لیاری کی رونقیں بحال مٹی کے برتن و دیگر اشیا کی دکانیں کھلنے لگیں

مٹی کے برتنوں کی بڑی خریدارہندوبرادری ہے، حالات معمول پرآنے کے بعد خریداروں نے کمہار واڑے کا رخ کرنا شروع کردیا۔

کاروباری سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں، مختلف علاقوں سے لوگ ہڈی اورجوڑوں کی تکالیف کے علاج کیلیے آتے ہیں،محمد اعظم۔ فوٹو: ایکسپریس

شہر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے سے لیاری کے مکینوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے اورلیاری کی رونقیں اب معمول پر آچکی ہیں جس سے یہاں کے ہرمندوں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔

لیاری میں واقع کمہار واڑ(کمہاروں کا محلہ) بھی دہشت گردی کا شکار رہا اورمٹی سے برتن بنانے والے محنت کشوں کے ساتھ ہڈی اور جوڑوں کی تکالیف کا علاج کرنیوالے اعضا بند کمہار بھی کئی سال تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، لیاری میں دہشت گردوں کے راج کی وجہ سے شہر کے دیگر علاقوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والوں نے لیاری آنا چھوڑ دیا تھا جس سے یہاں کے محنت کشوں اور تاجروں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

وفاقی حکومت کے سیاسی عزم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں سے لیاری کے مکین اب امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے ثمرات سے استفادہ کررہے ہیں اورکاروباری سرگرمیاں تیزی سے بحال ہورہی ہیں، لیاری کے قدیم مکینوں میں مٹی سے برتن اور دیگر اشیابنانے والے کمہار بھی شامل ہیں جن کی کاریگری اور مہارت ملک بھر میں مشہور ہے۔

کمہاروں کے محلے میں قائم بیشتر دکانیں بدامنی کے دور میں بندکردی گئی تھیں جو اب دوبارہ کھل گئی ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں سے گاہک مٹی کے برتنوں کی خریداری کے علاوہ ہڈی اور جوڑوں کے علاج کے لیے کمہار واڑے کا رخ کررہے ہیں۔ کمہار واڑے میں دکان کے مالک محمد اعظم نے ایکسپریس کو بتایا کہ لیاری میں بدامنی کا دور ایک بھیانک خواب ہے جس کے بارے میں لیاری کے پرامن مکین سوچنا بھی نہیں چاہتے۔

لیاری کے مکینوں کو5سال تک دہشت گردی کا سامنا رہا جس سے کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیاتھا، انھوںنے بتایا کہ ہندوبرادری مٹی کے برتنوں کی بڑی خریدار ہے جس نے بدامنی کے باعث لیاری آنا ہی بند کردیاتھاتاہم اب حالات معمول پرآچکے ہیں اورکاروبارکاسلسلہ پھرسے شروع ہوگیاہے، اب باہرسے آنے والے خریدار بغیر خوف کے لیاری کرکے خریداری کر کے چلے جاتے ہیں۔

لیاری محنت مشقت کرکے روزی کمانے والوں کی بستی ہے،زلیخا

لیاری کمہار واڑے میں کئی دہائیوں سے مٹی کے برتن بناکر گزر بسر کرنے والی بزرگ خاتون زلیخا کے مطابق لیاری امن پسند اور محنت مشقت کرکے روزی کمانے والوں کی بستی ہے جسے کسی کی نظر لگ گئی اور لیاری کا علاقہ بدامنی کی لپیٹ میں رہا جس کی وجہ سے ان کے خاندان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب حالات معمول پر آنے سے ان کی مشکلات کسی حد تک کم ہوچکی ہیں اوراب یہاں سے گزرنے والے گاہک مٹی کی اشیاخریدرہ ہے ہیں۔

بزرگ خاتون کے مطابق ہندو کمیونٹی مٹی کے برتنوں کی بڑی خریدار ہے۔ ہندوؤں کے ایک تہوار کے لیے مٹی کے چولہے بڑے پیمانے پر فروخت کیے جاتے ہیں جن پر تین روز کی ضرورت کا کھانا تیار کیا جاتا ہے کیونکہ تہوار کے موقع پر ہندوںکے گھروں میں تین دن تک چولہا نہیں جلایا جاتا اس لیے تین روز کا پیشگی کھانا بنانے کے لیے اضافی چولہوں کی طلب مٹی کے چولہوں سے پوری کی جاتی ہے جو کم قیمت ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ مٹی کے تندور بھی تیار کیے جاتے ہیں جو قدرتی گیس سے محروم علاقوں میں لگائے جاتے ہیں، ہندو برادری کی شادی کی رسومات میں مٹکوں کے میناروں سے منڈپ بنایا جاتا ہے یہ مینار بڑے سے چھوٹے نو مٹکوں پر مشتمل ہوتے ہیں ایک لڑکی کی شادی میں کم سے کم 6 اور 2لڑکیوں کی بیک وقت شادی میں 8 مینار بنائے جاتے ہیں ،کمہاروں کے لیے ہندؤں کی شادیاں روزگار کا بڑاذریعہ ہیں ،لیاری کے اردگرد آباد ہندوبرادری لیاری کے ان کمہاروں کو منڈپ کے لیے مٹکوں کے آرڈر دیتے ہیں،اس طرح کمہاروں کی بستی مذہبی رواداری کی بھی مثال بنی ہوئی ہے۔

سندھ ہزاروںسال سے مٹی کے برتن بنانے کامرکز رہا ہے

سندھ میں ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کے آثار سے بھی مٹی کے ظروف برآمد ہوئے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ خطہ مٹی کے برتن بنانے کا مرکز رہا ہے لیکن بدلتے ہوئے تقاضوں کی وجہ سے اس فن کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہورہا ہے، کمہاروں کے بچے یہ فن سیکھنے پر آمادہ نہیں لیکن آرٹ کے طلبا اور امیر گھرانوں کے نوجوان شوقیہ طور پر مٹی سے اشیابنانے کے فن کی جانب مائل ہیں۔

کراچی کے علاقے نیو کراچی میں مٹی کے کارخانوں میں تیار کی جانے والی اشیادبئی اور دیگر خلیجی ملکوں کو ایکسپورٹ بھی کی جاتی ہیں جس سے زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ کمہاروں کے مطابق ان کے بچے دیگر شعبوں کی جانب مائل ہیں تعلیم یافتہ نئی نسل دیگر پیشوں کو اختیار کررہے ہیں دوسری جانب آرٹ اسکولز اور بڑے تعلیمی اداروں کی جانب سے کمہاروں کو مدعو کرکے بچوں کومٹی سے اشیا سازی کی تربیت دلوائی جارہی ہے جس سے کمہاروں کو اضافی آمدن ہوتی ہے۔

کمہاروں کے مطابق اکثر اوقات شہر کے امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی کمہارواڑے کا رخ کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے برتن بنانے کے شوق کی تسکین کرتے ہیں،کمہاروں کے مطابق بچے اور بڑے مٹی کے برتن بنانے کا کام بہت شوق سے کرتے ہیں اور اس فن کو کچھ دنوں میں سیکھا جاسکتا ہے، کراچی میں تیار کیے جانے والے مٹی کے کولر، گملے، مٹکے، آرائشی گلدان وغیرہ ایکسپورٹ بھی کیے جارہے ہیں۔

کمہاروں کے مطابق اس فن کی سرپرستی کی جائے توروزگار کے نئے مواقع مہیا کیے جاسکتے ہیں،کمہاروں کے مطابق مٹی کے برتن قدرتی طور پر مفید طبی اثرات کے حامل ہیں ۔گرمی کے موسم میں بہت سے گھرانے صراحیوں اور مٹکوں کا شیریں اور ٹھنڈا پانی پی کر گزرے زمانوں کی یاد تازہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے کمہاروں کا روزگار بھی لگا ہواہے۔


پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھنے سے مٹی کے برتنوںکی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا

خام مٹی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مٹی کے برتنوں کی قیمت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، کمہاروں نے شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ انھیں ان کی محنت کاثمر نہیں ملتا،مٹی کے برتنوں کے لیے زیادہ تر مٹی نوری آباد اور حب کے علاقے سے لایا جاتا ہے گزشتہ چند سال کے دوران مٹی کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ایک ڈمپر مٹی کی قیمت 3سے 4ہزار روپے تھی جو اب 18ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے، چھوٹی سوزوکی میں مٹی 500روپے میں آتی تھی جو اب 2سے ڈھائی ہزار روپے میں مل رہی ہے اس کے علاوہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے بھی مٹی کے برتنوں کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ مٹی کے علاوہ تیار برتنوں کی ترسیل کے لیے گاڑیوں کے کرایے دگنے ہوگئے ہیں،مٹی کے برتنوں کی تیاری محنت طلب کام ہے، خام مٹی کو 24گھنٹے کے لیے پانی میں بھگویا جاتا ہے اس کے بعد اس گوندھ کر مختلف شکلوں میں ڈھالا جاتا ہے۔

مٹی کے برتن بنانے کے لیے پیروں سے چلنے والا چرخہ استعمال کیا جاتا ہے، نرم مٹی کمہاروں کے ہاتھ میں آتے ہی مختلف اشیاکا روپ ڈھال لیتی ہے جنھیںمضبوط بنانے کیلیے بھٹیوں میں پکایا جاتا ہے تاکہ مٹی میں موجود پانی کو خشک کیاجاسکے، اس کے بعد ان برتنوں کو چار روز کیلیے دھوپ میں سوکھنے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے، مٹی کے گملوں ، صراحیوں اور مٹکوں پر خوبصورت نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں اس کے علاوہ کچھ ماہر کاریگر مٹی کے ان برتنوں پر شیشے کے باریک ٹکڑوں سے بھی سجاوٹ کرتے ہیں۔

ربیع الاوّل اور محرم میں مٹی کے برتنوں کی فروخت بڑھ جاتی ہے

لیاری کے کمہاروں کے مطابق مٹی کے برتنوں کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، ربیع الاوّل اور محرم کے مہینوں میں بڑے پیمانے پر نذرونیاز کی وجہ سے مٹی کے برتنوں کی طلب بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے جو کھیر کی تقسیم کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں،ربیع الاوّل کے مہینے میں بڑے پیمانے پر چراغاں بھی کمہاروں کی آمدن میں اضافہ کا اہم ذریعہ بنتا ہے اور بڑے پیمانے پر مٹی کے چراغ فروخت کیے جاتے ہیں، محرم اور ربیع الاوّل کے سیزن کی تیاری دو ماہ قبل شروع کردی جاتی ہے۔

پودوں کے لیے گملوں کی طلب میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس کے علاوہ گرمی کے موسم کی آمد کے پیش نظر مٹکے، صراحیاں اور مٹی کے جگ گلاس بھی بڑے پیمانے پر تیار کیے جارہے ہیں۔

لیاری کے کمہاروں کے مطابق رہائشی علاقے میں آلودگی اور مکینوں کی مشکلات کے پیش نظر کئی سال قبل لیاری سے مٹی کے برتنوں کے کارخانے نیوکراچی میں منتقل کردیے گئے کیونکہ برتنوں کو پکانے کے لیے بھٹیوں میں کچرا جلایا جاتا ہے جس سے رہائشی علاقوں میں آلودگی پھیلتی ہے،لیاری کے کمہار واڑے میں اب 10 سے 12 دکانیں قائم ہیں جو تھوک قیمت پر مٹی کی اشیا فروخت کررہی ہیں زیادہ بڑے آرڈرنیو کراچی سے پورے کیے جاتے ہیں۔

کمہارمٹی کی خوشبوسونگھ کربارش کی پیش گوئی کرتے ہیں

مٹی اور کمہاروں کا فطری تعلق ہے جبکہ باران رحمت برسنے سے کمہاروں کا کام متاثر ہوتا ہے، تجربہ کار کمہار ہوا میں مٹی کی خوشبو سونگھ کر بارش کی آمد کی پیش گوئی کرسکتے ہیں یہ صفت انھیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے اسی طرح ہڈی اور جوڑوں کی تکالیف ، ٹوٹی ہوئی ہڈیوںکوجوڑنے، زخموں کی پٹی، جوڑ بٹھانے میں بھی کمہاروں کاکوئی ثانی نہیں۔

لیاری کا کمہار واڑہ جوڑ پٹی کا کام کرنے والے کمہاروں کی وجہ سے مشہور ہے گبول پارک اور ہری مسجد کے درمیان کمہاروں کی دو درجن سے زائد دکانیں اور کلینک قائم ہیں، شہر بھر سے ہڈی اور جوڑوں کی تکالیف میں مبتلا افراد لیاری کے کمہاروں سے شفا پا رہے ہیں اور یہ فن بھی سینہ بہ سینہ منتقل ہورہا ہے، جوڑ پٹی کا کام کرنے والے کمہار بھی شہر میں امن کے قیام میں کردار ادا کرنے والی وفاقی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص رینجرز کے مشکور ہیں۔

جوڑ پٹی کا کام کرنے والے کمہاروں کے مطابق ہڈی اور جوڑوں کی تکالیف کا علاج کروانے کے لیے 90فیصد گاہک لیاری کے باہر سے آتے ہیں جنھوںنے بدامنی کی وجہ سے لیاری کا رخ کرنا چھوڑ دیا تھا اور جوڑ پٹی کا کام کرنے والے کمہاروں کا روزگار بھی خطرے میں پڑگیا تھا، بیشتر کمہاروں نے یہ کام عارضی طور پر بند کردیا تھا اور دیگر روزگار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے تھے جبکہ کچھ کمہارشہرکے دیگر علاقوں میں منتقل ہوگئے تھے لیکن اب لیاری کا امن اور کمہاروں کا روزگار بحال ہوگیا ہے شہر بھر سے مریض کمہار واڑے آرہے ہیں اور شفاکا ذریعہ بننے والے کمہاروں کا روزگار بھی چل پڑا ہے۔

کمہاروں کے مطابق لیاری کے کمہار واڑے میں اتری ہوئی ناف بٹھانے، چھوٹے بچوں کی ہنسلی کی ہڈی بٹھانے، اترے ہوئے ہاتھ اور پیروں کے جوڑ بٹھانے کا کام کئی دہائیوں سے انتہائی مہارت سے کیا جارہا ہے، کمہاروں کے ہاتھوں میں خالق کائنات نے شفادی ہے اور مٹی سے بنے ہوئے انسانی جسم کو کمہاروں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔

تجربہ کار کمہاروں کو ایکسرے کی ضرور ت نہیں ہوتی لیکن اب بیشتر کمہار ایکسرے دیکھ کر بھی علاج تجویز کرتے ہیں، ہڈی جوڑ بٹھانے والے کمہاروں کے مطابق بعض اوقات ہمارے پاس ایسے مریض بھی آتے ہیں جو بڑے بڑے آرتھوپیڈک سرجنوں سے مطمئن نہیں ہوتے اور کمہاروں کے چند روز کے علاج سے بھلے چنگے ہو جاتے ہیں اسی طرح اسپتالوں کے بھاری اخراجات اور ڈاکٹروں کی فیسوں سے پریشانی غریب طبقہ بھی کمہار واڑے سے علاج کرواتا ہے۔

 
Load Next Story