واقعہ زینب اور اس کی وجوہات
خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور تنہائی کا کلچر یہ سب کچھ مواقع پیش کر رہا ہے۔
مشہور فلسفی ژی ژیک کہتا ہے کہ ایک شخص روزانہ پانچ بجے دفتر سے اپنے گھر پہنچتا تھا، ایک دن وہ کسی وجہ سے جلد گھر پہنچ گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی گھر میں دیگر اجنبی خواتین کے ساتھ موجود ہے، جب مرد اپنی بیوی سے سوال کرتا ہے کہ یہ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہی ہیں تو بیوی اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتی ہے کہ تمھارا سوال غیر اہم ہے، اصل سوال یہ ہے کہ تم مجھے بتاؤ کہ تم آج خلاف معمول چار بجے یہاں کیا کر رہے ہو؟ تمھارے آنے کا وقت تو پانچ بجے کا ہے۔
ژی ژیک کہتا ہے کہ جدید دنیا میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کہ وہ پہلے سوال کے بجائے دوسرے سوال کو اصل سوال سمجھ کر اس پر بحث کرتی ہے اور پہلے سوال کو جو اصل سوال ہوتا ہے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ زینب جیسے واقعات کے بعد ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ردعمل سامنے آرہا ہے اور ہماری توجہ پہلے سوال یعنی مسئلہ کی جڑ کی طرف ہے ہی نہیں۔ کوئی مزید قوانین اور سخت قوانین پر زور دے رہا ہے تو کوئی سیکس کی تعلیم عام کرنے کی بات کر رہا ہے۔ جب کہ پہلا اور اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ شروع کیوں ہوا اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟
ایک شخص اگر سر درد میں صرف پین کلر ہی لیتا رہے اور اس کی وجوہات جان کر ان کا علاج نہ کرے تو درد کا مسئلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ چنانچہ ہمیں اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ حقائق کو سامنے رکھا جائے مثلاً یہ کہ جدید ریاست میں ہزاروں قوانین ہوتے ہیں، کیونکہ اخلاقی، معاشرتی روحانی قوانین نہیں ہوتے۔ جدید دنیا میں اخلاقی تربیت، روحانی اصلاح، تزکیہ نفس اور قلب کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔ جدید ریاست میں صرف ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ انسان مطلوب ہوتے ہیں، اسے ہدایت یافتہ انسان مطلوب نہیں۔
جدید سائنس نے گناہوں کو عام کرنے کی ٹیکنالوجی مہیا کردی ہے، گناہ کرنا ہر ایک کے لیے ممکن ہوگیا ہے اور گناہ سے بچنا ناممکن ہوگیا ہے۔ صرف ہمارے معاشرے ہی نہیں تاریخ انسانی کے کسی معاشرے میں لوگوں کو گناہوں پر اکسانے، لبھانے اور مبتلا کرنے کی ٹیکنالوجی سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔
خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور تنہائی کا کلچر یہ سب کچھ مواقع پیش کر رہا ہے۔ پاکستان چونکہ ابھی جدید ریاست مکمل طور پر نہیں بنا ہے بلکہ اس جانب ابھی سفر جاری ہے، لہٰذا کسی جدید ریاست کے مسائل کا رنگ یہاں ابھی سے نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ مثلاً پاکستان میں 2017 میں جنسی زیادتی سے متعلق صرف چار ہزار وارداتیں ہوئیں، جب کہ امریکا میں ایک سال میں جبری جنسی دہشت گردی کی کروڑوں وارداتیں ہوئی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں اب ان واقعات کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگیا کیونکہ امریکا جہاں بائیس سو ایجنسیاں کام کرتی ہیں، جرم کی اطلاع ملتے ہی تین منٹ میں پولیس یا ایجنسی جائے وقوع پر پہنچ جاتی ہے، وہاں کے بارے میں گزشتہ سال تیس اکتوبر کی اشاعت میں نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ امریکا میں کام پر جانے والی 94 فیصد عورتوں کو کام کی جگہوں پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، روزانہ 46 بچوں کو گولیاں لگتی ہیں، جن میں سے سات روزانہ مر جاتے ہیں، یعنی سالانہ تین ہزار بچے صرف گولیوں سے مرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہمارے سارے نظام ہی مغربی ممالک کے مقابلے میں گئے گزرے ہیں، بلکہ برائے نام ہی ہیں۔ چنانچہ یہ مسائل مستقبل میں مغربی معاشرے سے بھی زیادہ خطرناک شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ عقلی بنیادوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری سماجی اقدار ایسی رہی ہیں کہ ان کو ایک بار پھر اپنا کر ہم ان مسائل سے بہت حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں، ہماری شاندار سماجی اقدار کی گواہی تقسیم ہند سے قبل لارڈ میکالے کے اس بیان سے بخوبی مل جاتی ہے کہ جس میں لارڈ میکالے نے تاج برطانیہ کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ ہندوستان کے لوگ پولیس کے ڈر سے جرائم نہیں کرتے بلکہ وہ معاشرے کے خوف سے جرائم کرنے سے باز رہتے ہیں کہ کسی کو معلوم ہوگیا تو کیا ہوگا؟
ہماری معاشترتی اقدار تو زینب جیسے واقعات کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیتی، مثلاً ہمارے ہاں کوئی لڑکی تنہا گھر سے باہر نہیں جاتی جب تک کہ ساتھ میں بھائی باپ یا کوئی عاقلہ نہ ہو، لہٰذا اس قسم کے جرائم کے لیے کسی کو موقع ہی فراہم نہیں ہوتا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں اور عورتوں کے خلاف جنسی دہشت گردی کے جو بھی واقعات ہوئے ہیں ان میں عموماً عورت یا بچہ تنہا ہی نظر آئے گا، ایسا واقعہ شاید ہی کوئی ہو کہ جس میں بچہ یا عورت اپنے خاندان یا عاقلہ کے درمیان ہو اور اس پر جنسی تشدد ہوا ہو۔ قصور کے واقعے میں بھی بچی گھر سے باہر تنہا جارہی ہے، سپارہ پڑھنے گھر سے دور جارہی ہے۔
بھارت میں روزانہ ہزاروں لڑکیوں کی عصمت دری ہورہی ہے، وہاں ایک خاص پنٹ متعارف کرائی گئی ہے کہ جیسے ہی کوئی کسی کو برہنہ کرے گا پولیس کو اطلاع مل جائے گی اور وہ موقع پر پہنچ جائے گی۔ کیا ان لڑکیوں کے ساتھ اگر کوئی بھائی باپ ہوتا تو کسی الارمنگ پنٹ کی ضرورت رہ جاتی؟
ہماری سماجی اقدار تو وہ ہیں کہ جس میں ایک لڑکی کے کھانے پینے وغیرہ جیسی تمام تر ضروریات کا خیال گھر کا مرد رکھتا ہے، خواہ وہ بھائی کی شکل میں ہو یا باپ کی شکل میں ہو، یوں ایک لڑکی کو تحفظ بھی مل جاتا ہے اور وہ روپے پیسے کمانے کے لیے گھر سے باہر جاکر محنت مشقت کرنے سے بھی بچ جاتی ہے۔ لیکن اب یہ سماجی اقدار دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے معاملات ایک نہیں کئی جانب سے بگڑ رہے ہیں۔
جدید دور کی اچھائیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی ہمارے معاشرے کا حصہ بن رہی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے باعث ہم ہر لمحہ باخبر تو رہتے ہیں مگر یہ ٹیکنالوجی اب بچے بچے کے ہاتھ میں ہے اور اس میں وہ تفریحی مواد ہر وقت موجود ہوتا ہے کہ جو ایک نابالغ بچے کے جذبات بھی بھڑکاتا ہے، چنانچہ اب دس پندرہ سال سے کم عمر بچے بھی اپنے سے چھوٹے بچوں کے ساتھ مجرمانہ فعل کر رہے ہیں۔
ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ میڈیا یہ کام تو نہیں کر ا سکتا کہ لوگ کسی کے بارے میں کیا رائے قائم کریں مگر یہ کام کرانے میں بالکل کامیاب رہتا ہے کہ لوگ کس بارے میں سوچیں، اس تناظر میں بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگ میڈیا سے زیادہ تر کیا دیکھتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں اور میڈیا صبح و شام کیا کچھ پیش کر رہا ہے۔
اسی طرح لڑکیاں تعلیم اور ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکل رہی ہیں اور تنہا سفر کر رہی ہیں، دوسری طرف نکاح کے مواقع پہلے سے بھی کم ہوگئے ہیں، جس کی وجوہات میں اخراجات میں اضافہ، جہیز اور پھر اٹھارہ سال سے قبل شادی نہ کرنے کا قانون بھی شامل ہے، حالانکہ یہ سب اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے منشور کے خلاف ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی گیارہ سال کی عمر میں شادی کرنا کوئی جرم نہیں، حالانکہ وہاں نکاح کے بغیر تعلقات پر پابندی نہیں، جب کہ ہمارے معاشرے میں تو یہ ایک سنگین، ناقابل معافی جرم ہے۔
مشہور فلسفی ژی ژیک کی کہی گئی بات کے تناظر میں ہمیں اپنے مسائل کی جڑ کو دیکھنا ہوگا اور پہلے سوال پر غور کرنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں اخلاق سے عاری اس قسم کے لوگ کیوں پیدا ہورہے ہیں؟ کون اور کون سے معاملات ہمارے معاشرے کے کم عمر افراد کو بھی جنسی تشدد پر اکسا رہے ہیں۔
ژی ژیک کہتا ہے کہ جدید دنیا میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کہ وہ پہلے سوال کے بجائے دوسرے سوال کو اصل سوال سمجھ کر اس پر بحث کرتی ہے اور پہلے سوال کو جو اصل سوال ہوتا ہے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ زینب جیسے واقعات کے بعد ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ردعمل سامنے آرہا ہے اور ہماری توجہ پہلے سوال یعنی مسئلہ کی جڑ کی طرف ہے ہی نہیں۔ کوئی مزید قوانین اور سخت قوانین پر زور دے رہا ہے تو کوئی سیکس کی تعلیم عام کرنے کی بات کر رہا ہے۔ جب کہ پہلا اور اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ شروع کیوں ہوا اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟
ایک شخص اگر سر درد میں صرف پین کلر ہی لیتا رہے اور اس کی وجوہات جان کر ان کا علاج نہ کرے تو درد کا مسئلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ چنانچہ ہمیں اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ حقائق کو سامنے رکھا جائے مثلاً یہ کہ جدید ریاست میں ہزاروں قوانین ہوتے ہیں، کیونکہ اخلاقی، معاشرتی روحانی قوانین نہیں ہوتے۔ جدید دنیا میں اخلاقی تربیت، روحانی اصلاح، تزکیہ نفس اور قلب کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔ جدید ریاست میں صرف ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ انسان مطلوب ہوتے ہیں، اسے ہدایت یافتہ انسان مطلوب نہیں۔
جدید سائنس نے گناہوں کو عام کرنے کی ٹیکنالوجی مہیا کردی ہے، گناہ کرنا ہر ایک کے لیے ممکن ہوگیا ہے اور گناہ سے بچنا ناممکن ہوگیا ہے۔ صرف ہمارے معاشرے ہی نہیں تاریخ انسانی کے کسی معاشرے میں لوگوں کو گناہوں پر اکسانے، لبھانے اور مبتلا کرنے کی ٹیکنالوجی سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔
خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور تنہائی کا کلچر یہ سب کچھ مواقع پیش کر رہا ہے۔ پاکستان چونکہ ابھی جدید ریاست مکمل طور پر نہیں بنا ہے بلکہ اس جانب ابھی سفر جاری ہے، لہٰذا کسی جدید ریاست کے مسائل کا رنگ یہاں ابھی سے نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ مثلاً پاکستان میں 2017 میں جنسی زیادتی سے متعلق صرف چار ہزار وارداتیں ہوئیں، جب کہ امریکا میں ایک سال میں جبری جنسی دہشت گردی کی کروڑوں وارداتیں ہوئی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں اب ان واقعات کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگیا کیونکہ امریکا جہاں بائیس سو ایجنسیاں کام کرتی ہیں، جرم کی اطلاع ملتے ہی تین منٹ میں پولیس یا ایجنسی جائے وقوع پر پہنچ جاتی ہے، وہاں کے بارے میں گزشتہ سال تیس اکتوبر کی اشاعت میں نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ امریکا میں کام پر جانے والی 94 فیصد عورتوں کو کام کی جگہوں پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، روزانہ 46 بچوں کو گولیاں لگتی ہیں، جن میں سے سات روزانہ مر جاتے ہیں، یعنی سالانہ تین ہزار بچے صرف گولیوں سے مرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہمارے سارے نظام ہی مغربی ممالک کے مقابلے میں گئے گزرے ہیں، بلکہ برائے نام ہی ہیں۔ چنانچہ یہ مسائل مستقبل میں مغربی معاشرے سے بھی زیادہ خطرناک شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ عقلی بنیادوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری سماجی اقدار ایسی رہی ہیں کہ ان کو ایک بار پھر اپنا کر ہم ان مسائل سے بہت حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں، ہماری شاندار سماجی اقدار کی گواہی تقسیم ہند سے قبل لارڈ میکالے کے اس بیان سے بخوبی مل جاتی ہے کہ جس میں لارڈ میکالے نے تاج برطانیہ کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ ہندوستان کے لوگ پولیس کے ڈر سے جرائم نہیں کرتے بلکہ وہ معاشرے کے خوف سے جرائم کرنے سے باز رہتے ہیں کہ کسی کو معلوم ہوگیا تو کیا ہوگا؟
ہماری معاشترتی اقدار تو زینب جیسے واقعات کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیتی، مثلاً ہمارے ہاں کوئی لڑکی تنہا گھر سے باہر نہیں جاتی جب تک کہ ساتھ میں بھائی باپ یا کوئی عاقلہ نہ ہو، لہٰذا اس قسم کے جرائم کے لیے کسی کو موقع ہی فراہم نہیں ہوتا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں اور عورتوں کے خلاف جنسی دہشت گردی کے جو بھی واقعات ہوئے ہیں ان میں عموماً عورت یا بچہ تنہا ہی نظر آئے گا، ایسا واقعہ شاید ہی کوئی ہو کہ جس میں بچہ یا عورت اپنے خاندان یا عاقلہ کے درمیان ہو اور اس پر جنسی تشدد ہوا ہو۔ قصور کے واقعے میں بھی بچی گھر سے باہر تنہا جارہی ہے، سپارہ پڑھنے گھر سے دور جارہی ہے۔
بھارت میں روزانہ ہزاروں لڑکیوں کی عصمت دری ہورہی ہے، وہاں ایک خاص پنٹ متعارف کرائی گئی ہے کہ جیسے ہی کوئی کسی کو برہنہ کرے گا پولیس کو اطلاع مل جائے گی اور وہ موقع پر پہنچ جائے گی۔ کیا ان لڑکیوں کے ساتھ اگر کوئی بھائی باپ ہوتا تو کسی الارمنگ پنٹ کی ضرورت رہ جاتی؟
ہماری سماجی اقدار تو وہ ہیں کہ جس میں ایک لڑکی کے کھانے پینے وغیرہ جیسی تمام تر ضروریات کا خیال گھر کا مرد رکھتا ہے، خواہ وہ بھائی کی شکل میں ہو یا باپ کی شکل میں ہو، یوں ایک لڑکی کو تحفظ بھی مل جاتا ہے اور وہ روپے پیسے کمانے کے لیے گھر سے باہر جاکر محنت مشقت کرنے سے بھی بچ جاتی ہے۔ لیکن اب یہ سماجی اقدار دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے معاملات ایک نہیں کئی جانب سے بگڑ رہے ہیں۔
جدید دور کی اچھائیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی ہمارے معاشرے کا حصہ بن رہی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے باعث ہم ہر لمحہ باخبر تو رہتے ہیں مگر یہ ٹیکنالوجی اب بچے بچے کے ہاتھ میں ہے اور اس میں وہ تفریحی مواد ہر وقت موجود ہوتا ہے کہ جو ایک نابالغ بچے کے جذبات بھی بھڑکاتا ہے، چنانچہ اب دس پندرہ سال سے کم عمر بچے بھی اپنے سے چھوٹے بچوں کے ساتھ مجرمانہ فعل کر رہے ہیں۔
ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ میڈیا یہ کام تو نہیں کر ا سکتا کہ لوگ کسی کے بارے میں کیا رائے قائم کریں مگر یہ کام کرانے میں بالکل کامیاب رہتا ہے کہ لوگ کس بارے میں سوچیں، اس تناظر میں بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگ میڈیا سے زیادہ تر کیا دیکھتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں اور میڈیا صبح و شام کیا کچھ پیش کر رہا ہے۔
اسی طرح لڑکیاں تعلیم اور ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکل رہی ہیں اور تنہا سفر کر رہی ہیں، دوسری طرف نکاح کے مواقع پہلے سے بھی کم ہوگئے ہیں، جس کی وجوہات میں اخراجات میں اضافہ، جہیز اور پھر اٹھارہ سال سے قبل شادی نہ کرنے کا قانون بھی شامل ہے، حالانکہ یہ سب اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے منشور کے خلاف ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی گیارہ سال کی عمر میں شادی کرنا کوئی جرم نہیں، حالانکہ وہاں نکاح کے بغیر تعلقات پر پابندی نہیں، جب کہ ہمارے معاشرے میں تو یہ ایک سنگین، ناقابل معافی جرم ہے۔
مشہور فلسفی ژی ژیک کی کہی گئی بات کے تناظر میں ہمیں اپنے مسائل کی جڑ کو دیکھنا ہوگا اور پہلے سوال پر غور کرنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں اخلاق سے عاری اس قسم کے لوگ کیوں پیدا ہورہے ہیں؟ کون اور کون سے معاملات ہمارے معاشرے کے کم عمر افراد کو بھی جنسی تشدد پر اکسا رہے ہیں۔