بڑھاپا ۔ برا آپہ
جب بچے آپ کو نانا، دادا کہہ کر اور حسین لڑکیاں ’’انکل ‘‘ کہہ کر پکارنے لگیں تو آپ تردد سے کام نہ لیں
مشہورکہاوت ہے ''بڑھاپا ۔ برا آپہ '' بڑھاپا یا بزرگی عمرکے آخری اور الوداعی حصہ کا نام ہے اور اس عمر میں وہ شخص خوش نصیب ہے جو اپنی عائلی اور خاندانی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہو چکا ہو۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابقہ حکمران جنرل ضیاالحق نے ملک کو جدید ٹیکنالوجی اور مضبوط اور مثالی معیشت متعارف کروانے کی بجائے زندہ دلان قوم کو محکوم رعایا بنا کر جو گھناؤنا کاروبار اسلام کی آڑ میں رچایا اس کے ثمرات ہماری قوم (سابقہ) آ ج تک بھگت رہی ہے۔
افسوس ! یہ سب کچھ امریکا بہادرکی خوشنودی اور اپنے مد مقابل سپر طاقت سوویت یونین کے خاتمے کے لیے پوری قوم کو مجاہد بننے کا جو خواب متعارف کرایا ، اس خواب سے آج تک بیدار نہ ہوسکے۔کلاشنکوف اور ہیروئین کی لت میں ڈال کر اپنے اقتدارکو دوام بخشا۔اسی دور سے ہمیں جوانی میں ہی بزرگ بننے کی تربیت بھی نصیب ہوئی تاکہ ہم اسلامی مجاہدانہ حلیہ میں ہر جائزوناجائز کام کی ادائیگی باآسانی کرسکیںاور عزت دار بھی کہلائیں۔ یہ ایک دائمی حقیقت ہے کہ بڑھاپا کسی سے پوچھ کر نہیں آتا اور نہ ہی یہ موذی مرض زبردستی دھکے دینے سے جاتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ مشرق میں مرض... مغرب میں زندگی سے لطف اندوز ہونے کا درست اور مناسب وقت سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر رفتہ میں دانت جانے لگتے ہیں ۔
دانائی کے رموز میں بے پناہ اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اولاد اور جسمانی اعضا جواب دینے لگتے ہیں ۔ بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہونے لگتا ہے۔ خوراک اور صحت آدھی رہ جاتی ہے۔ نظر اور بال بھی کم ہونے لگتے ہیں۔ بڑھاپے کی وفاداری تو دیکھیے یہ آتا ہے تو مرتے دم تک ساتھ دیتا ہے۔ پر لطف لمحہ اس وقت آ تا ہے جب حسین لڑکیا ں ''انکل '' کہہ کر پکارنے لگتی ہیں۔ ہاتھوں میں رعشہ یا چھڑی آجاتی ہے۔ شوگر کا حساب پل پل میں رکھنا پڑتا ہے۔ کسی پر میٹھی نظر ڈالنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ چہرے پر چشمہ اور جھریاں جگہ پانے لگتی ہیں۔ بال اچانک کالے سے گورے ہونے لگتے ہیں۔ گھٹنوں اور دل میں درد رہنے لگتا ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی زندگی میں دو چیزوں کوقدرے مشکل ہی سے قبول کرنے پر راضی ہوتا ہے۔ ایک اپنا جرم اور دوسرے اپنا بڑھاپا۔
ہمارا بچپن دوسروں کی دلجوئی اور خوشی کے لیے ہوتا ہے۔ جوانی صرف اپنے لیے ہوتی ہے۔ بڑھاپا ڈاکٹروں کے لیے۔ جب بار بار اللہ ، ڈاکٹر اور بیوی یاد آنے لگے تو سمجھ لیں آپ بوڑھے ہوگئے ہیں ۔ بڑھاپے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ بے ضرر ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
جب بچے آپ کو نانا، دادا کہہ کر اور حسین لڑکیاں ''انکل '' کہہ کر پکارنے لگیں تو آپ تردد سے کام نہ لیں۔ تنہائی پاتے ہی غم بھلانے کے لیے سیٹی بجائیں ،کیونکہ آپ سیٹی ہی کے قابل رہ گئے ہیں۔ بڑھاپے میں اگر آپ کی اولاد آپ کی خدمت کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان کی تربیت ، اپنی زندگی کا بیمہ اور منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد پر پورا دھیان دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ''مر د کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ''۔ بوڑھا ہونا الگ چیز ہے۔ بوڑھا دکھائی دینا الگ۔ ہر بوڑھے میں ایک بچہ اور جوان چھپا ہو تا ہے۔بوڑھا دکھائی دینا الگ۔ ہر بوڑھے میں ایک بچہ اور جوان چھپا ہوتا ہے۔ بوڑھا ہونا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔
دنیا نہ چل پاتی اگر بوڑھے ہونے کا رواج نہ ہوتا۔ بوڑھے ہونے کے بہت سے فائدے ہیں اور بہت سارے نقصانات بھی ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بوڑھے کو دیکھ کر سب اپنی نشست چھوڑ دیتے ہیں۔ سوائے سیاست دان کے۔ اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہیں۔ بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کا دھندہ بالکل نہ ہوتا۔ بوڑھوں کو بندی اور خاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مگر نیت اور نظرپھر بھی خراب رہتی ہے۔ عورتیں بوڑھی تو ہوتی ہیں مگر ان کی عمر اکثر جوانی والی ہی رہتی ہے۔ مغربی عورت اپنی عمر چھپاتی ہے نہ جسم ۔ پاکستان میں جو عورت اپنی عمر 35 سال بتاتی ہے وہ پچاس سال کی دکھائی دیتی ہے۔ کینیڈا میں جو پچپن سال بتاتی ہیں وہ دیکھنے میں 35 سال کی لگتی ہیں۔ پاکستانی اپنی آمدنی چھپانے میں اور چینی عمر چھپانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایک تحقیق کے مطابق آج کی دنیا میں پانچ سال کی عمر کے بچے کم، ساٹھ سال سے زائد عمر کے بوڑھوں کی تعداد ایک ارب ہوجائے گی۔ ان میں اسی فیصد ترقی یافتہ ممالک میں ہوں گے۔ اس لحاظ سے ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم اس وقت بوڑھے ہونگے جب بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ کثرت کی عادت کی وجہ سے کینیڈا میں بزرگوں کی کثرت ہوگئی ہے۔
دنیا میں سب سے آسان کام نانا، نانی یا دادا، دادی بننا ہے۔ اس میں آپ کوکوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو زندگی میں دو بار رشتوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے۔ بیوی کے آنے کے بعد یا پھر بڑھاپا آنے کے بعد۔ ہر بچے کے اندر ایک بوڑھا چھپا ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ عمر لمبی پائے۔ کیا باکمال دور ہے یہ آغاز بڑھاپا بھی۔ بچپن میں ہم اسکول کے ٹیسٹ دیا کرتے تھے یا ٹی وی پر کرکٹ کے ٹیسٹ میچز دیکھا کرتے تھے۔ اب ڈاکٹر ہمارے لیے ٹیسٹ لکھ رہا ہے۔ ہر عمر رسیدہ احباب کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ دنیاسے انجوائے کرو قبل اس کے کہ دنیا تم سے انجوائے کرنے لگے۔
طنز و مزاح بلاشبہ ادب کا ایک مشکل ترین شعبہ ہے بالخصوص طنزومزاح کی شاعری ۔ یوں تو برصغیر پاک و ہند کی زرخیز مٹی نے بڑے بڑے نامور طنز و مزاح کے شعرا کی ایک کثیر فصل پیدا کی ہے وہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے علمی اور ادبی شہر ــــــلکھنو کے معروف اور سخن طنز و مزاح کے بے تاج بادشاہ جناب ''ساغر خیامی'' بڑھاپے کے بارے میں کچھ اس انداز سے رقم طراز ہیں۔
اس بڑھاپے میں کہاں کوہ کنی ہوتی ہے
جی الجھتا ہے اگر زلف گھنی ہوتی ہے
دانت منہ میں ہیں نہ پیٹ میں آنتیں ساغر
بیٹھ جاتا ہوں جہاں پر قبر بنی ہوتی ہے
افسوس ! یہ سب کچھ امریکا بہادرکی خوشنودی اور اپنے مد مقابل سپر طاقت سوویت یونین کے خاتمے کے لیے پوری قوم کو مجاہد بننے کا جو خواب متعارف کرایا ، اس خواب سے آج تک بیدار نہ ہوسکے۔کلاشنکوف اور ہیروئین کی لت میں ڈال کر اپنے اقتدارکو دوام بخشا۔اسی دور سے ہمیں جوانی میں ہی بزرگ بننے کی تربیت بھی نصیب ہوئی تاکہ ہم اسلامی مجاہدانہ حلیہ میں ہر جائزوناجائز کام کی ادائیگی باآسانی کرسکیںاور عزت دار بھی کہلائیں۔ یہ ایک دائمی حقیقت ہے کہ بڑھاپا کسی سے پوچھ کر نہیں آتا اور نہ ہی یہ موذی مرض زبردستی دھکے دینے سے جاتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ مشرق میں مرض... مغرب میں زندگی سے لطف اندوز ہونے کا درست اور مناسب وقت سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر رفتہ میں دانت جانے لگتے ہیں ۔
دانائی کے رموز میں بے پناہ اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اولاد اور جسمانی اعضا جواب دینے لگتے ہیں ۔ بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہونے لگتا ہے۔ خوراک اور صحت آدھی رہ جاتی ہے۔ نظر اور بال بھی کم ہونے لگتے ہیں۔ بڑھاپے کی وفاداری تو دیکھیے یہ آتا ہے تو مرتے دم تک ساتھ دیتا ہے۔ پر لطف لمحہ اس وقت آ تا ہے جب حسین لڑکیا ں ''انکل '' کہہ کر پکارنے لگتی ہیں۔ ہاتھوں میں رعشہ یا چھڑی آجاتی ہے۔ شوگر کا حساب پل پل میں رکھنا پڑتا ہے۔ کسی پر میٹھی نظر ڈالنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ چہرے پر چشمہ اور جھریاں جگہ پانے لگتی ہیں۔ بال اچانک کالے سے گورے ہونے لگتے ہیں۔ گھٹنوں اور دل میں درد رہنے لگتا ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی زندگی میں دو چیزوں کوقدرے مشکل ہی سے قبول کرنے پر راضی ہوتا ہے۔ ایک اپنا جرم اور دوسرے اپنا بڑھاپا۔
ہمارا بچپن دوسروں کی دلجوئی اور خوشی کے لیے ہوتا ہے۔ جوانی صرف اپنے لیے ہوتی ہے۔ بڑھاپا ڈاکٹروں کے لیے۔ جب بار بار اللہ ، ڈاکٹر اور بیوی یاد آنے لگے تو سمجھ لیں آپ بوڑھے ہوگئے ہیں ۔ بڑھاپے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ بے ضرر ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
جب بچے آپ کو نانا، دادا کہہ کر اور حسین لڑکیاں ''انکل '' کہہ کر پکارنے لگیں تو آپ تردد سے کام نہ لیں۔ تنہائی پاتے ہی غم بھلانے کے لیے سیٹی بجائیں ،کیونکہ آپ سیٹی ہی کے قابل رہ گئے ہیں۔ بڑھاپے میں اگر آپ کی اولاد آپ کی خدمت کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان کی تربیت ، اپنی زندگی کا بیمہ اور منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد پر پورا دھیان دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ''مر د کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ''۔ بوڑھا ہونا الگ چیز ہے۔ بوڑھا دکھائی دینا الگ۔ ہر بوڑھے میں ایک بچہ اور جوان چھپا ہو تا ہے۔بوڑھا دکھائی دینا الگ۔ ہر بوڑھے میں ایک بچہ اور جوان چھپا ہوتا ہے۔ بوڑھا ہونا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔
دنیا نہ چل پاتی اگر بوڑھے ہونے کا رواج نہ ہوتا۔ بوڑھے ہونے کے بہت سے فائدے ہیں اور بہت سارے نقصانات بھی ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بوڑھے کو دیکھ کر سب اپنی نشست چھوڑ دیتے ہیں۔ سوائے سیاست دان کے۔ اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہیں۔ بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کا دھندہ بالکل نہ ہوتا۔ بوڑھوں کو بندی اور خاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مگر نیت اور نظرپھر بھی خراب رہتی ہے۔ عورتیں بوڑھی تو ہوتی ہیں مگر ان کی عمر اکثر جوانی والی ہی رہتی ہے۔ مغربی عورت اپنی عمر چھپاتی ہے نہ جسم ۔ پاکستان میں جو عورت اپنی عمر 35 سال بتاتی ہے وہ پچاس سال کی دکھائی دیتی ہے۔ کینیڈا میں جو پچپن سال بتاتی ہیں وہ دیکھنے میں 35 سال کی لگتی ہیں۔ پاکستانی اپنی آمدنی چھپانے میں اور چینی عمر چھپانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایک تحقیق کے مطابق آج کی دنیا میں پانچ سال کی عمر کے بچے کم، ساٹھ سال سے زائد عمر کے بوڑھوں کی تعداد ایک ارب ہوجائے گی۔ ان میں اسی فیصد ترقی یافتہ ممالک میں ہوں گے۔ اس لحاظ سے ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم اس وقت بوڑھے ہونگے جب بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ کثرت کی عادت کی وجہ سے کینیڈا میں بزرگوں کی کثرت ہوگئی ہے۔
دنیا میں سب سے آسان کام نانا، نانی یا دادا، دادی بننا ہے۔ اس میں آپ کوکوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو زندگی میں دو بار رشتوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے۔ بیوی کے آنے کے بعد یا پھر بڑھاپا آنے کے بعد۔ ہر بچے کے اندر ایک بوڑھا چھپا ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ عمر لمبی پائے۔ کیا باکمال دور ہے یہ آغاز بڑھاپا بھی۔ بچپن میں ہم اسکول کے ٹیسٹ دیا کرتے تھے یا ٹی وی پر کرکٹ کے ٹیسٹ میچز دیکھا کرتے تھے۔ اب ڈاکٹر ہمارے لیے ٹیسٹ لکھ رہا ہے۔ ہر عمر رسیدہ احباب کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ دنیاسے انجوائے کرو قبل اس کے کہ دنیا تم سے انجوائے کرنے لگے۔
طنز و مزاح بلاشبہ ادب کا ایک مشکل ترین شعبہ ہے بالخصوص طنزومزاح کی شاعری ۔ یوں تو برصغیر پاک و ہند کی زرخیز مٹی نے بڑے بڑے نامور طنز و مزاح کے شعرا کی ایک کثیر فصل پیدا کی ہے وہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے علمی اور ادبی شہر ــــــلکھنو کے معروف اور سخن طنز و مزاح کے بے تاج بادشاہ جناب ''ساغر خیامی'' بڑھاپے کے بارے میں کچھ اس انداز سے رقم طراز ہیں۔
اس بڑھاپے میں کہاں کوہ کنی ہوتی ہے
جی الجھتا ہے اگر زلف گھنی ہوتی ہے
دانت منہ میں ہیں نہ پیٹ میں آنتیں ساغر
بیٹھ جاتا ہوں جہاں پر قبر بنی ہوتی ہے