محبت میں ناکامی کا شاخسانہ

نوجوان نے لڑکی، اس کے والد، والدہ اور دادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

قاتل گرفتار، مقدمے کا مدعی ملزموں کے اثر و رسوخ سے خوف کا شکار ہے۔ فوٹو: فائل

بے لگام خواہش کو محبت کا نام دینا محبت کے جذبے کی توہین ہے، کیوں کہ خواہشات کا بے لگام گھوڑا اپنی ٹاپوں کے نیچے چیختی مخلوق کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ جاتاہے اور پیچھے پچھتاوا و تباہی چھوڑ جاتاہے۔ لیکن جب محبت کے نام پر انسان باؤلہ ہوجائے تو وہ تباہی و بربادی کے سوا معاشرہ کو کچھ نہیں دیتا۔

غفران نامی نوجوان حافظِ قرآن ہے۔ والد محمدریاض عربی ٹیچر اور ایک دینی مدرسہ چلاتا ہے۔ غفران پیشے کے اعتبار سے تو ویلڈنگ کا کام کرتا تھا لیکن اس کا زیادہ تر وقت آوارہ گردی کرتے گزرتا۔ یہ 20 جنوری 2018ء کی شام تھی، سورج غروب ہوا اور غفران کا جنون دماغ پر چڑھ گیا۔ لوگ مغرب کی نماز پڑھ کر اپنے گھروں میں داخل ہو رہے تھے اور یہ انتقام کی آگ لیے سجاد حیدر کے گھر گھس گیا۔

بوڑھی خاتون صابری گل بیگم نمازپڑھ رہی تھی کہ غفران نے کلاشنکوف سے فائرنگ کرکے اُسے ڈھیر کردیا۔ پھر غفران نے نسرین بیگم جو اپنے دو چھوٹے بیٹوں شہیر اور وصی کو گود میں لیے بڑی بیٹی رِدا فرحین کے ساتھ بیٹھی تھی، کا رخ کر لیا۔ نسرین بیگم نے اپنے معصوم بچے چارپائی کے نیچے پھینکے اور خود گولیوں کا نشانہ بن گئی اور ساتھ ہی رِدا کو بھی سفاک قاتل نے نشانہ بنا ڈالا۔

رِدا کا والد سجاد حیدر سامنے آیا تو قاتل نے اُسے بھی گولیاں مار دیں۔ قریب ہی موجود خوف کی ماری بچوں کی چچی چھوٹے منیب کو لے کر ایک طرف دبک گئی اور بچے سمیت بچ گئی۔ مقتول سجاد کا ایک بیٹا باسط اور بیٹی قراۃ العین عینی کالاباغ اپنی پھپھو کے گھر ہونے کی وجہ سے محفوظ رہے۔ سفاک قاتل نے آرام سے یہ تمام کارروائی مکمل کی اور موقع سے فرار ہو گیا۔

تینوں خواتین موقع پر ہی جاں بحق ہو چکی تھیں جبکہ سجاد حیدر کو بنیادی مرکز صحت نریوب لے جایا گیا مگر وہاں ڈاکٹر نہ ہونے پر اسے تھانہ ٹولہ بانگی خیل بھیجا گیا تو پولیس نے فوراً کالاباغ ٹی ایچ کیو روانہ کردیا لیکن خڑتوپ پُل کے مقام پر خون زیادہ بہہ جانے اور ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کی و جہ سے وہ اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اس طرح تین خواتین اور ایک مرد حافظ غفران کے انتقام کی نذر ہوگئے جبکہ پانچ بچے شہیر، منیب، وصی، باسط اورقراۃ العین عینی یتیم ہوگئے۔

اکیس جنوری 2018ء کو چاروں مقتولین کی نمازِجنازہ ادا کردی گئی، جس میں علاقہ بھر سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ن لیگ کے ایم این اے عبیداللہ خان شادی خیل نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ ڈی پی او میانوالی صادق علی ڈوگرنے بھی موقع پر پہنچ کر مقتولین کے لواحقین کو ملزمان کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔ مقتول سجاد حیدر ایک سال قبل پاک فوج سے ریٹائر ہوکر آئے تھے۔ ایف آئی آر اور مقتول کے بھائی انور سعید کے مطابق اس واردات میں حافظ غفران ، اس کا بڑا بھائی ریحان، والد محمدریاض اور چچی نصرت بی بی زوجہ سعودالرحمن برابر کے شریک ہیں۔


بدقسمت خاندان پنجاب اور کے پی کے کے سنگم پر کالاباغ سے تقریباََ تیس کلومیٹر دور واقع گاؤں روغان یونین کونسل تبی سر تحصیل عیسیٰ خیل ضلع میانوالی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اندوہناک واقعہ کے پیچھے حقائق یہ بیان کئے جاتے ہیں کہ حافظ غفران، سجاد حیدر کی بیٹی سے رشتہ کرنا چاہتا تھا جبکہ مقتولہ لڑکی رِدا کی پہلے سے اپنے چچازاد بھائی روحیل سے منگنی ہوچکی تھی۔

انورسعید کے بقول پچھلے ایک سال سے حافظ غفران میرے بھائی اور ہم دیگر بھائیوں وغیرہ کو تنگ کر رہا تھا، ہم نے اس کے والد اور دیگر معززین کو کئی بار بتایا لیکن ہماری کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ ایک بار غفران نے ان کے گھر کے باہر ہوائی فائرنگ کی، میرے بڑے بھائی کے بیٹے پر فائرنگ کی اور رشتے کے لیے دباؤ ڈالتا رہا۔ مقتول خاندان نے بدنامی کے ڈر سے پولیس کو رپورٹ تک نہ کی۔

غفران کے اصرار پر والدین نے منگنی شدہ لڑکی سے غفران سے شادی کے متعلق پوچھا لیکن لڑکی نے بھی انکار کر دیا تھا۔ رِدا کے انکار پر شاید قاتل کا غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ پڑوس میں رہنے والی قاتل کی چچی نصرت بی بی جس کا مقتول کے گھر آنا جانا تھا، شام سے پہلے مبینہ طور پر وہ مقتولین کے گھر بھی گئی تھی۔

واردات کے بعد قاتل غفران وغیرہ موقع سے بھاگ گئے لیکن پولیس نے جلد اُس کی چچی، والد وغیرہ کو گرفتار کر لیا، جس پر غفران نے مقتول کے خاندان کے باقی ماندہ افراد کو دھمکی دے بھیجی کہ اگر تم نے پولیس میں میرے خلاف کارروائی کی کوشش کی تو میں پورے خاندان کو ختم کردوں گا۔ میں تو ویسے بھی پھانسی چڑھ جاؤں گا لیکن تم سب کا خاتمہ کرکے جاؤں گا لیکن جلد ہی حافظ غفران بھی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔

اب کیس کی تفتیش جاری ہے۔ حتمی ملزمان تو تفتیش کار اور عدالت طے کریں گے لیکن مدعی ٹیکسی ڈرائیور انور سعید پریشان حال ہے کیوں کہ اس کے اپنے پانچ بچے ہیں جبکہ مقتول کا بڑا بھائی اختر سعید زندگی اور موت کی کشمکش میں بسترِمرگ پر پڑاہے۔ مقتول کی بڑی بیٹی ارج سعید شادی شدہ ہے۔ اب مقتولین کے بچ جانے والے معصوم بچوں کا انور سعید اور اللہ کے سوا کوئی آسرا نہیں۔

ایم این اے عبیداللہ خان شادی خیل اور یوسی کے چیئرمین خورشیدخٹک نمازِ جنازہ پڑھ کے چلے گئے۔ ڈی پی او صادق علی ڈوگر بھی آئے اور لواحقین کو ملزمان کو جلد گرفتاری کا دلاسہ دے کر چلتے بنے، لیکن مدعی انور سعید خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ انور سعید حکومت اور آرمی چیف سے اُمید لگائے ہوئے ہے کہ ان کی مظلومیت کی خبر اُن تک پہنچے اور وہ ان کے خاندان کو مستقبل کے کٹھن مراحل سے نجات دلائیں۔ انہوں نے عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو جلد ازجلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے، کیوں کہ قاتل پارٹی وسائل سے مالا مال اور بااثر ہے جبکہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم سالوں پر محیط مراحل طے کرسکیں۔
Load Next Story