مفاداتی یا اصولی سیاست
مفاداتی سیاست میں بلاشبہ آصف زرداری سرفہرست ہیں جن کی سیاسی ترجیحات تبدیل ہوتی رہی ہیں
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی میں پیپلز پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ پی پی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ میں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ میں جب چاہوں گا مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوجائے گی اور سب نے دیکھ لیا کہ بلوچستان سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔
آصف زرداری کی اس خفیہ سیاست کا شکریہ ادا کرنے بلوچستان کے (ق) لیگ سے تعلق رکھنے والے نئے وزیر اعلیٰ کراچی میں بلاول ہاؤس آئے جہاں آصف زرداری نے ان کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا جس کے بعد ایک اصول پرست سیاستدان ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی اصولی سیاست پر حرف آیا ہے کہ انھیں ملک میں ہونے والی مفاداتی سیاست کا علم نہیں یا ان کی اصولی سیاست پیپلز پارٹی کے لیے نہیں بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے ہی وقف ہے ۔ ملک کی تین بڑی قومی جماعتوں کی قیادت کی مفاداتی سیاست پر توکسی کو شبہ نہیں کہ تینوں کی سیاست اپنی اور اپنی پارٹیوں کے سیاسی مفاد کے لیے ہوتی ہے اور تینوں کی سیاست کا اصل مقصد ملک و قوم کی خدمت نہیں بلکہ حصول اقتدار ہے جس کی وجہ سے تینوں اپنے موقف تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ تینوں بڑی پارٹیوں کے یہ سربراہ ہی نہیں باقی پارٹیوں کا بھی یہی حال ہے جن میں مذہبی سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں۔
سیاست تو جھوٹ کا دوسرا نام ہے ہی مگر مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے بھی اصولی سیاست سے بہت دور جا چکے ہیں اور ان کی سیاست بھی اصولوں نہیں بلکہ مفادات کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ سیاست کے ساتھ مذہب کے نام پر سیاسی مفادات حاصل کرنے میں مصروف ہیں اور جو صرف سیاسی رہنما ہیں وہ قرآن پاک کی مقدس تلاوت سے اپنی سیاسی تقریر شروع نہیں کرتے اس لیے گناہ سے محفوظ ہیں اور جو مذہبی رہنما قرآنی آیات سے اپنی سیاسی تقریر شروع کرتے ہیں ان کے افعال میں تضاد صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست چمکا رہے ہیں ۔ ان کی مذہبی سیاست بھی مفاداتی سیاست کے گرد گھومتی ہے اور وہ حصول مفاد کی ہی سیاست کرتے ہیں کیونکہ ایسی سیاست ہی ان کی مجبوری بن چکی ہے۔
آج کل آصف زرداری جو سیاست کررہے ہیں اس پر ان کے مخالف حیران اور ان کے حامی بہت خوش ہیں کہ آصف زرداری دعویٰ کرچکے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پورے ملک خصوصاً پنجاب سے بھی کامیابی حاصل کرکے وفاق سمیت چاروں صوبوں میں حکومت بنائے گی اور میں ملک بھر سے پیپلز پارٹی کو کامیابی دلاؤں گا۔ زرداری صاحب کے دعوؤں کے پیچھے کچھ ضرور ہے ویسے تو علامہ خادم رضوی بھی خواب دیکھ رہے ہیں کہ 2018 میں ملک میں تحریک لبیک کی حکومت ہوگی۔
مفاداتی سیاست میں بلاشبہ آصف زرداری سرفہرست ہیں جن کی سیاسی ترجیحات تبدیل ہوتی رہی ہیں اور وہ وقت اور موقعے کے لحاظ سے سیاست کرتے آرہے ہیں۔ انھوں نے 2008ء میں اپنی حکومت بنانے کے لیے نواز شریف سے سیاسی اتحاد کرکے انھیں اپنا بڑا بھائی بنایا تھا اور آیندہ نسلوں تک یہ تعلقات برقرار رکھنے کی باتیں کرنے والے آصف زرداری اب ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات کے موقعے پر مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے ساتھ ملایا تو وہ متحدہ سے تنگ آچکے تھے اس لیے چوہدری پرویز الٰہی کو غیر آئینی طور پر ڈپٹی وزیر اعظم بنا لیا تھا تو پیپلز پارٹی میں صرف جہانگیر بدر نے اعتراض کیا تھا مگر پیپلز پارٹی میں اصولی سیاست کے دعوے کرنے کیدوسرے بڑے ایک اور دعویدار نے بھی ٹسوے ضرور بہائے تھے اور باقی سب نے خاموشی اختیار کیے رکھی ۔
ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے کسی رہنما تک کو اعتراض کی ہمت نہیں ہوئی تھی کیونکہ پیپلز پارٹی حکومت نے اپنی مدت پوری کرنا تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی 1999 میں برطرفی پر نواز شریف کی کار کاندھوں پر اٹھوانے والے سیاسی رہنماؤں نے بھی نواز شریف سے آنکھیں پھیر لی تھیں جس پر میاں صاحب نے ایسے (ن) لیگیوں سے کنارہ کشی کا اعلان کیا تھا مگر بعد میںاپنے مخالف جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں کو نہ صرف (ن) لیگ میں قبول کیا بلکہ انھیں وزیر بھی بنا لیا تھا اور ان کے سیاسی اصول دھرے رہ گئے تھے ۔
عمران خان نے بھی یوٹرن لینے کے نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں اور پیپلز پارٹی حکومت میں کرپشن کے الزامات سہنے والے پی پی رہنما اب تحریک انصاف میں شامل ہوکر پاک صاف ہوچکے ہیں۔ میاں رضا ربانی نے چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے کچھ اچھے کام ضرور کیے مگر کہا جاتا ہے کہ وہ غیر جانبدار نہیں رہ سکے اور پی پی کے وفادار رہے۔ اصولوں پر وزارت چھوڑنے والوں کوکبھی پیپلز پارٹی حکومت میں کرپشن نظر آئی نہ کبھی وہ آصف زرداری کی دہری سیاست پر معترض ہوئے اور اب وہ اس حقیقت کی تردید کر رہے ہیں جس کی تصدیق خود زرداری کرچکے ہیں۔
عوام حیران ہیں کہ کبھی ملک کی سیاست میں اصولوں کا بھی بول بالا ہوگا کہ نہیں یا اصولوں کے نام پر منفی سیاست جاری رہے گی اور اپنی پارٹی کے سربراہوں کی غیر اصولی سیاست سے نالاں موجودہ رہنما کبھی حق کی بات کریں گے یا نہیں یا مفاداتی سیاست کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟
آصف زرداری کی اس خفیہ سیاست کا شکریہ ادا کرنے بلوچستان کے (ق) لیگ سے تعلق رکھنے والے نئے وزیر اعلیٰ کراچی میں بلاول ہاؤس آئے جہاں آصف زرداری نے ان کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا جس کے بعد ایک اصول پرست سیاستدان ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی اصولی سیاست پر حرف آیا ہے کہ انھیں ملک میں ہونے والی مفاداتی سیاست کا علم نہیں یا ان کی اصولی سیاست پیپلز پارٹی کے لیے نہیں بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے ہی وقف ہے ۔ ملک کی تین بڑی قومی جماعتوں کی قیادت کی مفاداتی سیاست پر توکسی کو شبہ نہیں کہ تینوں کی سیاست اپنی اور اپنی پارٹیوں کے سیاسی مفاد کے لیے ہوتی ہے اور تینوں کی سیاست کا اصل مقصد ملک و قوم کی خدمت نہیں بلکہ حصول اقتدار ہے جس کی وجہ سے تینوں اپنے موقف تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ تینوں بڑی پارٹیوں کے یہ سربراہ ہی نہیں باقی پارٹیوں کا بھی یہی حال ہے جن میں مذہبی سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں۔
سیاست تو جھوٹ کا دوسرا نام ہے ہی مگر مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے بھی اصولی سیاست سے بہت دور جا چکے ہیں اور ان کی سیاست بھی اصولوں نہیں بلکہ مفادات کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ سیاست کے ساتھ مذہب کے نام پر سیاسی مفادات حاصل کرنے میں مصروف ہیں اور جو صرف سیاسی رہنما ہیں وہ قرآن پاک کی مقدس تلاوت سے اپنی سیاسی تقریر شروع نہیں کرتے اس لیے گناہ سے محفوظ ہیں اور جو مذہبی رہنما قرآنی آیات سے اپنی سیاسی تقریر شروع کرتے ہیں ان کے افعال میں تضاد صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست چمکا رہے ہیں ۔ ان کی مذہبی سیاست بھی مفاداتی سیاست کے گرد گھومتی ہے اور وہ حصول مفاد کی ہی سیاست کرتے ہیں کیونکہ ایسی سیاست ہی ان کی مجبوری بن چکی ہے۔
آج کل آصف زرداری جو سیاست کررہے ہیں اس پر ان کے مخالف حیران اور ان کے حامی بہت خوش ہیں کہ آصف زرداری دعویٰ کرچکے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پورے ملک خصوصاً پنجاب سے بھی کامیابی حاصل کرکے وفاق سمیت چاروں صوبوں میں حکومت بنائے گی اور میں ملک بھر سے پیپلز پارٹی کو کامیابی دلاؤں گا۔ زرداری صاحب کے دعوؤں کے پیچھے کچھ ضرور ہے ویسے تو علامہ خادم رضوی بھی خواب دیکھ رہے ہیں کہ 2018 میں ملک میں تحریک لبیک کی حکومت ہوگی۔
مفاداتی سیاست میں بلاشبہ آصف زرداری سرفہرست ہیں جن کی سیاسی ترجیحات تبدیل ہوتی رہی ہیں اور وہ وقت اور موقعے کے لحاظ سے سیاست کرتے آرہے ہیں۔ انھوں نے 2008ء میں اپنی حکومت بنانے کے لیے نواز شریف سے سیاسی اتحاد کرکے انھیں اپنا بڑا بھائی بنایا تھا اور آیندہ نسلوں تک یہ تعلقات برقرار رکھنے کی باتیں کرنے والے آصف زرداری اب ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات کے موقعے پر مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے ساتھ ملایا تو وہ متحدہ سے تنگ آچکے تھے اس لیے چوہدری پرویز الٰہی کو غیر آئینی طور پر ڈپٹی وزیر اعظم بنا لیا تھا تو پیپلز پارٹی میں صرف جہانگیر بدر نے اعتراض کیا تھا مگر پیپلز پارٹی میں اصولی سیاست کے دعوے کرنے کیدوسرے بڑے ایک اور دعویدار نے بھی ٹسوے ضرور بہائے تھے اور باقی سب نے خاموشی اختیار کیے رکھی ۔
ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے کسی رہنما تک کو اعتراض کی ہمت نہیں ہوئی تھی کیونکہ پیپلز پارٹی حکومت نے اپنی مدت پوری کرنا تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی 1999 میں برطرفی پر نواز شریف کی کار کاندھوں پر اٹھوانے والے سیاسی رہنماؤں نے بھی نواز شریف سے آنکھیں پھیر لی تھیں جس پر میاں صاحب نے ایسے (ن) لیگیوں سے کنارہ کشی کا اعلان کیا تھا مگر بعد میںاپنے مخالف جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں کو نہ صرف (ن) لیگ میں قبول کیا بلکہ انھیں وزیر بھی بنا لیا تھا اور ان کے سیاسی اصول دھرے رہ گئے تھے ۔
عمران خان نے بھی یوٹرن لینے کے نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں اور پیپلز پارٹی حکومت میں کرپشن کے الزامات سہنے والے پی پی رہنما اب تحریک انصاف میں شامل ہوکر پاک صاف ہوچکے ہیں۔ میاں رضا ربانی نے چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے کچھ اچھے کام ضرور کیے مگر کہا جاتا ہے کہ وہ غیر جانبدار نہیں رہ سکے اور پی پی کے وفادار رہے۔ اصولوں پر وزارت چھوڑنے والوں کوکبھی پیپلز پارٹی حکومت میں کرپشن نظر آئی نہ کبھی وہ آصف زرداری کی دہری سیاست پر معترض ہوئے اور اب وہ اس حقیقت کی تردید کر رہے ہیں جس کی تصدیق خود زرداری کرچکے ہیں۔
عوام حیران ہیں کہ کبھی ملک کی سیاست میں اصولوں کا بھی بول بالا ہوگا کہ نہیں یا اصولوں کے نام پر منفی سیاست جاری رہے گی اور اپنی پارٹی کے سربراہوں کی غیر اصولی سیاست سے نالاں موجودہ رہنما کبھی حق کی بات کریں گے یا نہیں یا مفاداتی سیاست کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟