کی مجبوریوں کی المناک داستان سنا رہی ہے کہ غالباً مشرف کی سرپرستی بھی سرور پیلس کے مالکان ہی کر رہے ہیں۔ برادرم نصرت جاوید نے اپنے مخصوص ڈھکے چھپے انداز میں سوال اٹھایا ہے کہ پرویز مشرف کیا سوچ کر پاکستان واپس آئے ہیں کیونکہ خوشامدیوں کا ٹولہ تو شاید اب انھیں پہچاننے کے لیے بھی تیار نہیں ہو گا کہ وہ اپنے لیے عافیت کے نئے ٹھکانے تلاش کر چکے۔ نصرت جاوید کے محتاط انداز میں پوچھے گئے سوال کا جواب کچھ یوں آیا ہے کہ جنرل مشرف ''مبینہ بے وفائی اور حکم عدولی پر کسی سے انتقام کے لیے خطرات مول لے کر وارد ہوئے ہیں''۔
اس پر مزید تبصرہ تو متعلقہ احباب ہی کر سکتے ہیں لیکن خاکسار کے ناقص علم کے مطابق جنرل صاحب کبھی بھی اتنے شیر دلیر نہیں تھے کہ انا کی تسکین یا جذبہ انتقام کی تکمیل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔ جناب والا! یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ وہ تو اپنے فارم ہائوس کی قرقی کی کارروائی کو موخر کرانے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ اگر جناب الطاف حسین نے ترس کھا کر کراچی سے قومی اسمبلی کی ایک نشست انھیں خیرات کر دی تو ان کی آمد کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ ویسے اگلے چند ہفتوں میں جب عدالتوں کے چکر لگانے پڑے تو انھیں بہت کچھ یاد آئے گا۔
سوال یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کسی سے انتقام کیوں لینا چاہتے ہیں، اس کالم نگار کے ذرایع معلومات بہت محدود ہیں لیکن بعض باخبر حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ زرداری، نواز شریف مشترکہ مواخذے کی تحریک سے بچنے کے لیے مستعفی ہونے سے پہلے جنرل صاحب نے تیسری بار ملک میں مارشل لاء لگانے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔
'' انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند رے''
ویسے تو پرویز مشرف کے دور حکومت میں جو کچھ ہوا' اس کی فہرست بڑی طویل ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کا اقدام، نائن الیون کے بعد واشنگٹن سے آنے والی ایک فون کال پر ''احتیاطاً'' لیٹ جانا، کارگل کے مس ایڈونچر کے بعد جناب نواز شریف کو واشنگٹن بھجوانا، واجپائی کی آمد پر لاہور میں ہنگامہ آرائی، ججوں کو برطرف کر کے انھیں حبس بے جا میں رکھنا۔ بزرگ بلوچ سردار اکبر بگٹی کو شہید کرانا یہ سب ان کے دور میں ہوا۔ لال مسجد کیس تو ان کے تعاقب میں ہے۔ لگتا ہے کہ اس سانحہ میں بڑے بڑوں کے سفینے غرق ہوں گے۔ بہت پہلے جناب پرویز الٰہی تو یہ کہہ چکے ہیں کہ انھیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے استقبال کو روکنے کا کہا گیا تھا لیکن انھوں نے اس جلوس کو ہر ممکن حفاظت فراہم کرنے کی پالیسی اختیار کی۔
بزرگ قانون دان ایس ایم ظفر نے گزشتہ دنوں منظر عام پر آنے والی اپنی سوانح حیات میں بڑی تفصیل سے جنرل کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا احوال بیان کرتے ہوئے ان کے توہین آمیز رویے کا ذکر کیا ہے۔ میر ظفر اللہ جمالی کی برطرفی کی اصل وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف ڈاکٹر اے کیو خان کو امریکیوں کے حوالے کرنے پر راضی تھے۔ صلاح مشورے شروع کیے تو کسی دور اندیش نے کہا ہے کہ اگر کابینہ کی منظوری کے بغیر یہ قدم اٹھایا گیا تو ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑیں گے۔ اس اقدام کا بوجھ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی اور اس کی کابینہ پر بھی ڈالا جائے۔ لیکن بظاہر تابع فرمان بلوچ سردار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔ ابھی مزید بہت سے انکشافات سامنے آئیں گے۔
حرف آخر یہ کہ گزشتہ کالم میں سہواً اپنے مہربان دوست وکلاء کا ذکر نہ کر سکا 1993ء کے دور ابتلاء میں اس وقت کے وزارت قانون کے اعلیٰ افسر ہماری ضمانتوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے، اس وقت جناب عبادالرحمٰن لودھی، لاہور سے ڈاکٹر فاروق حسن نے ہماری دست گیری کی۔ یہ بھی وقت کی ستم ظریفی تھی کہ ڈاکٹر بابر اعوان نے اسلام آباد سیشن کورٹ میں اللہ واسطے ہمارا مقدمہ لڑ کر ہمیں دور بے نظیر میں باعزت بری کرایا تھا جو بعدازاں صدر زرداری کے اوپننگ بیٹسمین قرار پائے اور پھر معتوب ہو کر پس منظر میں چلے گئے۔
اسلام آباد کچہری کے تمام وکلاء خاص طور پر بزرگوارم اصغر علی سبزواری صاحب کی عنایات تا دم آخر یاد رہیں گی۔ سب سے بڑھ کر سینیٹر ظفر علی شاہ اگر اسلام آباد کے کمانڈوز سے الجھ کر ہمارے لیے ''محفوظ راستہ نہ بناتے تو ہمارا انجام نجانے کیا ہوتا'' ہمارے دوست عبادالرحمٰن لودھی اب جسٹس عباد الرحمٰن لودھی ہیں۔ سابق رجسٹرار سپریم کورٹ جناب امین فاروقی نے عدالتی معاملات میں ہماری بے پناہ معاونت کی کہ انھیں ہماری بے گناہی اور ریاستی طاقت کا بخوبی علم تھا۔