فیفا ٹرافی کی پاکستان آمد سرگرمیاں کب بحال ہوں گی
پاکستان میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے فٹ بال کا بین الاقوامی کھیل گزشتہ ڈھائی سال سے بندش کا شکار ہے۔
رواں برس روس میں شیڈول ورلڈکپ کو دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا فٹ بال ایونٹ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، میگا ایونٹ کے لیے کوالیفائی کرنے والی ٹیموں کی تیاریاں جہاں بھر پور انداز میں جاری ہیں، وہاں کروڑوں شائقین بھی عالمی فٹبال میلے کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ان فٹبال پرستاروں میں ایسے شائقین کی تعداد بھی کم نہیں جو ورلڈ کپ کے مقابلے سٹیڈیمز میں بیٹھ کر دیکھنا چاہتے ہیں۔
ورلڈکپ کی رنگا رنگی اپنے اندر بڑی جاذبیت رکھتی ہے۔ جس ملک میں ورلڈ کپ کا انعقاد ہوتا ہے اس پر اس کے معاشی، سماجی اور عالمی روابط کے لحاظ سے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ تمام پہلو ہی کسی ریاست اور اس میں بسنے والے لوگوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر اپنے حالات کے پیش نظر ہر ملک کی مخصوص ترجیحات ہوا کرتی ہیں جن میں وقت کے ساتھ تبدیلی بھی واقع ہو جایا کرتی ہے۔ گو کہ پاکستان کی ترجیحات میں عالمی روابط کا فروغ اور اپنے بین الاقوامی امیج کو بہتر بنانا شاید معاشیات میں قابل ذکر بہتری جیسا ہی اہم ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ معاشی بہتری بھی بڑی حد تک بہتر بین الاقوامی امیج سے جڑی ہوئی ہے تو غلط نہ ہو گا۔
فیفا ورلڈ کپ کی ایک دلکش روایت اس کی ٹرافی کا دنیا کے چند ممالک میں بھیجا جانا بھی ہے جس کا بنیادی مقصد کروڑوں شائقین فٹبال کو ورلڈ کپ کی خوشیوں میں شامل کرنا اور دنیا بھر میں اس ایونٹ کو مقبول بنانا ہوتا ہے۔ فیفا ورلڈ کپ 2018ء کی ٹرافی کا سفرگزشتہ ماہ ستمبرکی 9تاریخ سے جاری ہے، شائقین اپنے پسندیدہ اور دنیائے کھیل کے سب سے بڑے ایونٹ کی ٹرافی کو اپنے درمیان پا کر خود کو اس میگا ایونٹ کا حصہ تصور کرتے ہیں۔
اسی سلسلہ میں کچھ دن قبل جب فیفا نے اپنی ویب سائٹ پر ورلڈ کپ 2018 ء کے لیے ٹرافی ٹور کا اعلان کرتے ہوئے ٹور کے لیے منتخب روٹ کا ایک نقشہ جاری کیا تو اس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس خبر کے نشر ہونے پر خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا اپنے ہیڈ کوارٹر اور بنک اکاؤنٹس پر اختیار نہ ہونے سے ملک میں فٹ بال کی تمام سرگرمیاں معطل ہونے کے باوجود پاکستان کو فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کے ٹور کیلئے منتخب کیا جانا خاصی اچھنبے کی بات ہے۔
اس سے بھی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ساؤتھ ایشیا میں پاکستان کے علاوہ بھارت سمیت کسی ملک کو اس ٹور کے لئے نہیں چنا گیا جبکہ بھارت میں اس وقت بھی انڈر 17 فٹ بال ورلڈکپ جاری ہے اور کوئی بھی اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بھارت نے مذکورہ ٹرافی ٹور کی ایک منزل کے طور پر منتخب ہونے کے لیے کیا کیا جتن نہ کئے ہوں گے۔
راقم نے جب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آئی کہ ایسا محض فیصل صالح حیات کی ذاتی کاوشوں اوربین الاقوامی فٹ بال میں بہترین سفارتکاری کی بناء پر ممکن ہواکہ پاکستان کو ان 52ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا گیا جہاں پر اس ٹرافی نے اپنے عالمی سفر کے دوران عارضی طور پر ڈیرے ڈالنے تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیفا ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان پہنچی تو ایئرپورٹ پر پاکستان فٹبال ٹیم کے کپتان کلیم اللہ نے ٹرافی وصول کی جس کے بعد اسے رونمائی کے لیے لاہور کے ایک نجی ہوٹل پہنچایا گیا جہاں ٹرافی کی تقریب رونمائی ہوئی۔تقریب کے دوران ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے 1998ء میں فرانس کی ورلڈ کپ فاتح ٹیم کے فٹبالر کرسٹیان کیرم نے کہا کہ 'مجھے لاہور پہنچنے پر بے حد خوشی محسوس ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ فیفا ٹرافی کا آنا اعزاز کی بات ہے۔ عظیم بلے باز یونس خان نے کہا کہ 'میرے نزدیک فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے اور فیفا کی ٹرافی کا پاکستان آنا بہت بڑی بات ہے'۔پاکستان فٹبال ٹیم کے کپتان کلیم اللہ خان نے کہا کہ 'میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ فیفا ورلڈ کپ کی ٹرافی رونمائی کے لیے پاکستان آئے گی۔
پاکستان میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے فٹ بال کا بین الاقوامی کھیل گزشتہ ڈھائی سال سے بندش کا شکار ہے جس سے لاکھوں فٹ بال کھلاڑی بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ متعدد ڈیپارٹمنٹس کی فٹبال سرگرمیاں ختم ہونے سے ہزاروں کھلاڑیوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کا پاکستان میں آنا ملک میں موجود لاکھوں شائقین فٹ بال کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے اور نوجوان کھلاڑیوں میں کرکٹ، ہاکی اور دوسرے کھیلوں کی طرح اس گیم میں بھی دلچسپی بڑھی ہے۔
ورلڈکپ کی رنگا رنگی اپنے اندر بڑی جاذبیت رکھتی ہے۔ جس ملک میں ورلڈ کپ کا انعقاد ہوتا ہے اس پر اس کے معاشی، سماجی اور عالمی روابط کے لحاظ سے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ تمام پہلو ہی کسی ریاست اور اس میں بسنے والے لوگوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر اپنے حالات کے پیش نظر ہر ملک کی مخصوص ترجیحات ہوا کرتی ہیں جن میں وقت کے ساتھ تبدیلی بھی واقع ہو جایا کرتی ہے۔ گو کہ پاکستان کی ترجیحات میں عالمی روابط کا فروغ اور اپنے بین الاقوامی امیج کو بہتر بنانا شاید معاشیات میں قابل ذکر بہتری جیسا ہی اہم ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ معاشی بہتری بھی بڑی حد تک بہتر بین الاقوامی امیج سے جڑی ہوئی ہے تو غلط نہ ہو گا۔
فیفا ورلڈ کپ کی ایک دلکش روایت اس کی ٹرافی کا دنیا کے چند ممالک میں بھیجا جانا بھی ہے جس کا بنیادی مقصد کروڑوں شائقین فٹبال کو ورلڈ کپ کی خوشیوں میں شامل کرنا اور دنیا بھر میں اس ایونٹ کو مقبول بنانا ہوتا ہے۔ فیفا ورلڈ کپ 2018ء کی ٹرافی کا سفرگزشتہ ماہ ستمبرکی 9تاریخ سے جاری ہے، شائقین اپنے پسندیدہ اور دنیائے کھیل کے سب سے بڑے ایونٹ کی ٹرافی کو اپنے درمیان پا کر خود کو اس میگا ایونٹ کا حصہ تصور کرتے ہیں۔
اسی سلسلہ میں کچھ دن قبل جب فیفا نے اپنی ویب سائٹ پر ورلڈ کپ 2018 ء کے لیے ٹرافی ٹور کا اعلان کرتے ہوئے ٹور کے لیے منتخب روٹ کا ایک نقشہ جاری کیا تو اس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس خبر کے نشر ہونے پر خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا اپنے ہیڈ کوارٹر اور بنک اکاؤنٹس پر اختیار نہ ہونے سے ملک میں فٹ بال کی تمام سرگرمیاں معطل ہونے کے باوجود پاکستان کو فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کے ٹور کیلئے منتخب کیا جانا خاصی اچھنبے کی بات ہے۔
اس سے بھی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ساؤتھ ایشیا میں پاکستان کے علاوہ بھارت سمیت کسی ملک کو اس ٹور کے لئے نہیں چنا گیا جبکہ بھارت میں اس وقت بھی انڈر 17 فٹ بال ورلڈکپ جاری ہے اور کوئی بھی اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بھارت نے مذکورہ ٹرافی ٹور کی ایک منزل کے طور پر منتخب ہونے کے لیے کیا کیا جتن نہ کئے ہوں گے۔
راقم نے جب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آئی کہ ایسا محض فیصل صالح حیات کی ذاتی کاوشوں اوربین الاقوامی فٹ بال میں بہترین سفارتکاری کی بناء پر ممکن ہواکہ پاکستان کو ان 52ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا گیا جہاں پر اس ٹرافی نے اپنے عالمی سفر کے دوران عارضی طور پر ڈیرے ڈالنے تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیفا ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان پہنچی تو ایئرپورٹ پر پاکستان فٹبال ٹیم کے کپتان کلیم اللہ نے ٹرافی وصول کی جس کے بعد اسے رونمائی کے لیے لاہور کے ایک نجی ہوٹل پہنچایا گیا جہاں ٹرافی کی تقریب رونمائی ہوئی۔تقریب کے دوران ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے 1998ء میں فرانس کی ورلڈ کپ فاتح ٹیم کے فٹبالر کرسٹیان کیرم نے کہا کہ 'مجھے لاہور پہنچنے پر بے حد خوشی محسوس ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ فیفا ٹرافی کا آنا اعزاز کی بات ہے۔ عظیم بلے باز یونس خان نے کہا کہ 'میرے نزدیک فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے اور فیفا کی ٹرافی کا پاکستان آنا بہت بڑی بات ہے'۔پاکستان فٹبال ٹیم کے کپتان کلیم اللہ خان نے کہا کہ 'میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ فیفا ورلڈ کپ کی ٹرافی رونمائی کے لیے پاکستان آئے گی۔
پاکستان میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے فٹ بال کا بین الاقوامی کھیل گزشتہ ڈھائی سال سے بندش کا شکار ہے جس سے لاکھوں فٹ بال کھلاڑی بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ متعدد ڈیپارٹمنٹس کی فٹبال سرگرمیاں ختم ہونے سے ہزاروں کھلاڑیوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کا پاکستان میں آنا ملک میں موجود لاکھوں شائقین فٹ بال کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے اور نوجوان کھلاڑیوں میں کرکٹ، ہاکی اور دوسرے کھیلوں کی طرح اس گیم میں بھی دلچسپی بڑھی ہے۔